پاکستان میں آن لائن علاج کیلیے ٹیلی میڈیسن کی ماہر لیڈی ڈاکٹرز کی نئی فورس تیار
پاکستانی آئی ٹی فرم نے گھریلو ذمے داریوں اور مصروفیات کی وجہ سے پریکٹس نہ کرنے والی لیڈی ڈاکٹرز کی مشکل آسان کردی
پاکستانی ہیلتھ اسٹارٹ اپ نے آن لائن علاج معالجے کے لیے ٹیلی میڈیسن کی ماہر لیڈی ڈاکٹرز کی نئی فورس تیار کرلی۔
700لیڈی ڈاکٹرز جو بیرون ملک مقیم ہونے یا پاکستان میں اپنی گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے پریکٹس نہیں کرسکی تھیں انھیں آن لائن تربیت فراہم کرکے لیڈی ڈاکٹرز کی تعلیم و تربیت پر حکومت پاکستان کے خرچ ہونے والے 4 ارب روپے کا کثیر سرمایہ بھی محفوظ اور کارآمد بنالیا ہے، پاکستانی آئی ٹی فرم نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود گھریلو ذمے داریوں اور مصروفیات کی وجہ سے پریکٹس نہ کرنے والی لیڈی ڈاکٹرز کی مشکل آسان کردی، امور خانہ داری یا بیرون ملک منتقل ہونے والی پاکستانی ڈاکٹرز کے لیے متعارف کرائے گئے خصوصی پلیٹ فارم '' ای ڈاکٹر''کے ذریعے 700سے زائد لیڈی ڈاکٹرز کو دوبارہ شعبہ طب سے جوڑ دیا گیا جو جلد ہی ٹیلی میڈیسن کے ذریعے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہی مریضوں کا علاج کرسکیں گی۔
ای ڈاکٹر ایک آن لائن پورٹل ہے جو پاکستانی آئی ٹی فرم نے تیار کیا ہے اس پلیٹ فارم کو ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کی بھی سرپرستی حاصل ہے جس کا مقصد میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر پریکٹس نہ کرنیو الی لیڈی ڈاکٹرز کو شعبہ طب میں ہونے والی تبدیلیوں اور جدید طریقہ علاج کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید ٹولز کے استعمال کی تربیت دے کر آن لائن علاج معالجہ کی سہولت کو عام کرنا ہے۔
ای ڈاکٹر سے اب تک 700لیڈی ڈاکٹرز تربیت حاصل کرچکی ہیں جن میں پاکستان کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، چین، بحرین، گریس، انڈونیشیا، آئرلینڈ، ملائیشیا، ترکی، سنگاپور، نائیجیریا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر اور عمان میں مقیم پاکستانی لیڈی ڈاکٹر شامل ہیں جو بیرون ملک منتقل ہونے کی وجہ سے اپنے پیشے سے دور ہوگئیں اور میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پریکٹس نہیں کرسکیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی لیڈی ڈاکٹرز کے لیے ان ممالک میں پریکٹس کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ انھیں دیگر ملکوں میں کورسز کرنا پڑتے ہیں اور پریکٹس کے لیے رجسٹریشن اور لائسنس لینا پڑتا ہے جس پر کثیر خرچ آتا ہے۔
ٹیلی میڈیسن کے ذریعے آن لائن او پیڈی کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے
تربیت یافتہ لیڈی ڈاکٹرز کی اس فورس سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھرپور استفادہ کرسکتی ہیں پاکستان میں زیادہ تر ڈاکٹر شہروں میں خدمات کی انجام دہی کو ترجیح دیتے ہیں اور دیہی یا دور دراز علاقوں میں تعیناتی سے اجتناب کرتے ہیں ٹیلی میڈیسن کی اس سہولت سے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ڈاکٹرز کی قلت دور کی جاسکتی ہے شہروں میں بھی جہاں مریضوں کا اژدھام ہے اور ڈاکٹرز پر مریضوں کی زیادہ تعداد کا دباؤ ہے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے آن لائن او پی ڈی کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے ۔
