جمہوریہ عراق کا ماضی وحال

عراق سیاسی اعتبار سے افراتفری کا شکار رہا لوگوں میں بے چینی پائی جاتی تھی لوگ دہشتگردی اورجنگ کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔


ایم قادر خان January 18, 2020

میں ایران میں تھا ، عراق جانے کا خیال آیا ، معلوم ہوا حالات ناگفتہ بہ ہیں لیکن میں جانے کے لیے مصمم تھا۔ سنگ میل مسافروں کو راستے کی دوری بتاتے ہیں، یادوں کی موسلا دھار بارش میں من بھیگتا رہا اور سنگ میل دوری بتاتے رہے۔ ان لمحات میں چشم نم مسکراتی رہی داستانوں کا جھرنا بہتا رہا، خیالوں کی محفل سجی ، کاررواں کبھی نہ ختم ہونے والی باتیں سفر میں کہیں دور نکل جاتی ہیں۔

راستے کی فضاؤں میں دل نے ایک پیغام تحریرکیا اس میں عراق کے ماضی کی حسیں یادوں کے لمحات درج ہوئے۔ دوسری طرف یادوں کے خزانے محفوظ نظر آئے اس خزانے کو جس قدر خرچ کریں بڑھتا ہے اگر ختم کرنا چاہیں یہ ذخیرہ ختم نہیں ہوتا۔ عراق کے بارے میں ماضی کی داستانیں ذہن کے دریچوں میں چہل قدمی کر رہی تھیں۔

عراق کا کل رقبہ چار لاکھ اڑتیس ہزار تین سو مربع کلومیٹر ہے آبادی 3 کروڑ 82 لاکھ 75 ہزار پانچ سو 17 کے قریب ہے۔ یہاں عرب اکثریت میں ہے اس کے علاوہ کرد، ترک اور ایرانی بھی آباد ہیں۔ موصل، بصرہ اور کوفہ، نجف اہم شہر ہیں 97 فیصد مسلمان اور 3 فیصد عیسائی مذہب کو ماننے والے آباد ہیں۔ ملک کی اقتصادیات کا تعلق قدرتی تیل اور زراعت پر ہے گیہوں، چاول اور کپاس اہم زرعی پیداوار ہیں۔

بعد میں پٹرولیم، سلفر، قدرتی گیس، نمک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ عراق کا بیشتر زرمبادلہ پٹرولیم اور کھجور کی برآمد سے حاصل ہوتا ہے۔ صنعتی میدان میں بھی عراق نے کافی ترقی کی ہے، بڑی صنعتوں میں پٹرولیم، پارچہ بافی اور جوتے تیار کرنے کی صنعتیں شامل ہیں۔سرزمین عراق دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ اس کی تاریخ کا آغاز غیر ملکی حملہ آوروں سے ہوتا ہے، تقریباً 7 ہزار سال قبل دریائے فرات اور دجلہ کے سنگم پر آر (URE)کے مقام پر آکر آباد ہوئے۔ انھوں نے سمیر اور اکار کی دو تاج والی بادشاہت قائم کی۔

سمیریوں نے سب سے پہلے پہیے والی گاڑی استعمال کی، اس کے علاوہ انھوں نے خط بیکانہ میں طرز تحریر ایجاد کیا معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ہندوستان کے قدیم باشندوں سے روابط تھے۔کیونکہ ان کی بعض مہروں پر ہندوستانی جانوروں کی تصاویر آویزاں ہیں۔ موئن جو دڑوکے مقام پر ایسی چیزیں برآمد ہوئی ہیں جو سمیرا کے کھنڈرات سے بھی ملی تھیں۔ سمیرا اور اکار کی حکومت 2300 قبل مسیح تک قائم رہیں جس کے بعد بابل کو اقتدار حاصل ہوا۔ عراق پرکئی قدیمی اور نامور قوموں نے حکومت کی، عرب مسلمانوں نے عراق پر پہلا حملہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور میں خالد بن ولید کی زیر قیادت 633 عیسوی میں کیا۔ جس کے بعد آیندہ پانچ برسوں میں وہ تمام عراق پر چھا گئے۔ 750 عیسوی کے قریب عراق پر بنی عباس کی حکومت قائم ہوئی۔ ان کے دور اقتدار میں ایرانی تہذیب عراق میں داخل ہونے لگی۔

