بلدیاتی انتخابات پیپلزپارٹی میدانِ عمل میں

متوقع بلدیاتی انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لیے مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔

کاغذاتِ نام زدگی جمع کرانے کے لیے فارم کی عدم دست یابی پر سیاسی جماعتیں اور عوام بھی پریشان ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
متوقع بلدیاتی انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لیے مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، لیکن کاغذاتِ نام زدگی جمع کرانے کے لیے فارم کی عدم دست یابی پر سیاسی جماعتیں اور عوام بھی پریشان ہیں۔ شہداد کوٹ میں مسلم لیگ (ن) کے راہ نما میر غیبی خان مغیری خاصے متحرک نظر آرہے ہیں۔

انہوں نے عام انتخابات کے دوران قائم کیے گئے اتحاد کو مزید فعال، مضبوط اور وسیع بنانے کے لیے پچھلے دنوں پیپلزپارٹی کے مخالف تمام حلقوں کے راہ نمائوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا، جو دراصل ان کی بلدیاتی انتخابات کی سرگرمیوں کا آغاز تھا۔ اس تقریب میں مقررین نے پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اور منتخب نمایندوں کی جانب سے شہر کو نظر انداز کیے جانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس موقع پر بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی رابطوں کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں میر غیبی خان مغیری کی قیادت میں رابطوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی نے بھی اپنی کوششیں شروع کردی ہیں۔ تاہم پیپلزپارٹی کی دو بڑوں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلال زرداری بھٹو کی محترمہ فریال تالپور اور میر نادر علی خان مگسی کے درمیان سیاسی رنجشوں اور بعض تنازعات کے باعث مقامی سطح پر راہ نما اور کارکن تذبذب کا شکار ہیں۔ ان دونوں بڑی سیاسی شخصیات کے اختلافات کے باعث پارٹی میں دھڑے بن چکے ہیں، جس کا بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر اثر پڑ سکتا ہے۔

عام انتخابات سے تھوڑا عرصہ قبل ایک اہم اور طاقت ور قبائلی شخصیت اور چانڈیہ قوم کے نواب سردار احمد خان چانڈیو کی پارٹی میں شمولیت کے معاملے پر دونوں راہ نماؤں میں اختلافات پیدا ہوئے تھے، جو تاحال برقرار ہیں۔ ان اختلافات کو آصف علی زرداری اور بلال بھٹو زرداری بھی ختم نہیں کراسکے۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات میں نادر مگسی نے فریال تالپور کی انتخابی مہم سے لاتعلقی اختیار کیے رکھی اور فریال تالپور نے نادر مگسی کے مخالفین پر مشتمل کمیٹی سے مدد لی۔ اس وقت نادر مگسی سیاسی تنہائی کا شکار نظر آرہے ہیں اور ان کی جگہ پارلیمانی سیاست میں نووارد نواب سردار احمد خان چانڈیو پارٹی قیادت کے قریب اور ضلعی امور میں انتہائی بااختیار معلوم ہورہے ہیں۔ میر نادر مگسی نے کافی دنوں بعد امریکا سے واپسی پر حلقہ بندیوں بالخصوص اپنے حلقۂ انتخاب تحصیل سجاول جونیجو اور قبو سعید خان کی تنزلی کے بعد یونین کونسلیں بنانے کے معاملے پر براہ راست حکومت اور بالواسطہ قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ کافی عرصے سے خاموش تھے، لیکن اب بولنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں انہوں نے عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں لی۔ پچھلے پانچ سالہ اقتدار میں سیاسی آشیرباد سے میونسپل ادارے میں افسران نے بدعنوانی کی انتہا کر دی اور شہریوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکے اور آج بھی لوگ ان کے کیے دھرے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اس دوران منتخب نمایندے بھی خاموش نظر آئے اور اس ادارے سے مالی اور دیگر مفادات پورے کرتے رہے۔ عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو لوگوں کو توقع تھی کہ ماضی میں ان کے ساتھ اس ادارے کی جانب سے ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا ازالہ ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہوتا نظر آرہا، حالاں کہ اس بار 28 سال تک پارلیمانی سیاست پر راج کرنے والے نادر مگسی کے بجائے فریال تالپور ہر طرح بااختیار اور مالک ہیں۔

