عورت چڑیل یا انسانیت کی ماں
آج تاریخ سے ثابت ہے کہ یورپ میں 1484 سے 1750 کے درمیان کم از کم ایک لاکھ عورتوں اور دیگر ذرایع کے...
آج تاریخ سے ثابت ہے کہ یورپ میں 1484 سے 1750 کے درمیان کم از کم ایک لاکھ عورتوں اور دیگر ذرایع کے دعوے سے دو لاکھ عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ اس ڈھائی سو سالہ دور میں یورپ بھر میں پادریوں نے عورتوں کو جادو ٹونے کے الزام میں زندہ جلاکر یا اعضاء کاٹ کر یا ڈبو کر ہلاک کرنے کے احکامات جاری کیے۔ پادری بھرے گاؤں کے سامنے عدالت لگاتا تھا، سزا سناتا تھا اور پھر ملزمہ پر پورا گاؤں تھوکتا ہوا، ناچتا کودتا، نعرے لگاتا مرکزی چوک میں لے جاکر صلیب سے باندھ کر جلا دیتا یا سنگسار کردیتا۔
ان عورتوں کی کثیر تعداد بوڑھی اور غریب ہوتی تھی۔ چڑیلوں کی کچھ نشانیاں مقرر کر لی گئی تھیں، جیسے چہرے پہ تل یا مسہ یا کسی اور قسم کا نشان حتیٰ کہ کیڑے کے کاٹے کا نشان بھی اس میں شمار تھا۔ اس کے ساتھ اگر ان کے پاس بلی موجود ہو توپھر کیا کہنا۔ اس سلسلے میں ایک شخص جس کا ذکر خاصا کیا جاتا ہے، اس کا نام میتھیو ہوپ کنس تھا، پیشے کے حساب سے ایک ناکام وکیل... مگر وہ چڑیلوں کو مارنے میں بہت کامیاب رہا اور ایک ایک دن میں انیس مظلوم عورتوں کی حیات کا چراغ گل کرتا رہا۔ اسے وہاں کے مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل تھی اور اس کے بدلے میں اسے مختلف ریاستی حاکموں کی طرف سے کثیر رقم ملتی تھی۔ تاریخ میں اس کا نام''چڑیل کھوجی جنرل'' کے طور پہ مشہور ہے۔
وہ دور تو چلیں تاریکی کا دور کہلاتا ہے، نہ اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے آسمانوں کو چھوا تھا اور نہ ہی ''حقوق'' کی عالمی تحریکوں نے جنم لیا تھا، لیکن آج ڈھائی سو سال بعد جب روشن خیالی کا ستارہ عروج پر ہے، یہ چڑیل کھوجی آج بھی چڑیلوں کو تلاش کر رہے ہیں اور موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ یہ بی بی سی کی کچھ دن پہلے کی خبر ہے کہ پڑوسی ملک انڈیا کی ریاست جھارکھنڈ میں پولیس کے بتائے گئے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ صرف آٹھ ماہ (جنوری سے اگست2013) میں 40 خواتین کو ڈائن قرار دے کر قتل کیا گیا ہے۔ ڈائن قرار دی جانے والی ان مظلوم خواتین پر قتل کرنے سے پہلے نہایت انسانیت سوز تشدد کیا گیا۔ اس ظلم و سفاکیت کی تفصیلات پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے۔
ان عورتوں کو پہلے بری طرح مارا پیٹا، پھر برہنہ کیا گیا، بال کاٹے گئے، کئی خواتین کی آنکھیں پھوڑی اور زبان کاٹ دی گئیں، پھر انھیں انسانی فضلہ کھانے پر مجبور کیا گیا، اور پھر انھیں اسی طرح برہنہ پورے گاؤں میں سرعام گھمایا گیا، اور بالآخر پتھر مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان انسانوں کے سے چہرے والے درندوں نے جنھیں ''اکیسویں صدی کے چڑیل کھوجی'' کہا جا سکتا ہے، عورتوں پر یہ روح فرسا ظلم کرنے سے پہلے یہ کیوں نہ سوچا کہ وہ بھی ایک عورت کے بطن سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔
وہ مظلوم عورتیں بھی کسی کی بیٹی، کسی کی ماں ہوں گی۔یہ چالیس خواتین ہی نہیں بلکہ انڈیا میں پچھلے دس سال میں (اس سے پہلے کا ریکارڈ نہیں ملا) بلامبالغہ سیکڑوں خواتین چڑیل ہونے کے شبے میں اس دردناک انجام کو پہنچ چکی ہیں، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں نوے فیصد خواتین وہ بیوائیں تھیں، جو کچھ نہ کچھ مال یا زمین رکھتی تھیں اور خود پولیس اور اعلیٰ حکام کے مطابق یہ ان بیواؤں کے مال اور زمین پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے رشتے داروں کی طرف سے اڑائی گئی افواہیں تھیں جنہوں نے توہم پرست دیہاتیوں کے ذہن و دل پر شیطان سوار کر دیا اور شیطانوں نے مظلوم خواتین کو شیطان قرار دے کر مار دیا۔
آج دنیا بھر میں عورتوں اور بچوں پر جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ تشدد کرنے والے اَن پڑھ ہوتے ہیں، لیکن اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بے شک مندرجہ بالا واقعات میں انڈیا کے جاہل توہم پرست دیہاتی ملوث ہیں لیکن خبروں کے اس دور میں ظلم و تشدد کی قبیل کی ہر دوسری خبر میں آپ پڑھے لکھے ڈگری یافتہ جاہل ملوث پائیں گے۔ الیاس اشعر نامی 84 سالہ ہوس زدہ پاکستانی بڈھا جو برطانوی شہریت بھی رکھتا تھا اور اس کی بیوی طلعت جو 68 برس کی تھی، دونوں پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ معاشرے میں رہنے والے تھے۔
انھوں نے ایک پیدائشی گونگی بہری بچی کے ساتھ وہ ظلم کیا کہ لندن کے پولیس چیف میری ٹول کو یہ کہنا پڑا کہ اس نے برطانیہ میں کسی انسان کی معذوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا اس سے بڑھ کر گھناؤنا جرم نہیں دیکھا۔ اس نے اشعر کو شیطان قرار دیا اور کہا کہ برطانیہ میں جانوروں سے بھی ایسا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔اس بے زبان یتیم بچی پر ہر طرح کا ظلم کیا گیا۔ پورے دس سال تک 84 سالہ شیطان بڈھا اسے اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا، مار پیٹ، بچا کھچا کھانا، جان توڑ محنت اور یہی نہیں اس معصوم بچی کی معذوری کے نام پر برطانوی سوشل سیکیورٹی تنظیموں سے لاکھوں روپے یہ میاں بیوی بٹورتے رہے۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں تشدد کی کسی نہ کسی صورت میں مبتلا ہوتی ہے۔اس میں پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں اور برطانیہ فرانس جیسے ''روشن خیال'' ممالک بھی۔ ہمارے ہاں ان خواتین کے چہروں پر جو مردوں کو اپنی من مانی نہیں کرنے دیتیں، 'مزہ' چکھانے کے لیے تیزاب پھینک دیا جاتا ہے تو برطانیہ میں بھی دو سال پہلے ایک ماڈل کیٹی پائپر کے چہرے پر اس لیے تیزاب پھینک دیا جاتا ہے کہ وہ ناجائز تعلق رکھنے پر تیار نہیں۔ کیٹی ان تیس لاکھ عورتوں میں سے ایک ہے جو ہر سال برطانیہ میں زنابالجبر، گھریلو تشدد، انسانی خرید و فروخت یا کسی بھی اور طرح کے سنگین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ فرانس میں بھی خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے ہر سال پچیس ہزار واقعات ہوتے ہیں۔
امریکا بھی اس بربریت میں کسی سے پیچھے نہیں، وہاں کے مادر پدر آزاد معاشرے میں عورتوں پر تشدد میں سب سے زیادہ جنسی زیادتی کا عنصر ہے۔ معصوم بچوں پر تشدد بلکہ ان کے قتل و غارت میں بھی امریکا پوری دنیا میں بدنام ہے۔ وہاں شیطان کے پجاری (الومینائی) ہر سال بیسیوں لاوارث بچوں کو اغوا کرکے شیطان کے بت کے سامنے بیدردی سے اس لیے ذبح کر دیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان سب سے زیادہ معصوم بچوں کی قربانی سے خوش ہوتا ہے۔ انڈیا میں چڑیلوں کو مارنے کے یہ واقعات ہی نہیں بلکہ 2004 سے 2010 تک بھارت میں ہر سال آبرو ریزی کے اوسطاً اٹھارہ سے بائیس ہزار واقعات سرکاری طور پر درج کیے گئے۔ غرض اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورتوں اور بچوں پر جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا معاملہ ایک عالمی المیہ ہے۔ عورتیں اور بچوں کی حفاظت کے اعتبار سے موجودہ دنیا ایک جنگل سے کم نہیں، جہاں ہوس و حرص کے بچاری درندے گویا گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ مہذب انسان پر اب پہلے سے کہیں زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خواتین اور بچوں کی ان درندوں سے حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کریں، ورنہ کسی دن یہ 'چڑیلیں' اگر اپنی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں تو ہو سکتا ہے کسی دن ہمیں مردوں کو بھوت قرار دے کر 'مارنے' کی خبریں بھی سننے کو ملیں۔
ان عورتوں کی کثیر تعداد بوڑھی اور غریب ہوتی تھی۔ چڑیلوں کی کچھ نشانیاں مقرر کر لی گئی تھیں، جیسے چہرے پہ تل یا مسہ یا کسی اور قسم کا نشان حتیٰ کہ کیڑے کے کاٹے کا نشان بھی اس میں شمار تھا۔ اس کے ساتھ اگر ان کے پاس بلی موجود ہو توپھر کیا کہنا۔ اس سلسلے میں ایک شخص جس کا ذکر خاصا کیا جاتا ہے، اس کا نام میتھیو ہوپ کنس تھا، پیشے کے حساب سے ایک ناکام وکیل... مگر وہ چڑیلوں کو مارنے میں بہت کامیاب رہا اور ایک ایک دن میں انیس مظلوم عورتوں کی حیات کا چراغ گل کرتا رہا۔ اسے وہاں کے مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل تھی اور اس کے بدلے میں اسے مختلف ریاستی حاکموں کی طرف سے کثیر رقم ملتی تھی۔ تاریخ میں اس کا نام''چڑیل کھوجی جنرل'' کے طور پہ مشہور ہے۔
وہ دور تو چلیں تاریکی کا دور کہلاتا ہے، نہ اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے آسمانوں کو چھوا تھا اور نہ ہی ''حقوق'' کی عالمی تحریکوں نے جنم لیا تھا، لیکن آج ڈھائی سو سال بعد جب روشن خیالی کا ستارہ عروج پر ہے، یہ چڑیل کھوجی آج بھی چڑیلوں کو تلاش کر رہے ہیں اور موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ یہ بی بی سی کی کچھ دن پہلے کی خبر ہے کہ پڑوسی ملک انڈیا کی ریاست جھارکھنڈ میں پولیس کے بتائے گئے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ صرف آٹھ ماہ (جنوری سے اگست2013) میں 40 خواتین کو ڈائن قرار دے کر قتل کیا گیا ہے۔ ڈائن قرار دی جانے والی ان مظلوم خواتین پر قتل کرنے سے پہلے نہایت انسانیت سوز تشدد کیا گیا۔ اس ظلم و سفاکیت کی تفصیلات پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے۔
ان عورتوں کو پہلے بری طرح مارا پیٹا، پھر برہنہ کیا گیا، بال کاٹے گئے، کئی خواتین کی آنکھیں پھوڑی اور زبان کاٹ دی گئیں، پھر انھیں انسانی فضلہ کھانے پر مجبور کیا گیا، اور پھر انھیں اسی طرح برہنہ پورے گاؤں میں سرعام گھمایا گیا، اور بالآخر پتھر مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان انسانوں کے سے چہرے والے درندوں نے جنھیں ''اکیسویں صدی کے چڑیل کھوجی'' کہا جا سکتا ہے، عورتوں پر یہ روح فرسا ظلم کرنے سے پہلے یہ کیوں نہ سوچا کہ وہ بھی ایک عورت کے بطن سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔
وہ مظلوم عورتیں بھی کسی کی بیٹی، کسی کی ماں ہوں گی۔یہ چالیس خواتین ہی نہیں بلکہ انڈیا میں پچھلے دس سال میں (اس سے پہلے کا ریکارڈ نہیں ملا) بلامبالغہ سیکڑوں خواتین چڑیل ہونے کے شبے میں اس دردناک انجام کو پہنچ چکی ہیں، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں نوے فیصد خواتین وہ بیوائیں تھیں، جو کچھ نہ کچھ مال یا زمین رکھتی تھیں اور خود پولیس اور اعلیٰ حکام کے مطابق یہ ان بیواؤں کے مال اور زمین پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے رشتے داروں کی طرف سے اڑائی گئی افواہیں تھیں جنہوں نے توہم پرست دیہاتیوں کے ذہن و دل پر شیطان سوار کر دیا اور شیطانوں نے مظلوم خواتین کو شیطان قرار دے کر مار دیا۔
آج دنیا بھر میں عورتوں اور بچوں پر جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ تشدد کرنے والے اَن پڑھ ہوتے ہیں، لیکن اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بے شک مندرجہ بالا واقعات میں انڈیا کے جاہل توہم پرست دیہاتی ملوث ہیں لیکن خبروں کے اس دور میں ظلم و تشدد کی قبیل کی ہر دوسری خبر میں آپ پڑھے لکھے ڈگری یافتہ جاہل ملوث پائیں گے۔ الیاس اشعر نامی 84 سالہ ہوس زدہ پاکستانی بڈھا جو برطانوی شہریت بھی رکھتا تھا اور اس کی بیوی طلعت جو 68 برس کی تھی، دونوں پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ معاشرے میں رہنے والے تھے۔
انھوں نے ایک پیدائشی گونگی بہری بچی کے ساتھ وہ ظلم کیا کہ لندن کے پولیس چیف میری ٹول کو یہ کہنا پڑا کہ اس نے برطانیہ میں کسی انسان کی معذوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا اس سے بڑھ کر گھناؤنا جرم نہیں دیکھا۔ اس نے اشعر کو شیطان قرار دیا اور کہا کہ برطانیہ میں جانوروں سے بھی ایسا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔اس بے زبان یتیم بچی پر ہر طرح کا ظلم کیا گیا۔ پورے دس سال تک 84 سالہ شیطان بڈھا اسے اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا، مار پیٹ، بچا کھچا کھانا، جان توڑ محنت اور یہی نہیں اس معصوم بچی کی معذوری کے نام پر برطانوی سوشل سیکیورٹی تنظیموں سے لاکھوں روپے یہ میاں بیوی بٹورتے رہے۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں تشدد کی کسی نہ کسی صورت میں مبتلا ہوتی ہے۔اس میں پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں اور برطانیہ فرانس جیسے ''روشن خیال'' ممالک بھی۔ ہمارے ہاں ان خواتین کے چہروں پر جو مردوں کو اپنی من مانی نہیں کرنے دیتیں، 'مزہ' چکھانے کے لیے تیزاب پھینک دیا جاتا ہے تو برطانیہ میں بھی دو سال پہلے ایک ماڈل کیٹی پائپر کے چہرے پر اس لیے تیزاب پھینک دیا جاتا ہے کہ وہ ناجائز تعلق رکھنے پر تیار نہیں۔ کیٹی ان تیس لاکھ عورتوں میں سے ایک ہے جو ہر سال برطانیہ میں زنابالجبر، گھریلو تشدد، انسانی خرید و فروخت یا کسی بھی اور طرح کے سنگین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ فرانس میں بھی خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے ہر سال پچیس ہزار واقعات ہوتے ہیں۔
امریکا بھی اس بربریت میں کسی سے پیچھے نہیں، وہاں کے مادر پدر آزاد معاشرے میں عورتوں پر تشدد میں سب سے زیادہ جنسی زیادتی کا عنصر ہے۔ معصوم بچوں پر تشدد بلکہ ان کے قتل و غارت میں بھی امریکا پوری دنیا میں بدنام ہے۔ وہاں شیطان کے پجاری (الومینائی) ہر سال بیسیوں لاوارث بچوں کو اغوا کرکے شیطان کے بت کے سامنے بیدردی سے اس لیے ذبح کر دیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان سب سے زیادہ معصوم بچوں کی قربانی سے خوش ہوتا ہے۔ انڈیا میں چڑیلوں کو مارنے کے یہ واقعات ہی نہیں بلکہ 2004 سے 2010 تک بھارت میں ہر سال آبرو ریزی کے اوسطاً اٹھارہ سے بائیس ہزار واقعات سرکاری طور پر درج کیے گئے۔ غرض اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورتوں اور بچوں پر جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا معاملہ ایک عالمی المیہ ہے۔ عورتیں اور بچوں کی حفاظت کے اعتبار سے موجودہ دنیا ایک جنگل سے کم نہیں، جہاں ہوس و حرص کے بچاری درندے گویا گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ مہذب انسان پر اب پہلے سے کہیں زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خواتین اور بچوں کی ان درندوں سے حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کریں، ورنہ کسی دن یہ 'چڑیلیں' اگر اپنی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں تو ہو سکتا ہے کسی دن ہمیں مردوں کو بھوت قرار دے کر 'مارنے' کی خبریں بھی سننے کو ملیں۔