1258 عیسوی کے بعد عراق کی حکومت یکے بعد دیگرے منگولوں، ترکمانوں اور سفاری حکمرانوں کے ہاتھ میں رہی جن کا مجموعی دور اقتدار 1258 عیسوی سے 1534 عیسوی تک ہے۔ اس کے اختتام پر عراق عثمانی ترکوں کے زیر سایہ آگیا۔ 1918عیسوی تک یہ ترک عثمانی کے زیر تسلط رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر 1920 عیسوی میں عراق کو برطانیہ کی تولید میں دے دیا گیا۔ 1921 عیسوی میں انگریزوں نے شاہ فیصل اول کو عراق کا بادشاہ بنادیا۔ 8 ستمبر 1933 کو شاہ فیصل اول فوت ہوئے تو ان کا بیٹا غازی تخت نشین ہوا۔ جس نے 1933 سے 1939 تک حکومت کی، انتقال کے بعد شاہ فیصل دوم کو بادشاہ بنادیا گیا۔ شاہ فیصل دوم کی حکومت کا جولائی 1958ء میں جنرل عبدالکریم قاسم نے تختہ الٹ دیا اور شاہ فیصل دوم کو قتل کرکے ملک کا زمام حکومت ایک انقلابی کونسل کے سپرد کردی۔ 1963ء میں بعث پارٹی کے ایک سرگرم رکن عبداللہ عرب نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل عبدالکریم قاسم کو پھانسی دے دی گئی۔

1966ء میں کرنل عبداللہ عرب ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ ان کے بھائی عبدالرحمیان عارف صدر بنے 1968ء میں پرامن فوجی انقلاب کے ذریعے عبدالرحمیان عارف کو معزول کر دیا گیا۔ انقلابی کمانڈ کونسل نے جنرل احمد الحسن کی سربراہی میں زمام حکومت ہاتھ میں لے لی۔ 1970ء میں کردوں کو جو مدت سے عراق سے برسرپیکار تھے اندرونی خودمختاری دے دی گئی۔ 1975ء میں شمال مشرق میں واقع کرد علاقے میں امن و امان قائم ہوگیا۔

16 جولائی 1979ء کو احمد الحسن بکر مستعفی ہوگئے اور بعث پارٹی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل صدام حسین پارٹی کے سیکریٹری جنرل، انقلابی کونسل کے چیئرمین، مسلح افواج کے سپریم کمانڈر اور مملکت کے صدر بنے۔ ستمبر 1980ء میں عراق اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ 7 جون 1981ء کو اسرائیلی طیاروں نے بمباری کر کے بغداد کے جوہری توانائی کی تنصیبات کو تباہ کر دیا۔ صدام حسین نے 1980ء میں ایران اور 1990ء کو کویت پر حملہ کیا۔ دونوں مرتبہ نقصان عراق کو اٹھانا پڑا۔ 16 دسمبر 1998ء اور 17 دسمبر 1998ء کی درمیانی شب کو امریکا اور برطانیہ نے اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے انسپکٹرز سے مکمل تعاون سے انکار کے بعد بغداد پر حملہ کر دیا گاہے بگاہے حملے ہوتے رہے۔

13 دسمبر 1999ء کو عراق نے اقوام متحدہ کی اجازت سے قبل برآمد شروع کر دی۔ 2000ء میں عراق اور ایران کے مابین 1988ء کی جنگ بندی کے بعد پہلی بار فضائی معاہدہ طے پایا جس کے تحت ایران نے ماسکو سے بغداد آنے والے عراقی طیاروں کو ایران کے اوپر سے گزرنے کی اجازت دی اور عراق سے ایرانی طیاروں کو عراق سے دمشق جانے کی اجازت دے دی۔ 2003ء میں امریکا نے عراق پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ امریکا نے جنرل جنکالیڈر کو عراق کا حکمران مقررکیا۔ 2003ء میں عراق کی نئی کرنسی کا اجرا ہوا، اس میں صدر صدام حسین کی تصویر کی جگہ زیتون کے درخت کی تصویر چھاپ دی گئی۔ سول انتظامیہ قائم کر دی گئی جس میں اس کا سربراہ امریکی محکمہ خارجہ کے شعبہ انسداد دہشتگردی کے سربراہ پال برہیمن کو مقرر کیا۔

عراق سیاسی اعتبار سے افراتفری کا شکار رہا لوگوں میں بے چینی پائی جاتی تھی لوگ دہشتگردی اور جنگ کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ میں جب عراق گیا اس وقت حالات صحیح نہ تھے ان حالات کی وجہ سے تفریح کم ہو سکی کئی افراد ملے جو داستان گو تھے ان کے سینوں میں بڑی بڑی داستانیں سینہ بہ سینہ ہیں۔ ایک ایسا دور تھا جب عراق میں تعلیمی ادارے عرب کے دیگر ممالک سے زیادہ مشہور تھے مگر خانہ جنگی کی وجہ سے عراق کی چالیس فیصد آبادی تعلیم یافتہ نہیں۔ عراق میں دنیا کے دوسرے نمبر پر سب سے بڑے تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ عراق نے دنیا کو پہلا نقشہ دیا تھا۔ پہیے کی ایجاد بھی عراق میں ہوئی تھی۔

عراق نے ہی دنیا کو بتایا کہ ایک گھنٹے میں ساٹھ منٹ اور ایک منٹ میں ساٹھ سیکنڈ ہوتے ہیں۔ قسمت کے بارے میں علم نجوم کی شروعات بھی عراق سے ہوئی تھی۔ دنیا کی مشہور کہانی علی بابا اور چالیس چور عراق میں ہی تحریر ہوئی تھی۔ 2003ء سے قبل بغداد کا چڑیا گھر عرب ممالک کا سب سے بڑا چڑیا گھر مانا جاتا تھا۔ وہاں چھ سو سے زائد جانور ہوتے تھے۔عراق میں شہد کی مکھیاں پالنا شہد حاصل کرنا عراقیوں کی غذا اور آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے، عراق میں اسلام کے بڑے معزز رہنماؤں کے مزارات ہیں۔

عراق میں قابض و غیر قابض طاقتیں آپس میں ٹکرا رہی ہیں نتیجے میں عراق ان شاندار روایات کو چھوڑ کر کبھی اپنوں کبھی غیروں کے ہاتھوں لٹتا جا رہا ہے اور بربادی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔

عراق کی معیشت کا انحصار تیل کی پیداوار پر ہے یہی وجہ ہے کہ تیل برآمد کرنے سے معیشت کا 95 فیصد حصہ غیر ملکی کرنسی میں حاصل ہوتا ہے۔ امریکا کے حملوں کی وجہ سے عراق میں حالات خراب ہوگئے ہیں۔ ملکی آبادی کے تیس فیصد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں ملکی معیشت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس ملک میں تیل کے کنوئیں دو ہزار سے زائد ہیں۔

اس ملک پر جب اقوام متحدہ سے پابندیاں عائد کی گئیں تو تیل کی 85 فیصد پیداوار کم ہو گئی تھی۔ صدام حسین کے بعد 2003ء میں ان تمام پابندیوں کو ختم کر دیا گیا جس کا فائدہ آج تک امریکا اٹھا رہا ہے۔ صحت کا شعبہ تباہ ہو چکا اب دس ہزار انسانوں کے لیے سات ڈاکٹر اور چودہ نرسیں دستیاب ہیں۔ عراق میں انسانوں کی اوسط عمر 68 سال ہے۔ 1995ء سے پہلے یہاں انسانوں کی اوسط عمر 71 سال ہوا کرتی تھی۔ عراقی لوگ روایتی کھانوں کے علاوہ جدید کھانوں کے بھی شوقین معلوم ہوتے ہیں۔ فٹبال عراق کا قومی کھیل ہے عراق کا پاکستانیوں کے لیے ویزہ کا حصول آسان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں