فرعون اور اس کے درباریوں کے خواب اور حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیر و تدبیر
ریان کا خاندان شاہی نسلی اعتبار سے عمالقہ میں سے تھا جسے تاریخ مصر میں ہکسوس کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
برگزیدہ پیغمبر، امانت ودیانت کے پیکر حضرت یوسف ؑ کا واقعہ جو قرآن حکیم کی بارہویں سورہ جو ترتیب کے اعتبار سے بارہویں اور تیرہویں پارے میں سورہ یوسف ؑ کے نام سے مذکور ہے، یہ واقعہ فراعنہُ مصر کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔
فراعنہ فرعون کی جمع ہے۔ مصر کے مذہبی تخیل کی بناء پران فراعین یا فراعنہ کا لقب فاراع یعنی فرعون تھا یہ اس لیے کہ مصری دیوتاؤں میں سب سے بڑا اور مقدس دیوتا آمن راع (سورج دیوتا) تھا اور اس زمانے میں بادشاہ وقت اس کا اوتار کہلاتا تھا جسے فاراع کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہی لفظ فاراع عبرانی میں فاعن اور عربی میں فرعون بن گیا۔ مؤرخین عرب نے حضرت یوسف ؑ کے زمانے کے فرعون کا نام ریان لکھا ہے، جب کہ مصری آثار میں یہ آیونی کے نام سے مشہور ہے۔
ریان کا خاندان شاہی نسلی اعتبار سے عمالقہ میں سے تھا جسے تاریخ مصر میں ہکسوس کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور ان کی اصلیت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ چرواہوں کی ایک قوم تھی آج کی تحقیق سے ثابت ہورہا ہے کہ یہ قوم ''عرب'' سے آئی تھی جو عرب عاربہ کی ایک شاخ تھی تاریخ دانوں نے طبقاتی لحاظ سے عرب قوم کو 3حصوں میں تقسیم کیا ہے (۱) بائدہ (۲) عاربہ (۳)مستعربہ عرب بائدہ کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عرب جو قدیم ترین قبائل تھے ظہور اسلام کے وقت اس قوم کا وجود ختم ہوچکا تھا۔ عرب عاربہ عرب کے اصل باشندے تھے جو یمن میں آباد تھے ان کو قحطانی بھی کہا جاتا ہے ۔ عرب مستعربہ یعنی بنو اسمٰعیل حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد جو حجاز میں آباد تھی۔ ظہور اسلام کے وقت یہ قوم اپنا وجود رکھتی تھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہی ملک کے اصل باشندے تھے عدنانی قبائل کا تعلق عرب مستعربہ میں ہوتا ہے (تاریخ اسلام) قدیم قبطی اور عربی زبانوں کی مشابہت ان کے عرب ہونے کی مزید دلیل ہے۔
(ترجمان القرآن جلد2) ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شاہی نسل اس بات پر اعتقاد رکھتی تھی کہ الوہیت ان میں حلول کرگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم تاج داران مصر نے نیم خدائی حیثیت اختیار کی ہوئی تھی اسی لئے وہ راع یعنی سورج دیوتا کے اوتار سمجھے جاتے تھے۔
ریان کے شاہی دور میں اس وقت کے مصر ی وزیر خزانہ اطفیر جس کا لقب عزیز مصر تھا اس کی بیوی زَلیخا کی بدکرداری کی وجہ سے حضرت یوسف ؑ کو نا حق جیل میں جانا پڑا تھا ٹھیک اسی وقت دو اور افراد کو جیل کی سزا کا حکم سنایا گیا تھا یہ دو نوجوان تھے اور شاہی خدام تھے۔ ان میں سے ایک شاہی افراد کو شراب پلانے پر مامور تھا جب کہ دوسرا شاہی نان بائی تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں پہلے کا نام بندار اور دوسرے کا نام بحلث لکھا ہے۔ ان دونوں کو کسی ناپسند یدہ عمل پر پس دیوار زنداں ہونا پڑا تھا قرآن حکیم میں اس کا ذکر موجود ہے۔ ترجمہ:''ان میں سے ایک نے کہا میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے اور دوسرا بولا میں نے خود کو دیکھا کہ میں سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں۔ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں'' ۔ (سورہ یوسف آیت36)
حضرت یوسف ؑ اللہ کے پیغمبر تھے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ عبادت وریاضت، تقوٰی، راست بازی اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے جیل میں قید دیگر قیدیوں سے ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ اس کے علاوہ اللہ نے آپؑ کو خوابوں کی تعبیر کے علم سے بھی نوازا تھا۔ اس لیے قدرتی طور پر وہ شاہی قیدی آپ سے رجوع ہوئے۔ آپؑ نے ان کا خواب سن کر فرمایا ''میں جو تعبیر بتلاؤں گا وہ کاہنوں اور نجومیوں کی طرح قیاس پر مبنی نہ ہوگی کہ جس میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے میری تعبیر یقینی علم پر ہوگی جو اللہ کی جانب سے مجھے عطا کیا گیا ہے جس میں غلطی کا امکان ہی نہیں ہے۔
آپؑ چونکہ پیغمبر تھے اس لیے جیل میں رہ کر اپنے فرائض منصبی سے غافل نہ رہے اور دعوت و تبلیغ کا درس جاری و ساری رکھا۔ اس موقع پر آپؑ نے فرمایا۔ ترجمہ:''میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں۔ یعنی ابراہیم و اسحاق اور یعقوب کے دین کا۔ ہمیں ہر گز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کریں۔
ہم پر اور تمام لوگوں پر اللہ کا یہ خاص فضل ہے لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں۔ اے میرے قیدخانے کے ساتھیو! متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں یا ایک اللہ زبردست طاقت ور، اس کے سوا تم جن کی پوجا کرتے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے خود گھڑ لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ فرمانروائی صرف اسی ایک اللہ کی ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔''(سورہ یوسف آیات 37 تا 40) مفسرین حضرات حضرت یوسف ؑ کی جیل میں تبلیغ کے دو اسباب بیان فرماتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ کا پیغام بلا کم و کاست بندوں تک پہنچ جائے اور ان کی عاقبت سنور جائے دوسرا یہ کہ چونکہ ایک کے خواب کی تعبیر بری تھی اس لیے اسے حقانیت کی جانب راغب کیا تاکہ وہ تقدیر الٰہی کا قائل ہوجائے۔
اب آپ ؑ ان کے خوابوں کی تعبیر بیان کرتے ہیں۔ ترجمہ:''اے میرے قیدخانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مامور ہو جائے گا لیکن دوسرا سولی پر چڑھا یاجا ئے گا اور پرندے اس کا سر نوچ کر (مغز) کھائیں گے۔ تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کررہے تھے فیصلہ کردیا گیا۔'' یعنی تعبیر بتلا دی آپؑ نے دونوں میں سے کسی ایک کی تعیین نہیں فرمائی تاکہ سولی چڑھنے والا پہلے ہی غم و حزن میں مبتلا نہ ہوجائے اورجس کی نسبت حضرت یوسفؑ کا گمان تھا کہ یہ چھوٹ جائے گا، اس سے کہا اپنے بادشاہ سے میرا ذکر بھی کر دینا پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاہ سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف ؑ نے کئی سال قید خانے میں کاٹے۔ وہب بن منبہ کا قول ہے کہ حضرت یوسف ؑ سات سال قید میں رہے۔
حضرت ابن عباسؓ قید کی مدت بارہ سال بتاتے ہیں جب کہ ضحاک کا بیان ہے کہ آپؑ 14برس جیل میں رہے۔ مگر قدرت نے یہ مقرر کر رکھا تھا کہ یوسف ؑ کی پارسائی ظاہر ہوجائے اور وہ عزت و اکرام اور عصمت کے ساتھ جیل سے نکلیں، اس لیے قدرت نے یہ سبب بنایا کہ شاہ مصر یعنی فرعون کو ایک عجیب و غریب خواب دکھلایا کہ جس کی تعبیر کوئی درباری، کاہن یا نجومی نہ دے سکے۔ اس نے ایک دربار خاص منعقد کرکے ملک بھر سے تمام نجومی اور کاہن بلوائے اور اپنا پریشان خواب تعبیر کی غرض سے اس مجلس میں پیش کیا۔ ''میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی فربہ گائیں ہیں۔ جن کو سات لاغر دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات (گندم کی) بالیاں ہیں ہری ہری اور دوسری سات بالکل خشک اے درباریو! میرے خواب کی تعبیر دو اگر تم دے سکتے ہو یہ خواب کسی کی سمجھ میں نہ آیا ہر ایک بس یہی کہتا رہا کہ یہ آوارہ اور منتشر خیالات کا مجموعہ ہے، اس کی کوئی باقاعدہ لائق تعبیر نہیں ہے لہٰذا ہر ایک نے اس کی تعبیر پر معذوری کا اظہار کیا۔
اس وقت شاہی ساقی بندار کو حضرت یوسف ؑ یا د آگئے۔ آپؑ نے اس سے فرمایا تھا کہ بادشاہ سے میرا ذکر کر دینا اور چونکہ شیطان نے اسے بھلا دیا تھا آج بعد مدت کے اسے یاد آیا تو اس نے بھری مجلس میں کہا مجھے اجازت دیں تو میں اس کی تعبیر حضرت یوسف ؑ جو میرے ساتھی قیدی ہیں پوچھ کر آجاؤں، سب نے منظور کر لیا۔ اب وہ جیل میں آکر گویا ہوتا ہے: اے اللہ کے محترم نبی! بادشاہ نے ایک خواب دیکھا ہے۔ میں آپؑ سے اس کی تعبیر جاننے کے لیے حاضر ہوا ہوں آپؑ نے اس کا خواب سنا اور تہ تک پہنچ گئے۔
فرمایا''موٹی تازہ سات گائیں وہ سات سال ہیں جس میں خوب پیداوار ہوگی اور سات دبلی گائیں۔ اس کے برعکس یعنی خشک سالی ہوگی اسی طرح سات سبز خوشوں سے مراد زمین خوب پیداوار دے گی اور سات خشک خوشوں کا مقصد ہے۔ اس میں پیداوار نہیں ہوگی۔ آپؑ نے خواب کی تعبیر کے علاوہ اس کی تدبیر بھی بتلادی کہ سات سال تم متواتر کاشتکاری کرتے رہو اور جو غلہ تیا ر ہو اسے کاٹ کر بالیوں سمیت سنبھال کر رکھو تاکہ ان میں غلہ زیادہ دیر تک محفوظ رہے پھر جب سات سال قحط کے آئیں گے تو یہ غلہ تمہارے کام آئے گا جس کا ذخیرہ تم اب کرو گے۔'' جب وہ شخص تعبیر دریافت کرکے بادشاہ کے پاس گیا تو وہ تعبیر اور تدبیر سن کر بہت خوش ہوا اور متاثر بھی اور اندازہ لگایا کہ یہ شخص جسے ایک عرصہ سے حوالہ ٔ زندان کیا ہوا ہے غیرمعمولی علم و فضل کا مالک ہے اور اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل بھی۔ چنانچہ بادشاہ نے انہیں دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
حضرت یوسف ؑ نے دیکھا کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے تو آپؑ نے اس طرح کی عنایت سے جیل سے نکلنا پسند نہیں فرمایا بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپؑ کے کردار کا حسن اور اس کی بلندی واضح ہو جائے کیوںکہ داعی الی اللہ کے لیے یہ عفت، پاک بازی اور رفعت کردار ضروری ہے۔ یوسف ؑ کا یہ واقعہ اگرچہ براہ راست عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ پیش آیا تھا مگر آپؑ نے اس کا ذکر نہیںکیا بلکہ ان مصری عورتوں کا حوالہ دیا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ مصنف قصص القرآن نے اس کی دو وجوہات لکھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپؑ کو عزیزمصر کی بیوی کی جانب سے کافی تکلیف پہنچی تھی، مگر قید کے معاملے میں ان تمام عورتوں کی بھی سازش شامل تھی، کیوںکہ ہر ایک عورت آپؑ پر درپردہ دل وجان نچھاور کیے بیٹھی تھی مگر آپؑ نے ان تمام کی جانب سے بے اعتنائی برتی اس لیے وہ سب آپؑ کے خلاف سازش میں عزیز مصر کی بیوی کو شہ دیتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندان و الا معاملہ ان عورتوں کے قضیے کے بعد پیش آیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ یہ سمجھتے تھے کہ عزیزمصر نے میرے ساتھ حسن سلوک برتا ہے اور عزت و احترام بھی کیا ہے اس لیے مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ میں اس کی بیوی کا نام لے کر اس کی رسوائی کا باعث بنوں۔
بادشاہ نے جب آپؑ کی زبانی یہ سب سنا تو ان عورتوں کو بلوایا اور ان سے صاف اور صحیح بتانے کے لیے کہا کہ جب تم نے یوسف ؑ پر ڈورے ڈالے کہ تم اسے اپنی طرف مائل کرسکو تو تم نے اسے کیسا پایا؟ وہ تمام بولیں ہم نے اس میں برائی کی کوئی بات نہیں پائی۔ دربار میں اطفیر یا فو طیفار کی بیوی زلیخا بھی موجود تھی۔ شدت جذبات سے مغلوب ہوکر آگے بڑھی اور بے اختیار بول اٹھی۔ ترجمہ:''جو حقیقت تھی وہ ظاہر ہوگئی ہاں وہ میں ہی تھی جس نے یوسف پر ڈورے ڈالے تھے کہ اپنا دل ہار بیٹھے۔ بلاشبہ وہ اپنے بیان میں بالکل سچا ہے۔''(یوسف آیت 51)
امام رازی فرماتے ہیں کہ یوسف ؑ خدا کے سچے پیغمبر اور نبی معصوم تھے اس لیے ان کا دامن ہر قسم کی آلائش سے پاک رہا۔ اس لیے خدائے تعالیٰ کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ اس واقعے سے متعلق جتنی بھی شخصیات تھیں ان سب کی زبان سے ان کی طہارت نفس اور عصمت کا اعتراف کروایا جن میں عزیزمصر کی بیوی، شہر ی عورتیں اور عزیز کی بیوی کے رشتہ دار شامل ہیں۔ ان تمام کی شہادتوں کے بعد فرعون پر حقیقت حال منکشف ہوگئی اور وہ دل ہی دل میں آپؑ کا گرویدہ ہوگیا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا، یعنی ایمان لے آیا تھا۔ اس نے اہل دربار کو حکم دیا کہ اس کو جلد میرے پاس لاؤ کہ میں اس کو خاص اپنے کاموں کے لیے مقرر کردوں۔ پھر جب آپؑ تشریف لائے تو پوچھنے لگا کہ میرے خواب میں جس قحط سالی کا ذکر ہے اس کے متعلق مجھے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہییں آپؑ نے ارشاد فرمایا ترجمہ ''اپنی مملکت کے خزانوں پر آپ مجھے مختار کر دیجیے میں حفاظت کر سکتا ہوں اور میں اس کا م کا جاننے والا ہوں۔''
