بھورو بھیل اور چونکا دینی والی یادیں

یہ کوئی پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے، ہمارے ایک لنگوٹیا یار عثمان بلوچ نے کہاتھا کہ کل حیدرآباد میں ایک ریلی ہے...


Zaheer Akhter Bedari November 11, 2013
[email protected]

یہ کوئی پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے، ہمارے ایک لنگوٹیا یار عثمان بلوچ نے کہاتھا کہ کل حیدرآباد میں ایک ریلی ہے جو منو بھیل کی قیادت میں ایک ہفتے کا پیدل سفر کرکے حیدرآباد پہنچ رہی ہے، آپ بھی چلیں۔ منو بھیل ایک عرصے سے خبروں میں تھا، ہمیں معلوم تھا کہ منو بھیل کے خاندان کو ایک وڈیرے نے اپنی نجی جیل میں قید کررکھاہے اور میڈیا کے سخت شور شرابے کے باوجود رہا کرنے پر تیار نہیں، ہم خود بھی اس مسئلے پر کالم لکھ چکے تھے، سو ہم حیدرآباد گئے، منو بھیل کی یہ ریلی سردیوں کی لمبی رات کی طرح بہت لمبی تھی، جس میں سیکڑوں مرد و خواتین، بچے شامل تھے۔ یہ مظلوم سیکڑوں میل پیدل چل کر آرہے تھے۔ بے حد تھکے نظر آرہے تھے۔

حیدرآباد کے نوجوانوں نے جگہ جگہ ان کے لیے سبیلیں لگوائی تھیں۔ یہ تھکے ماندے لوگ ان سبیلوں سے پانی پی کر سبیلیں لگانے والوں کو دعائیں دے رہے تھے، ہم بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اس ریلی میں پریس کلب حیدرآباد تک پیدل گئے جہاں ایک احتجاجی جلسہ اور دھرنا دیاگیا۔ اس جلسے سے خطاب کرنے والوں میں منو بھیل کے ساتھ ہم بھی شامل تھے۔ مقررین نے منو بھیل کے برسوں یرغمال خاندان کی رہائی کا مطالبہ کیا، ہم نے وڈیرہ شاہی نظام کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور حاضرین کو بتایاکہ جب تک جاگیر دارانہ نظام موجود ہے منو بھیل کے خاندان وڈیروں کی جیلوں میں قید ہوتے رہیں گے، اگر منو بھیلوں کے خاندانوں کو وڈیروں کی جیلوں سے نجات دلانا ہے تو پھر ہمیں جاگیردارانہ نظام سے نجات حاصل کرنا ہوگا۔

اقلیتوں پر ہونے والے اس مظالم کا سلسلہ رینٹل کماری سندھ سے ہندوخاندانوں کی بڑے پیمانے پر ہندوستان ہجرت سے ہوتا ہوا بدین کے ایک قبرستان تک پہنچا ہے جس میں ایک بھیل بھورو کو غلطی یا مجبوری کی وجہ سے دفن کیا گیا تھا۔ جب اس علاقے کے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ ایک ہندو وہ بھی نچلی ذات کے ہندو کی لاش کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا ہے تو انھوں نے بھورو بھیل کی لاش کو قبر سے نکال کر اسے قبرستان سے باہر پھینک دیا۔ اس کارنامے کا چرچا میڈیا میں ہوا لیکن مسئلہ چونکہ حساس تھا لہٰذا اسے بھی جلد دفنادیاگیا۔کراچی میں سول سوسائٹی نے اس پر احتجاج ریکارڈ کروایا، اﷲ اﷲ خیر صلا۔ معاملہ تاریخ کی دھول میں گم ہوگیا۔

بھورو بھیل ہندوہے لیکن ہندو سماج میں ذات پات کا جو نظام صدیوں سے رائج ہے، اس نظام میں نچلی ذات کے ہندوؤںکو انسان نہیں سمجھا جاتا انھیں نہ مندروں میں جانے کی اجازت ہوتی ہے نہ یہ گنگا جل میں اشنان کرکے اپنے گناہ دھونے کا حق رکھتے ہیں۔

ہندوستان میں اسلام پھیلنے کی بڑی وجہ اسلامی مساوات تھی جو رنگ، نسل ذات پات سے برتر کہلاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مذہب اسلام کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ صوفیوں کا سیکولر کردار تھا، صوفیاء بلا تخصیص، مذہب وملت ہر انسان سے محبت کرتے تھے اور انھیں محبت کا درس دیتے تھے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذات پات کے نظام سے تنگ آتے ہوئے نچلی ذات کے ہندو تیزی سے مسلمان ہوتے گئے، یوں ہندوستان میں اسلام اپنی مساوات کی تھیوری کی وجہ سے مقبول ہوتا گیا۔

