بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین کا المیہ
بلدیہ عظمیٰ کی تاریخ اس حوالے سے اس قدر مختلف ہے کہ یہ تاریخ تاریخ نہیں بلکہ دکھوں اور المیوں کی کہانی ہے۔
ہم نے ریٹائرڈ ملازمین کے حوالے سے تین چار کالم لکھے تھے، ان کے حوالے سے اگر ہمدردی کے دو بول کوئی کہہ دیتا ہے تو ریٹائرڈ ملازمین ایسے لوگوں کے شکر گزار ہوتے ہیں ہم نے چونکہ اس حوالے سے کالم لکھے ہیں لہٰذا کسی نہ کسی طرح ہمارے گھر کا پتہ لگا کر تشریف لاتے رہتے ہیں اور ہمارا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہم سے درخواست کرتے ہیں کہ ہم ان کے لیے اس سے زیادہ کچھ کریں لیکن ہم حیران ہیں کہ اس چوپٹ راج میں جو جاری و ساری ہے ہم اور کیا کرسکتے ہیں؟ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اب تک کہا جا رہا ہے دو درجن سے زیادہ ریٹائرڈ ملازمین واجبات کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک کر ابدی نیند سو چکے ہیں اور بہت سارے ملازمین لب گور ہیں یہ ایسا المیہ ہے جو پاکستان کے علاوہ کہیں اور شاید نہیں دیکھا جاسکتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن ملازمین نے اپنی زندگی کا تین چوتھائی حصہ سرکاری ملازمت میں گزارا اور اپنی جوانی اس ملازمت کے حوالے کی کیا ان کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے۔ ان ملازمین میں زیادہ تعداد اساتذہ کی بتائی جاتی ہے، جن میں خواتین اساتذہ کی تعداد قابل ذکر ہے اب ذرا غور فرمائیے ضعیف خواتین اس لامتناہی بھاگ دوڑ میں حصہ لے سکتی ہیں؟ جب کہ ان کے پاس بسوں کے کرائے کے پیسے تک نہیں ہوتے۔ یہ ایسا دردناک المیہ ہے جس کا نوٹس نہ لینا سراسر بے حسی اور غیر ذمے داری ہے۔
پچھلے دنوں کے ایم سی کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات اور ریٹائرڈ ملازمین کے دردناک ناک حالات پر پاکستان کے دوسرے بڑے اخبار ایکسپریس نے ایک پر اثر ، پردرد ادارتی نوٹ لکھا تھا امید کی جا رہی تھی کہ حکومت اس ادارتی نوٹ کا نوٹس لے کر ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کرے گی لیکن ریٹائرڈ ملازمین کے لٹکے ہوئے چہرے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ان کے مسئلے پر حسب سابق حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی اور وہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ دوسرے سرکاری محکموں میں ملازم کے ریٹائر ہونے سے قبل ہی واجبات کا حساب کتاب کرکے تیار رکھا جاتا ہے اور جیسے ہی ملازم ریٹائرڈ ہوتا ہے اس کے واجبات کا چیک اس کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔
لیکن بلدیہ عظمیٰ کی تاریخ اس حوالے سے اس قدر مختلف ہے کہ یہ تاریخ تاریخ نہیں بلکہ دکھوں اور المیوں کی کہانی ہے بلدیہ کے ملازمین کے قیمتی سال لگا دیتے ہیں بعض ملازمین کی سروس چالیس سال ہو جاتی ہے لیکن واجبات کے حوالے سے کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے کوئی جواب دینے والا بھی نہیں ہوتا سوال یہ ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کس کے پاس جائیں؟
بلدیہ عظمیٰ کو مسلسل یہ شکایت ہے کہ انھیں متعلقہ ادارے فنڈ نہیں دیتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلدیہ جیسے شہر کی خدمت کرنے والے ادارے کو اگر اس کا حق نہ دیا جائے تو وہ کیا کرسکتا ہے؟ آج پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی صفائی پانی اور ریٹائرڈ ملازمین کی زبوں حالی کی وجہ جو قابل شرم حالت بنی ہوئی ہے اس کی مثال دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ میئر کراچی کو یہ شکایت ہے کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے سارے کام ادھورے پڑے ہیں یا شروع ہی نہیں ہوسکے ہیں۔ اگر یہ الزام درست ہے تو صوبائی حکومت کے لیے باعث شرم ہے۔