چنانچہ ریان نے ایسا ہی کیا اور حضرت یوسف ؑ کو اپنی تمام مملکت کا امین و کفیل مقرر کردیا اور شاہی خزانوں کی کنجیاں آپؑ کے حوالے کرکے مختار عام کردیا قرآن حکیم نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔ ترجمہ:''بلاشبہ تو آج کے دن ہماری نگاہوں میں بڑا صاحب اقتدار اور امانت دار ہے۔'' مزید حوالہ و تفصیل کے لیے دیکھیے سورہ یوسف آیات35تا 56۔
فراعنہ فرعون کی جمع ہے۔ مصر کے مذہبی تخیل کی بناء پران فراعین یا فراعنہ کا لقب فاراع یعنی فرعون تھا یہ اس لیے کہ مصری دیوتاؤں میں سب سے بڑا اور مقدس دیوتا آمن راع (سورج دیوتا) تھا اور اس زمانے میں بادشاہ وقت اس کا اوتار کہلاتا تھا جسے فاراع کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہی لفظ فاراع عبرانی میں فاعن اور عربی میں فرعون بن گیا۔ مؤرخین عرب نے حضرت یوسف ؑ کے زمانے کے فرعون کا نام ریان لکھا ہے، جب کہ مصری آثار میں یہ آیونی کے نام سے مشہور ہے۔
ریان کا خاندان شاہی نسلی اعتبار سے عمالقہ میں سے تھا جسے تاریخ مصر میں ہکسوس کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور ان کی اصلیت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ چرواہوں کی ایک قوم تھی آج کی تحقیق سے ثابت ہورہا ہے کہ یہ قوم ''عرب'' سے آئی تھی جو عرب عاربہ کی ایک شاخ تھی تاریخ دانوں نے طبقاتی لحاظ سے عرب قوم کو 3حصوں میں تقسیم کیا ہے (۱) بائدہ (۲) عاربہ (۳)مستعربہ عرب بائدہ کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عرب جو قدیم ترین قبائل تھے ظہور اسلام کے وقت اس قوم کا وجود ختم ہوچکا تھا۔ عرب عاربہ عرب کے اصل باشندے تھے جو یمن میں آباد تھے ان کو قحطانی بھی کہا جاتا ہے ۔ عرب مستعربہ یعنی بنو اسمٰعیل حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد جو حجاز میں آباد تھی۔ ظہور اسلام کے وقت یہ قوم اپنا وجود رکھتی تھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہی ملک کے اصل باشندے تھے عدنانی قبائل کا تعلق عرب مستعربہ میں ہوتا ہے (تاریخ اسلام) قدیم قبطی اور عربی زبانوں کی مشابہت ان کے عرب ہونے کی مزید دلیل ہے۔
(ترجمان القرآن جلد2) ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شاہی نسل اس بات پر اعتقاد رکھتی تھی کہ الوہیت ان میں حلول کرگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم تاج داران مصر نے نیم خدائی حیثیت اختیار کی ہوئی تھی اسی لئے وہ راع یعنی سورج دیوتا کے اوتار سمجھے جاتے تھے۔
ریان کے شاہی دور میں اس وقت کے مصر ی وزیر خزانہ اطفیر جس کا لقب عزیز مصر تھا اس کی بیوی زَلیخا کی بدکرداری کی وجہ سے حضرت یوسف ؑ کو نا حق جیل میں جانا پڑا تھا ٹھیک اسی وقت دو اور افراد کو جیل کی سزا کا حکم سنایا گیا تھا یہ دو نوجوان تھے اور شاہی خدام تھے۔ ان میں سے ایک شاہی افراد کو شراب پلانے پر مامور تھا جب کہ دوسرا شاہی نان بائی تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں پہلے کا نام بندار اور دوسرے کا نام بحلث لکھا ہے۔ ان دونوں کو کسی ناپسند یدہ عمل پر پس دیوار زنداں ہونا پڑا تھا قرآن حکیم میں اس کا ذکر موجود ہے۔ ترجمہ:''ان میں سے ایک نے کہا میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے اور دوسرا بولا میں نے خود کو دیکھا کہ میں سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں۔ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں'' ۔ (سورہ یوسف آیت36)
