فلسطینی اسیروں کی ابتر صورتحال

سہارا دے کر کھڑا کیا اور اسی لمحے معتصم رداد کے وکیل نے اس کی ماں کو بتایا کہ معتصم کو کینسر ہوچکا ہے اور...

VALENCIA:
انبیاء کی سرزمین فلسطین میں بسنے والے مظلوم فلسطینی عوام گزشتہ پینسٹھ برس سے اسرائیل کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، کبھی اسرائیلی حکومت مسلمانوں کے مقدس مقام مسجد اقصیٰ جسے بیت المقدس کہا جاتا ہے، کی توہین کرتی ہے تو کبھی مظلوم فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کر کے ان کے گھروں کی جگہ صیہونیوں کے لیے یہودی بستیوں کی تعمیر کی جاتی ہے، کبھی مظلوم اور بے کس فلسطینیوں کے روزگار پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اور انھیں اپنے ہی کھیتوں میں کام کرنے سے روکا جاتا ہے اور سمندر میں مچھلیاں پکڑنے اور فروخت کرنے پر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔

کبھی معصوم بچوں کو بے جرم و خطا گرفتار کر کے کئی کئی ماہ تک اسرائیلی خطرناک جیلوں میں رکھا جاتا ہے جہاں پر ان کو جسمانی اذیتوں کے ساتھ ساتھ دماغی اور نفسیاتی اذیت بھی دی جاتی ہے، اس حوالے سے جنس کی کوئی قید نہیں بلکہ خواتین اور مرد فلسطینیوں کو کسی بھی وقت گرفتار کرلیا جاتا ہے اور بغیر کوئی وجہ بتائے ان بے گناہوں کو سخت مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اسی طرح فلسطین کے بچوں کے لیے قائم اسکولوں کی عمارتوں کی حالت دیکھی جائے جو کہ بم دھماکوں سے تباہ حال ہو چکی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ختم ہوگئی ہے۔ لیکن سلام ہو ان باہمت فلسطینیوں پر جو اسرائیلی دشمن کی ان چیرہ دستیوں کے سامنے سینہ سپر ہیں اور اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر قیام کیے ہوئے ہیں۔ غرض یہ کہ فلسطین کا نام لیتے ہی درجنوں مسائل اور مصائب کا خیال دماغ میں آنا شروع ہوجاتا ہے، انھی تمام مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فلسطینی عوام کے لیے ان افراد کا ہے جنھیں صہیونی افواج نے بے جرم و بے خطا زندانوں میں قید کر رکھا ہے اور ان میں سے اکثریت کو عمر قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔

انھی اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے ساتھ جہاں ناروا سلوک رکھا جاتا ہے وہاں اسرائیلی جیلوں کی بدترین حالت کے باعث سیکڑوں فلسطینی قیدی مختلف انواع کی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں میں سے چودہ سو فلسطینی مختلف قسم کی بیماریوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں لیکن اس کے باوجودبھی قید و بند کی صعوبتیں ان پر جاری ہیں اور ان کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی ہے۔ اسی رپورٹ میںانکشاف کیا گیا ہے کہ پچیس فلسطینی قیدی ایسے بھی ہیں جنھیں کینسر کی بیماری لاحق ہو چکی ہے اور ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

ایک فلسطین قیدی معتصم رداد کی والدہ جب ریمون کی ایک اسرائیلی جیل میں اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے پہنچی تو اس وقت اپنے بیٹے کی خستہ حالت دیکھ کر فلسطینی ماں کی جو کیفیت تھی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی، البتہ جب وہ اپنے بیٹے کے سامنے کھڑی تھی تو اس نے محسوس کیا کہ اس کا جوان بیٹا اپنے پیروں پر ٹھیک سے کھڑا نہیں ہو رہا ہے، اس بوڑھی ماں نے اپنے بیٹے کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اسی لمحے معتصم رداد کے وکیل نے اس کی ماں کو بتایا کہ معتصم کو کینسر ہوچکا ہے اور اس کے جسم کے بائیں طرف کے اعضا بہت جلد کام کرنا چھوڑ دیں گے اور وہ مستقبل میں اپنے پاؤں پر کھڑا بھی ہونے کے قابل نہیں ہوگا۔


