بلدیاتی انتخابات کے لیے عدالتی مہلت

الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے لیے سریم کورٹ سے4 ماہ کی مہلت لے لی اس سے قبل الیکشن کمیشن نے موجودہ صورتحال...


Editorial November 11, 2013
صوبائی حکومتیں سپریم کورٹ کی مقرر کردہ تاریخ کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے پر قطعی رضا مند نہیں تھیں۔ فوٹو فائل

الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے لیے سریم کورٹ سے4 ماہ کی مہلت لے لی اس سے قبل الیکشن کمیشن نے موجودہ صورتحال میں ملک بھرمیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو تقریباً ناممکن قراردیا تھا، یوں گومگو کی کیفیت سے دوچار سیاسی جماعتوں نے کسی بہانہ سے سکون کا سانس لے ہی لیا جب کہ حقیقت خود چیف جسٹس صاحب نے پیر کو واضح کی کہ بلدیاتی الیکشن 8 سال سے نہیں ہوئے جو آئین کے مفاد میں ہیں اور حکومتوں نے تاریخیں تو خود دی تھیں۔

بہر طور اب یہی آئینی راستہ ہے کہ چارون صوبائی حکومتیں یکسوئی کے ساتھ انتخابات کی تیاریاں کریں ۔ قائم مقام چیف الیکشن کمشنرجسٹس تصدق حسین جیلانی کی زیرصدارت الیکشن کمیشن کااجلاس میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کاجائزہ لیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے نئے قانون میں سقم ہے، جب کہ پنجاب اورسندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی کی وصولی جب کہ بلوچستان میں کاغذات نامزدگی کی چھان بین شروع ہوگئی ہے۔

حیرت ہے کہ صوبوں کے بلدیاتی قوانین الیکشن کمیشن کی جانب سے یکساں قانون سازی کی درخواستوں کے باوجود یکسرمختلف ثابت ہوئے جب کہ تین صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کا شیڈول جاری کرنے کے بعد بھی الیکشن کمیشن کمیشن کے حکام ان قوانین کو سمجھ نہ سکے۔ الیکشن کمیشن حکام کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کس طرح شروع کی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دان جمہوری عمل کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے منسلک کرتے ہوئے اس بات کا یقین کرلیں کہ آئین اور ملکی سیاسی و سماجی نظام بلدیاتی الیکشن کے پایہ تکمیل تک پہنچنے سے ایک قدم آگے جائے گا ، جمہوریت کی بنیاد مزید مستحکم ہوگی ۔

اس وقت 3 صوبوں کی جانب سے 3 متضاد بلدیاتی نظام وضع کیے گئے ہیں جب کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے پہلے ہی واضح کیا جاچکا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک نیا بلدیاتی قانون دے گی۔امید ہے کہ حاصل شدہ عدالتی مہلت بلدیاتی الیکشن کی طرف ایک مثبت اور بروقت پیش قدمی ثابت ہوگی۔اب کسی لیت ولعل کی گنجائش نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں