گوشۂ عافیت
کراچی عروس البلاد ہے۔ پاکستان کا اولین دارالخلافہ ہے۔ صنعت و تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ روشنیوں کا شہر ہے۔
کراچی عروس البلاد ہے۔ پاکستان کا اولین دارالخلافہ ہے۔ صنعت و تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ روشنیوں کا شہر ہے۔ بابائے قوم کی جائے پیدائش اور آخری آرام گاہ ہے اور شہر قائد سے جو اس کا سب سے بڑا اور منفرد اعزاز اور طرہ امتیاز ہے۔ کراچی منی پاکستان کہلاتا ہے اور بجا طور پر کہلاتا ہے کیونکہ یہ سب سے زیادہ کمائی کرتا ہے اور پورے پاکستان کے لیے روزی روزگار مہیا کرتا ہے۔
کسی زمانے میں کراچی کا شمار دنیا کے صاف ستھرے شہروں میں ہوا کرتا تھا۔ یہاں صفائی ستھرائی کا بہترین انتظام تھا اور یہاں صبح سویرے سڑکوں کی پابندی سے دھلائی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے صفائی کے لحاظ سے آج اس شہر کا نمبر بہت نیچے جا چکا ہے کیونکہ ایک جانب اس پر آبادی کا دباؤ مسلسل بڑھتا جارہا ہے جب کہ دوسری جانب اسے مطلوبہ وسائل میسر نہیں آرہے۔ بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی نے اس شہر کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ امن وامان اور بے ہنگم ٹریفک سے لے کر صفائی ستھرائی اور آلودگی تک اس شہر کے ڈھیروں مسائل ہیں جو فوری اور بھرپور توجہ چاہتے ہیں تاکہ اس عظیم الشان شہر کے تمام باسی آرام و سکون سے رہ سکیں۔ ایک عام شہری سے لے کر حکومت تک، ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اس شہر کی بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈالے۔
کراچی صرف قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی اہمیت کا بھی حامل ہے اسے ایک انٹرنیشنل اور Cosmopolitan تشخص حاصل ہے۔ اس کا شمار ایشیا کی اہم ترین اور مصروف ترین بندرگاہوں میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے بحری جہاز اس بندرگاہ پر آکر ٹھہرتے ہیں اور یہاں سے ہوکر گزرتے ہیں۔ کراچی کا کوئی نعم البدل نہ کبھی تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری مرکز بھی یہی شہر ہے۔ بڑی بڑی قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے اہم اور مرکزی دفاتر اسی شہر میں قائم ہیں۔
اس شہر میں کارپوریٹ سیکٹر کا سب سے بڑا نیٹ ورک موجود ہے جس کی آمدنی کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں کھربوں میں ہے۔ لہٰذا کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی کا تقاضہ ہے کہ تمام نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اس شہر کی بہتری اور آرائش و زیبائش میں اپنا وہ کردار ادا کریں جو ان کا فرض ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان میں سے بیشتر کمپنیاں اپنے اس اخلاقی فرض سے غافل ہیں۔ انھیں محض اس دودھ دینے والی گائے کا زیادہ سے زیادہ دودھ نکالنے سے ہی غرض ہے۔ ان کمپنیوں کے اشتہارات اور ہورڈنگز آپ کو کراچی کی اہم سڑکوں اور شاہراہوں پر جا بہ جا نظر آئیں گے۔ سچ پوچھیے تو اس اندھا دھند اشتہار بازی نے کراچی شہر کو ہورڈنگز کا ایک جنگل بنادیا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک صوبائی وزیر نے اس صورت حال کا سختی سے نوٹس لیا اور اس سلسلے میں فوری کارروائی کے احکامات بھی جاری کیے تھے جوکہ حکومت سندھ کا ایک انقلابی فیصلہ تھا۔ مگر اس سے قبل اس معاملے میں مزید کوئی پیش رفت نہ ہوئی، حالات کا رخ ایک دم بدل گیا اور بوجوہ وزیر موصوف کو استعفیٰ دینا پڑا۔
بہرحال لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اور دنیا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ توقع ہے کہ حکومت سندھ کراچی کی Beautification کے لیے خصوصی اقدامات کرے گی کیونکہ یہ شہر صوبائی دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے ترجیہی سلوک کا مستحق ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے تمام اقدامات نہ صرف لائق تحسین ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں جو وہ لاہور شہر کی تزئین و آرائش کے لیے عرصہ دراز سے تاحال اٹھانے میں سرگرم ہیں۔ سچ پوچھیے تو میاں صاحب نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے سابقہ اور موجودہ دور حکمرانی میں لاہور شہر کی کایا پلٹ کے رکھ دی ہے جس کے نتیجے میں اہل لاہور سینہ تان کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ''لاہور لاہور اے''۔ امید ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی جنھیں مسلسل دوسری مرتبہ صوبے کی خدمت کا موقع میسر آیا ہے پنجاب کے اپنے ہم منصب کی پیروی کرتے ہوئے کراچی کی Face Lifting اور Up Lift کی جانب خاطر خواہ توجہ دیں گے تاکہ کراچی والے بھی نہایت فخر سے یہ کہہ سکیں کہ ''کراچی کراچی ہے''۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے لیے ہمارا اس سلسلے میں انتہائی مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اس کار خیر میں کراچی کے کارپوریٹ شعبے کو شرکت کی دعوت میں جو مالی اعانت کے ذریعے اس معاملے میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ بقول اقبال:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
بہتر ہوگا کہ وزیر اعلیٰ صاحب اس کام کے لیے ایک خصوصی شعبہ تشکیل دیں جس میں Corporate Sector کی سرکردہ شخصیات کو شامل کیا جائے۔ اس بات کا سب کو علم ہے کہ کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی (Corporate Social Responsibility) کے تحت تمام بڑی بڑی قومی اور مٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس فلاحی اور ترقیاتی کاموں کے لیے اچھے خاصے فنڈز موجود ہوتے ہیں جنھیں بروئے کار لاکر بڑے سے بڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ کراچی کی آرائش و زیبائش کا تقاضہ ہے کہ اس اہم فریضے کی انجام دہی کے لیے ان لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں جو ذوق سلیم رکھتے ہیں اور جن کی جمالیاتی حس بہت تیز ہے۔ شہر قائد میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ کیفیت یہ ہے کہ ''ایک ڈھونڈ ہزار ملتے ہیں''۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی گل جی، صادقین اور جمی انجینئر جیسے دیو قامت تخلیق کاروں کا شہر ہے جن کی شہرت کے چرچے چار دانگ عالم تک پہنچ چکے ہیں۔
شاہراہ فیصل کراچی کی اہم ترین شاہراہ ہے کیونکہ کراچی کے ہوائی اڈے سے شہر میں داخل ہونے کا یہی راستہ ہے، ملکی اور غیرملکی اہم شخصیات کی کراچی میں آمد و رفت اسی شاہراہ سے ہوتی ہے اور بڑی بڑی سواریاں یہیں سے ہو کر گزرتی ہیں۔ اس لیے یہ شاہراہ خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس گزرگاہ کو زیادہ سے زیادہ سجایا اور سنوارا جائے تاکہ یہاں سے گزرنے والے تمام مہمان، بالخصوص بیرون ممالک سے تشریف لانے والے مہمان جن مین سربراہان مملکت، صدور، وزرائے اعظم اور سفارت کار و اہل کار شامل ہیں ہمارے شہر اور ملک کے بارے میں اچھے تاثرات لے کر اپنے وطن واپس لوٹیں۔
گزشتہ روز جب ایک عرصہ دراز کے بعد ہمارا اس شاہراہ سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو ہمارا دل یہ دیکھ کر باغ باغ ہوگیا کہ گورا قبرستان اور ایف ٹی سی کی عمارت کے درمیان واقع فلائی اوور کے زیریں حصے کے گوشے میں واقع چھوٹے سے باغیچے کی کسی نے کایا ہی پلٹ دی ہے۔ یہ تبدیلی اتنی نمایاں تھی کہ ہمیں اپنی گاڑی رکوا کر اس کا بھرپور نظارہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ واللہ کیا سماں تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ حسین اتفاق یہ ہے کہ 9 نومبر کی ایک خوشگوار صبح تھی جو علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے۔ اس موقع پر بے اختیار علامہ کی ایک خوبصورت نظم کا یہ شعر نوک زباں پر آگیا جوکہ انھوں نے کسی ایسے ہی گوشہ فردوس برروئے زمین کے منظر سے متاثر ہوکر کہی تھی:
پھول ہیں صحرا ہیں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے' نیلے نیلے' پیلے پیلے پیراہن
پہلے اس پارک کا نام کراچی ویژوئل پارک ہوا کرتا تھا جس کا نام اب پاک او آئیس تھیم پارک رکھ دیا گیا ہے۔ یہ نیا نام ریگستان میں نخلستان کی تخلیق کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی زبردست اور انقلابی نوعیت کی تھی کہ ہمارا ذہن اسے بہ آسانی ہضم نہ کرسکا اور ہمارے تجسس نے تفتیش کی صورت اختیار کرلی۔ تھوڑی سی کوشش کے نتیجے میں یہ معلوم کرکے انتہائی مسرت ہوئی کہ اس کام کا سہرا ایک نجی ادارے کے سر ہے جن کی انتظامیہ نے اپنے جمالیاتی ذوق کو شہر قائد کو سجانے اور سنوارنے کے لیے بروئے کار لانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ رضاکارانہ خدمت کی یہ ایک روشن اور قابل تقلید مثال ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے دیگر نجی اداروں کو بھی آگے آنا چاہیے۔ واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تیاری اور تنصیب کے کاروبار سے منسلک یہ نجی کمپنی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور اپنے کاروبار کے فروغ اور توسیع کے ذریعے بے روزگاری کے سنگین مسئلے کو حل کرکے روزگار کے نئے نئے مواقع فراہم کرنے میں سر گرم عمل ہے۔