وہ شہریوں کے مسائل حل کرنے میں خصوصی دل چسپی بھی لے رہی ہیں۔ پچھلے دنوں ان کے حکم پر ڈی سی سے لے کر کمشنر اور سیکریٹری نے بھی متعدد مرتبہ یہاں کے دورے کیے۔ حتیٰ کہ ان کی ہدایت پر دو دو ڈپٹی کمشنروں نے اپنی نگرانی میں نالیاں صاف کروائیں۔ فریال تالپور کی اس دل چسپی کو دیکھ کر لوگوں کو امید ہوئی کہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر فریال تالپور میونسپل کمیٹی میں عوام دوست افسران کی تعیناتی یقینی بنائیں تو زیادہ بہتر ہو گا، کیوں کہ شہریوں کا خیال ہے کہ ان افسران کی نگرانی میں کوئی کام معیاری اور دیرپا نہیں ہو سکتا۔ سیاسی اور سماجی شعور رکھنے والے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹی کی مقامی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کے اندرونی اختلافات کے ساتھ میونسپل کمیٹی اور عوام دشمن افسران ناکامی کا سبب نہ بن جائیں۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی ضلع قمبر شہداد کوٹ کا اجلاس ضلعی صدر ایم پی اے غلام مجبتیٰ اسران کی قیادت میں منعقد ہوا، جس میں بلدیاتی انتخابات پر غور و خوض کرنے کے ساتھ امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے لیے بورڈ تشکیل دیے جانے کا اعلان کیاگیا۔ اس بار ضلع قمبر شہداد کوٹ میں بلدیاتی انتخابات میں دل چسپ صورت حال پیدا ہو سکتی ہے، کیوں کہ پیپلزپارٹی کو ایک طرف مضبوط اپوزیشن سے مقابلہ کرنا ہوگا، جو عام انتخابات میں ابھر کر سامنے آئی اور دوسری جانب پارٹی کے اندرونی اختلافات کے اثرات سامنے آسکتے ہیں۔

الزامات اور احتجاج کی سیاست زوروں پر
پیپلز پارٹی کے مقامی دھڑوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں
دہشت گردی کے واقعات اور بدامنی کی صورت حال پر قابو پانے، جرائم پیشہ افراد خصوصاً ملک کے آئین اور قانون کو چیلنج کرنے والے عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے 'تحفظ پاکستان بل' کے تحت اقدامات پر سندھ کی بعض قوم پرست جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پچھلے دنوں جیے سندھ متحدہ محاذ کی اپیل پر تحفظ پاکستان آرڈیننس کے خلاف مختلف شہروں میں ہڑتال کی گئی اور کارکنوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ پولیس کے ہاتھوں متعدد کارکنوں کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ شہر سمیت بالائی سندھ کے چھوٹے، بڑے علاقوں میں جلسوں کے دوران راہ نماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تحفظ پاکستان آرڈیننس اقوام متحدہ کے چارٹر اور آئین سے متصادم ہے، حکومت قوم پرستوں پر اس آرڈیننس کے ذریعے دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔ سائیں جی ایم سید کے پیروکار حکومتی ہتھکنڈوں سے خائف نہیں ہوں گے، سندھ کی آزادی کی جدوجہد آخری سانس تک جاری رہے گی۔