حضرت یوسف ؑ اللہ کے پیغمبر تھے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ عبادت وریاضت، تقوٰی، راست بازی اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے جیل میں قید دیگر قیدیوں سے ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ اس کے علاوہ اللہ نے آپؑ کو خوابوں کی تعبیر کے علم سے بھی نوازا تھا۔ اس لیے قدرتی طور پر وہ شاہی قیدی آپ سے رجوع ہوئے۔ آپؑ نے ان کا خواب سن کر فرمایا ''میں جو تعبیر بتلاؤں گا وہ کاہنوں اور نجومیوں کی طرح قیاس پر مبنی نہ ہوگی کہ جس میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے میری تعبیر یقینی علم پر ہوگی جو اللہ کی جانب سے مجھے عطا کیا گیا ہے جس میں غلطی کا امکان ہی نہیں ہے۔
آپؑ چونکہ پیغمبر تھے اس لیے جیل میں رہ کر اپنے فرائض منصبی سے غافل نہ رہے اور دعوت و تبلیغ کا درس جاری و ساری رکھا۔ اس موقع پر آپؑ نے فرمایا۔ ترجمہ:''میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں۔ یعنی ابراہیم و اسحاق اور یعقوب کے دین کا۔ ہمیں ہر گز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کریں۔
ہم پر اور تمام لوگوں پر اللہ کا یہ خاص فضل ہے لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں۔ اے میرے قیدخانے کے ساتھیو! متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں یا ایک اللہ زبردست طاقت ور، اس کے سوا تم جن کی پوجا کرتے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے خود گھڑ لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ فرمانروائی صرف اسی ایک اللہ کی ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔''(سورہ یوسف آیات 37 تا 40) مفسرین حضرات حضرت یوسف ؑ کی جیل میں تبلیغ کے دو اسباب بیان فرماتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ کا پیغام بلا کم و کاست بندوں تک پہنچ جائے اور ان کی عاقبت سنور جائے دوسرا یہ کہ چونکہ ایک کے خواب کی تعبیر بری تھی اس لیے اسے حقانیت کی جانب راغب کیا تاکہ وہ تقدیر الٰہی کا قائل ہوجائے۔
اب آپ ؑ ان کے خوابوں کی تعبیر بیان کرتے ہیں۔ ترجمہ:''اے میرے قیدخانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مامور ہو جائے گا لیکن دوسرا سولی پر چڑھا یاجا ئے گا اور پرندے اس کا سر نوچ کر (مغز) کھائیں گے۔ تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کررہے تھے فیصلہ کردیا گیا۔'' یعنی تعبیر بتلا دی آپؑ نے دونوں میں سے کسی ایک کی تعیین نہیں فرمائی تاکہ سولی چڑھنے والا پہلے ہی غم و حزن میں مبتلا نہ ہوجائے اورجس کی نسبت حضرت یوسفؑ کا گمان تھا کہ یہ چھوٹ جائے گا، اس سے کہا اپنے بادشاہ سے میرا ذکر بھی کر دینا پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاہ سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف ؑ نے کئی سال قید خانے میں کاٹے۔ وہب بن منبہ کا قول ہے کہ حضرت یوسف ؑ سات سال قید میں رہے۔