منوبھیل پر ہونے والا ظلم ہمارے وڈیرہ شاہی نظام کا کارنامہ ہے تو بھورو بھیل کی لاش کی بے حرمتی ہماری شدت پسندی کا کارنامہ ہے۔ ہندوستان میں ذات پات کا نظام اگرچہ کہ دم توڑ رہا ہے لیکن ہندوستان پاکستان سمیت پسماندہ ملکوں میں جو اقتصادی نظام رائج ہے وہ رنگ، نسل، ذات پات، دین اور دھرم کے امتیاز کے بغیر ہر غریب کو روند رہا ہے، برصغیر میں جو چالیس فیصد سے زیادہ انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزاررہے ہیں ان میں منو بھیل اور بھورو بھیل شامل ہیں۔ بھوروبھیل کی لاش کو جلانے کے لیے اس کا خاندان لکڑی خریدنے سے قاصر تھا اس لیے اس نے بھورو بھیل کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردیا۔ ہمارے ایک وزیر باتھ بیر نے انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہندوؤں کو قبرستان کے لیے جگہ الاٹ کرے تاکہ وہ غریب ہندو جو اپنی لاشوں کو جلانے کے لیے لکڑی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ اپنی لاشوں کو قبروں میں دفن کرسکیں۔

جب ہم ہندوستان گئے تو اپنی جنم بھومی حیدرآباد دکن جانے کا اتفاق ہوا، حیدرآباد کے سب سے بڑے اخبار رہنمائے دکن کے مدیر بھائیوں نے ہمیں ناشتے پر بلایا۔ وہاں برصغیر کی سیاست اور مسلمانوں کی پسماندگی پر طویل گفتگو ہوئی۔پھر ہم سائیکل رکشہ پر اپنی رہائش گاہ روانہ ہوئے ۔ اس رکشہ کو جو انسان کھینچ رہا تھا، وہ ہندو تھا۔ اس نے راستے میں دو منٹ اپنے بال بچوں سے بات کرنے کی اجازت مانگی اور اپنی بستی کے پاس رکشہ رکا، یہ بستی ایک ایسے قبرستان سے ملحق تھی جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مردے ساتھ ساتھ دفن ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ بسی زندوں کی بستی کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں یہ سوال ابھرنے لگا کہ زندوں اور مردوں کے قبرستان میں کیا فرق ہے۔؟ زندوں کی بستی میں بھی ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ رہتے تھے۔

زندوں کے اس قبرستان کی ایک جھونپڑی کے اندر سے ایک ادھیڑ عمر کی خاتون باہر نکلیں اگرچہ کہ زمانے کے ستم اور عمر کی بے رحم دلی نے انھیں بدل کر رکھ دیا تھا لیکن ہم اسے دیکھ کر وہ ہمیں دیکھ کر بری طرح چونکے۔ غالباً ہم ایک دوسرے کو پہچان گئے تھے۔ وہ خاتون اپنی اس حالت پر مارے شرم کے جھونپڑی میں بھاگ گئی۔ یہ خاتون بیدرمیں ہمارے پڑوسی ایک معروف وکیل کی صاحبزادی تھیں۔ ہمیں ہمارے عزیزوں نے بتایا تھا کہ وکیل صاحب کے انتقال کے بعد ان کے مسلمان عزیزوں نے ان کی خوبصوت اور جوان بیٹی کو مال غنیمت سمجھ کر استعمال کرنا چاہا تو وہ اپنی عزت بچاکر بیدر سے حیدرآباد بھاگ آئی۔ جہاں اس نے ایک غریب مسلمان ٹیکسی ڈرائیور سے شادی کرلی، تین بچوں کے بعد اس کا شوہر ایک ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوگیا اور وہ سخت معاشی مشکلات میں گھر گئی۔

ہمارے سائیکل رکشہ ڈرائیور نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا، سر اس کا نام گوری ہے۔ یہ دو سال پہلے مجھے چار مینار کے پاس سڑک کے کنارے اپنے تین بچوں کے ساتھ روتی ہوئی ملی، اسے دیکھ کر مجھے بڑا دکھ ہوا، میں اسے '' اس گھر'' لے آیا اور شادی کرلی۔ اب ہمارے پانچ بچے ہیں، تین اس کے مرحوم مسلمان شوہر سے اور دو مجھ سے، اس رکشہ ڈرائیور کا نام شنکر تھا۔گوری مسلمان ہے میں ہندو لیکن ہم بڑے سکون سے زندگی گزاررہے ہیں۔ گوری اور شنکر آج مجھے کیوں یاد آرہے تھے میں نہیں جانتا لیکن اتنا جانتاہوں کہ بھارتی حیدرآباد کا شنکر اور پاکستانی بدین کے بھورو بھیل دونوں کا تعلق نچلی ذات کی ہندو برادری سے ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں