سعادت حسن منٹو سماج کا باغی
تمام ترادبی زندگی میں زیرعتاب رہنے والے منٹوکو2012ء میں تمغہ حسن کارکردگی حکومت پاکستان کی جانب سے بعدازمرگ عطا کیاگیا
BERLIN:
حقیقی ادیب کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں ناہمواریوں کو زیادہ شدت سے محسوس کرتا ہے، یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ وہ ان ناہمواریوں کو محسوس کرتا ہے اورکڑھتا رہتا ہے مگر جب وہ ادیب ان ناہمواریوں کو قلم بندکرتا ہے اور سماج کو اس کی حقیقی تصویر دکھاتا ہے تو پھر وہ ادیب ایک ادیب نہیں رہتا بلکہ ایک مجرم بن جاتا ہے جس کے لیے یہ سماج والے خود ساختہ سزا بھی تجویز کر لیتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی اس کے ساتھ بھی رویہ رکھا گیا کہ یہ تو ادب کی آڑ میں فحاشی پھیلا رہا ہے جس سے سماج میں بے راہ روی پھیلے گی اور سماج میں بگاڑ پیدا ہو گا۔ ہم ذکر خیر کر رہے ہیں منٹو کا، پورا نام سعادت حسن منٹو تھا جنھوں نے 11 مئی 1912ء کو مشرقی پنجاب کے شہر سمبرالہ ضلع لدھیانہ میں مولوی غلام حسن کے گھرانے میں جنم لیا۔ مولوی غلام حسن کا گھرانہ چونکہ مکمل مذہبی گھرانہ تھا اسی لیے لازمی طور پر ان کی شدید خواہش رہی ہوگی کہ ان کا بیٹا مذہبی مبلغ بنے مگر ان کا بیٹا تو سماج کی ناہمواریوں کے خلاف بغاوت کا عزم کرچکا تھا۔
منٹو کے حصول تعلیم کا آغاز امرتسر سے ہوا اور امرتسر سے ہی انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ علی گڑھ میں ہی حصول تعلیم کے دوران ان کی ملاقات نامور صحافی و ادیب باری علیگ سے ہوئی جوکہ بعدازاں دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ یہ باری علیگ ہی تھے جنھوں نے منٹوں کی نظریاتی تربیت کی تھی۔ گویا باری علیگ منٹوکے نظریاتی استاد تھے، جن کی بدولت منٹو ترقی پسند نظریات سے روشناس ہوئے۔
منٹو نے اپنے ادبی سفرکا آغاز افسانہ '' تماشہ '' تخلیق کر کے کیا، ان کا یہ افسانہ ہفت روزہ خلق امرتسر سے شایع ہوا۔ یہ شمارہ جس میں منٹوکا افسانہ شایع ہوا ہفت روزہ خلق کا اولین شمارہ تھا، البتہ یہ ضرور تھا کہ منٹو کا یہ افسانہ فرضی نام سے شایع ہوا۔ بعدازاں انھوں نے اپنے حقیقی نام سے ادب تخلیق کیا، انھوں نے گوگول، آسکر وائلڈ، موپساں، وکٹرہیوگو ،گورکی ،چیخوف ،لارڈ لٹن پشکن کے تحریر کردہ ادب کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا اور ان شہرہ آفاق ادبا کے ادب کو اردو زبان میں ترجمہ کرکے اہل اردو تک پہنچایا اور اتنی مہارت سے یہ ادبی کام سرانجام دیا کہ قاری کو یہ احساس تک نہ ہوتا تھا کہ وہ منٹو کی تخلیق کردہ نہیں بلکہ ترجمہ کردہ تحریر پڑھ رہا ہے۔ منٹوکا اولین تحریرکردہ ترجمہ جوکہ انھوں نے اردوکے قالب میں ڈھالا تھا، اسیر سرگزشت جسے بے حد پسند کیا گیا ، اسی پسندیدگی سے حوصلہ پاکر ہی انھوں نے مزید تحریروں کا ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ آسکر وائلڈ کے ڈرامہ ویرا کا ترجمہ بھی منٹو نے کمال خوبصورتی سے کیا تھا۔
