بجلی کی قیمتوں کے تعین کا مربوط نظام ہونا چاہیے حکومت عوام پر رحم کرے سپریم کورٹ
حکومتی پالیسی مفادعامہ کے خلاف ہوتو عدالت مداخلت کرکے کالعدم کرسکتی ہے،عدالت
سپریم کورٹ نے بجلی قیمتوںمیںدی جانے والی سبسڈی واپس لینے پرحکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے پیپکوکو ہدایت کی ہے کہ حکومت کی انرجی پالیسی، 2006 سے اب تک عوام کوفراہم کی جانے والی سبسڈی، لائن لاسزاور بجلی چوری کی تمام تفصیلات آج عدالت میں پیش کی جائیں۔
عدالت نے کہاکہ اگر حکومتی پالیسی مفادعامہ کے خلاف ہوتو عدالت مداخلت کرکے کالعدم کرسکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ بجلی قیمتیںبڑھنے سے مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ حکومت عوام پررحم کرے۔ تیل وگیس اوربجلی قیمتوںکے بارے میں مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جوادایس خواجہ نے کہاکہ پالیسی کے ذریعے عوام کوان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ جہاںحق تلفی ہوگی وہاںسپریم کورٹ اپنی ذمے داری نبھائے گی کیونکہ یہ ذمے داریاں عوام نے عدالتوںکودی ہیں، پالیسی بناناانتظامی ڈومین ہے اورعدالت کومداخلت کااختیار نہیںلیکن اگرپالیسی استحصال کاذریعہ بن جائے تو عدالت اسے روکے گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کے دوران کھاد کی پیداواری کمپنیوںکو رعایتی نرخ پرگیس کی فراہمی کی تفصیل طلب کرلی ہے۔
عدالت نے اینگروکھادکمپنی سے چاروں صوبوں میں ہول سیل اورایکس فیکٹری ریٹ کے بارے میں جامع رپورٹ طلب کی ہے اورفوجی فرٹیلائزرکو ملنے والی سبسڈی کاتفصیلی چارٹ پیش کر نے کاحکم دیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ امریکا، برطانیہ اورفرانس میں ہمارا آئین نہیں چلتا لیکن جہاں چلتا ہے۔
وہاںہم نے اس کا اطلاق کرانا ہے۔ فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ پالیسی بنیادی حقوق کوسامنے رکھ کربنائی جاتی ہے۔ سرکارکی پالیسی اگربنیادی حقوق کو پامال کررہی ہے توعدالت کی ذمے داری ہے کہ مداخلت کرے۔ اینگرویوریا کی جانب سے فیصل نقوی ایڈووکیٹ اورفوجی فرٹیلائزرکی جانب سے خالدانور پیش ہوئے۔ جسٹس جوادنے ریمارکس دیے کہ عدالت کی تشویش یہ ہے کہ جب سرکارکھاد کمپنیوںکو گیس 382روپے کیوبک فٹ کے بجائے سبسڈائزڈریٹ پر 102روپے میںفراہم کررہی ہے تویہ ثمرات کسان تک پہنچ رہے ہیںیا نہیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ قیمتوںکے تعین کیلیے مربوط نظام ہوناچاہیے۔ اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی روکناحکومت کی ذمے داری ہے۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ جب حکومت کم قیمت پرگیس فراہم کرتی ہے تواس کے ثمرات کسان تک پہنچنے چاہئیں۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ ملک میں کسی کی من مانی نہیں، صرف قانون ہی چلے گا۔ ریاست میں عوام دوست پالیسیاں بننی چاہئیں۔ بجلی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کاطوفان آجاتا ہے۔ حکومت عوام پررحم کرے۔
عدالت نے کہاکہ اگر حکومتی پالیسی مفادعامہ کے خلاف ہوتو عدالت مداخلت کرکے کالعدم کرسکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ بجلی قیمتیںبڑھنے سے مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ حکومت عوام پررحم کرے۔ تیل وگیس اوربجلی قیمتوںکے بارے میں مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جوادایس خواجہ نے کہاکہ پالیسی کے ذریعے عوام کوان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ جہاںحق تلفی ہوگی وہاںسپریم کورٹ اپنی ذمے داری نبھائے گی کیونکہ یہ ذمے داریاں عوام نے عدالتوںکودی ہیں، پالیسی بناناانتظامی ڈومین ہے اورعدالت کومداخلت کااختیار نہیںلیکن اگرپالیسی استحصال کاذریعہ بن جائے تو عدالت اسے روکے گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کے دوران کھاد کی پیداواری کمپنیوںکو رعایتی نرخ پرگیس کی فراہمی کی تفصیل طلب کرلی ہے۔
عدالت نے اینگروکھادکمپنی سے چاروں صوبوں میں ہول سیل اورایکس فیکٹری ریٹ کے بارے میں جامع رپورٹ طلب کی ہے اورفوجی فرٹیلائزرکو ملنے والی سبسڈی کاتفصیلی چارٹ پیش کر نے کاحکم دیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ امریکا، برطانیہ اورفرانس میں ہمارا آئین نہیں چلتا لیکن جہاں چلتا ہے۔
وہاںہم نے اس کا اطلاق کرانا ہے۔ فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ پالیسی بنیادی حقوق کوسامنے رکھ کربنائی جاتی ہے۔ سرکارکی پالیسی اگربنیادی حقوق کو پامال کررہی ہے توعدالت کی ذمے داری ہے کہ مداخلت کرے۔ اینگرویوریا کی جانب سے فیصل نقوی ایڈووکیٹ اورفوجی فرٹیلائزرکی جانب سے خالدانور پیش ہوئے۔ جسٹس جوادنے ریمارکس دیے کہ عدالت کی تشویش یہ ہے کہ جب سرکارکھاد کمپنیوںکو گیس 382روپے کیوبک فٹ کے بجائے سبسڈائزڈریٹ پر 102روپے میںفراہم کررہی ہے تویہ ثمرات کسان تک پہنچ رہے ہیںیا نہیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ قیمتوںکے تعین کیلیے مربوط نظام ہوناچاہیے۔ اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی روکناحکومت کی ذمے داری ہے۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ جب حکومت کم قیمت پرگیس فراہم کرتی ہے تواس کے ثمرات کسان تک پہنچنے چاہئیں۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ ملک میں کسی کی من مانی نہیں، صرف قانون ہی چلے گا۔ ریاست میں عوام دوست پالیسیاں بننی چاہئیں۔ بجلی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کاطوفان آجاتا ہے۔ حکومت عوام پررحم کرے۔