شہید کون مذہبی جماعتیں وجود برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں

مولانا فضل الرحمن کابیان اگرچہ منورحسن کےبیان سے زیادہ مضحکہ خیز ہے،تاہم لگتا ہے کہ دونوں دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں

مولانا فضل الرحمن کابیان اگرچہ منورحسن کےبیان سے زیادہ مضحکہ خیز ہے،تاہم لگتا ہے کہ دونوں دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں. فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
کون شہد؟ کون ہلاک؟ کے حوالے سے حال میں شروع ہونیوالی بحث مذہبی، سیاسی جماعتوں کی اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوششوں کا نتیجہ لگتا ہے ۔جو بڑا پریشان کن اور خطرناک ہے، حال ہی میں اس حوالے سے جو دو بیانات سامنے آئے ہیں۔

ان میں ایک بیاں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور دوسرا بیان امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا ہے، دونوں ملک کی بڑی مذہبی/ سیاسی جماعتیں ہیں، دونوں جماعتیں کسی نہ کسی حدتک پارلیمنٹ میں رہی ہیں اور نظریاتی انتہا پسندی کے لیے سیاسی فلٹر کا کردار ادار کرتی ہیں، جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو وہ جب سے قومی دھارے میں شامل ہوئی ہے اس کے وقتاً فوقتاً متنازع بیانات آتے رہے ہیں، جماعت کے بانی مولانا مودودی کے اسلام کی بنیاد پر سوشل جسٹس سیاست کا موقف سراہا گیا ہے۔


تاہم ان کے قیام پاکستان کے حوالے سے بیانات سے اجتناب کیا جاتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی نظریاتی سیاست مذہبی قوم پرستی کو بڑے قومی اداروں نے اختیار کر لیا، جیسا کہ پاک فوج نے سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران اور بعد میں '' جہاد فی سبیل اللہ'' کا نعرہ اپنا لیا، یہ عملی سیاست ہے ، پھر قاضی حسین احمد کی قیادت میں جماعت اسلامی کی مذہبی قدامت پسندی پہلے سے کہیں زیادہ عملی سیاست کیطرف بڑھ گئی، یہ وہ وقت تھا جب سویت یونین کیخلاف جہاد ختم ہونیوالا تھا، اس وقت جماعت اسلامی چند دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ پاکستان کی سیاست کے بڑے دھارے میں شامل ایسی جماعت تھی ۔

جس کا جہاد اور شہادت سے تعلق تھا، قاضی کی قیادت میں جماعت اسلامی سیاسی مذہبی اور انتہا پسندی کے درمیان بیریئر کا کام کرتی رہی، قاضی حسین نے جب افغانستان میں طالبان کی جنگ کو اصلی جہاد قرار دیا اور پاکستانی طالبان کو غیراسلامی قرار دیا تو ان پر حکیم اللہ محسود کی قیادت میں طالبان نے خود کش حملہ کیا تاہم وہ محفوظ رہے تھے، لیکن اب رویہ تبدیل ہو چکا ہے ، وہ جماعت جس کے قائد کہتے تھے کہ پاکستان طالبان غیر اسلامی ہیں، اسی کے قائد اب کہتے ہیں طالبان شہید ہیں اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز نہیں، ان کا یہی بیان متنازع نہیں ہوا بلکہ ریپ اور سماجی برائیوں کے حوالے سے بھی ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انتہا پسندی کی طرف لوٹ رہے ہیں، سید منور حسن کا متنازع بیان مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کے چند دن بعد آیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر امریکا کتا بھی مارے گا تو اسے شہید کہوں گا۔

مولانا فضل الرحمن کو بھی ان مذہبی سیاسی لیڈروں میں شمار کیا جاتا ہے جو قومی دھارے میں شامل ہیں، مولانا فضل الرحمن کا بیان اگرچہ منورحسن کے بیان سے زیادہ مضحکہ خیز ہے تاہم لگتا ہے کہ دونوں دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں جو ڈرون حملوں اور افغان عراق جنگ کی وجہ سے امریکا کے بہت زیادہ مخالف ہو چکے ہیں، دائیں بازو کی جماعتیں مزید دائیں جا رہی ہیں کیونکہ عملی سیاست میں ان کو پاکسان تحریک انصاف جیسی جماعت کے چیلنج کا سامنا ہے اور وہ ان کی جگہ پر قبضہ جما رہی ہے، دونون جماعتوں کے حالیہ بیانات اپنے آپ کو سیاسی میدان میں برقرار رکھنے کی مایوس کن کوشش کا نتیجہ ہے، جس سے پاکستان میں افراتفری، انتہا پسندی ، عمد برداشت اور نفرت کو ہوا مل سکتی ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story