پشاور میں نمونیہ کا مرض بچوں میں اموات کی بڑی وجہ
اسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق صرف نمونیہ کے مرض کے باعث ایک سال میں 699بچوں کو داخل کیا گیا ہے
پشاور کے تینوں بڑے اسپتالوں میں نمونیہ و سانس(برونکائٹس) سے متعلقہ تکالیف میں مبتلا بڑی تعداد میں بیمار بچوں کو لایا جارہا ہے جبکہ دونوں امراض اس وقت بچوں کی اموات کی بڑی وجہ بن گئے ہیں۔
خیبر ٹیچنگ اسپتال میں58 بچے نمونیہ کے مرض کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے، جبکہ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں سانس کی بیماری برونکائٹس صرف ایک ماہ میں 96 بچوں کی جانیں نگل گئی۔ اسی طرح 25 بچوں کی اموات نمونیہ مرض سے بھی واقع ہوئی ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں بھی دسمبر سے رواں ماہ جنوری تک اسپتال میں نمونیہ کے مرض کا شکار لائے گئے 100 سے زائد بیمار بچوں میں 11 بچے جاں بحق ہوئے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ اس وقت اسپتالوں میں ان دونوں امراض کے باعث بچوں کے بستر کم پڑ گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ان تینوں اسپتالوں میں مختلف اضلاع مردان، دیر، نوشہرہ، سوات، صوابی، کوہاٹ، چارسدہ و پشاور سے خصوصاً ان امراض کا شکار مریض بچوں کو لایا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں کے وارڈز میں ایک بستر پر دو سے زائد بچوں کو ڈالا جارہا ہے، جس سے بچوں میں کراس انفیکشن کا بھی مسئلہ ہورہا ہے۔
اس بارے میں چلڈرن وارڈز کے بعض ڈاکٹروں کے مطابق بیمار بچوں کو ایمرجنسی کی حالت میں والدین دور دراز سے لاتے ہیں ان کو بغیر علاج کے واپس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب اسپتالوں میں ایک بستر ایک مریض کی پالیسی پر عملدرآمد چلڈرن وارڈز کے ڈاکٹروں کےلئے مشکل ہوگیا ہے۔ خیبر ٹیچنگ اسپتال کے دو چلڈرن وارڈز میں 84 بیڈز ہیں تاہم ایک روز میں صرف ایک وارڈ میں 100 سے زائد بچے ایڈمٹ ہورہے ہیں جس سے اسپتال کے بچوں کے وارڈز انتہائی رش کا شکار ہیں۔
اسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق صرف نمونیہ کے مرض کے باعث صرف ایک سال میں 699بچوں کو داخل کیا گیا ہے۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال کے تین بچوں کے وارڈز میں مجموعی طور پر 102 بچوں کے بیڈز کے مقابلے میں صرف ایک ماہ میں 1663بچوں کو داخل کرایا گیا ہے، جبکہ سانس کے مرض برونکائٹس کا شکار سب سے زیادہ بچے بھی ایل آر ایچ میں لائے جارہے ہیں جہاں تاحال بچوں کےلئے کوئی آئی سی یو بھی موجود نہی۔
ڈاکٹروں کے مطابق اسپتال میں لائے جانے والے بچوں میں 90 فیصد سے زائد کو آئی سی یو کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ تاحال ایم ٹی آئی اسپتال کا درجہ پانے اور مالی و انتظامی خودمختاری حاصل کرنے کے باوجود ایل آر ایچ میں بچوں کےلئے آئسولیشن کا انتظام نہ ہوسکا ہے۔ وارڈز میں صرف چیمبر بناکر کام چلایا جارہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ای پی آئی پروگرام نے نمونیہ سے بچاو کےلئے باضابطہ حفاظتی ویکسین متعارف کرارکھی ہے لیکن حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح اب بھی صوبے میں بہتر نہیں ہوسکی جس سے نمونیہ کے متاثرہ کیسز اب بھی سامنے آرہے ہیں۔
خیبر ٹیچنگ اسپتال میں58 بچے نمونیہ کے مرض کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے، جبکہ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں سانس کی بیماری برونکائٹس صرف ایک ماہ میں 96 بچوں کی جانیں نگل گئی۔ اسی طرح 25 بچوں کی اموات نمونیہ مرض سے بھی واقع ہوئی ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں بھی دسمبر سے رواں ماہ جنوری تک اسپتال میں نمونیہ کے مرض کا شکار لائے گئے 100 سے زائد بیمار بچوں میں 11 بچے جاں بحق ہوئے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ اس وقت اسپتالوں میں ان دونوں امراض کے باعث بچوں کے بستر کم پڑ گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ان تینوں اسپتالوں میں مختلف اضلاع مردان، دیر، نوشہرہ، سوات، صوابی، کوہاٹ، چارسدہ و پشاور سے خصوصاً ان امراض کا شکار مریض بچوں کو لایا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں کے وارڈز میں ایک بستر پر دو سے زائد بچوں کو ڈالا جارہا ہے، جس سے بچوں میں کراس انفیکشن کا بھی مسئلہ ہورہا ہے۔
اس بارے میں چلڈرن وارڈز کے بعض ڈاکٹروں کے مطابق بیمار بچوں کو ایمرجنسی کی حالت میں والدین دور دراز سے لاتے ہیں ان کو بغیر علاج کے واپس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب اسپتالوں میں ایک بستر ایک مریض کی پالیسی پر عملدرآمد چلڈرن وارڈز کے ڈاکٹروں کےلئے مشکل ہوگیا ہے۔ خیبر ٹیچنگ اسپتال کے دو چلڈرن وارڈز میں 84 بیڈز ہیں تاہم ایک روز میں صرف ایک وارڈ میں 100 سے زائد بچے ایڈمٹ ہورہے ہیں جس سے اسپتال کے بچوں کے وارڈز انتہائی رش کا شکار ہیں۔
اسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق صرف نمونیہ کے مرض کے باعث صرف ایک سال میں 699بچوں کو داخل کیا گیا ہے۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال کے تین بچوں کے وارڈز میں مجموعی طور پر 102 بچوں کے بیڈز کے مقابلے میں صرف ایک ماہ میں 1663بچوں کو داخل کرایا گیا ہے، جبکہ سانس کے مرض برونکائٹس کا شکار سب سے زیادہ بچے بھی ایل آر ایچ میں لائے جارہے ہیں جہاں تاحال بچوں کےلئے کوئی آئی سی یو بھی موجود نہی۔
ڈاکٹروں کے مطابق اسپتال میں لائے جانے والے بچوں میں 90 فیصد سے زائد کو آئی سی یو کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ تاحال ایم ٹی آئی اسپتال کا درجہ پانے اور مالی و انتظامی خودمختاری حاصل کرنے کے باوجود ایل آر ایچ میں بچوں کےلئے آئسولیشن کا انتظام نہ ہوسکا ہے۔ وارڈز میں صرف چیمبر بناکر کام چلایا جارہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ای پی آئی پروگرام نے نمونیہ سے بچاو کےلئے باضابطہ حفاظتی ویکسین متعارف کرارکھی ہے لیکن حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح اب بھی صوبے میں بہتر نہیں ہوسکی جس سے نمونیہ کے متاثرہ کیسز اب بھی سامنے آرہے ہیں۔