اپنے اپنے شہید
فرض کریں، کسی ملک یا ملک کے کسی علاقے میں اچانک ایک ایسی مخلوق نمودار ہو جاتی ہے جو شہر کا کوڑا کرکٹ کھا...
فرض کریں، کسی ملک یا ملک کے کسی علاقے میں اچانک ایک ایسی مخلوق نمودار ہو جاتی ہے جو شہر کا کوڑا کرکٹ کھا کر زندہ رہتی ہے۔ اس مخلوق سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں اور معمولات زندگی میں اس کی وجہ سے کوئی رخنہ نہیں پڑتا تو ایسی مخلوق کے بارے میں لوگوں کا ردعمل کیا ہوگیا؟ صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کو اس نئی مخلوق کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہو گا۔ لوگ اس بات پر اُلٹا خوش ہوں گے کہ شہر کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کی مشقت سے چھٹکارہ مل گیا۔ یوں ایسی کوئی مخلوق خوب پُھولے پھلے گی۔ ایک دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک علاقے میں ایسی مخلوق وارد ہو جائے جو انسانی خون پی کر زندہ رہتی ہے۔
انسانی گوشت اور خون اس کی خوراک ہے۔ اب یہ ہو گا کہ لوگ غائب ہونا شروع ہو جائیں گے۔ جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ غائب ہونے والوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور پھر علاقے کے لوگ اپنی تمام تر توجہ اس مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کرنے پر مرکوز کر دیں گے۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک صحت مند معاشرے ایسی صورتحال کو برداشت کرے۔ یوں ایسی کسی مخلوق کا آسانی سے پھلنا پھولنا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر معاشرہ اس بلا کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تو اس کا اپنا وجود قائم نہیں رہ سکے گا۔ ہمارا جسم بھی بالکل اسی اصول پر کام کرتا ہے۔ جب کبھی کو ضرر رساں جراثیم یا وائرس باہر سے ہمارے جسم میں داخل ہو جائے یا پھر ہمارے جسم کے اندر ہی سوئے ہوئے ضرر رساں جراثیم ماحول موافق ہونے پر متحرک ہو جائیں اور توڑ پھوڑ کا عمل شروع کر دیں تو ہمارا مدافعتی نظام فوراً حرکت میں آ جاتا ہے اور نقصان کرنے والے گھس بیٹھیوں پر حملہ کرتا ہے۔ لڑائی طول پکڑنے لگے تو پھر دوا اور علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو بھی ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ باہر سے کوئی ایسا جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہو جو فطری طور پر ہمارے جسمانی نظام کا حصہ نہیں جیسے بہت سے جانور ہمارے ماحول کا حصہ ہوتے ہیں ان کے جسمانی نظام میں بھی سیکڑوں قسم کے جراثیم ہوتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ایسا کوئی جرثومہ ہمارے جسمانی نظام میں داخل ہو جائے لیکن عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتا کیونکہ ہمارے جسم کا ماحول ہی اس کے لیے اجنبی ہوتا ہے۔ دوسری جانب حیاتیاتی سائنس میں ایک اصطلاح میوٹیشن Miutation بھی ہے۔ میوٹیشن ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت کوئی جرثومہ اپنے آپ کو کسی نئے ماحول کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور پھر تباہی و بربادی کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو روکے نہیں رُکتا۔
انسانی معاشرہ اور ہمارے جسمانی نظام میں بلا کی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ مظاہر فطرت پر غور و فکر اور ان سے تحریک حاصل کرنے کی دعوت ہمارے دین کے اساسی موضوعات میں سے ایک ہے اور انسانی جسم شاید اللہ تعالیٰ کی تخلیقات میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی جسم کا گہرا مطالعہ کسی حیرت کدے کی سیر جیسا ہے۔ ہمارا جسم سیکڑوں قسم کے بے ضرر اور ضرر رساں جراثیموں کا گھر ہے۔ بہت سے ایسے زندہ اجسمام ہماری جلد پر رہتے ہیں اور مرنے والے خلیوں کو کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ہمارا بدن اپنے طور پر ایک پوری دنیا ہے جہاں بیک وقت لاکھوں طرح کے افعال انجام دیے جا رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ بھی طویل عرصہ سے مسلسل شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں درپیش بحران کی جو شدت ہے جس قدر اس کا حجم ہے' اس سے نمٹنے کی حکمت عملی میں بھی ویسا ہی دم خم ہے یا نہیں تو سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگوں ایک بڑی تعداد جس چیز کو معاشرتی جسم کے لیے بیماری سمجھتی ہے، ایک خاصی بڑی تعداد اسی چیز کو معاشرتی بیماریوں کا علاج سمجھے بیٹھی ہے۔ انتہائی فیصلہ کن دور میں ایسی تقسیم معاملات کو درست ستم نہیں دے سکتی۔ سماجی سائنس کا ایک اصول ہے کہ اگر کسی معاشرے میں غالب اکثریت بُرے لوگوں کی ہو تو ایسا معاشرہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہتا ہے' اسی طرح اگر کسی ریاست میں غالب اکثریت اچھے لوگوں کی ہے تو یہ بھی کامیابی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتا رہے گا لیکن اگر متحارب گروہوں میں سے کسی کو بھی واضح برتری حاصل نہ ہو اور کم و بیش برابر کی ٹکر ہو تو ایسے معاشروں میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی ریاست اہم ترین معاملات کے بارے میں اختلاف رائے کی دراڑیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہوئی ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہ مسائل جو ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں ان سے نمٹنے کے لیے آج تک عوامی سطح پر اتفاق رائے اور یکسوئی حاصل نہیں کی جا سکی۔ وجہ بہت سیدھی ہے کہ ہمارے ہاں عام روش یہی ہی ہے کہ اگر آپ مسلکی بنیادوں پر کسی تنظیم سے وابستہ ہیں یا آپ کی کوئی سیاسی پہچان ہے تو آپ وہی کچھ کہیں گے جو آپ کے مسلک کے عالم دین آپ کو بتائیں گے یا آپ کی سیاسی جماعت کا لیڈر کہہ دے گا۔
یہاں پر یہ رویہ پروان نہیں چڑھ سکا کہ کچھ چیزیں ہماری مسلکی اور سیاسی وابستگیوں سے بھی بالاتر ہوتی ہیں۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اپنی ان وابستگیوں کی بنیاد پر کسی ایسی بات کے دفاع میں آستین چڑھا کر میدان میں اُترے ہوتے ہیں جو دنیا بھر میں باطل ثابت ہو چکی ہو۔ ہماری حالت ایک ایسے جسم جیسی ہو چکی ہے جس کا مدافعتی نظام خود اس سوال پر تقسیم ہو چکا ہے کہ آیا جسم پر ہونے والے حملے کو حملہ سمجھا جائے یا نہیں۔ اگر جراثیموں کا لشکر کسی جسمانی نظام پر چڑھ دوڑا ہے تو اس سے جسم کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان ہو گا؟ یہ حملہ بربادی لائے گا یا اس کے اثرات تعمیری ہوں گے۔ ملک کے قبائلی علاقوں میں جاری کشیدگی کے تناظر میں جو بات کبھی کبھار دبے لفظوں میں کہی جاتی تھی کہ اس کشمکش میں مرنے والوں میں سے کسے شہید کہا جائے اور کسے نہیں' اب پوری شدت کے ساتھ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ سب سے بڑی ضرورت اتفاق رائے اور یکسوئی ہے۔ اگربعض حلقوں کی جانب سے قوم میں ذہنی انتشار پیدا کرنے کی کوشش جاری رہی تو نقصان یقینی ہے۔
انسانی گوشت اور خون اس کی خوراک ہے۔ اب یہ ہو گا کہ لوگ غائب ہونا شروع ہو جائیں گے۔ جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ غائب ہونے والوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور پھر علاقے کے لوگ اپنی تمام تر توجہ اس مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کرنے پر مرکوز کر دیں گے۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک صحت مند معاشرے ایسی صورتحال کو برداشت کرے۔ یوں ایسی کسی مخلوق کا آسانی سے پھلنا پھولنا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر معاشرہ اس بلا کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تو اس کا اپنا وجود قائم نہیں رہ سکے گا۔ ہمارا جسم بھی بالکل اسی اصول پر کام کرتا ہے۔ جب کبھی کو ضرر رساں جراثیم یا وائرس باہر سے ہمارے جسم میں داخل ہو جائے یا پھر ہمارے جسم کے اندر ہی سوئے ہوئے ضرر رساں جراثیم ماحول موافق ہونے پر متحرک ہو جائیں اور توڑ پھوڑ کا عمل شروع کر دیں تو ہمارا مدافعتی نظام فوراً حرکت میں آ جاتا ہے اور نقصان کرنے والے گھس بیٹھیوں پر حملہ کرتا ہے۔ لڑائی طول پکڑنے لگے تو پھر دوا اور علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو بھی ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ باہر سے کوئی ایسا جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہو جو فطری طور پر ہمارے جسمانی نظام کا حصہ نہیں جیسے بہت سے جانور ہمارے ماحول کا حصہ ہوتے ہیں ان کے جسمانی نظام میں بھی سیکڑوں قسم کے جراثیم ہوتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ایسا کوئی جرثومہ ہمارے جسمانی نظام میں داخل ہو جائے لیکن عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتا کیونکہ ہمارے جسم کا ماحول ہی اس کے لیے اجنبی ہوتا ہے۔ دوسری جانب حیاتیاتی سائنس میں ایک اصطلاح میوٹیشن Miutation بھی ہے۔ میوٹیشن ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت کوئی جرثومہ اپنے آپ کو کسی نئے ماحول کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور پھر تباہی و بربادی کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو روکے نہیں رُکتا۔
