دھاتی ڈور… پاکستان کی سب سے بڑی دشمن

زندگی بھر صبح کا اخبار میرے لیے دن کا سب سے بڑا تحفہ رہا، اس کے باوجود کہ برسوں تک اخبار کے دفتر سے...


Abdul Qadir Hassan November 11, 2013
[email protected]

زندگی بھر صبح کا اخبار میرے لیے دن کا سب سے بڑا تحفہ رہا، اس کے باوجود کہ برسوں تک اخبار کے دفتر سے رات کو اس وقت نکلتے جب اخبار کی آخری کاپی پریس چلی جاتی اور ہم سب قریبی چوک چیئرنگ کراس پر باجماعت قومی ترانہ الاپ کر اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے لیکن تمام خبریں اپنے سامنے سے گزار کر بھی صبح اخبار کا انتظار کیا کرتے کہ کہیں کوئی خبر مس تو نہیں ہو گئی اور جو خبر خاص سمجھی تھی وہ کہیں کسی اور اخبار میں تو نہیں چھپ گئی۔

جوانی اور بعد کا کچھ عرصہ بھی اس رونق میں گزر گیا اور پھر رات بھر جاگنے کے باوجود صبح گیارہ بجے دفتر پہنچ کر رپورٹروں کی میٹنگ میں بھی شرکت کرتا کیونکہ میں کچھ وقت تک چیف رپورٹر بھی تھا۔ تکان نہیں ہوا کرتی تھی، اچھی خبر مل گئی تو بالکل تازہ دم ہو گئے۔ یہ الفاظ میں نے اپنی اس حالت پر توجہ دلانے کے لیے رقم کیے ہیں جو ان دنوں دیکھ رہا ہوں اوراخبارات کا بنڈل صبح سویرے کسی بھاری پتھر کی طرح سر پر لگتا ہے اور ہوش و حواس بحال کرنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ ہر روز اخبارات بتاتے ہیں کہ بھائی لوگو! اب یہ ملک آپ سے نہیں چل سکتا کیونکہ آپ بہت محدود ذہن، محدود علم اور محدود ہمت والے لوگ ہیں اور یہ ملک پہلے کی طرح اب بھی آپ کی قدو قامت سے بہت بڑا ہے۔

آج کی سیاسی قیادت کو تو یہ پتہ ہی نہیں کہ صرف 66 برس پہلے یہ ملک کیوں بنا تھا اور کس لیے بنا تھا۔ اس بحث میں جو آجکل ایک ناپسندیدہ بحث ہے پڑے بغیر میں آگے چل کراس معصوم چھوٹی سی پیاری بچی نور فاطمہ کو پیار کرتا ہوں جو گلے میں ڈور پھرنے سے شہید ہو گئی۔ میری اپنی چھوٹی سی پوتی حلیمہ سعدیہ میرے سامنے ہے جو گھر بھر میں میرا سب سے زیادہ خیال کرتی ہے۔ نور بھی میری ایک پوتی ہی تھی لیکن میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ اس کی قبر کی مٹی سے اس کے اپنے لپٹ رہے ہیں اور اسے گیلا کر رہے ہیں۔ کیا یہ پاکستانی بچی ایسے کسی لیڈر سے کم مرتبے اور درجے کی تھی جس کی موت پر آج شہادت اور عدم شہادت کی بحث ہو رہی ہے۔

یہ بحثیں مجھے تاریخ کی ان بحثوں کی یاد دلاتی ہیں جو بغداد کے آخری دنوں میں وہاں کے علماء میں حلال و حرام کے بارے میں ہو رہی تھیں، تب ہلاکو بغداد کے دروازوں سے اندر داخل ہو رہا تھا۔ آج ہمارے گھر کے دروازوں سے نہ جانے کتنے ہلاکو اندر داخل ہو رہے ہیں اور ہم وہ ہیں کہ اب تک سیسہ پلائی ہوئی پتنگ اڑانے کی ڈور بنانے والوں کو پکڑ نہیں سکے لیکن اس ڈور سے مرنے والوں کے ہاں تعزیت کے لیے جا رہے ہیں اور ان کو لاکھوں روپے تعزیت میں ادا کر رہے ہیں۔

ہماری زندگیوں میں غم و اندوہ کی تلخیاں بھر دینے والی یہ ڈور کہاں سے آتی ہے، ہمیں معلوم ہے۔ اگر پتنگ اڑانے والے کسی لڑکے کو یہ ڈور آسانی کے ساتھ مل جاتی ہے تو کیا اس علاقے کی پولیس کو علم نہیں کہ اسے کون بیچ رہا ہے اور اس دکاندار سے وہ یہ معلوم نہیں کر سکتی کہ اس نے یہ کہاں سے خریدی اور کون اس کو تیار کرتا ہے اور اس طرح پولیس کیا اس قاتل ڈور کے بنانے والے کو قابو نہیں کر سکتی۔ ڈور کا یہ قاتلانہ سلسلہ مدتوں سے چل رہا ہے، کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن یہ ڈور گردنوں پر پھرتی رہی اور کسی حادثے میں اگر شور مچا تو حکمران نے افسوس کا بیان جاری کر دیا۔ آج کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کیا نہیں کر رہے، ایسے ایسے نئے ترقیاتی منصوبے لا رہے ہیں کہ قوم انگشت بدنداں ہے۔

انھوں نے تو ہمارے لاہور کے راستے ہی بدل دیے ہیں اور شہر کی ہواؤں تک میں بسیں چلا دی ہیں لیکن وہ اپنی اس تمامتر محنت ذہانت اور کارکردگی کے باوجود اس ڈور کا سراغ نہیں لگا سکتے جو کئی معصوم بچوں اور بڑوں کو بھی برسر بازار موت دے چکی ہے ،کیا لوگوں کی اس طرح لٹتی ہوئی زندگی میاں صاحب کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ کیا ہمارے سرگرم عمل وزیراعلیٰ کو ایسے کسی موقع پر اپنی کوئی بچی یاد نہیں آتی یا پھر وہ اپنے خاندان کے لیے سرکاری سیکیورٹی کو موت سے بچانے کا ایکحتمی ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سرکاری محافظ بھی کسی لیڈر کی موت کا واسطہ بن جاتے ہیں۔

ان لیڈر حضرات کی آمدورفت سے شہروں کی سڑکوں کو جس طرح بند کیا جاتا ہے اور جس طرح پھر ٹریفک گھنٹوں بعد بحال ہوتی ہے اس کا وبال کس کے ذمے، جن لوگوں نے آپ کو بڑے پیار سے ووٹ دیے ہیں ، ان کو ذلیل و رسوا نہ کریں۔ اس ملک کے بازار آپ کی ناکام حکومت کے زندہ اشتہار ہیں اور ان بازاروں میں جو واویلا مچا رہتا ہے، وہ ہر لمحے بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے۔

میرے سامنے جو آج کے اخبارات ہیں وہ وطن عزیز پر تابڑ توڑ حملوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ہم لوگ تو مدتوں سے عرض کر رہے ہیں کہ بھارت ہمارا نمبر ایک دشمن ہے اور پولیس کا ایک پرانا فلسفہ ہے کہ کسی بھی واردات کی تفتیش میں پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس کا فائدہ کس کو ہوا ہے اور ہمارے ہر نقصان میں فائدہ بھارت کو ہوتا ہے مگر از حد تعجب ہے جب ہم یہ کہیں کہ ہمیں اتنے ووٹ بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے ملے ہیں۔ ہمارا وطن عزیز آجکل ایسے ہی بزرجمہر لیڈروں کے نرغے میں ہے۔ میں اپنے آپ کو میاں صاحب کا ایک سب سے بڑا بے لوث خیر خواہ سمجھتا ہوں اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر ایک مخلص اور شرم و حیا والے انسان ہیں۔ میں اس وقت سے ان کا نیاز مند ہوں جب وہ ابھی اقتدار میں آنے کے لیے اس وقت کے پنجاب کے حکمرانوں سے کامیاب معاملہ کر رہے تھے۔

تفصیلات کا یہ موقع نہیں اور نہ ہی ضرورت ہے، میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ وہ آج کے انتہائی مشکل حالات کا جائزہ لیں اور ان سے مقابلہ کرنے کے لیے لشکر تیار کریں۔ ایک طرف لٹا پٹا پاکستان ہے، دوسری طرف بھارت اور امریکا جیسی وقت کی بڑی طاقتیں ہیں جو پاکستان کا ایک مفلوج وجود دیکھنا چاہتی ہیں اور حالات بتاتے ہیں کہ وہ ایسا کر سکتی ہیں، جس ملک کی واحد باقاعدہ اور ٹھوس سیاسی و دینی جماعت بھی اکھڑ جائے وہاں کسی لیگ یا کسی دوسری جماعت کی کیا مجال ہے کہ ان حالات میں اس کے ہوش و حواس سلامت رہیں۔

آج کے زمانے میں کمزوریاں تو بہت ہیں لیکن کسی ملک کے عوام کی قیادت سے محرومی بہت بڑا حادثہ ہے مگر میں تو نور فاطمہ کو پیار کر رہا تھا اور یہ عرض کر رہا تھا کہ ڈور جیسی عام سی چیز پر پابندی نہ لگا سکنا نالائقی کی انتہا ہے۔ اللہ نور فاطمہ کے بھائی اور والد کو صحت اور صبر دے جو اس کے ساتھ ہی زخمی ہوئے ہیں۔ پھر یہی عرض کہ اللہ صوبے کے حاکم اعلیٰ کو بھی ہمت دے کہ وہ خود بھی کسی ڈور سے بچے اور ہمیں بھی بچائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں