پنجاب میں چند وزراء کے قلمدان تبدیل
وزیر اعلٰی شپباز شریف نے خلیل طاہر خلیل سندھو سے صحت اور شیر علی سے توا نائی کے محکموں کا قلمدان واپس لےلیا ہے۔
پنجاب میں بعض وزراء کے محکمے تبدیل کئے گئے ہیں، یہ ردوبدل صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو کے استعفے سے پیداہونے والی صورتحال کے باعث کیا گیا۔
خلیل طاہر خلیل سندھو سے صحت اور شیر علی سے توا نائی کے محکموں کا قلمدان واپس لیا گیا ہے۔ خلیل طاہر سندھو انسانی حقوق و اقلیتی امور جبکہ شیر علی معدنیات کے وزیر ہوں گے۔ ہارون سلطان سے اوقاف و مذہبی امور کا قلمدان واپس لے کر میاں عطاء مانیکا کو سونپ دیا گیا ہے، اب ہارون سلطان کے پاس سماجی بہبود اور بیت المال کے محکمے ہوں گے جبکہ خواجہ سلمان رفیق کو صوبائی وزیر صحت بنا دیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر شیر علی سے غیر تسلی بخش کارکردگی پر توانائی کی وزارت واپس لی گئی ہے، اب یہ وزارت وزیراعلیٰ شہباز شریف کے پاس رہے گی۔
صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو کا استعفیٰ دراصل مسلم لیگ(ن) میں لاہوری گروپ کی وزیرقانون، پارلیمانی امور و بلدیات رانا ثناء اﷲ کے درمیان سرد جنگ کا بھی نتیجہ ہے۔ اس گروپ میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، وزیرتعلیم رانا مشہود احمد اور دیگر کئی لیگی ارکان شامل ہیںجنہوں نے پہلے دن سے ہی خلیل طاہر سندھو کو بطور وزیر صحت تسلیم نہیں کیا تھا کیونکہ خلیل طاہر سندھو کا شمار رانا ثناء اﷲ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ اس گروپ نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے وزیر کے خلاف مہم چلا کر اچھا پیغام نہیں دیا۔ رانا مشہود گروپ نے کابینہ کی تشکیل کے وقت رانا ثناء اﷲ کو بھی آؤٹ کر انے کیلئے بھرپور مہم چلائی تھی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ رانا مشہود وزارت قانون کے امیدوار تھے جس پر رانا ثناء اﷲ کو سپیکر پنجاب اسمبلی بنانے کی تجویز بھی آئی لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔
خلیل طاہر سندھو کا شمار انتہائی سرگرم اور فعال وزراء میں ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی نے گورنرراج کے دوران خلیل طاہر سندھو کو وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے مالی فوائد کی پیشکش کی تھی لیکن وہ پارٹی کے ساتھ وفادار رہے۔ وزیر صحت کی حیثیت سے ڈینگی کے مریضوں کا علاج معالجہ ان کی ذمہ داری تھی جبکہ ڈینگی کی روک تھام کے اقدامات کرنا صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کا کام تھا ۔ محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2011ء میں ڈینگی سے 352 ، خسرہ سے 192 اور پی آئی سی کی جعلی ادویات سے بھی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ اس وقت محکمہ صحت کا چارج بھی وزیراعلیٰ کے پاس تھا۔
اس سال ڈینگی سے صرف 10ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ دراصل مسلم لیگ(ن) شعبہ خواتین لاہور کی صدر شائستہ پرویز ملک نے انسداد ڈینگی کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسروں واہلکاروں کو اسناد کی تقریب میں شکایت کی تھی کہ انہیں ڈینگی کے حوالے سے کابینہ کمیٹی کی میٹنگ میں نہیں بلایا گیا تھا۔ اس پر وزیر اعلی نے خلیل طاہر سندھو سے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ وزیر اعلی کے ان الفاظ سے وہ سخت مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے اور انھوں نے اپنے قریبی دوستوں سے یہ بھی کہا کہ انہیں پہلی بار یہ احساس ہوا ہے کہ ان کا تعلق ایک کمزور اقلیت سے ہے۔ ان کی مخالف لابی انہیں صوبائی کابینہ سے تو نہ نکلوا سکی تاہم وزارت صحت سے مستعفی کرانے میں ضرور کامیاب ہو گئی ہے۔
