فراموشی کی تہذیب اور تنہائی
دنیا بھر میں کسی بھی ملک اور قومیت کودیکھ لیں، انھوں نے اپنی تہذیب کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ ان کے مورخین اور ...
دنیا بھر میں کسی بھی ملک اور قومیت کودیکھ لیں، انھوں نے اپنی تہذیب کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ ان کے مورخین اور محققین نے اپنی ثقافت کے لیے زندگیاںوقف کر رکھی ہیں، صرف یہی نہیں، ان کے شوق و جنوں کا یہ عالم ہے کہ دوسروں کی تہذیب کو محفوظ کرنے لیے بھی دن رات کوشاں ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایسے کئی ادارے کام کررہے ہیں، جن کا کام ہے، وہ عالمی ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے اقدامات کریں، ان اقدامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے وہ مالی اور اخلاقی دونوں طرح کی معاونت میں پیش پیش ہیں۔
عالمی ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنیوالا ایسا ہی ایک عالمی ادارہ ''یونائیٹڈ نیشنز ایجوکیشنل، سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن۔ یونیسیکو'' ہے۔ اس ادارے نے دنیا بھر کے ثقافتی ورثے کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ پہلے حصے میں وہ آثار قدیمہ ہیں جن کو عالمی ورثہ قرار دیکر اس کی تزئین و آرائش اور تحفظ کی ذمے داری اپنے سر لے رکھی ہے۔ دوسرے حصے میں ایسے آثارِ قدیمہ ہیں، جنھیں عارضی طور پر نگرانی میں رکھا گیا ہے، مگر ان کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ یہ عالمی ورثے میں شامل ہوں گی یا نہیں، کیونکہ آثار قدیمہ کو عالمی ورثے قرار دینے کا پیمانہ اس کا تاریخی پس منظر ہے، جس کی بنیاد پر کوئی عمارت عالمی ورثہ قرار پاتی ہے۔
دنیا کے جن ممالک کے آثارقدیمہ، یونیسیکو کے تحت عالمی ورثے قرار دیے جاتے ہیں، ان کے فروغ کے لیے وہاں کی حکومتیں بھی اپنا موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لیے ان کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ ان عمارتوں کے ماڈل بناکر پوری دنیا میں ان کی ترسیل کی جاتی ہے۔ یہ عمارتیں ان ممالک کی پہچان بن جاتی ہیں۔ دنیا کے چند ہی خوش نصیب ممالک ہیں، جن کے آثارقدیمہ کو عالمی ورثے قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان بھی ان چند ممالک میں سے ایک خوش نصیب ملک ہے، جس کے آثار قدیمہ میں آٹھ عمارتیں عالمی ورثہ قرار دی جاچکی ہیں۔ ان میں موئن جو دڑو، شاہی قلعہ، ٹیکسلا، قلعہ روہتاس، شالیمار باغ، تخت باہی، شاہراہ بہلول اور مکلی کا قبرستان شامل ہیں۔ یہ آثار قدیمہ صرف پاکستان کے نہیں بلکہ عالمی برادری کا قومی ورثہ ہیں، جب کہ یونیسیکو نے ہماری جن عمارتوں کو ابھی اپنی نگرانی میں رکھا ہوا ہے، جس کا فیصلہ نہیں ہوا کہ انھیں عالمی ورثے قرار دیا جائے، اس فہرست میں شامل آثارقدیمہ میں بادشاہی مسجد، وزیر خان مسجد، مقبرہ جہانگیر، ہرن مینار، قلعہ رانی کوٹ، شاہ جہاں مسجد، چوکھنڈی قبرستان، مہرگڑھ کے آثارقدیمہ، قلعہ بلتت، شاہ رکن عالم مزار اور بھنبھور کے آثارقدیمہ شامل ہیں۔
پاکستان کا یہ تاریخی ثقافتی خزانہ یہیں تک محدود نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں، جن میں حیدرآباد، سکھر، بہاولپور، لاہور، گوجرانوالہ، جہلم، چکوال، پشاور، سوات اور دیگر ایسے کئی شہر ہیں، جہاں انتہائی قیمتی اور تاریخی آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں، مگر وہ دنیا کے سامنے نہیں لائے جاسکے، بالخصوص عالمی برادری ان سے بے خبر ہے۔ کئی شہروں میں تاریخی دروازوں اور گھڑیالی عمارتوں کو بھی ہم نے فراموش کردیا۔اس پر ستم یہ ہے کہ ہم اپنے اس تہذیبی ورثے کو صرف مٹی کا ڈھیر سمجھ بیٹھے ہیں۔ صرف کرنسی نوٹوں اور ڈاک ٹکٹوں پر کچھ عمارتوں کی تصویریں چھاپ پر یہ سمجھ لیا، ہم اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہوگئے۔ حکومتی بے حسی اور عوام کی طرف سے جہالت کے مظاہروں نے ان آثارقدیمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
ہمارے لیے آثارقدیمہ صرف کھنڈرات ہیں، یہی وجہ ہے، ہماری حکومتوں کے بجٹ میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے اور اگر ان آثار قدیمہ کو دیکھنے جائیں تو عوامی جہالت کے مظاہرے درودیوار پر نظر آئیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ممکن ہو تو قیمتی پتھر اور دیگر چیزیں چوری کرلی جاتی ہیں۔ سندھ میں مکلی اور چوکھنڈی کے قبرستان اس عوامی چوریوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ تہذیب و تمدن ہمارا مسئلہ نہیں رہا، جن کے ہاں ابھی کچھ تہذیب باقی ہے، وہی اس کے تحفظ کے لیے پاگل ہورہے ہیں، ہمارے نزدیک وہ صرف دیوانے ہی ہیں۔ اس اجتماعی بے حسی کے شکار آثار قدیمہ کے درودیوار اب صرف اداسی کا مسکن ہیں۔
آثار قدیمہ کے ان راستوں پر جہاں اب دھول اڑتی ہے، کبھی شہنشاہوں کی سواریاں گزرا کرتی تھیں۔ شہزادے چہل قدمی کیا کرتے تھے۔ شہزادیاں ہمجولیوں سے اٹھکیلیاں کیا کرتی تھیں۔ راجے مہاراجے اپنی فوجوں کے ساتھ گشت کیا کرتے تھے۔ ان عمارتوں کے درودیوار ان لمحوں کے گواہ ہیں، جب جنوبی ایشیا کی تہذیبیں ارتقا پذیر تھیں۔ فن تعمیر کے ماہر عمارتوں کی تعمیر کیا کرتے تھے۔ دست کار اپنے نین و نقش ان پر کنندہ کیا کرتے اور سنگ تراش ان عمارتوں کے حسن کو تراش خراش سے مزید دلکش بنادیا کرتے تھے۔ انسانوں کی جمالیات کا منہ بولتا ثبوت یہ آثارقدیمہ ہیں، جنھوں نے اب ہماری بے حسی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور خاتمے کی فصیل سے پرے زمیں بوس ہونے والی ہیں۔
سیکڑوں اور ہزاروں برس کی تنہائی کو اپنے دامن میں سمیٹنے والے یہ آثارقدیمہ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب کوئی ان کا وارث نہیں، جو وارث تھے، وہ مرگئے، اب جو وارث ہیں، انھیں فرصت نہیں، کاش کسی مغل بادشاہ یا آریائی حاکم نے اپنی عمارتوں پر کہیں اس نوعیت کی عبارت بھی لکھوا دی ہوتی، جس کو غالب نے ایک غزل کے مصرعے میں ڈھالا تو یہ لکھا ''خاک ہوجائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک''۔ پھر شاید کسی کا ضمیر جاگ اٹھتا۔
ہمارے خطے کا تعارف بننے والی ان عمارتوں کا مقدر جاگتا اور کوئی انھیں زمیں بوسی کے بجائے قدم بوسی نصیب ہوتی۔کبھی ان عمارتوں کو جاکر دیکھیے، ان کا حال دیکھا نہیں جاتا۔ مقبرہ نورجہاں ویرانی کا مسکن ہوا۔ ہڑپہ کے آثار اور نزدیکی آبادی کی فصیل ملنے کو ہے۔ قلعہ روہتاس ایک گاؤں کی صورت اختیار کرچکا۔ شاہی قلعہ سیاحوں کے پھینکے ہوئے کچرے سے بدبودار ہونے کو ہے۔ ان عمارتوں کی اداسی ہماری بے حسی میں حل ہوکر مجرمانہ سطح تک تہذیبی غفلت بن چکی، جس پر تہذیب کا شعور رکھنے والے کے لیے اذیت کے سوا کچھ نہیں ہے، کچھ بھی نہیں۔
ایک طرف ہم ہیں، دوسری طرف عالمی دنیا ہے۔ انھوں نے اپنے آثارقدیمہ کو محفوظ ہی نہیں کیا بلکہ ان سے جڑی تاریخ پر کتابیں تصنیف کروائیں، ڈاکومینٹریز بنوائیں۔ فیچر فلمیں بنیں اور نہ جانے کیا کچھ کر ڈالا مگر ہم صرف ماضی کے ان مزاروں کو مٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔ نصاب میں شامل اس ورثے کو پڑھتے ہوئے نئی نسل کی اکثریت اکتاہٹ کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کا مضمون ہمارے طالبعلموں کو خشک لگتا ہے۔ڈاکٹر مبارک علی جیسے پڑھے لکھے مورخ کو ہم بھولے بیٹھے ہیں، مگر ان کے جذبے کو سلام ہے، وہ کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے قلم اور تدریس کے ذریعے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں، ہمیں چند اور ایسے مبارک علی مل جائیں، تو ہمارے آثارقدیمہ پھر سے زندہ ہوجائیں گے اور ہماری تہذیب کی روشنی بھی واپس لوٹ آئے گی اور ہم جہالت کی تاریکیوں کو چیر دیں گے۔
رضا علی عابدی نے بھی اپنے سفرناموں میں آثارقدیمہ کو اپنا موضوع بنایا۔ گزشتہ دنوں ان سے گفتگو ہوئی، وہ بہت دکھ سے بتارہے تھے کہ جو سڑک ہمارے ملک میں جی ٹی روڈ کہلاتی ہے، وہی سرحد پار کرکے شاہراہ شیرشاہ سوری ہوجاتی ہے۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر مبارک علی کی اس خطے کی تاریخ پر لکھی ہوئی کتابیں ہمیں آئینہ دکھاتی ہیں۔
زمانہ طالبعلمی میں مجھے نصابی مضامین میں کئی برس تک تاریخ کا مضمون اختیاری حیثیت میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اسی عرصے میں عملی تجربے سے گزرنے کے لیے میں نے ٹیکسلا، لاہور اور ہڑپہ کے آثارقدیمہ کا دورہ بھی کیا۔ ٹیکسلا اور ہڑپہ کے میوزیم بھی اپنی ناقدری کی داستان سناتے ہیں۔ ہڑپہ جیسے تاریخی اور تہذیبی ورثے کے ساتھ بڑی ناانصافی کی گئی۔
میں جب وہاں پہنچا تو میں اکیلا ہی شخص تھا، جو وہاں سیاحت کی غرض سے موجود تھا۔ ہڑپہ جیسا تاریخی مقام مکمل ویرانی کی تصویر بنا میرے سامنے تھا، اس تاریخی اہمیت کی جگہ کسی مغربی ملک میں ہوتی، تو وہ نہ جانے کیا قدرومنزلت پاتی، مگر صد افسوس ہڑپہ اب ہڑپ ہونے کے قریب ہے۔ پاکستان کے تمام آثارقدیمہ بنا کسی فصیل کے آس پاس کی آبادیوں کے رحم وکرم پر ہیں۔