اس طریقہ سے عوام کو خرچ نہیں برداشت کرنا پڑے گا جبکہ حکومت کے بھی ہسپتال یا کلینک کے انفرااسٹرکچر پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی ہوگی اور صحت کے عوامی بجٹ کو زیادہ موثر انداز میں استعمال کیا جاسکے گا۔ بڑی صارف کمپنیاں، بینک، انشورنس کمپنیاں، ٹیلی کمیونی کیشن یا موبائل کمپنیاں اپنے صارفین کو یہ سہولت بلامعاوضہ فراہم کرسکتی ہیں جس سے ملک میں عوام کا معیار زندگی بہتر ہوگا اور کاروباری اداروں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
ہیلتھ اسٹارٹ اپ اس لیے ناکام ہوئے کہ انھیں ڈاکٹرزکے مزاج کااندازہ نہیں تھا
عبداللہ بٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر ہیلتھ اسٹارٹ اپ اس لیے ناکام رہتے ہیں کیونکہ انھیں ڈاکٹرز کے مزاج اور عادات کا اندازہ نہیں ہوتا ڈاکٹر کسی مریض کا ڈیٹا فون پر معلوم کرکے درج کرنے اور اسے سنبھال کر رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ وہ مریضوں کا معائنہ کرنے پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں اس رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے Call Doc نے کال سینٹر کا تصوردیا ہے جہاں کال کرنے والے مریض اور ڈاکٹر کے درمیان ایک کال سینٹر آپریٹر ہوگا یہ پیرا میڈیکل تربیت یافتہ عملہ مریض سے اس کے کوائف مرض کی نوعیت اور علامتیں پہلے سے جاری علاج ، بخار، بلڈ پریشر، شوگر کی ریڈنگ وغیرہ مرتب کرے گا اور پھر مریض کے کوائف پہلے سے ڈاکٹر کو بھیج دیے جائیں گے تاکہ ڈاکٹر یہ تفصیلات مدنظر رکھتے ہوئے طبی مشورہ یا نسخہ تجویز کرسکیں، اس طرح ڈاکٹروں کا وقت بھی بچے گا اور مریض کو بھی اطمینان ہوگا کہ اس کے مرض کے بارے میں ڈاکٹر کو مفصل آگاہی حاصل ہے۔
ہرسال16ہزارمائیںطبی سہولت نہ ملنے سے فوت ہوجاتی ہیں
ای ڈاکٹر نامی پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستانی لیڈی ڈاکٹر ز کو تربیت کی فراہمی کا بیڑہ اٹھانے والے انجینئر عبداللہ بٹ اس سے قبل آن لائن ٹیوشن، قرآن کی تعلیم ، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے طبی مشاورت کے پروجیکٹس کرچکے ہیں، عبداللہ بٹ کے مطابق گھر بیٹھی لیڈی ڈاکٹرز کو تربیت دے کر ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقوں میں طبی سہولتوں کی فراہمی کا بنیادی مقصد پاکستان میں زچہ وبچہ کی بلند شرح اموات کو کم کرنا ہے پاکستان میں سالانہ 16ہزار سے زائد مائیں بروقت طبی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے فوت ہوجاتی ہیں اور نوزائیدہ بچوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زائد ہے۔
عبداللہ بٹ کے مطابق انھوں نے یہ آئیڈیا2013 میں پیش کیا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا 2018 میں ایک بار پھر ڈائو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے وائس چانسلر کے سامنے رکھا جسے انہوں نے اور شعبہ طب کی سینئر شخصیات نے خوب سراہا اور ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی کیونکہ ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر حکومت 50 لاکھ روپے کے اخراجات کرتی ہے اور پریکٹس نہ کرنے یا شعبہ ترک کرنے کی صورت میں یہ سرمایہ ضایع ہوجاتا ہے اور ڈاکٹرز کی قلت برقرار رہتی