غلط فہمیاں دور ہونی چاہئیں
ہم نے کہا تھا کہ اس کا فیصلہ انسانوں کو نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ کسے شہید قرار دیتا ہے۔
یہ منور صاحب نے کیا کہہ دیا؟
ہٹ کر بیان ہے۔
ہٹ کر نہیں خطرناک بیان ہے۔
انھوں نے حکیم اللہ محسود کو شہید کہا ہے۔
ہم نے کہا تھا کہ اس کا فیصلہ انسانوں کو نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ کسے شہید قرار دیتا ہے۔
انھوں نے پاک فوج کے شہداء کو شہید ماننے سے انکار کیا ہے۔
میں نے کہا نا کہ ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے۔
سیاسی لیڈر بحث کرتے ہیں۔
اخباری نمایندے سوال کرتے ہیں اور وہ جواب دیتے ہیں۔
سیاستدانوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔
میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاستدانوں کو الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہنا چاہیے۔
اب یہ تو عجیب بات ہے کہ طالبان کا کمانڈر شہید اور ہماری فوج کے جان دینے والے شہید نہیں۔
ہاں یہ تو ہر انسان کے سمجھنے کی بات ہے۔
یہ کیا بات ہوئی؟
ہم نے پچھلی گفتگو میں بھٹو صاحب کی بات کی تھی۔
ہاں! آپ نے کہا تھا کہ کچھ لوگ انھیں شہید مانتے ہیں اور کچھ لوگ نہیں مانتے ہیں۔
یہی تو میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ یہ نازک معاملہ ہے۔
نازک کیسے؟
اب سپریم کورٹ نے محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی۔
اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
یہ کہ پھر شہید کون ہوا؟
دونوں کے چاہنے والے انھیں شہید کہیں گے۔
یہی تو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔
آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ دو انسان تھے اور فوج ایک ادارہ ہے۔
چلیں میں آپ کو دوسری مثال دیتا ہوں۔
جی فرمائیے!
پاک بھارت جنگ میں ہماری طرف سے جان لڑانے والے کو تو ہم شہید کہیں گے نا؟
اس میں کیا شک ہے۔
اب دیکھیں کہ ہندوستان کی فوج میں اگر کوئی مسلمان فوجی ہے تو؟
تو کیا؟ وہاں کروڑوں مسلمان ہیں تو ہزاروں فوج میں بھی ہوں گے۔
اگر وہ اپنے وطن کے لیے جان قربان کریں تو؟
میں سمجھا نہیں۔
ہندوستان کے لوگ اس مسلمان کو کیا کہیں گے جو پاکستانی فوجی کی گولی سے جاں بحق ہوا ہے؟
ہندوستانی اسے شہید کہیں گے۔
یعنی ہندوستانی مسلمان کی گولی سے جان دینے والا پاکستانی مسلمان بھی شہید اور پاکستانی مسلمان کی گولی سے مرنے والا ہندوستانی فوجی مسلمان بھی شہید۔
ہاں! اسی طرح تو دونوں کو اس کے ملک میں رہنے والے شہید کہیں گے۔
یہی تو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔
لیکن پاکستانی تو پاکستانی کو شہید کہیں گے نا؟
اب جماعت اسلامی کہہ رہی ہے لیکن منور حسن اسے صاف صاف شہید نہیں مان رہے۔
پھر تو پارٹی اور اس کے لیڈر کی سوچ الگ الگ ہوئی نا۔
اب کسی کی ذاتی رائے پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی۔
پارٹی کے لیڈر کو پارٹی کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ منور صاحب کو محتاط رہنا چاہیے۔
میں مانتا ہوں کہ انھیں میڈیا کو ہینڈل کرنا نہیں آتا۔
وہ کیسے؟
وہ انٹرویو لینے والے سے الجھ پڑتے ہیں۔
ان کے سوالات بھی تو تیکھے ہوتے ہیں۔
یہ تو صحافیوں کا کام ہے۔ منور صاحب ان پر الزامات لگاتے ہیں۔
کیسے الزامات؟
وہ اینکر پرسن سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے مخالفین سے ملے ہوئے ہو۔
کچھ ٹی وی میزبان متعصب بھی ہوتے ہیں۔
ہوتے ہوں گے لیکن بڑے سیاسی لیڈر کو سمجھداری سے ان کے سوالات کا جواب دینا چاہیے۔
آپ کو ان سے بڑی شکایات ہیں۔
میں سچ بات کرتا ہوں۔ دیکھیں اب انٹرویو کو ادھورا چھوڑ دینا تو مناسب نہیں ہوتا۔
ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔
کبھی کبھار اور اکثر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جماعت کے دوسرے لیڈر ایسا نہیں کرتے۔
دیکھیں اب جماعت اور آرمی میں اختلافات سامنے آ گئے ہیں۔ کچھ لوگ پانی کے بجائے تیل چھڑک رہے ہیں اور جماعت پر پابندی کی بات کر رہے ہیں۔
ایسا ایوب دور میں ہوا تھا جب جماعت پر پابندی لگی تھی۔
وہ ایک ریٹائرڈ جنرل کی سیاسی حکومت تھی اور سپریم کورٹ نے پابندی کو ناجائز قرار دیا تھا۔
سنا ہے مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی نے آرمی کا ساتھ دیا تھا۔
ہاں! زبانی نہیں بلکہ عملی۔ اس کی سزا آج بھی جماعت والے بنگلہ دیش میں بھگت رہے ہیں۔
کس بات کی سزا؟
پاکستان کو ایک رکھنے کی کوشش کی سزا۔
جماعت نے ضیا الحق کا بھی تو ساتھ دیا تھا۔
اسلامی نظام کے نفاذ کی حمایت کی اور آمریت کی مخالفت کی تھی۔
اور مشرف کے ساتھ۔
شروع میں خلاف تھے لیکن 17 ویں ترمیم پر ساتھ دیا تھا؟
وہ تو ایم ایم اے، ایم کیو ایم اور (ق) لیگ والے سب مشرف کے ساتھ تھے۔ ہمیں سچی بات کرنی چاہیے۔
گویا جماعت کا اور آرمی کا رشتہ پیار اور دوری کا رشتہ ہے۔
اب سب کا رشتہ فوج سے پیار کا ہونا چاہیے۔
اب کیوں؟
اس لیے کہ فوج سیاست سے دور ہے اور وطن دشمنوں کے خلاف لڑ رہی ہے اور جان قربان کر رہی ہے۔
پھر کیا کرنا چاہیے؟
فوج اور سیاسی پارٹیوں کو آمنے سامنے نہیں کرنا چاہیے۔
پھر اب کیا ہونا چاہیے۔
غلط فہمیاں دور ہونی چاہئیں۔
کس کس کے درمیان۔
دونوں کے درمیان۔
کون دونوں؟
پاک آرمی اور جماعت اسلامی۔
ہٹ کر بیان ہے۔
ہٹ کر نہیں خطرناک بیان ہے۔
انھوں نے حکیم اللہ محسود کو شہید کہا ہے۔
ہم نے کہا تھا کہ اس کا فیصلہ انسانوں کو نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ کسے شہید قرار دیتا ہے۔
انھوں نے پاک فوج کے شہداء کو شہید ماننے سے انکار کیا ہے۔
میں نے کہا نا کہ ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے۔
سیاسی لیڈر بحث کرتے ہیں۔
اخباری نمایندے سوال کرتے ہیں اور وہ جواب دیتے ہیں۔
سیاستدانوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔
میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاستدانوں کو الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہنا چاہیے۔
اب یہ تو عجیب بات ہے کہ طالبان کا کمانڈر شہید اور ہماری فوج کے جان دینے والے شہید نہیں۔
ہاں یہ تو ہر انسان کے سمجھنے کی بات ہے۔
یہ کیا بات ہوئی؟
ہم نے پچھلی گفتگو میں بھٹو صاحب کی بات کی تھی۔
ہاں! آپ نے کہا تھا کہ کچھ لوگ انھیں شہید مانتے ہیں اور کچھ لوگ نہیں مانتے ہیں۔
یہی تو میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ یہ نازک معاملہ ہے۔
نازک کیسے؟
اب سپریم کورٹ نے محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی۔
اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
یہ کہ پھر شہید کون ہوا؟
دونوں کے چاہنے والے انھیں شہید کہیں گے۔
یہی تو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔
آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ دو انسان تھے اور فوج ایک ادارہ ہے۔
چلیں میں آپ کو دوسری مثال دیتا ہوں۔
جی فرمائیے!
پاک بھارت جنگ میں ہماری طرف سے جان لڑانے والے کو تو ہم شہید کہیں گے نا؟
اس میں کیا شک ہے۔
اب دیکھیں کہ ہندوستان کی فوج میں اگر کوئی مسلمان فوجی ہے تو؟
تو کیا؟ وہاں کروڑوں مسلمان ہیں تو ہزاروں فوج میں بھی ہوں گے۔
اگر وہ اپنے وطن کے لیے جان قربان کریں تو؟
میں سمجھا نہیں۔
ہندوستان کے لوگ اس مسلمان کو کیا کہیں گے جو پاکستانی فوجی کی گولی سے جاں بحق ہوا ہے؟
ہندوستانی اسے شہید کہیں گے۔
یعنی ہندوستانی مسلمان کی گولی سے جان دینے والا پاکستانی مسلمان بھی شہید اور پاکستانی مسلمان کی گولی سے مرنے والا ہندوستانی فوجی مسلمان بھی شہید۔
ہاں! اسی طرح تو دونوں کو اس کے ملک میں رہنے والے شہید کہیں گے۔
یہی تو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔
لیکن پاکستانی تو پاکستانی کو شہید کہیں گے نا؟
اب جماعت اسلامی کہہ رہی ہے لیکن منور حسن اسے صاف صاف شہید نہیں مان رہے۔
پھر تو پارٹی اور اس کے لیڈر کی سوچ الگ الگ ہوئی نا۔
اب کسی کی ذاتی رائے پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی۔
پارٹی کے لیڈر کو پارٹی کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ منور صاحب کو محتاط رہنا چاہیے۔
میں مانتا ہوں کہ انھیں میڈیا کو ہینڈل کرنا نہیں آتا۔
وہ کیسے؟
وہ انٹرویو لینے والے سے الجھ پڑتے ہیں۔
ان کے سوالات بھی تو تیکھے ہوتے ہیں۔
یہ تو صحافیوں کا کام ہے۔ منور صاحب ان پر الزامات لگاتے ہیں۔
کیسے الزامات؟
وہ اینکر پرسن سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے مخالفین سے ملے ہوئے ہو۔
کچھ ٹی وی میزبان متعصب بھی ہوتے ہیں۔
ہوتے ہوں گے لیکن بڑے سیاسی لیڈر کو سمجھداری سے ان کے سوالات کا جواب دینا چاہیے۔
آپ کو ان سے بڑی شکایات ہیں۔
میں سچ بات کرتا ہوں۔ دیکھیں اب انٹرویو کو ادھورا چھوڑ دینا تو مناسب نہیں ہوتا۔
ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔
کبھی کبھار اور اکثر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جماعت کے دوسرے لیڈر ایسا نہیں کرتے۔
دیکھیں اب جماعت اور آرمی میں اختلافات سامنے آ گئے ہیں۔ کچھ لوگ پانی کے بجائے تیل چھڑک رہے ہیں اور جماعت پر پابندی کی بات کر رہے ہیں۔
ایسا ایوب دور میں ہوا تھا جب جماعت پر پابندی لگی تھی۔
وہ ایک ریٹائرڈ جنرل کی سیاسی حکومت تھی اور سپریم کورٹ نے پابندی کو ناجائز قرار دیا تھا۔
سنا ہے مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی نے آرمی کا ساتھ دیا تھا۔
ہاں! زبانی نہیں بلکہ عملی۔ اس کی سزا آج بھی جماعت والے بنگلہ دیش میں بھگت رہے ہیں۔
کس بات کی سزا؟
پاکستان کو ایک رکھنے کی کوشش کی سزا۔
جماعت نے ضیا الحق کا بھی تو ساتھ دیا تھا۔
اسلامی نظام کے نفاذ کی حمایت کی اور آمریت کی مخالفت کی تھی۔
اور مشرف کے ساتھ۔
شروع میں خلاف تھے لیکن 17 ویں ترمیم پر ساتھ دیا تھا؟
وہ تو ایم ایم اے، ایم کیو ایم اور (ق) لیگ والے سب مشرف کے ساتھ تھے۔ ہمیں سچی بات کرنی چاہیے۔
گویا جماعت کا اور آرمی کا رشتہ پیار اور دوری کا رشتہ ہے۔
اب سب کا رشتہ فوج سے پیار کا ہونا چاہیے۔
اب کیوں؟
اس لیے کہ فوج سیاست سے دور ہے اور وطن دشمنوں کے خلاف لڑ رہی ہے اور جان قربان کر رہی ہے۔
پھر کیا کرنا چاہیے؟
فوج اور سیاسی پارٹیوں کو آمنے سامنے نہیں کرنا چاہیے۔
پھر اب کیا ہونا چاہیے۔
غلط فہمیاں دور ہونی چاہئیں۔
کس کس کے درمیان۔
دونوں کے درمیان۔
کون دونوں؟
پاک آرمی اور جماعت اسلامی۔