اکتیس سالہ فلسطینی نوجوان معتصم کو 2006 میں قید کیا گیا تھا اور اب اس کی حالت یہ ہے کہ وہ کینسر کے مہلک مرض میں مبتلا ہے اور اس کا پورا جسم ناکارہ ہو رہا ہے۔ اس کی حالت دن بہ دن خراب ہو رہی ہے کیونکہ اسے میڈیکل کی سہولیات میسر نہیں کی جا رہی ہیں، جیل انتظامیہ صرف اور صرف معتصم کو درد ختم کرنے والی دوائیں دے کر اپنی ذمے داری سے فرار اختیار کر رہی ہے، جیل انتظامیہ نے اس بات کی تصدیق اس وقت کی کہ جب معتصم کے جسم میں خون کی مقدار تیزی سے کم ہو رہی تھی تاہم انتظامیہ نے اسے ایک مقامی اسپتال منتقل کیا اور پھر اس کے بعد رملہ جیل میں بھیج دیا گیا۔

معتصم کے جسم کا وزن چودہ کلو گرام کم ہو چکا ہے اور وہ شدید تکلیف اور کرب میں بھی قید میں ہے، یہاں پر بھی اسے رملہ جیل انتظامیہ نے صرف درد ختم کرنے والی دوائیاں دے کر فارغ کردیا جس کے باعث آج اس کی حالت نازک ہو چکی ہے اور وہ مہلک ترین مرض کینسر میں مبتلا ہے۔معتصم رداد چودہ سو فلسطین قیدیوں میں سے صرف ایک مثال ہے جب کہ اس کے ساتھ مزید چوبیس قیدی ایسے ہیں جو کہ کینسر میں مبتلا ہیں اور باقی چودہ سو قیدیوں کی صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی جسمانی کیفیت کیسی ہو گی؟ صہیونی جیل کی انتظامیہ نے معتصم کو باہر کسی اسپتال میں لے جا کر علاج معالجے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے اور نہ ہی اسے آزاد کرنے پر تیار ہے۔ معتصم کی والدہ کاکہنا ہے کہ انھوں نے سرکاری سطح پر تمام کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح ان کے بیٹے کو آزادی ملے او ر وہ اس کا علاج کروا پائیں لیکن تمام تر کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، اور کینسر کی حالت یہ ہے کہ معتصم کے پورے جسم میں پھیل چکا ہے ۔

اسرائیلی جیلوں کی انتظامیہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھتے ہیں اور بیماری کی حالت میں علاج معالجے کی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔ ابھی ماضی قریب میں بھی ایک فلسطینی قیدی ابو حمدیہ کو عین اس وقت جیل سے رہا کیا گیا جب وہ بالکل اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں تھا اور پھر چند روز میں ہی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اسرائیلی انتظامیہ نے اس عمل کو اپنی پالیسی کا حصہ بنا لیا ہے کہ جیلوں میں قید بیمار فلسطینی قیدیوں کو آہستہ آہستہ موت کی طرف لے جایا جائے تا کہ وہ اذیت کا شکار رہیں۔

اسرائیل نہ صرف پوری دنیا میں کھلے عام دہشت گردی انجام دے رہا ہے بلکہ اپنی جیلوں میں قید بے گناہ فلسطینی قیدیوں پر بھی مجرمانہ انداز میں مظالم جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میںآہستہ آہستہ قیدیوں کو موت کی طرف لایا جا رہا ہے تا کہ وہ بیماری کی حالت میںاس قدر ابتر ہو جائیں کہ بالآخر موت واقع ہو جائے اور اسی لیے اسرائیلی انتظامیہ نے اپنی پالیسی بنالی ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں اسپتال قائم نہ کیے جائیں اور نہ ہی بیمار فلسطینی قیدیوں کو علاج معالجہ کی اجازت دی جائے۔اسی طرح ظلم پر ظلم یہ ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے ایسے کمسن اور نئے ڈاکٹر بننے والے طالب علموںکو بھی جیل بھیجا جاتا ہے کہ جو اپنے تجربات زندہ انسانوں پر کرتے ہیں اور اپنی ڈاکٹری کی ڈگری میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ا س قسم کی حرکات کے باعث کئی ایک فلسطینی قیدیوں کو نہ صرف غلط ادویات دی گئیں بلکہ ان کے ساتھ ہونے والے تجربات سے ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

معتصم رداد سیکڑوں فلسطینی قیدیوں میں سے ایک ایسا فلسطینی قیدی ہے جو اسرائیلی جیل میں قید ہے اور کینسر کے مرض میں مبتلا ہے جسے اسرائیلی جیل انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی علاج معالجے کی نہ تو سہولت میسر کی گئی ہے اور ہی اسے یہ اجازت ہے کہ وہ باہر کسی اسپتال میں اپنا علاج مکمل کروا سکے۔یہ اسرائیلی حکومت کی درندگی اور سفاکیت کی ایک واضح مثال ہے جو اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی ابتر صورتحال دیکھنے سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
Load Next Story