ڈرامہ ویرا اشتراکی نظریات پر مبنی ایک متاثر کن تحریر تھی البتہ منٹو نے صحافتی زندگی کا آغاز لاہور سے فلمی رسالہ پارس کی ادارت سے کیا تھا جب کہ 1940ء میں وہ بمبئی تشریف لے گئے جہاں انھوں نے مصور، سماج اور کارروان جوکہ نامور ترین ہفت روزہ رسائل تھے کی ترتیب و تدوین کی جب کہ ان ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ وہ فلموں کی کہانیاں و مکالمے بھی لکھتے رہے۔ خاکہ نگاری میں بھی انھیں ملکہ حاصل تھا جب کہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک منٹو نے نامور ادبا کے تراجم کرنے کے ساتھ ساتھ افسانے کو بھی جدید اسلوب دیا۔ ان کے افسانے وتراجم شدہ تحریریں ہمایوں میں کثرت سے چھپتے تھے جب کہ انھوں نے ہمایوں اور عالمگیر کے روسی اشتراکیت پر مبنی تحریروں پر مشتمل نمبرز بھی شایع کیے۔
منٹو کے افسانوں کے جو مجموعے شایع ہوئے ان کے نام ہیں پھندے، یزید، چغد، ٹھنڈا گوشت، سرکنڈوں کے پیچھے، لذت سنگ، خالی بوتلیں، خالی ڈبے، سڑک، کنارے، اوپر نیچے درمیان، برقع، رتی ماشہ تولہ، آتش پارے۔ منٹو کے افسانے۔ گنجے فرشتے، لاؤڈ اسپیکر، تلخ ترش اور شیریں کے نام سے ہمارے سامنے ہیں جب کہ اب منٹو، منٹوراما، منٹو نما کے نام سے کلیات کی صورت میں چھپے ، ان کی حقیقت پسند تحریروں کو فحش نگاری بھی کہا گیا۔ عالمی ادب میں نمایاں ترین مقام کے حامل منٹو پر مقدمات بھی قائم ہوئے مگر یہ مقدمات منٹو کو حقیقت پسندی بیان کرنے اور اشتراکی جدوجہد سے نہ روک سکے۔
یہ معلوم نہ ہو سکا کہ منٹو کو اس قدر یہ دنیا چھوڑنے کی کیا جلدی تھی؟ کیا وہ اپنے ارادوں میں کمزور پڑچکا تھا؟ ایسا نہ تھا لیکن کیا وہ مایوس ہو گیا تھا کہ تقسیم کے بعد ہم منزل سے بھٹکا دیے گئے تھے اور جبر و استحصال کا سلسلہ رکنے کی بجائے مزید بڑھتا جا رہا تھا، شاید ایسا ہو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک صداقت پسند ادیب مایوس نہیں ہوتا بلکہ لاتعلق طو پر اس کا مکمل یقین ہوتا ہے بہرکیف باوجود اس کے کہ منٹو کی اس وقت بھی ضرورت تھی جب وہ دنیا چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور آج بھی ضرورت ہے مگر 18 جنوری 1955ء کو انھوں نے دنیا چھوڑ دی کثرت سے مے نوشی ان کی موت کا باعث بنی تھی البتہ وفات سے ٹھیک پانچ ماہ قبل 18 اگست 1954ء کو منٹو نے اپنی قبر کا کتبہ بھی خود ہی تحریر کر ڈالا تھا جس کے یہ الفاظ ان کی قبر پر کندہ ہیں کہ یہ قبر سعادت حسن منٹو کی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں ہے۔
تمام تر ادبی زندگی میں زیر عتاب رہنے والے منٹو کو 2012ء میں تمغہ حسن کارکردگی حکومت پاکستان کی جانب سے بعد ازمرگ عطا کیا گیا گویا وفات کے 57 برس بعد یہ اعتراف تھا کہ منٹو غلط نہ تھا مگر ہم منٹو کو 57 برس بعد سمجھ پائے گویا دیر آید درست آید۔ 18 جنوری 2020ء کو منٹو کی 65 ویں برسی منائی جا رہی ہے جنھوں نے کل 43 برس 8 ماہ 5 یوم زندگی پائی تھی ہم انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خدمت میں یہ ضرور عرض کریں گے منٹو! آپ کا دنیا چھوڑنے کا فیصلہ غلط تھا آج بھی آپ کی ضرورت ہے کیونکہ سماج میں جبر، ظلم، عدم مساوات، استحصال آج بھی ہے آپ ہوتے تو یہ سب ختم کرنے میں اپنا اہم کردار ضرور ادا کرتے۔