حضرت ابن عباسؓ قید کی مدت بارہ سال بتاتے ہیں جب کہ ضحاک کا بیان ہے کہ آپؑ 14برس جیل میں رہے۔ مگر قدرت نے یہ مقرر کر رکھا تھا کہ یوسف ؑ کی پارسائی ظاہر ہوجائے اور وہ عزت و اکرام اور عصمت کے ساتھ جیل سے نکلیں، اس لیے قدرت نے یہ سبب بنایا کہ شاہ مصر یعنی فرعون کو ایک عجیب و غریب خواب دکھلایا کہ جس کی تعبیر کوئی درباری، کاہن یا نجومی نہ دے سکے۔ اس نے ایک دربار خاص منعقد کرکے ملک بھر سے تمام نجومی اور کاہن بلوائے اور اپنا پریشان خواب تعبیر کی غرض سے اس مجلس میں پیش کیا۔ ''میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی فربہ گائیں ہیں۔ جن کو سات لاغر دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات (گندم کی) بالیاں ہیں ہری ہری اور دوسری سات بالکل خشک اے درباریو! میرے خواب کی تعبیر دو اگر تم دے سکتے ہو یہ خواب کسی کی سمجھ میں نہ آیا ہر ایک بس یہی کہتا رہا کہ یہ آوارہ اور منتشر خیالات کا مجموعہ ہے، اس کی کوئی باقاعدہ لائق تعبیر نہیں ہے لہٰذا ہر ایک نے اس کی تعبیر پر معذوری کا اظہار کیا۔
اس وقت شاہی ساقی بندار کو حضرت یوسف ؑ یا د آگئے۔ آپؑ نے اس سے فرمایا تھا کہ بادشاہ سے میرا ذکر کر دینا اور چونکہ شیطان نے اسے بھلا دیا تھا آج بعد مدت کے اسے یاد آیا تو اس نے بھری مجلس میں کہا مجھے اجازت دیں تو میں اس کی تعبیر حضرت یوسف ؑ جو میرے ساتھی قیدی ہیں پوچھ کر آجاؤں، سب نے منظور کر لیا۔ اب وہ جیل میں آکر گویا ہوتا ہے: اے اللہ کے محترم نبی! بادشاہ نے ایک خواب دیکھا ہے۔ میں آپؑ سے اس کی تعبیر جاننے کے لیے حاضر ہوا ہوں آپؑ نے اس کا خواب سنا اور تہ تک پہنچ گئے۔
فرمایا''موٹی تازہ سات گائیں وہ سات سال ہیں جس میں خوب پیداوار ہوگی اور سات دبلی گائیں۔ اس کے برعکس یعنی خشک سالی ہوگی اسی طرح سات سبز خوشوں سے مراد زمین خوب پیداوار دے گی اور سات خشک خوشوں کا مقصد ہے۔ اس میں پیداوار نہیں ہوگی۔ آپؑ نے خواب کی تعبیر کے علاوہ اس کی تدبیر بھی بتلادی کہ سات سال تم متواتر کاشتکاری کرتے رہو اور جو غلہ تیا ر ہو اسے کاٹ کر بالیوں سمیت سنبھال کر رکھو تاکہ ان میں غلہ زیادہ دیر تک محفوظ رہے پھر جب سات سال قحط کے آئیں گے تو یہ غلہ تمہارے کام آئے گا جس کا ذخیرہ تم اب کرو گے۔'' جب وہ شخص تعبیر دریافت کرکے بادشاہ کے پاس گیا تو وہ تعبیر اور تدبیر سن کر بہت خوش ہوا اور متاثر بھی اور اندازہ لگایا کہ یہ شخص جسے ایک عرصہ سے حوالہ ٔ زندان کیا ہوا ہے غیرمعمولی علم و فضل کا مالک ہے اور اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل بھی۔ چنانچہ بادشاہ نے انہیں دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
حضرت یوسف ؑ نے دیکھا کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے تو آپؑ نے اس طرح کی عنایت سے جیل سے نکلنا پسند نہیں فرمایا بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپؑ کے کردار کا حسن اور اس کی بلندی واضح ہو جائے کیوںکہ داعی الی اللہ کے لیے یہ عفت، پاک بازی اور رفعت کردار ضروری ہے۔ یوسف ؑ کا یہ واقعہ اگرچہ براہ راست عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ پیش آیا تھا مگر آپؑ نے اس کا ذکر نہیںکیا بلکہ ان مصری عورتوں کا حوالہ دیا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ مصنف قصص القرآن نے اس کی دو وجوہات لکھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپؑ کو عزیزمصر کی بیوی کی جانب سے کافی تکلیف پہنچی تھی، مگر قید کے معاملے میں ان تمام عورتوں کی بھی سازش شامل تھی، کیوںکہ ہر ایک عورت آپؑ پر درپردہ دل وجان نچھاور کیے بیٹھی تھی مگر آپؑ نے ان تمام کی جانب سے بے اعتنائی برتی اس لیے وہ سب آپؑ کے خلاف سازش میں عزیز مصر کی بیوی کو شہ دیتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندان و الا معاملہ ان عورتوں کے قضیے کے بعد پیش آیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ یہ سمجھتے تھے کہ عزیزمصر نے میرے ساتھ حسن سلوک برتا ہے اور عزت و احترام بھی کیا ہے اس لیے مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ میں اس کی بیوی کا نام لے کر اس کی رسوائی کا باعث بنوں۔
بادشاہ نے جب آپؑ کی زبانی یہ سب سنا تو ان عورتوں کو بلوایا اور ان سے صاف اور صحیح بتانے کے لیے کہا کہ جب تم نے یوسف ؑ پر ڈورے ڈالے کہ تم اسے اپنی طرف مائل کرسکو تو تم نے اسے کیسا پایا؟ وہ تمام بولیں ہم نے اس میں برائی کی کوئی بات نہیں پائی۔ دربار میں اطفیر یا فو طیفار کی بیوی زلیخا بھی موجود تھی۔ شدت جذبات سے مغلوب ہوکر آگے بڑھی اور بے اختیار بول اٹھی۔ ترجمہ:''جو حقیقت تھی وہ ظاہر ہوگئی ہاں وہ میں ہی تھی جس نے یوسف پر ڈورے ڈالے تھے کہ اپنا دل ہار بیٹھے۔ بلاشبہ وہ اپنے بیان میں بالکل سچا ہے۔''(یوسف آیت 51)
امام رازی فرماتے ہیں کہ یوسف ؑ خدا کے سچے پیغمبر اور نبی معصوم تھے اس لیے ان کا دامن ہر قسم کی آلائش سے پاک رہا۔ اس لیے خدائے تعالیٰ کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ اس واقعے سے متعلق جتنی بھی شخصیات تھیں ان سب کی زبان سے ان کی طہارت نفس اور عصمت کا اعتراف کروایا جن میں عزیزمصر کی بیوی، شہر ی عورتیں اور عزیز کی بیوی کے رشتہ دار شامل ہیں۔ ان تمام کی شہادتوں کے بعد فرعون پر حقیقت حال منکشف ہوگئی اور وہ دل ہی دل میں آپؑ کا گرویدہ ہوگیا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا، یعنی ایمان لے آیا تھا۔ اس نے اہل دربار کو حکم دیا کہ اس کو جلد میرے پاس لاؤ کہ میں اس کو خاص اپنے کاموں کے لیے مقرر کردوں۔ پھر جب آپؑ تشریف لائے تو پوچھنے لگا کہ میرے خواب میں جس قحط سالی کا ذکر ہے اس کے متعلق مجھے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہییں آپؑ نے ارشاد فرمایا ترجمہ ''اپنی مملکت کے خزانوں پر آپ مجھے مختار کر دیجیے میں حفاظت کر سکتا ہوں اور میں اس کا م کا جاننے والا ہوں۔''
چنانچہ ریان نے ایسا ہی کیا اور حضرت یوسف ؑ کو اپنی تمام مملکت کا امین و کفیل مقرر کردیا اور شاہی خزانوں کی کنجیاں آپؑ کے حوالے کرکے مختار عام کردیا قرآن حکیم نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔ ترجمہ:''بلاشبہ تو آج کے دن ہماری نگاہوں میں بڑا صاحب اقتدار اور امانت دار ہے۔'' مزید حوالہ و تفصیل کے لیے دیکھیے سورہ یوسف آیات35تا 56۔