استحصالی قوتیں
اکثر ہمارے سیاسی کارکنان، معصوم شہری یہاں تک کہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ...
اکثر ہمارے سیاسی کارکنان، معصوم شہری یہاں تک کہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل ہمارا دشمن نمبر 1 اور 2 ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہی ہے مگر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امریکی اور اسرائیلی عوام غیر مساوی ترین ممالک میں سے ایک ہیں جہاں کل قومی دولت (تقریباً 57 ٹریلین ڈالر) میں امیر ترین 1 فیصد کا حصہ 35 فیصد، جب کہ امیر ترین 10 فیصد کا حصہ 80 فیصد، نیچے کے 80 فیصد امریکیوں کا قومی دولت میں حصہ صرف 7 فیصد ہے۔ 10 فیصد لوگ خیراتی کھانوں پہ پلتے ہیں اور 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ بے روزگار ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کی 77 لاکھ کی آبادی میں 25 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 2011 میں اسرائیل میں 7 لاکھ شہریوں نے تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کی۔ ہڑتال کی وجہ غذائی قلت، صحت کی سہولتوں کی کمی، مہنگائی اور بیروزگاری تھی ۔
استحصال، رنگ، نسل اور مذہب نہیں کرتے، استحصال طبقے کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی استحصال کرنے والی قوت ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، جو کئی ملکوں کو خرید سکتی ہیں۔ ان ہی کی مرضی سے حکومتیں ان کی پالیسیوں کو آگے بڑھاتی ہیں اور وہ دنیا بھر کے اربوں انسانوں کا خون نچوڑکر ارب پتی سے کھرب پتی بنتے جارہی ہیں۔ کل عالمی دولت (کم وبیش 200 ٹریلین ڈالر) میں سے افریقہ، بھارت، لاطینی امریکا اور چین کا حصہ بالترتیب 1 فیصد، 2 فیصد، 4 فیصد اور 8 فیصد ہے۔ یوں دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں سے 4.2 ارب لوگ جن خطوں میں رہتے ہیں ان کے حصے میں کل عالمی دولت کا صرف 15 فیصد آتا ہے۔
دوسری طرف عالمی دولت میں صرف یورپ اور شمالی امریکا کا مجموعی حصہ 63 فیصد ہے جب کہ ان دو خطوں کی مجموعی آبادی تقریباً 1.3 ارب ہے۔ دنیا میں دولت کی تقسیم کا مجموعی طور پر تجزیہ کیا جائے تو امیر ترین 1 فیصد افراد 43 فیصد، جب کہ امیر ترین 10 فیصد افراد عالمی دولت کے 83 فیصد حصے پر قابض ہیں جب کہ 50 فیصد عالمی آبادی کے حصے میں 2 فیصد جب کہ 80 فیصد آبادی کے حصے میں صرف 6 فیصد دولت آتی ہے۔ یہ صورتحال بارکس اور اینگلز کی اس پیش گوئی کے عین مطابق ہے جو انھوں نے 1948 میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کی تھی اور جس کے مطابق سرمایہ داری کے ارتقاء اور عالمگیریت کے ساتھ قومی ریاست متروک ہوکے رہ جائے گی۔ یہی بات بل کلنٹن نے کہی تھی کہ آیندہ آنے والی امریکی حکومتوں کے لیے تین بڑے خطرات ہوں گے۔ (1) منشیات، (2) دہشت گردی (3) وہ جو قومی ریاستوں کے خلاف ہیں۔
دنیا بھر میں ریاستوں کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی اہم وجہ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں پر ٹیکس لگانے کی نااہلیت ہے جس کی وجہ سے ریاستوں کی آمدنی گرتی چلی جارہی ہے اور وہ قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ ٹیکس سے بچنے کے لیے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرفہرست ہیں اور دنیا کا کوئی بھی ملک اس لوٹ مار سے محفوظ نہیں ہے۔ ایک الیکٹرک کمپنی 108 ارب ڈالر، ایک کمپنی 73 ارب ڈالر، مائیکرو سافٹ 60 ارب ڈالر، ایپل 54 ارب ڈالر، ایک کمپنی 53 ارب ڈالر اور ایک اور کمپنی 49 ارب ڈالر ہر سال مختلف ممالک سے نکال کر آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کرتی ہیں۔
صرف 60 بڑی کمپنیاں ٹیکسوں سے بچنے کے لیے ہر سال 1ہزار 3 سو ارب ڈالر پیداواری شعبے سے نکال کر مختلف بینکوں میں جمع کرواتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے امیر افراد نے 32 ہزار ارب ڈالر مختلف آف شور بینکوں میں چھپا رکھے ہیں۔ یہ رقم تیسری دنیا کے مجموعی بیرونی قرضے (تقریباً 4000ارب روپے) سے 8 گنا زیادہ ہے، یونان کا معاشی بحران اس عمل کی واضح مثال ہے۔ 2009-11 کے صرف دو سال میں 22 ارب یورو یونان سے باہر منتقل ہوئے۔ یونان کے سابق وزیراعظم جارج پاپاندریو کے ایک بیان کے مطابق اگر سرمائے کی بیرون ملک منتقلی پر قابو پا لیا جاتا تو ''یونان کو بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہی نہ پڑتی''۔ یونان کے امراء کے ذمے 60 ارب یورو صرف قانونی ٹیکس کی مد میں واجب الادا ہیں جب کہ سالانہ ٹیکس چوری 20 ارب یورو سے زیادہ ہے۔ تیسری دنیا کی کالی معیشت سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
فروری 2012 میں بھارتی سی پی آئی کے چیف کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق بھارتی امرا نے اپنے 500 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں چھپا رکھے ہیں۔ 2 اکتوبر 2013 کو جاری ہونے والے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ڈھائی کروڑ ڈالر ہر روز پاکستان سے باہر اسمگل کیے جارہے ہیں، یہ رقم 9 ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے اور آئی ایم ایف کے حالیہ 3 سالہ بیل آؤٹ پیکیج سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ یوں تیسری دنیا کے سرمایہ داروں کا سماجی اور معاشی کردار بھی سامراجی اجارہ داریوں سے مختلف نہیں، گلوبل فنانشل اینگریٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1990 سے 2008 تک کے عرصے میں انگولا، ایتھوپیا اور یمن جیسے غریب ترین ممالک سے 197 ارب ڈالر امیر ممالک میں منتقل ہوئے۔ امیر ممالک ہر سال 130 ارب ڈالر امداد کی مد میں غریب ملکوں کو دیتے ہیں، اس کے برعکس ملٹی نیشنل اجارہ داریاں تیسری دنیا کے ممالک سے 900 ارب ڈالر ہر سال امیر ممالک کے بینکوں میں منتقل کرتی ہیں اور تیسری دنیا کے ممالک ہر سال 600 ارب ڈالر بیرونی قرضوں میں سود کی مد میں ادا کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے نافذ کیے گئے تجارتی قوانین (کم اجرتیں اور سستا خام مال وغیرہ) کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک کو ہر سال 500 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ صرف پچھلی ایک دہائی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں مغربی یورپ کے رقبے کے برابر زمینوں پر قبضے کیے ہیں۔ ان زمینوں کی مجموعی مالیت 2000 ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ مجموعی طور پر 2000 ارب ڈالر ہر سال غریب ممالک سے امیر ممالک منتقل ہوتے ہیں۔
مگر ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ وطیرہ اور فطری قانون ہے کہ جوں جوں ایک جانب دولت کا انبار ہوگا تو دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج۔ اس لیے معروف انقلابی فلسفی اور دانشور اور مزدور رہنما ایماگولڈ مان کہتی ہیں کہ ''انتخابات سے اگر مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگاچکے ہوتے'' اس لیے سرمایہ کی اس لوٹ اور جبر کو ختم کرنے اور محنت کا غلبہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محنت کشوں کا ایسا انقلاب برپا ہو جہاں ریاستوں اور قومی دولت کا تصور ختم ہوکر عالمی نسل انسانی کا ایسا سماج قائم ہو جہاں سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہو۔ یہی انسانیت کی معراج ہے۔