سرکاری ملازمین ریٹائر ہونے سے پہلے مستقبل کے بہت سارے پروگرام بناتے ہیں جن میں بچوں کی شادی، عمرے کی ادائیگی، گھروں کی تعمیر وغیرہ شامل ہے لیکن واجبات نہ ملنے سے یہ سارے کام لٹکے رہ جاتے ہیں۔ ہماری صوبائی حکومت میں بڑے معروف لوگ شامل ہیں ان کی یہ ذمے داری ہے کہ بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین کو اس غیر انسانی سلوک سے بچائیں ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کریں جو ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی میں روڑا بنے ہوئے ہیں۔ جو لوگ آج پھنے خان بنے ہوئے ہیں انھیں بھی کل ریٹائر ہونا ہے پھر۔۔۔؟
ہم نے کسی اشرافیائی حکومت کی کوئی تعریف نہیں کی کیونکہ عوام سے ان کا رابطہ ہی نہیں رہتا تھا نہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے تھے۔ پہلی بار بہت کھل کر بغیر کسی ریزرویشن کے ہم نے عمران حکومت کی بالکل غیر مشروط اور رضاکارانہ حمایت کی اس کی وجہ یہ نہیں کہ عمران حکومت عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا رہی ہے بلکہ صرف اور صرف اس لیے کہ عمران نے اشرافیہ کا تسلسل توڑ دیا ہے لیکن اس تسلسل کو توڑنے کا مطلب عوامی مسائل کو تیزی سے حل کرنا ہے۔ اگر عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے اور عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے انتظار کرتے کرتے آسمان پر چلے جاتے ہیں تو اس تبدیلی کا فائدہ کیا؟
میئر کراچی کی ذمے داری ہے کہ وہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات دلانے میں پہل کریں اور تمام رکاوٹیں دور کرکے سب سے پہلے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات دلا کر ان کی دعائیں لیں ہماری حکومت سندھ سے بھی اپیل ہے کہ وہ بلدیہ کے فنڈ جاری کرکے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کریں تاکہ وہ ان مسائل سے نکل سکیں جو متعلقہ اکابرین کے ڈوب مرنے کا جواز بن گئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن ملازمین نے اپنی زندگی کا تین چوتھائی حصہ سرکاری ملازمت میں گزارا اور اپنی جوانی اس ملازمت کے حوالے کی کیا ان کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے۔ ان ملازمین میں زیادہ تعداد اساتذہ کی بتائی جاتی ہے، جن میں خواتین اساتذہ کی تعداد قابل ذکر ہے اب ذرا غور فرمائیے ضعیف خواتین اس لامتناہی بھاگ دوڑ میں حصہ لے سکتی ہیں؟ جب کہ ان کے پاس بسوں کے کرائے کے پیسے تک نہیں ہوتے۔ یہ ایسا دردناک المیہ ہے جس کا نوٹس نہ لینا سراسر بے حسی اور غیر ذمے داری ہے۔
پچھلے دنوں کے ایم سی کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات اور ریٹائرڈ ملازمین کے دردناک ناک حالات پر پاکستان کے دوسرے بڑے اخبار ایکسپریس نے ایک پر اثر ، پردرد ادارتی نوٹ لکھا تھا امید کی جا رہی تھی کہ حکومت اس ادارتی نوٹ کا نوٹس لے کر ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کرے گی لیکن ریٹائرڈ ملازمین کے لٹکے ہوئے چہرے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ان کے مسئلے پر حسب سابق حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی اور وہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ دوسرے سرکاری محکموں میں ملازم کے ریٹائر ہونے سے قبل ہی واجبات کا حساب کتاب کرکے تیار رکھا جاتا ہے اور جیسے ہی ملازم ریٹائرڈ ہوتا ہے اس کے واجبات کا چیک اس کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔
لیکن بلدیہ عظمیٰ کی تاریخ اس حوالے سے اس قدر مختلف ہے کہ یہ تاریخ تاریخ نہیں بلکہ دکھوں اور المیوں کی کہانی ہے بلدیہ کے ملازمین کے قیمتی سال لگا دیتے ہیں بعض ملازمین کی سروس چالیس سال ہو جاتی ہے لیکن واجبات کے حوالے سے کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے کوئی جواب دینے والا بھی نہیں ہوتا سوال یہ ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کس کے پاس جائیں؟
بلدیہ عظمیٰ کو مسلسل یہ شکایت ہے کہ انھیں متعلقہ ادارے فنڈ نہیں دیتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلدیہ جیسے شہر کی خدمت کرنے والے ادارے کو اگر اس کا حق نہ دیا جائے تو وہ کیا کرسکتا ہے؟ آج پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی صفائی پانی اور ریٹائرڈ ملازمین کی زبوں حالی کی وجہ جو قابل شرم حالت بنی ہوئی ہے اس کی مثال دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ میئر کراچی کو یہ شکایت ہے کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے سارے کام ادھورے پڑے ہیں یا شروع ہی نہیں ہوسکے ہیں۔ اگر یہ الزام درست ہے تو صوبائی حکومت کے لیے باعث شرم ہے۔
سرکاری ملازمین ریٹائر ہونے سے پہلے مستقبل کے بہت سارے پروگرام بناتے ہیں جن میں بچوں کی شادی، عمرے کی ادائیگی، گھروں کی تعمیر وغیرہ شامل ہے لیکن واجبات نہ ملنے سے یہ سارے کام لٹکے رہ جاتے ہیں۔ ہماری صوبائی حکومت میں بڑے معروف لوگ شامل ہیں ان کی یہ ذمے داری ہے کہ بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین کو اس غیر انسانی سلوک سے بچائیں ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کریں جو ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی میں روڑا بنے ہوئے ہیں۔ جو لوگ آج پھنے خان بنے ہوئے ہیں انھیں بھی کل ریٹائر ہونا ہے پھر۔۔۔؟
ہم نے کسی اشرافیائی حکومت کی کوئی تعریف نہیں کی کیونکہ عوام سے ان کا رابطہ ہی نہیں رہتا تھا نہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے تھے۔ پہلی بار بہت کھل کر بغیر کسی ریزرویشن کے ہم نے عمران حکومت کی بالکل غیر مشروط اور رضاکارانہ حمایت کی اس کی وجہ یہ نہیں کہ عمران حکومت عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا رہی ہے بلکہ صرف اور صرف اس لیے کہ عمران نے اشرافیہ کا تسلسل توڑ دیا ہے لیکن اس تسلسل کو توڑنے کا مطلب عوامی مسائل کو تیزی سے حل کرنا ہے۔ اگر عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے اور عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے انتظار کرتے کرتے آسمان پر چلے جاتے ہیں تو اس تبدیلی کا فائدہ کیا؟
میئر کراچی کی ذمے داری ہے کہ وہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات دلانے میں پہل کریں اور تمام رکاوٹیں دور کرکے سب سے پہلے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات دلا کر ان کی دعائیں لیں ہماری حکومت سندھ سے بھی اپیل ہے کہ وہ بلدیہ کے فنڈ جاری کرکے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کریں تاکہ وہ ان مسائل سے نکل سکیں جو متعلقہ اکابرین کے ڈوب مرنے کا جواز بن گئے ہیں۔