ہم نے اگر ان کی قدر کی ہوتی تو شاید کچھ اور عمارتیں عالمی ورثے کی حیثیت پالیتیں، لیکن جب زوال آتا ہے تو وہ صرف عمارتوں پر ہی نہیں وارثوں پر بھی آتا ہے۔ سیکڑوں اور ہزاروں برس پہلے ان قوموں پر آنیوالا زوال ابھی تھما نہیں ہے۔
عالمی ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنیوالا ایسا ہی ایک عالمی ادارہ ''یونائیٹڈ نیشنز ایجوکیشنل، سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن۔ یونیسیکو'' ہے۔ اس ادارے نے دنیا بھر کے ثقافتی ورثے کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ پہلے حصے میں وہ آثار قدیمہ ہیں جن کو عالمی ورثہ قرار دیکر اس کی تزئین و آرائش اور تحفظ کی ذمے داری اپنے سر لے رکھی ہے۔ دوسرے حصے میں ایسے آثارِ قدیمہ ہیں، جنھیں عارضی طور پر نگرانی میں رکھا گیا ہے، مگر ان کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ یہ عالمی ورثے میں شامل ہوں گی یا نہیں، کیونکہ آثار قدیمہ کو عالمی ورثے قرار دینے کا پیمانہ اس کا تاریخی پس منظر ہے، جس کی بنیاد پر کوئی عمارت عالمی ورثہ قرار پاتی ہے۔
دنیا کے جن ممالک کے آثارقدیمہ، یونیسیکو کے تحت عالمی ورثے قرار دیے جاتے ہیں، ان کے فروغ کے لیے وہاں کی حکومتیں بھی اپنا موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لیے ان کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ ان عمارتوں کے ماڈل بناکر پوری دنیا میں ان کی ترسیل کی جاتی ہے۔ یہ عمارتیں ان ممالک کی پہچان بن جاتی ہیں۔ دنیا کے چند ہی خوش نصیب ممالک ہیں، جن کے آثارقدیمہ کو عالمی ورثے قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان بھی ان چند ممالک میں سے ایک خوش نصیب ملک ہے، جس کے آثار قدیمہ میں آٹھ عمارتیں عالمی ورثہ قرار دی جاچکی ہیں۔ ان میں موئن جو دڑو، شاہی قلعہ، ٹیکسلا، قلعہ روہتاس، شالیمار باغ، تخت باہی، شاہراہ بہلول اور مکلی کا قبرستان شامل ہیں۔ یہ آثار قدیمہ صرف پاکستان کے نہیں بلکہ عالمی برادری کا قومی ورثہ ہیں، جب کہ یونیسیکو نے ہماری جن عمارتوں کو ابھی اپنی نگرانی میں رکھا ہوا ہے، جس کا فیصلہ نہیں ہوا کہ انھیں عالمی ورثے قرار دیا جائے، اس فہرست میں شامل آثارقدیمہ میں بادشاہی مسجد، وزیر خان مسجد، مقبرہ جہانگیر، ہرن مینار، قلعہ رانی کوٹ، شاہ جہاں مسجد، چوکھنڈی قبرستان، مہرگڑھ کے آثارقدیمہ، قلعہ بلتت، شاہ رکن عالم مزار اور بھنبھور کے آثارقدیمہ شامل ہیں۔