عدالت کے احکامات کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں اور اب نام زدگی فارم جمع کروانے کا مرحلہ آگیا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کے امیدوار اور مختلف شخصیات کی طرف سے نام زدگی فارم نہ ملنے کی شکایت کی جارہی ہے اور اب وہ اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ سکھر، روہڑی، پنوعاقل، صالح پٹ، خیرپور اور گھوٹکی کے اضلاع میں حالیہ حلقہ بندیوں پر سیاسی جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بھی احتجاج کیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ، فنکشنل لیگ، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر جماعتوں کے ذمہ داران نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اپنے من پسند افراد کو کام یاب کرانے کے لیے دھاندلیوں کا آغاز کردیا ہے، جس کی واضح مثال حلقہ بندیاں ہیں۔

مقامی سطح پر پیپلزپارٹی عرصے سے دھڑے بندی کا شکار ہے اور بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد سید خورشید احمد شاہ، اسلام الدین شیخ گروپ کی جانب سے بھرپور سرگرمیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دونوں گروپوں کے ہم درد ایک دوسرے پر برتری لے جانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں پیپلزپارٹی کے مرکزی راہ نما سینیٹر اسلام الدین شیخ نے ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے موقع پر میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے کہاکہ پیپلزپارٹی عوامی جماعت ہے، بلدیاتی الیکشن کے لیے پی پی پی مخالف اتحاد بننے کی باتیں سیاسی ہیں۔




سکھر سمیت سندھ بھر میں پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کرے گی۔ اسلام الدین شیخ کی جانب سے بلدیاتی انتخابات سے قبل اپنے صاحبزادے ارسلان شیخ کو کسی اہم عہدے پر فائز کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کے بعد قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی سکھر کے دوسرے دھڑے کے سربراہ سید خورشید احمد شاہ نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ پچھلے دنوں نیوی پارک روہڑی میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ اقتدار یا ایوان کبھی ہماری منزل نہیں رہا۔ ہم حسینت کے پیرو کار ہیں، ہم نے منافقت کی نہیں بلکہ جمہوریت اور عوام کی سیاست کی ہے۔ اسٹیل مل اور دیگر اداروں کی نجکاری لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کر نے کی کوشش ہے، جسے پیپلز پارٹی قبول نہیں کرے گی۔

موجودہ وفاقی حکومت کی ناقص پالیسوں کے باعث نہ تو بجلی کی لوڈ شیدنگ ختم ہوسکی اور نہ ہی ڈرون حملے اور دہشت گردی رکی ہے۔ بھٹو شہید نے عوام کو احساس دلایا کہ طا قت کا سرچشمہ وہ ہیں، اس ملک پر صرف پچیس خا ندانوں کا حق نہیں، مزدور اور کسان کا بھی ہے اور ہماری طاقت بھی یہی عوام ہیں۔ گذشتہ 30 سال سے پیپلزپارٹی کے نمایندے سکھر سمیت آس پاس کے علاقوں سے کام یاب ہوکر ایوانوں میں پہنچ رہے ہیں، مگر عوام کو دعووں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سینیٹر اسلام الدین شیخ، قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ پیپلزپارٹی میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ تاہم آج تک دونوں نے موروثی سیاست کے خاتمے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ایم این اے، ایم پی اے، ضلع، تعلقہ، یوسی ناظم کے لیے ٹکٹ دینے کا مرحلہ آتا ہے تو سب سے پہلے عزیز و اقارب کو نوازا جاتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پی پی پی کے عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے دار اپنے عزیزوں اہم ذمہ داریاں دلانے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔

طویل عرصے سے یونی ورسٹی سے محروم شہر کے باسی اب اس سلسلے میں جدوجہد کرنے کے لیے میدان میں نظر آرہے ہیں۔ 'سکھر ایجوکیشنل نیٹ ورک فاؤنڈیشن' کے چیئرمین حاجی تسنیم احمد شیخ، جنرل سیکریٹری خصال الدین نے سکھر یونیورسٹی کے قیام سے متعلق کہا ہے کہ یونی ورسٹی کے قیام کی جدوجہد جاری رہے گی اور وہ اس معاملے کو سرد نہیں پڑنے دیں گے، صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران سمیت قائد حزب اختلاف نے سکھر یونی ورسٹی کے قیام کے لیے کوشش اور اپنا کردار ادا نہ کیا تو مقامی نوجوان سندھ اسمبلی اور پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کا رخ کریں گے۔

10محرم الحرام کے بعد سکھر یونی ورسٹی کے قیام کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کی جائے گی۔ منتخب نمایندوں کا اپنے ووٹروں سے غیر سنجیدہ رویہ، مصروفیات کے بہانے اسلام آباد، کراچی اور بیرون ملک طویل قیام سے لوگوں میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ بنیادی ضروریات اور مسائل حل نہ ہونے پر شہر کی مختلف برادریوں نے بلدیاتی انتخابات میں اپنی قیادت سامنے لانے کے لیے کام شروع کردیا ہے۔ عوام ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی موروثی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع ملنا چاہیے جو ہر قسم کے حالات میں عوام سے اپنا تعلق جوڑے رکھیں اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے عملی طور پر کوشش کریں۔

مقامی سطح پر نئے سیاسی اتحاد کا شور
مختلف حلقوں نے نئی حد بندیوں کو مسترد کردیا
ضلع ٹنڈوالہ یار میں بلدیاتی انتخابات سے قبل حدبندیوں کو مختلف سیاسی جماعتوں اور حلقوں نے مسترد کر دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کہ یہ حکم راں جماعت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہے۔ حالیہ حد بندی کے بعد اب ٹنڈوالہ یار 1 میونسپل کمیٹی، 5 ٹاؤن کمیٹیوں اور 24 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے، جب کہ حد بندی سے پہلے ٹنڈوالہ یار 20 یونین کونسلوں پر مشتمل تھا اور ایک ٹاؤن کمیٹی تھی۔ اس سلسلے میں ''ایکسپریس'' نے ڈپٹی کمشنر ٹنڈوالہ یار آغا عبدالرحیم پٹھان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے حکومت سندھ کی جانب سے ملنے والی ہدایات کے مطابق حلقہ بندیاں کی ہیں اور یہ حلقہ بندیاں 1998 کی مردم شماری کے مطابق کی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹنڈوالہ یار تعلقہ میں دو ٹاؤن کمیٹیاں بنائی گئی ہیں، جن میں ٹاؤن کمیٹی نصرپور اور ٹاؤن کمیٹی دُلکی ایٹ خواجہ گوٹھ ہے، جب کہ ٹنڈوالہ یار کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔

تعلقہ ٹنڈوالہ یار نئی حلقہ بندی سے قبل نو یونین کونسلوں پر مشتمل تھا، جن میں ٹنڈوالہ یار ون، ٹنڈوالہ یار ٹو، ٹنڈوالہ یار تھری، ٹنڈوالہ یار فور، پاک سنگھار، دھینگانو بوزدار، شیخ موسیٰ، بوکھیرا شیرف اور نصر پور شامل تھے۔

نئی حلقہ بندی کے تحت ٹنڈوالہ یار میں چھے یونین کونسل شامل ہیں، جن میں نو تشکیل شدہ یونین کونسل شاہ عنایت، یونین کونسل شیخ موسی، یونین کونسل کامارو، یونین کونسل دھنگانو بوزدار، یونین کونسل بُکھیرا شریف اور یونین کونسل کھوکھر شامل ہیں، جب کہ تعلقہ جھنڈو مری نئی حلقہ بندیوں سے قبل سات یونین کونسلوں پر مشتمل تھا، جن میں یونین کونسل جھنڈو مری، یونین کونسل مسن، میراں آباد، داسوڑی، ٹنڈو سومرو، شاہ پور رضوی شامل تھیں اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد تعلقہ جھنڈو مری میں دس یونین کونسلیں اور ایک ٹاؤن کمیٹی بنائی گئی ہے اور اس میں تین نئی یونین کونسلیں شامل کی گئی ہیں، جن میں یونین کونسل جھنڈو مری، پناہ شاہ، داسوڑی، میراں آباد، پاندھی خان تھیبو، طیب تھیبو ایٹ عثمان شاہ ہوڑی، ٹنڈو سومرو، شاہ پور رضوی، جب کہ یونین کونسلوں میں میر سرور تالپور ایٹ سلطان آباد اور یونین کونسل مسن شامل ہیں۔

اس کے علاوہ تعلقہ چمبڑ نئی حلقہ بندی سے قبل پانچ یونین کونسلوں پر مشتمل تھا، جن میں چمبڑ ایک، چمبڑ ٹو، بیگن جروار، داد خان جروار اور سنجر چانگ شامل تھے اور اب نئی حلقہ بندی کے بعد تعلقہ چمبڑ دو ٹاؤن کمیٹیوں اور آٹھ یونین کونسلوں پر مشتمل ہوگا، جن میں ٹاؤن کمیٹی چمبڑ، ٹاؤن کمیٹی سنجر چانگ، یونین کونسل نصیر خان لغاری، یونین کونسل راوت لغاری، بیگن جروار، جب کہ نئی یونین کونسل بختاور پتافی، دریا خان مری، حاجی محمد یعقوب بچانی، باقر شاہ، مسو بوزدار شامل ہیں۔ اس طرح ٹنڈوالہ یار نئی حلقہ بندیوں کے بعد ایک میونسپل کمیٹی، پانچ ٹاؤن کمیٹیوں اور چوبیس یونین کونسلوں پر مشتمل ہوگا۔ نئی حلقہ بندیوں کے لیے جو مسودہ تیار کیا گیا ہے، وہ لوکل گورنمنٹ کو بھجوا دیا گیا ہے۔

سیاسی حلقوں نے نئی حد بندیوں پر نہ صرف اعتراضات کیے ہیں، بلکہ اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ نئی حد بندیوں کے بعد حکم راں جماعت کے خلاف مقامی سطح پر سیاسی اتحاد کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے اور باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں رابطے بھی شروع کر دیے گئے ہیں۔

ڈویژنل کمشنر حیدرآباد جمال مصطفیٰ سید نے کہا ہے کہ وقت بہت کم ہے اور دوبارہ حلقہ بندیاں نہیں کرائی جاسکتیں۔ یہ بات انہوں نے ڈپٹی کمشنر ٹنڈوالہ یار کے دفتر میں حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی سماعت کے بعد کہی۔ انہوں نے کہاکہ ٹنڈوالہ یار میں حلقہ بندیوں پر 50 اعتراضات داخل کیے گئے تھے۔ دوسری جانب اعتراضات کی سماعت کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے مختلف وارڈوں، دیہات اور میونسپل کمیٹی ٹنڈوالہ یار کی حلقہ بندیوں کو 1998کی مردم شماری کی آبادی سے ہٹ کر آئین سے متصادم قرار دیا گیا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے مقامی راہ نماؤں حق نواز قائم خانی،کریم خانزادہ، آفتاب خانزادہ اور دیگر نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تیار کیا گیا حلقہ بندیوں کا مسودہ 1998کی مردم شماری کے مطابق نہیں ہے۔ حالیہ حلقہ بندیاں متعلقہ افسران کی من مانیوں کا نتیجہ ہیں۔ دوسری طرف جمال مصطفی سید نے تمام اعتراضات کی سماعت کے بعد ایک لیٹر کے ذریعے ڈپٹی کمشنر ٹنڈوالہ یار کو ہدایت دی کہ وہ معترضین کے ساتھ بات چیت کر کے حلقہ بندیوں پر ان کے اعتراضات کو دور کریں اور 1998کی مردم شماری کے مطابق رپورٹ تیار کر کے انہیں پیش کریں۔
Load Next Story