حکومت عوامی ریلیف کے نام سے خائف

حکومت سنجیدگی سے مہنگائی کے معاشی اثرات اور تباہ کن نتائج کا ادراک کرے۔


Editorial January 18, 2020
حکومت سنجیدگی سے مہنگائی کے معاشی اثرات اور تباہ کن نتائج کا ادراک کرے۔ فوٹو: فائل

LONDON: مہنگائی کے عفریت کوکنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے اپنے اہداف کی سمت درست کرلی ہے۔ ماہرین کے مطابق وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی مخدوم خسرو بختیار اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کی سفارشات پر عملدرآمدکے لیے اقدامات تیزکیے جا رہے ہیں۔

گندم امپورٹ کی باضابطہ منظوری آیندہ ہفتے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں دی جائے گی۔ ذرایع کے مطابق اس بات پر بھی غورکیا جا رہا ہے کہ گندم امپورٹ پر عائد 5 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس کو برقرار رکھا جائے یا اسے بھی ختم کر دیا جائے۔

وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی درخواست پر کے پی کے کو پاسکو کے ذخائر میں سے مزید 1 لاکھ ٹن گندم فراہم کرنے کی منظوری بھی دیدی ہے جس کے بعد خیبر پختونخوا کو پاسکو سے ملنے والی سبسڈائزڈ گندم کی مجموعی مقدار 5 لاکھ 50 ہزار ٹن ہو جائے گی۔ ذرایع کے مطابق وفاقی حکومت یوٹیلٹی اسٹورزکارپوریشن کے لیے مختص کردہ دو لاکھ ٹن گندم کی مقدار کم کرکے ایک لاکھ ٹن کرنے پر بھی غورکر رہی ہے۔

میڈیا کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں جاری آٹا وگندم بحران کے خاتمہ کے لیے 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اصولی منظوری دیدی ہے، جب کہ گندم کی امپورٹ پر عائد60 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کی چھوٹ بھی دیدی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی سے متاثرہ عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے، مارکیٹ میں منافع خوری حد سے زیادہ ہوگئی ہے، غریب عوام تو درکنار متوسط طبقے کے لیے روزمرہ کی اشیا خریدنا پریشان کن مسئلہ بن گیا ہے جب کہ حکومت کے پاس ماسوائے خوشنما وعدوں کے قیمتوں کوکنٹرول کرنے کا کوئی قابل اعتبار میکنزم نہیں، اشیائے ضرورت ، سبزیوں، پھلوں سے لے کر ملبوسات، کاسمیٹکس، دوائیں، تعلیم اور صحت ، علاج معالجے کے اخراجات ،حتیٰ کہ ڈاکٹروں کی فیسوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کے اعصاب شل اور ذہنی دباؤکا شکار کر دیا ہے۔نان بھائیوں نے روٹی، چپاتی ، نان اور قندھاری نان کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کردیا ہے۔قیمتوں کو منجمدکرنے کی کوئی ضمانت نہیں۔

ادھر معتبر ذرایع کاکہنا ہے کہ معاشی بد حالی کے باعث 31 فیصد پاکستانی ملازمتوں سے فارغ کر دیے گئے ہیں، جس کا اندازہ بڑھتی ہوئی غربت اور جرائم کی وارداتوں سے لگایا جاسکتاہے۔ حکومت عوامی ریلیف کے نام سے خائف ہے، معاشی مسیحاؤں کے پاس معاشی انحطاط کا کوئی درماں اور ازالے کی کوئی تدبیر نہیں۔ بیروزگاری سے عوامی حلقوں کی تشویش مسائل کی سنگینی کا پیش خیمہ ہے۔ فوڈ اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کی نظریں آٹے اور گندم پرمرکوز ہیں، بالخصوص افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں سرگرم مافیائیں گندم اور آٹے کی غیر قانونی نقل وحمل کے بہانے ڈھونڈ رہی ہیں جن پر چیک رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔

ادھر پنجاب حکومت نے صوبے میں آٹا بحران کے خاتمے اور مستقبل میں اس سے بچنے کے لیے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے تعاون سے جدید کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کروا لیا ہے، یہ سافٹ ویئر 24 جنوری کو محکمہ خوراک کے حوالے کردیا جائے گا۔

پنجاب کی ہر فلور مل کو سافٹ ویئر ڈیش بورڈ میں شامل کر کے مخصوص لاگ ان اور پاس ورڈ فراہم کیا جائے گا اور اسے پابند کیا جائے گا کہ ہر مل روزانہ کی بنیاد پر اس سافٹ ویئر میں یہ تفصیلات فراہم کرے گی کہ اس نے آج محکمہ خوراک سے کتنی گندم خریدی ہے اور اس کے پاس پرائیویٹ گندم کے اسٹاکس کتنے ہیں اور اس نے آج کتنا آٹا تیار کیا اور کس پیکنگ اور مقدار میں کس کس ڈیلر اور دکاندارکو ارسال کیا، سافٹ ویئر میں فلور مل کا گیٹ پاس بھی اسکین کر کے اپ لوڈ کیا جائے گا۔ سرکاری حکام کے مطابق اس سافٹ ویئر کے فعال ہونے سے گندم اور آٹے کی موثر مانیٹرنگ کا نظام بن جائے گا۔

گزشتہ روز لاہورکی مارکیٹ میں فلورملز نے آٹے کے1 لاکھ40 ہزار تھیلے سپلائی کیے، ملز کی جانب سے سپلائی بڑھائے جانے کے باوجود متوقع نتائج کے حصول میں سست روی کا سبب ڈیلرز اور دکانداروں کی ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے، گزشتہ روز بھی اسسٹنٹ کمشنر کینٹ لاہور نے ایک دکان پر چھاپہ مار کر ذخیرہ کیا گیا اسٹاک آٹا برآمد کیا جب کہ آٹا بحران کی اطلاعات نے عوام میں ہیجان پیدا کیا ہے اور لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ آٹا خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکومت سنجیدگی سے مہنگائی کے معاشی اثرات اور تباہ کن نتائج کا ادراک کرے، عوام کے لیے زندگی کے مصارف پورا کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے، ملک بھر میںگیس بند ہے،گھروں کے چولھے جل نہیں رہے، بچے بغیر ناشتہ اسکول جانے پر مجبور ہیں، اسکول کی کنٹین سے بسکٹوں پر گزارا کررہے ہیں۔ ارباب اختیار معیشت کے استحکام کے دعوے ضرورکریں مگر عوام کو تو ریلیف چاہیے، وہ مل ہی نہیں رہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں