سیاسی کھیل

دراصل ایم کیو ایم کا فنڈز کے حصول سے زیادہ بڑا مطالبہ اپنے کراچی اور حیدرآباد میں بند دفاتر کو کھلوانے کا ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

ابھی تک تو یوٹرن کریسی سے تحریک انصاف کے قائد کا نام ہی جوڑا جاتا تھا مگر اب تو نواز شریف بھی اس فن کو اپنا کر اپنے'' ووٹ کو عزت دو ''کے فلسفے سے لگتا ہے دستبردار ہوگئے ہیں۔

ادھر عمران خان بھی نہ، نہ کرتے ہوئے بھی اپنی حریف دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو این آر او دے کر اپنے عہد سے ہٹ گئے ہیں۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کا کوئی پیندا یا اصول نہیں ہے، سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور ہمارے سیاستدان کسی بھی وقت اپنا پینترا بدل کر قوم کو حیران و پریشان کرسکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا دیگر ممالک میں بھی سیاست اور سیاستدانوں کا یہی حال ہے۔ کم و بیش وہاں بھی ایسا ہی حال ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ جتنی یو ٹرن کریسی ہمارے سیاستدانوں میں مقبول ہے ویسی کہیں اور نظر نہیں آتی۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سیاست تو ہے ہی مکروفریب کا نام تو ایسا نہیں ہے، اگر قائد اعظم بھی یوٹرن لے لیتے تو کیا پاکستان بن سکتا تھا، اگر ذوالفقار علی بھٹو مغرب کے دباؤ میں آجاتے تو مسلم امہ کو متحد کرنے کے لیے پاکستان میں تاریخی سربراہی کانفرنس منعقد نہ کر پاتے اور اگر نواز شریف ایٹمی دھماکوں کے سلسلے میں امریکی ویورپی ممالک کی دھمکیوں اور لالچ میں یو ٹرن لے لیتے تو پھر پاکستان کبھی ایٹمی قوت نہ بن پاتا اور اگر وہ موقع نکل جاتا تو آج ہم بھی ایران اور شمالی کوریا کی طرح ایٹمی طاقت بننے کے لیے ترس رہے ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا کہ بھارت ایٹمی طاقت بن کر پاکستان پر نہ سہی کم سے کم مقبوضہ کشمیر پر ضرور قابض ہوگیا ہوتا۔

ہمارے ہاں کی یہ پرانی ریت ہے کہ جب پارٹی اقتدار میں نہیں ہوتی تو کچھ ارکان اسے چھوڑ کر صاحب اقتدار پارٹی کا دامن تھامنے کو برا نہیں سمجھتے۔ اس ضمن میں پیپلز پارٹی کی مثال ہمارے سامنے ہے کبھی فردوس عاشق اعوان، بابر اعوان اور فواد چوہدری اس کے متحرک ارکان تھے مگر جیسے ہی پارٹی کی حالت خراب ہوئی وہ تحریک انصاف کے چڑھتے سورج کے ساتھ ہوگئے۔

شیخ رشید بھی کبھی نواز شریف کی پارٹی کے دبنگ رہنما تھے وہ میاں صاحب کے جتنے قریب تھے شاید ہی کوئی اور اتنا قریب تھا مگر پرویز مشرف کے مارشل لا نے انھیں میاں صاحب سے کوسوں میل دور کر دیا۔ آج وہ میاں صاحب ہی نہیں پوری شریف فیملی کے سب سے بڑے ناقد اور عمران خان کے یارغار ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار تک پہنچانے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ میاں صاحب کی حکومت کے خلاف مہم چلانے کی ابتدا انھوں نے ہی کی تھی۔ وہ ٹی وی ٹاک شوز میں شریک ہوکر میاں صاحب کی حکومت کو چیلنج کیا کرتے تھے اور بہ بانگ دہل اسے گرانے کے لیے لوگوں کو اکساتے رہتے تھے۔ وہ عمران خان کے دھرنوں میں بھی پیش پیش رہے اور کنٹینر پر چڑھ کر میاں صاحب کی حکومت کو للکارتے رہے اور بالآخر کامیاب ہوگئے، عمران خان ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ وہ اس وقت ریلوے کے وفاقی وزیر ہیں مگر اپنی وزارت کو پٹری پر لانے سے زیادہ تحریک انصاف کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔


بعض لوگ تو انھیں سیاست میں عمران خان کا استاد بھی کہتے ہیں اور دیکھا جائے تو یہ بات غلط بھی نہیں ہے اس لیے کہ عمران خان ایک سیدھے سادہ انسان ہیں چونکہ وہ ایک طویل عرصے تک کرکٹ سے وابستہ رہے ہیں چنانچہ وہ کرکٹ کی سیاست سے ابھی بھی باہر نہیں آسکے ہیں وہ ملک میں بھی ویسی ہی سیاست چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر وہ موجودہ ملکی سیاسی ماحول سے میل نہیں کھاتی اسی لیے وہ سیاست دانوں کے جھرمٹ میں ان سے بہت مختلف نظر آتے ہیں۔

جہاں تک کراچی کا تعلق ہے یہاں کی سیاست کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں وہی وفاقی حکومت کامیاب ہوسکتی ہے جو یہاں کی تکیہ دار پارٹی کے مطالبات من و عن پورا کرتی رہے اس ضمن میں مشرف حکومت بہت کامیابی سے کراچی کو ہینڈل کرتی رہی ہے مگر اس لیے کہ اس زمانے میں کراچی کو جتنی گرانٹ ملی اتنی کسی اور دور میں نہیں ملی۔ مشرف کے پورے گیارہ سالہ دور میں ایم کیو ایم ان کی حکومت کی طرف دار رہی اور وہ اب بھی ہے اس لیے کہ وہ جو کچھ بھی ہے مگر احسان فراموش نہیں ہے۔

اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ فروغ نسیم جو اب بھی ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی وزیر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ وفاقی وزیر قانون ہوتے ہوئے بھی مشرف کا کیس پوری جانفشانی سے لڑ رہے ہیں۔ ایک سال قبل ایم کیو ایم اور وفاقی حکومت میں معاہدہ ہوا تھا کہ کراچی کے مسائل حل کیے جائیں گے جس کے لیے 162 ارب روپے دیے جائیں گے مگر وہ رقم اب تک کراچی کو نہیں مل سکی ہے۔ حالانکہ ایم کیو ایم بار بار اس سلسلے میں یاد دہانی کراتی رہی ہے۔

کراچی کے پی ٹی آئی کے ارکان اگر عمران خان پر زور ڈالتے تو یقیناً یہ رقم مہیا کی جاچکی ہوتی مگر چونکہ پی ٹی آئی کے ارکان اور ایم کیو ایم کے ارکان کے درمیان تلخیاں قائم ہیں لگتا ہے اس وجہ سے فنڈز کی ترسیل میں دیر ہو رہی ہے۔ بعض پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے ایم کیو ایم کے فنڈز کے مطالبے کو یہ رنگ بھی دیا گیا کہ پی ٹی آئی بھتہ خوری کے خلاف ہے یعنی کسی پارٹی کو اس کی وفاداری کے عوض بھتہ نہیں دیا جائے گا۔

اب ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایم کیو ایم کسی بھی وقت پی ٹی آئی کی حکومت سے اپنی حمایت واپس لے سکتی ہے اب ایم کیو ایم کے بیانیے میں بھی سختی بڑھتی جا رہی ہے شاید اس لیے کہ اب اسے پیپلز پارٹی کی جانب سے وزارتوں کی آفر ہوچکی ہے ساتھ ہی یہ ٹپ بھی دی گئی ہے کہ اس کے پیپلز پارٹی سے اتحاد کی صورت میں میئر کراچی کے تمام سلب شدہ اختیارات بھی انھیں لوٹا دیے جائیں گے۔

میئر صاحب بار بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ اگر مصطفیٰ کمال جیسے بااختیار میئر ہوتے تو کراچی کے مسائل ہرگز ناگفتہ بہ نہ ہونے پاتے مگر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت جتنے اختیارات انھیں حاصل ہیں وہ تو انھیں بھی استعمال کرنے سے بخل سے کام لے رہے ہیں تو مکمل اختیارات کے حصول کے بعد بھی کراچی کے مسائل میں کمی کا کم ہی امکان ہے۔

کراچی کے عوام کے دلوں کی بات اگر کی جائے تو وہ اب اپنے مسائل کو آیندہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں نئے منتخب عوام کا درد رکھنے والے میئر کے ہاتھوں حل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے خالد مقبول صدیقی کے استعفیٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے لیڈروں کو کراچی کے عوام کے دکھ اور پریشانیوں کا خیال ہوتا تو وہ پی ٹی آئی کو بہت پہلے چھوڑ چکے ہوتے اور میئر صاحب کو تو ایسی بے اختیار میئر شپ کو قبول ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔

دراصل ایم کیو ایم کا فنڈز کے حصول سے زیادہ بڑا مطالبہ اپنے کراچی اور حیدرآباد میں بند دفاتر کو کھلوانے کا ہے چونکہ وہ اپنی موجودہ کارکردگی کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات میں سوئپ کرتی نظر نہیں آتی ،چنانچہ وہ شاید اپنے دفاتر کے ذریعے عوام پر پہلے جیسا دبدبہ قائم کرکے عوام سے ووٹ لینا چاہتی ہے مگر پی ٹی آئی یہ مطالبہ نہیں مان سکتی اس لیے کہ بند دفاتر کو کھولنے کی اجازت دینا کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے حالات میں وفاقی حکومت خطرات میں گھر چکی ہے۔ اب اس کا یہی علاج ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے جائز مطالبات کو لازمی طور پر فوری پورا کرے تاکہ وہ اپنے باقی چار سال پورا کرسکے ورنہ اگر سیاسی بصیرت سے کام نہ لیا گیا تو حزب اختلاف جو بہ بانگ دہل نعرہ لگا رہی ہے کہ یہ سال یعنی 2020 نئے انتخابات کا سال ہے تو کہیں یہ بات صحیح ثابت نہ ہوجائے۔
Load Next Story