کسی زمانے میں کراچی کا شمار دنیا کے صاف ستھرے شہروں میں ہوا کرتا تھا۔ یہاں صفائی ستھرائی کا بہترین انتظام تھا اور یہاں صبح سویرے سڑکوں کی پابندی سے دھلائی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے صفائی کے لحاظ سے آج اس شہر کا نمبر بہت نیچے جا چکا ہے کیونکہ ایک جانب اس پر آبادی کا دباؤ مسلسل بڑھتا جارہا ہے جب کہ دوسری جانب اسے مطلوبہ وسائل میسر نہیں آرہے۔ بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی نے اس شہر کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ امن وامان اور بے ہنگم ٹریفک سے لے کر صفائی ستھرائی اور آلودگی تک اس شہر کے ڈھیروں مسائل ہیں جو فوری اور بھرپور توجہ چاہتے ہیں تاکہ اس عظیم الشان شہر کے تمام باسی آرام و سکون سے رہ سکیں۔ ایک عام شہری سے لے کر حکومت تک، ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اس شہر کی بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈالے۔
کراچی صرف قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی اہمیت کا بھی حامل ہے اسے ایک انٹرنیشنل اور Cosmopolitan تشخص حاصل ہے۔ اس کا شمار ایشیا کی اہم ترین اور مصروف ترین بندرگاہوں میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے بحری جہاز اس بندرگاہ پر آکر ٹھہرتے ہیں اور یہاں سے ہوکر گزرتے ہیں۔ کراچی کا کوئی نعم البدل نہ کبھی تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری مرکز بھی یہی شہر ہے۔ بڑی بڑی قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے اہم اور مرکزی دفاتر اسی شہر میں قائم ہیں۔
اس شہر میں کارپوریٹ سیکٹر کا سب سے بڑا نیٹ ورک موجود ہے جس کی آمدنی کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں کھربوں میں ہے۔ لہٰذا کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی کا تقاضہ ہے کہ تمام نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اس شہر کی بہتری اور آرائش و زیبائش میں اپنا وہ کردار ادا کریں جو ان کا فرض ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان میں سے بیشتر کمپنیاں اپنے اس اخلاقی فرض سے غافل ہیں۔ انھیں محض اس دودھ دینے والی گائے کا زیادہ سے زیادہ دودھ نکالنے سے ہی غرض ہے۔ ان کمپنیوں کے اشتہارات اور ہورڈنگز آپ کو کراچی کی اہم سڑکوں اور شاہراہوں پر جا بہ جا نظر آئیں گے۔ سچ پوچھیے تو اس اندھا دھند اشتہار بازی نے کراچی شہر کو ہورڈنگز کا ایک جنگل بنادیا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک صوبائی وزیر نے اس صورت حال کا سختی سے نوٹس لیا اور اس سلسلے میں فوری کارروائی کے احکامات بھی جاری کیے تھے جوکہ حکومت سندھ کا ایک انقلابی فیصلہ تھا۔ مگر اس سے قبل اس معاملے میں مزید کوئی پیش رفت نہ ہوئی، حالات کا رخ ایک دم بدل گیا اور بوجوہ وزیر موصوف کو استعفیٰ دینا پڑا۔
بہرحال لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اور دنیا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ توقع ہے کہ حکومت سندھ کراچی کی Beautification کے لیے خصوصی اقدامات کرے گی کیونکہ یہ شہر صوبائی دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے ترجیہی سلوک کا مستحق ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے تمام اقدامات نہ صرف لائق تحسین ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں جو وہ لاہور شہر کی تزئین و آرائش کے لیے عرصہ دراز سے تاحال اٹھانے میں سرگرم ہیں۔ سچ پوچھیے تو میاں صاحب نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے سابقہ اور موجودہ دور حکمرانی میں لاہور شہر کی کایا پلٹ کے رکھ دی ہے جس کے نتیجے میں اہل لاہور سینہ تان کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ''لاہور لاہور اے''۔ امید ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی جنھیں مسلسل دوسری مرتبہ صوبے کی خدمت کا موقع میسر آیا ہے پنجاب کے اپنے ہم منصب کی پیروی کرتے ہوئے کراچی کی Face Lifting اور Up Lift کی جانب خاطر خواہ توجہ دیں گے تاکہ کراچی والے بھی نہایت فخر سے یہ کہہ سکیں کہ ''کراچی کراچی ہے''۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے لیے ہمارا اس سلسلے میں انتہائی مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اس کار خیر میں کراچی کے کارپوریٹ شعبے کو شرکت کی دعوت میں جو مالی اعانت کے ذریعے اس معاملے میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ بقول اقبال:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
بہتر ہوگا کہ وزیر اعلیٰ صاحب اس کام کے لیے ایک خصوصی شعبہ تشکیل دیں جس میں Corporate Sector کی سرکردہ شخصیات کو شامل کیا جائے۔ اس بات کا سب کو علم ہے کہ کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی (Corporate Social Responsibility) کے تحت تمام بڑی بڑی قومی اور مٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس فلاحی اور ترقیاتی کاموں کے لیے اچھے خاصے فنڈز موجود ہوتے ہیں جنھیں بروئے کار لاکر بڑے سے بڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ کراچی کی آرائش و زیبائش کا تقاضہ ہے کہ اس اہم فریضے کی انجام دہی کے لیے ان لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں جو ذوق سلیم رکھتے ہیں اور جن کی جمالیاتی حس بہت تیز ہے۔ شہر قائد میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ کیفیت یہ ہے کہ ''ایک ڈھونڈ ہزار ملتے ہیں''۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی گل جی، صادقین اور جمی انجینئر جیسے دیو قامت تخلیق کاروں کا شہر ہے جن کی شہرت کے چرچے چار دانگ عالم تک پہنچ چکے ہیں۔
شاہراہ فیصل کراچی کی اہم ترین شاہراہ ہے کیونکہ کراچی کے ہوائی اڈے سے شہر میں داخل ہونے کا یہی راستہ ہے، ملکی اور غیرملکی اہم شخصیات کی کراچی میں آمد و رفت اسی شاہراہ سے ہوتی ہے اور بڑی بڑی سواریاں یہیں سے ہو کر گزرتی ہیں۔ اس لیے یہ شاہراہ خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس گزرگاہ کو زیادہ سے زیادہ سجایا اور سنوارا جائے تاکہ یہاں سے گزرنے والے تمام مہمان، بالخصوص بیرون ممالک سے تشریف لانے والے مہمان جن مین سربراہان مملکت، صدور، وزرائے اعظم اور سفارت کار و اہل کار شامل ہیں ہمارے شہر اور ملک کے بارے میں اچھے تاثرات لے کر اپنے وطن واپس لوٹیں۔
گزشتہ روز جب ایک عرصہ دراز کے بعد ہمارا اس شاہراہ سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو ہمارا دل یہ دیکھ کر باغ باغ ہوگیا کہ گورا قبرستان اور ایف ٹی سی کی عمارت کے درمیان واقع فلائی اوور کے زیریں حصے کے گوشے میں واقع چھوٹے سے باغیچے کی کسی نے کایا ہی پلٹ دی ہے۔ یہ تبدیلی اتنی نمایاں تھی کہ ہمیں اپنی گاڑی رکوا کر اس کا بھرپور نظارہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ واللہ کیا سماں تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ حسین اتفاق یہ ہے کہ 9 نومبر کی ایک خوشگوار صبح تھی جو علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے۔ اس موقع پر بے اختیار علامہ کی ایک خوبصورت نظم کا یہ شعر نوک زباں پر آگیا جوکہ انھوں نے کسی ایسے ہی گوشہ فردوس برروئے زمین کے منظر سے متاثر ہوکر کہی تھی:
پھول ہیں صحرا ہیں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے' نیلے نیلے' پیلے پیلے پیراہن
پہلے اس پارک کا نام کراچی ویژوئل پارک ہوا کرتا تھا جس کا نام اب پاک او آئیس تھیم پارک رکھ دیا گیا ہے۔ یہ نیا نام ریگستان میں نخلستان کی تخلیق کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی زبردست اور انقلابی نوعیت کی تھی کہ ہمارا ذہن اسے بہ آسانی ہضم نہ کرسکا اور ہمارے تجسس نے تفتیش کی صورت اختیار کرلی۔ تھوڑی سی کوشش کے نتیجے میں یہ معلوم کرکے انتہائی مسرت ہوئی کہ اس کام کا سہرا ایک نجی ادارے کے سر ہے جن کی انتظامیہ نے اپنے جمالیاتی ذوق کو شہر قائد کو سجانے اور سنوارنے کے لیے بروئے کار لانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ رضاکارانہ خدمت کی یہ ایک روشن اور قابل تقلید مثال ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے دیگر نجی اداروں کو بھی آگے آنا چاہیے۔ واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تیاری اور تنصیب کے کاروبار سے منسلک یہ نجی کمپنی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور اپنے کاروبار کے فروغ اور توسیع کے ذریعے بے روزگاری کے سنگین مسئلے کو حل کرکے روزگار کے نئے نئے مواقع فراہم کرنے میں سر گرم عمل ہے۔