سجدے کیے ہیں مانگ کے اس آستاں کی خیر
ہمارے ملک کو جتنی ترقی کرنی چاہیے تھی (وسائل اور ذرایع کے باوجود بھی) وہ اس نے نہیں کی۔
سال گزشتہ یعنی 2019 ہماری قومی زندگی پرگہرے نقش چھوڑگیا ہے ،جو سال نو میں بھی اپنے اثرات دکھاتے اور عوام کو امیدی اور نا امیدی کی کشمکش میں مبتلا رکھیں گے۔
گزرا سال کئی حوالوں سے انتہائی اذیت ناک سال تھا ، ایک سال گزشتہ پر ہی کیا موقوف ہم تو سالہا سال سے تاریخ کے اس موڑ سے گزر رہے ہیں جہاں نفرت ، ناقدری اور نظراندازی کی دیواریں اونچی اٹھائی جا رہی ہیں۔ تاہم پھر بھی سال گزشتہ پاکستانی عوام کے لیے دوہائی دینے، بلبلانے کا سال ثابت ہوا۔
گزرا سال حکومت کے لیے چیلنجز اور عام لوگوں کے لیے چیخوں کا سال تھا۔ 2019 کا سورج جمہوریت اور سیاست کے '' پلیٹ لیس'' کی خطرناک حد تک کمی پر غروب ہوا۔ حکومتی کارکردگی صفر رہی ، 22 سال کی جدوجہد سے اقتدار میں آئی پارٹی تحریک انصاف کا ہوم ورک کوئی نہیں تھا۔ عمران خان نے اپنے 80 فیصد وعدوں اور نعروں پر یو ٹرن لیا، تبدیلی کا جو سونامی عمران خان لائے اس میں بے بس عوام بہہ گئے،کسی شعبے میں اصلاحات نظر نہ آئیں۔ قوم کے ساتھ بڑے بڑے اور حساس اداروں تک کے لیے یہ آزمائشوں اور مصیبتوں کا سال رہا۔
ہمارے ملک کو جتنی ترقی کرنی چاہیے تھی (وسائل اور ذرایع کے باوجود بھی) وہ اس نے نہیں کی۔ غربت، افلاس اور بنیادی انسانی ضرورتوں کی عدم دستیاب، حد درجہ مہنگائی، بے روزگاری، صحت، پانی اور تعلیم وغیرہ سے محرومی کروڑوں پاکستانیوں کے لیے سوہان روح بنی رہی۔ موجودہ حکومت کے بلند و بانگ وعدوں میں ایک کروڑ ملازمتیں دینا اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنا بھی شامل تھا۔ ان دونوں باتوں کو تحریک انصاف اور ریاست مدینہ کے دعویداروں کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا کیونکہ 2019 میں دس لاکھ افراد ملازمتوں سے محروم کیے گئے اور حکومت کی گھروں اور دکانوں کو مسمارکرنے کی مہم کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے گھروں اور روزگار سے محروم ہوگئی۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ معاشرے میں بے یقینی اور اضطراب بھوک اور بے روزگاری کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ وطن عزیز میں لوگوں کی زندگی مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ مایوسی، بد دلی اور غصہ چہار سو دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کروڑوں انسانوں کی خواہشوں کے پرندے ، پھڑپھڑا کر ایوان بالا کی منڈیروں کی بھینٹ چڑھتے چلے جا رہے ہیں، انھیں وہ سمت نظر ہی نہیں آ رہی جو ملکی ترقی وخوشحالی کے ایک غیر معمولی سفر سے مشروط تھی۔
امیدیں، حسرتیں، تمنائیں اور حد درجہ رنجیدہ یا تکلیف دہ واقعات کی یادیں لے کر 2019 کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب تو ہوگیا لیکن اس کی شعائیں لوگوں کے ناتواں جسموں کو جھلسا گئیں۔ عمران خان کی حکومت کے ابتدائی 500 دنوں میں عوام پر ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ شاید اس لیے بھی کہ 22 کروڑ تہی دست شہریوں کو ریاست کی قسمت میں شریک کرنا ہمارے ہاں جمہوریت کہلاتی ہے جس پر لاچارگی، محرومی، غربت اور جہالت کا ہالہ ہے۔ ہمارے مظلوم عوام کی اسی بے کسی پر ہی کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
جوش جنوں میں پیش نظر مصلحت بھی تھی
سجدے کیے ہیں مانگ کے اس آستاں کی خیر
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ قابل رحم ہے وہ قوم جس میں غریب سسک سسک کر جیتے اور تڑپ تڑپ کر مرتے ہوں، قابل رحم ہے وہ قوم جہاں کرپشن، غنڈہ گردی یا لاقانونیت بہادری، بااثری یا اثر و رسوخ کا پیمانہ بن گئی ہو اور قابل رحم ہے وہ بااختیار اور سپریم شخص جس کے مشورے دینے والے جاہل ہوں۔ مندرجہ بالا باتوں کو وطن عزیز کے منظر نامے پر پرکھیں، جانچیں تو سوائے افسوس، ندامت اور سر جھکانے کے کچھ اور نہیں کرنا پڑے گا۔ دنیا اور ہمارے گرد و پیش کی ہاہاکار اور شور نے ہمارے خیالوں اور ہماری امنگوں کی آواز تک کو ہم سے چھین لیا ہے۔ اب تو اپنے بارے میں سوچنے یا خود سے بات کیے بھی زمانے گزر چکے ہیں۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ ایک ہزار قابل انسان مر جانے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ایک احمق (مملکت کے اسرار و رموز سے ناآشنا) کے صاحب اقتدار آجانے سے ہوتا ہے۔ یوں بھی ایک انسان کی خراب کارکردگی دوسرے انسان کی کامیابی بن جاتی ہے۔ اور ہمارے عوام کی غالب اکثریت ''دوبارہ پھر سے'' اس دوسرے انسان کی تلاش میں ہے۔ کیونکہ تحریک پاکستان روز اول سے ہی اپنے کہے پر خود ہی پانی پھیرتی جا رہی ہے۔
سبھی جانتے ہیں یا یہ دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان کے ہاتھوں سے بطور وزیر اعظم وقت ریت کی طرح پھسل رہا ہے۔ اور ہر عاقل شخص بخوبی اس بات سے واقف ہے کہ وقت کا ضیاع سب سے بڑی اور سب سے مہنگی فضول خرچی ہوتی ہے اور ہمارے موجودہ حاکم اعلیٰ مسلسل اس فضول خرچی میں مصروف ہیں۔ کاش وہ یہ جان پاتے کہ جاگیریں، سلطنتیں، جائیدادیں، بادشاہت اور مملکت بھی کیا عجیب سزائیں ہوتی ہیں۔ جیتے جی اپنے بس میں رکھنے کی تگ و دو اور مرنے کے بعد وارث اور وراثت کا غم۔ اس سے تو فقیری بھلی۔ نہ یہاں کی سوچ نہ وہاں کی فکر۔
حضرت علیؓ کا شہرہ آفاق قول ہے کہ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو زہر بن جاتی ہے۔ جیسے قوت، اختیار، اقتدار، دولت، بھوک ، لالچ ، محبت اور نفرت، اور یہ سب کا سب ملکی منظرنامے پر بخوبی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ افسوس کہ ''ریاست مدینہ'' کے امیر المومنین اپنے سب وعدے بھول گئے۔
ایک زمانہ تھا جب عمران خان کو سیاست کا اتنا ہی پتا تھا جتنا مولانا فضل الرحمن کو کرکٹ کا۔ افسوس یہ آگاہی بھی وطن عزیز کے کسی کام نہ آ پائی۔ آفاقی سچائی یہ ہے کہ کسی قوم کی دولت سونا چاندی نہیں بلکہ فاضل ، قابل انسان ہوتے ہیں لیکن برسہا برس سے ہمارے ہاں عالم، فاضل، باصلاحیت اور ہنر مند انسان مٹی میں مٹی ہوتے جا رہے ہیں اور مراعات یافتہ، سفارشی، پرچی یا پی آر والے ملک کے کلیدی عہدوں پر فائز بلکہ قابض چلے آرہے ہیں اور جب کسی شعبے سے ناآشنا شخص کو اس کا سربراہ بنا دیا جائے تو پھر امور مملکت اسی طرح چلتے ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں چل رہے ہیں۔ اور ہمارا مشاہدہ بھی بتاتا ہے کہ جب احمقوں کے ہاتھوں اقتدار آجائے تو عاقل خوف سے اپنے سر گدڑیوں میں چھپا لیتے ہیں۔ اور ہمارے اطراف ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔
بد انتظامی، سسٹم کی عدم فعالیت سمیت کسی منظم حکمت عملی اور جامع پالیسی کے بغیر محض دعوؤں اور وعدوں سے نظام حکومت چلانے کا ہنر عوامی ترقی اور کامیابی کی ہمت پر آسیب کی طرح منڈلا رہا ہے۔ انسان دولت کھو دے تو کچھ نہیں ہوتا لیکن اگر حوصلہ گنوا بیٹھے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے۔ افسوس اب ہم سب حوصلہ کھوتے جا رہے ہیں۔