ہے اس پراجیکٹ کے لیے ڈائو یونیورسٹی نے سرپرستی فراہم کی اور دنیا کے بہترین ماہرین کی مدد سے ری فریش نصاب تیار کیا گیا جس کے ذریعے گھر بیٹھ جانے والی لیڈی ڈاکٹرز کو ان کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد میڈیکل کے شعبہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور جدت سے ہم آہنگ کیا گیا یہ آن لائن کورس 3 ، 3 ماہ کے 2 سیمسٹر پر مشتمل ہے جس کے ذریعے لیڈی ڈاکٹرز کو پروفیشنل معلومات کے ساتھ کلینکل معلومات، ادویات ، ادویات کے فارمولا جات، تشخیص کے جدید طریقوں اور پاکستان میں امراض کی نوعیت کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں، پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ ان لیڈی ڈاکٹرز کو ٹیلی میڈیسن کے جدید طریقے کی تربیت دی گئی جس کی مدد سے وہ انٹرنیٹ اور دیگر ڈیجیٹل سہولتوں اور ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہوئے مریضوں کا آن لائن معائنہ، تشخیص اور ادویات تجویز کرسکیں گی۔
عبداللہ بٹ کے مطابق گھر بیٹھی لیڈی ڈاکٹرز جو اپنے پیشہ کو تقریباً خیر باد کہہ چکی تھیں واپس شعبہ سے منسلک کرنا ایک مشکل کام تھا اور ان سمیت سینئر اساتذہ کو اتنی امید نہ تھی لیکن اپریل 2018 میں جب پہلے تربیتی بیچ کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں تو 350 لیڈی ڈاکٹرز نے رابطہ کیا جس میں70 فیصد بیرون ملک مقیم تھیں ان میں سے 130لیڈی ڈاکٹروں کو پہلے بیچ میں شامل کیا گیا، دوسرے بیچ میں160، تیسرے میں 240 اور چوتھے بیچ میں 140لیڈی ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کی گئی پانچویں بیچ کی رجسٹریشن جاری ہے جس میں 100کے لگ بھگ ڈاکٹروں کی شمولیت کا امکان ہے اس طرح 700 لیڈی ڈاکٹروں کی تربیت مکمل ہوچکی اب ان میں سے 400 ڈاکٹر نسخہ لکھنے کی تربیت لے رہی ہیں۔
700لیڈی ڈاکٹرز جو بیرون ملک مقیم ہونے یا پاکستان میں اپنی گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے پریکٹس نہیں کرسکی تھیں انھیں آن لائن تربیت فراہم کرکے لیڈی ڈاکٹرز کی تعلیم و تربیت پر حکومت پاکستان کے خرچ ہونے والے 4 ارب روپے کا کثیر سرمایہ بھی محفوظ اور کارآمد بنالیا ہے، پاکستانی آئی ٹی فرم نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود گھریلو ذمے داریوں اور مصروفیات کی وجہ سے پریکٹس نہ کرنے والی لیڈی ڈاکٹرز کی مشکل آسان کردی، امور خانہ داری یا بیرون ملک منتقل ہونے والی پاکستانی ڈاکٹرز کے لیے متعارف کرائے گئے خصوصی پلیٹ فارم '' ای ڈاکٹر''کے ذریعے 700سے زائد لیڈی ڈاکٹرز کو دوبارہ شعبہ طب سے جوڑ دیا گیا جو جلد ہی ٹیلی میڈیسن کے ذریعے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہی مریضوں کا علاج کرسکیں گی۔
ای ڈاکٹر ایک آن لائن پورٹل ہے جو پاکستانی آئی ٹی فرم نے تیار کیا ہے اس پلیٹ فارم کو ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کی بھی سرپرستی حاصل ہے جس کا مقصد میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر پریکٹس نہ کرنیو الی لیڈی ڈاکٹرز کو شعبہ طب میں ہونے والی تبدیلیوں اور جدید طریقہ علاج کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید ٹولز کے استعمال کی تربیت دے کر آن لائن علاج معالجہ کی سہولت کو عام کرنا ہے۔