انسانی معاشرہ اور ہمارے جسمانی نظام میں بلا کی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ مظاہر فطرت پر غور و فکر اور ان سے تحریک حاصل کرنے کی دعوت ہمارے دین کے اساسی موضوعات میں سے ایک ہے اور انسانی جسم شاید اللہ تعالیٰ کی تخلیقات میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی جسم کا گہرا مطالعہ کسی حیرت کدے کی سیر جیسا ہے۔ ہمارا جسم سیکڑوں قسم کے بے ضرر اور ضرر رساں جراثیموں کا گھر ہے۔ بہت سے ایسے زندہ اجسمام ہماری جلد پر رہتے ہیں اور مرنے والے خلیوں کو کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ہمارا بدن اپنے طور پر ایک پوری دنیا ہے جہاں بیک وقت لاکھوں طرح کے افعال انجام دیے جا رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ بھی طویل عرصہ سے مسلسل شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں درپیش بحران کی جو شدت ہے جس قدر اس کا حجم ہے' اس سے نمٹنے کی حکمت عملی میں بھی ویسا ہی دم خم ہے یا نہیں تو سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگوں ایک بڑی تعداد جس چیز کو معاشرتی جسم کے لیے بیماری سمجھتی ہے، ایک خاصی بڑی تعداد اسی چیز کو معاشرتی بیماریوں کا علاج سمجھے بیٹھی ہے۔ انتہائی فیصلہ کن دور میں ایسی تقسیم معاملات کو درست ستم نہیں دے سکتی۔ سماجی سائنس کا ایک اصول ہے کہ اگر کسی معاشرے میں غالب اکثریت بُرے لوگوں کی ہو تو ایسا معاشرہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہتا ہے' اسی طرح اگر کسی ریاست میں غالب اکثریت اچھے لوگوں کی ہے تو یہ بھی کامیابی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتا رہے گا لیکن اگر متحارب گروہوں میں سے کسی کو بھی واضح برتری حاصل نہ ہو اور کم و بیش برابر کی ٹکر ہو تو ایسے معاشروں میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی ریاست اہم ترین معاملات کے بارے میں اختلاف رائے کی دراڑیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہوئی ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہ مسائل جو ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں ان سے نمٹنے کے لیے آج تک عوامی سطح پر اتفاق رائے اور یکسوئی حاصل نہیں کی جا سکی۔ وجہ بہت سیدھی ہے کہ ہمارے ہاں عام روش یہی ہی ہے کہ اگر آپ مسلکی بنیادوں پر کسی تنظیم سے وابستہ ہیں یا آپ کی کوئی سیاسی پہچان ہے تو آپ وہی کچھ کہیں گے جو آپ کے مسلک کے عالم دین آپ کو بتائیں گے یا آپ کی سیاسی جماعت کا لیڈر کہہ دے گا۔
یہاں پر یہ رویہ پروان نہیں چڑھ سکا کہ کچھ چیزیں ہماری مسلکی اور سیاسی وابستگیوں سے بھی بالاتر ہوتی ہیں۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اپنی ان وابستگیوں کی بنیاد پر کسی ایسی بات کے دفاع میں آستین چڑھا کر میدان میں اُترے ہوتے ہیں جو دنیا بھر میں باطل ثابت ہو چکی ہو۔ ہماری حالت ایک ایسے جسم جیسی ہو چکی ہے جس کا مدافعتی نظام خود اس سوال پر تقسیم ہو چکا ہے کہ آیا جسم پر ہونے والے حملے کو حملہ سمجھا جائے یا نہیں۔ اگر جراثیموں کا لشکر کسی جسمانی نظام پر چڑھ دوڑا ہے تو اس سے جسم کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان ہو گا؟ یہ حملہ بربادی لائے گا یا اس کے اثرات تعمیری ہوں گے۔ ملک کے قبائلی علاقوں میں جاری کشیدگی کے تناظر میں جو بات کبھی کبھار دبے لفظوں میں کہی جاتی تھی کہ اس کشمکش میں مرنے والوں میں سے کسے شہید کہا جائے اور کسے نہیں' اب پوری شدت کے ساتھ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ سب سے بڑی ضرورت اتفاق رائے اور یکسوئی ہے۔ اگربعض حلقوں کی جانب سے قوم میں ذہنی انتشار پیدا کرنے کی کوشش جاری رہی تو نقصان یقینی ہے۔