پاکستان کا یہ تاریخی ثقافتی خزانہ یہیں تک محدود نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں، جن میں حیدرآباد، سکھر، بہاولپور، لاہور، گوجرانوالہ، جہلم، چکوال، پشاور، سوات اور دیگر ایسے کئی شہر ہیں، جہاں انتہائی قیمتی اور تاریخی آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں، مگر وہ دنیا کے سامنے نہیں لائے جاسکے، بالخصوص عالمی برادری ان سے بے خبر ہے۔ کئی شہروں میں تاریخی دروازوں اور گھڑیالی عمارتوں کو بھی ہم نے فراموش کردیا۔اس پر ستم یہ ہے کہ ہم اپنے اس تہذیبی ورثے کو صرف مٹی کا ڈھیر سمجھ بیٹھے ہیں۔ صرف کرنسی نوٹوں اور ڈاک ٹکٹوں پر کچھ عمارتوں کی تصویریں چھاپ پر یہ سمجھ لیا، ہم اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہوگئے۔ حکومتی بے حسی اور عوام کی طرف سے جہالت کے مظاہروں نے ان آثارقدیمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
ہمارے لیے آثارقدیمہ صرف کھنڈرات ہیں، یہی وجہ ہے، ہماری حکومتوں کے بجٹ میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے اور اگر ان آثار قدیمہ کو دیکھنے جائیں تو عوامی جہالت کے مظاہرے درودیوار پر نظر آئیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ممکن ہو تو قیمتی پتھر اور دیگر چیزیں چوری کرلی جاتی ہیں۔ سندھ میں مکلی اور چوکھنڈی کے قبرستان اس عوامی چوریوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ تہذیب و تمدن ہمارا مسئلہ نہیں رہا، جن کے ہاں ابھی کچھ تہذیب باقی ہے، وہی اس کے تحفظ کے لیے پاگل ہورہے ہیں، ہمارے نزدیک وہ صرف دیوانے ہی ہیں۔ اس اجتماعی بے حسی کے شکار آثار قدیمہ کے درودیوار اب صرف اداسی کا مسکن ہیں۔
آثار قدیمہ کے ان راستوں پر جہاں اب دھول اڑتی ہے، کبھی شہنشاہوں کی سواریاں گزرا کرتی تھیں۔ شہزادے چہل قدمی کیا کرتے تھے۔ شہزادیاں ہمجولیوں سے اٹھکیلیاں کیا کرتی تھیں۔ راجے مہاراجے اپنی فوجوں کے ساتھ گشت کیا کرتے تھے۔ ان عمارتوں کے درودیوار ان لمحوں کے گواہ ہیں، جب جنوبی ایشیا کی تہذیبیں ارتقا پذیر تھیں۔ فن تعمیر کے ماہر عمارتوں کی تعمیر کیا کرتے تھے۔ دست کار اپنے نین و نقش ان پر کنندہ کیا کرتے اور سنگ تراش ان عمارتوں کے حسن کو تراش خراش سے مزید دلکش بنادیا کرتے تھے۔ انسانوں کی جمالیات کا منہ بولتا ثبوت یہ آثارقدیمہ ہیں، جنھوں نے اب ہماری بے حسی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور خاتمے کی فصیل سے پرے زمیں بوس ہونے والی ہیں۔
سیکڑوں اور ہزاروں برس کی تنہائی کو اپنے دامن میں سمیٹنے والے یہ آثارقدیمہ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب کوئی ان کا وارث نہیں، جو وارث تھے، وہ مرگئے، اب جو وارث ہیں، انھیں فرصت نہیں، کاش کسی مغل بادشاہ یا آریائی حاکم نے اپنی عمارتوں پر کہیں اس نوعیت کی عبارت بھی لکھوا دی ہوتی، جس کو غالب نے ایک غزل کے مصرعے میں ڈھالا تو یہ لکھا ''خاک ہوجائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک''۔ پھر شاید کسی کا ضمیر جاگ اٹھتا۔
ہمارے خطے کا تعارف بننے والی ان عمارتوں کا مقدر جاگتا اور کوئی انھیں زمیں بوسی کے بجائے قدم بوسی نصیب ہوتی۔کبھی ان عمارتوں کو جاکر دیکھیے، ان کا حال دیکھا نہیں جاتا۔ مقبرہ نورجہاں ویرانی کا مسکن ہوا۔ ہڑپہ کے آثار اور نزدیکی آبادی کی فصیل ملنے کو ہے۔ قلعہ روہتاس ایک گاؤں کی صورت اختیار کرچکا۔ شاہی قلعہ سیاحوں کے پھینکے ہوئے کچرے سے بدبودار ہونے کو ہے۔ ان عمارتوں کی اداسی ہماری بے حسی میں حل ہوکر مجرمانہ سطح تک تہذیبی غفلت بن چکی، جس پر تہذیب کا شعور رکھنے والے کے لیے اذیت کے سوا کچھ نہیں ہے، کچھ بھی نہیں۔
ایک طرف ہم ہیں، دوسری طرف عالمی دنیا ہے۔ انھوں نے اپنے آثارقدیمہ کو محفوظ ہی نہیں کیا بلکہ ان سے جڑی تاریخ پر کتابیں تصنیف کروائیں، ڈاکومینٹریز بنوائیں۔ فیچر فلمیں بنیں اور نہ جانے کیا کچھ کر ڈالا مگر ہم صرف ماضی کے ان مزاروں کو مٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔ نصاب میں شامل اس ورثے کو پڑھتے ہوئے نئی نسل کی اکثریت اکتاہٹ کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کا مضمون ہمارے طالبعلموں کو خشک لگتا ہے۔ڈاکٹر مبارک علی جیسے پڑھے لکھے مورخ کو ہم بھولے بیٹھے ہیں، مگر ان کے جذبے کو سلام ہے، وہ کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے قلم اور تدریس کے ذریعے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں، ہمیں چند اور ایسے مبارک علی مل جائیں، تو ہمارے آثارقدیمہ پھر سے زندہ ہوجائیں گے اور ہماری تہذیب کی روشنی بھی واپس لوٹ آئے گی اور ہم جہالت کی تاریکیوں کو چیر دیں گے۔
رضا علی عابدی نے بھی اپنے سفرناموں میں آثارقدیمہ کو اپنا موضوع بنایا۔ گزشتہ دنوں ان سے گفتگو ہوئی، وہ بہت دکھ سے بتارہے تھے کہ جو سڑک ہمارے ملک میں جی ٹی روڈ کہلاتی ہے، وہی سرحد پار کرکے شاہراہ شیرشاہ سوری ہوجاتی ہے۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر مبارک علی کی اس خطے کی تاریخ پر لکھی ہوئی کتابیں ہمیں آئینہ دکھاتی ہیں۔
زمانہ طالبعلمی میں مجھے نصابی مضامین میں کئی برس تک تاریخ کا مضمون اختیاری حیثیت میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اسی عرصے میں عملی تجربے سے گزرنے کے لیے میں نے ٹیکسلا، لاہور اور ہڑپہ کے آثارقدیمہ کا دورہ بھی کیا۔ ٹیکسلا اور ہڑپہ کے میوزیم بھی اپنی ناقدری کی داستان سناتے ہیں۔ ہڑپہ جیسے تاریخی اور تہذیبی ورثے کے ساتھ بڑی ناانصافی کی گئی۔
میں جب وہاں پہنچا تو میں اکیلا ہی شخص تھا، جو وہاں سیاحت کی غرض سے موجود تھا۔ ہڑپہ جیسا تاریخی مقام مکمل ویرانی کی تصویر بنا میرے سامنے تھا، اس تاریخی اہمیت کی جگہ کسی مغربی ملک میں ہوتی، تو وہ نہ جانے کیا قدرومنزلت پاتی، مگر صد افسوس ہڑپہ اب ہڑپ ہونے کے قریب ہے۔ پاکستان کے تمام آثارقدیمہ بنا کسی فصیل کے آس پاس کی آبادیوں کے رحم وکرم پر ہیں۔
ہم نے اگر ان کی قدر کی ہوتی تو شاید کچھ اور عمارتیں عالمی ورثے کی حیثیت پالیتیں، لیکن جب زوال آتا ہے تو وہ صرف عمارتوں پر ہی نہیں وارثوں پر بھی آتا ہے۔ سیکڑوں اور ہزاروں برس پہلے ان قوموں پر آنیوالا زوال ابھی تھما نہیں ہے۔