ای ڈاکٹر سے اب تک 700لیڈی ڈاکٹرز تربیت حاصل کرچکی ہیں جن میں پاکستان کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، چین، بحرین، گریس، انڈونیشیا، آئرلینڈ، ملائیشیا، ترکی، سنگاپور، نائیجیریا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر اور عمان میں مقیم پاکستانی لیڈی ڈاکٹر شامل ہیں جو بیرون ملک منتقل ہونے کی وجہ سے اپنے پیشے سے دور ہوگئیں اور میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پریکٹس نہیں کرسکیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی لیڈی ڈاکٹرز کے لیے ان ممالک میں پریکٹس کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ انھیں دیگر ملکوں میں کورسز کرنا پڑتے ہیں اور پریکٹس کے لیے رجسٹریشن اور لائسنس لینا پڑتا ہے جس پر کثیر خرچ آتا ہے۔
ٹیلی میڈیسن کے ذریعے آن لائن او پیڈی کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے
تربیت یافتہ لیڈی ڈاکٹرز کی اس فورس سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھرپور استفادہ کرسکتی ہیں پاکستان میں زیادہ تر ڈاکٹر شہروں میں خدمات کی انجام دہی کو ترجیح دیتے ہیں اور دیہی یا دور دراز علاقوں میں تعیناتی سے اجتناب کرتے ہیں ٹیلی میڈیسن کی اس سہولت سے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ڈاکٹرز کی قلت دور کی جاسکتی ہے شہروں میں بھی جہاں مریضوں کا اژدھام ہے اور ڈاکٹرز پر مریضوں کی زیادہ تعداد کا دباؤ ہے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے آن لائن او پی ڈی کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے ۔
اس طریقہ سے عوام کو خرچ نہیں برداشت کرنا پڑے گا جبکہ حکومت کے بھی ہسپتال یا کلینک کے انفرااسٹرکچر پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی ہوگی اور صحت کے عوامی بجٹ کو زیادہ موثر انداز میں استعمال کیا جاسکے گا۔ بڑی صارف کمپنیاں، بینک، انشورنس کمپنیاں، ٹیلی کمیونی کیشن یا موبائل کمپنیاں اپنے صارفین کو یہ سہولت بلامعاوضہ فراہم کرسکتی ہیں جس سے ملک میں عوام کا معیار زندگی بہتر ہوگا اور کاروباری اداروں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
ہیلتھ اسٹارٹ اپ اس لیے ناکام ہوئے کہ انھیں ڈاکٹرزکے مزاج کااندازہ نہیں تھا
عبداللہ بٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر ہیلتھ اسٹارٹ اپ اس لیے ناکام رہتے ہیں کیونکہ انھیں ڈاکٹرز کے مزاج اور عادات کا اندازہ نہیں ہوتا ڈاکٹر کسی مریض کا ڈیٹا فون پر معلوم کرکے درج کرنے اور اسے سنبھال کر رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ وہ مریضوں کا معائنہ کرنے پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں اس رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے Call Doc نے کال سینٹر کا تصوردیا ہے جہاں کال کرنے والے مریض اور ڈاکٹر کے درمیان ایک کال سینٹر آپریٹر ہوگا یہ پیرا میڈیکل تربیت یافتہ عملہ مریض سے اس کے کوائف مرض کی نوعیت اور علامتیں پہلے سے جاری علاج ، بخار، بلڈ پریشر، شوگر کی ریڈنگ وغیرہ مرتب کرے گا اور پھر مریض کے کوائف پہلے سے ڈاکٹر کو بھیج دیے جائیں گے تاکہ ڈاکٹر یہ تفصیلات مدنظر رکھتے ہوئے طبی مشورہ یا نسخہ تجویز کرسکیں، اس طرح ڈاکٹروں کا وقت بھی بچے گا اور مریض کو بھی اطمینان ہوگا کہ اس کے مرض کے بارے میں ڈاکٹر کو مفصل آگاہی حاصل ہے۔
ہرسال16ہزارمائیںطبی سہولت نہ ملنے سے فوت ہوجاتی ہیں
ای ڈاکٹر نامی پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستانی لیڈی ڈاکٹر ز کو تربیت کی فراہمی کا بیڑہ اٹھانے والے انجینئر عبداللہ بٹ اس سے قبل آن لائن ٹیوشن، قرآن کی تعلیم ، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے طبی مشاورت کے پروجیکٹس کرچکے ہیں، عبداللہ بٹ کے مطابق گھر بیٹھی لیڈی ڈاکٹرز کو تربیت دے کر ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقوں میں طبی سہولتوں کی فراہمی کا بنیادی مقصد پاکستان میں زچہ وبچہ کی بلند شرح اموات کو کم کرنا ہے پاکستان میں سالانہ 16ہزار سے زائد مائیں بروقت طبی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے فوت ہوجاتی ہیں اور نوزائیدہ بچوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زائد ہے۔
عبداللہ بٹ کے مطابق انھوں نے یہ آئیڈیا2013 میں پیش کیا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا 2018 میں ایک بار پھر ڈائو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے وائس چانسلر کے سامنے رکھا جسے انہوں نے اور شعبہ طب کی سینئر شخصیات نے خوب سراہا اور ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی کیونکہ ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر حکومت 50 لاکھ روپے کے اخراجات کرتی ہے اور پریکٹس نہ کرنے یا شعبہ ترک کرنے کی صورت میں یہ سرمایہ ضایع ہوجاتا ہے اور ڈاکٹرز کی قلت برقرار رہتی ہے اس پراجیکٹ کے لیے ڈائو یونیورسٹی نے سرپرستی فراہم کی اور دنیا کے بہترین ماہرین کی مدد سے ری فریش نصاب تیار کیا گیا جس کے ذریعے گھر بیٹھ جانے والی لیڈی ڈاکٹرز کو ان کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد میڈیکل کے شعبہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور جدت سے ہم آہنگ کیا گیا یہ آن لائن کورس 3 ، 3 ماہ کے 2 سیمسٹر پر مشتمل ہے جس کے ذریعے لیڈی ڈاکٹرز کو پروفیشنل معلومات کے ساتھ کلینکل معلومات، ادویات ، ادویات کے فارمولا جات، تشخیص کے جدید طریقوں اور پاکستان میں امراض کی نوعیت کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں، پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ ان لیڈی ڈاکٹرز کو ٹیلی میڈیسن کے جدید طریقے کی تربیت دی گئی جس کی مدد سے وہ انٹرنیٹ اور دیگر ڈیجیٹل سہولتوں اور ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہوئے مریضوں کا آن لائن معائنہ، تشخیص اور ادویات تجویز کرسکیں گی۔
عبداللہ بٹ کے مطابق گھر بیٹھی لیڈی ڈاکٹرز جو اپنے پیشہ کو تقریباً خیر باد کہہ چکی تھیں واپس شعبہ سے منسلک کرنا ایک مشکل کام تھا اور ان سمیت سینئر اساتذہ کو اتنی امید نہ تھی لیکن اپریل 2018 میں جب پہلے تربیتی بیچ کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں تو 350 لیڈی ڈاکٹرز نے رابطہ کیا جس میں70 فیصد بیرون ملک مقیم تھیں ان میں سے 130لیڈی ڈاکٹروں کو پہلے بیچ میں شامل کیا گیا، دوسرے بیچ میں160، تیسرے میں 240 اور چوتھے بیچ میں 140لیڈی ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کی گئی پانچویں بیچ کی رجسٹریشن جاری ہے جس میں 100کے لگ بھگ ڈاکٹروں کی شمولیت کا امکان ہے اس طرح 700 لیڈی ڈاکٹروں کی تربیت مکمل ہوچکی اب ان میں سے 400 ڈاکٹر نسخہ لکھنے کی تربیت لے رہی ہیں۔