خلیل طاہر سندھو نے جو اقدام کیا، وہ پنجاب کے سیاستدانوں کی روایت نہیں رہا۔ اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے پاس دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر وزراء کے استعفوں کی نوبت کیوں پیدا ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ کی ساری توجہ کا محور توانائی کا بحران ہے۔ وزیراعلیٰ کو اپنے وزراء اور ارکان اسمبلی کی شکایات کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ وزراء کے پاس اختیارات نہیں ہیں اور سیکرٹری اپنے وزراء سے تعاون نہیں کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے صوبائی وزیر میاں عطاء مانیکا بھی ناراض تھے اور استعفیٰ دینے کا اعلان کرچکے تھے، وہ کافی عرصے سے اپنے سرکاری آفس میں بھی نہیں جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنے سیکرٹری کو ہٹانے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ وہ اپنی وزارت سے بھی خوش نہیں تھے اور کوئی دوسری وزارت چاہتے تھے۔ اب صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو کے استعفیٰ سے میاں عطاء مانیکا کے مسائل بھی حل ہوگئے ہیں اور انہیں اوقاف و مذہبی امور کی وزارت دے دی گئی ہے۔
وزیر قانون، پارلیمانی امور و بلدیات رانا ثناء اللہ خان اور وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ کامران مائیکل نے خلیل طاہر سندھو کے وزیراعلیٰ سے معاملات طے کروانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو منگل کی صبح وزیراعلی شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں ماڈل ٹاؤن گئے اور استعفٰی دے کر واپس گھر آ گئے اور انہوں نے اپنا سامان مال روڈ پر سرکاری گھر سے نجی رہائش گاہ پر منتقل کرنے کیلئے ٹرک بھی منگوا لیا۔ اس دوران وفاقی وزیر کامران مائیکل نے وزیراعظم نوازشریف سے رابطہ کیا اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا اوربتایاکہ خلیل طاہر سندھو مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ رہے ہیں اور وہ پارٹی کیلئے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کر چکے ہیں۔
صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے بھی اس معاملہ پر وزیراعلی شہباز شریف سے بات کی اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ خلیل طاہر سندھو کا انسانی حقوق اور اقلیتی امور کے محکموں کے حوالے سے استعفیٰ منظور نہ کریں ۔ جس پر خلیل طاہر سندھو کو ماڈل ٹاؤن وزیراعلٰی کیمپ آفس دوبارہ بلایاگیا اور ان کی وزیراعلیٰ شہباز شریف سے ون آن ون ملاقات ہوئی جس میںکھل کر گلے شکوے ہوئے اور خلیل طاہر سندھو نے صحت کا اضافی چارج چھوڑنے کی درخواست کی جس سے وزیراعلیٰ نے اتفاق کیا اور طے کیا گیا کہ وہ انسانی حقوق اور اقلیتی امور کے محکموں کے وزیر رہیں گے۔ صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو نے کہاکہ میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر استعفیٰ دیا، وزیراعلیٰ کو ڈینگی کی ہلاکتوں پر تشویش تھی جس پر میں نے اپنا استعفیٰ پیش کیا، میں وزیراعلی شہباز شریف کے فیصلے پر ان کا شکر گزار ہوں۔
خلیل طاہر سندھو نے میاں صاحب کے احترام میں دل کے داغ دل میں ہی چھپا لئے لیکن انہوں نے پنجاب میں پہلی بار یہ روایت قائم کی کہ وزیر مستعفی بھی ہو جایا کرتے ہیں۔ لاہوری لابی اپنے مشن میں کامیاب رہی لیکن وہ وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک وفادار کارکن سے محروم نہیں کرسکی۔ اب نئے صوبائی وزیر صحت کا امتحان شروع ہے، وہ دن دور نہیں جب میاں صاحب اسے بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ آپ کو اپنی کوتاہی کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔
خلیل طاہر خلیل سندھو سے صحت اور شیر علی سے توا نائی کے محکموں کا قلمدان واپس لیا گیا ہے۔ خلیل طاہر سندھو انسانی حقوق و اقلیتی امور جبکہ شیر علی معدنیات کے وزیر ہوں گے۔ ہارون سلطان سے اوقاف و مذہبی امور کا قلمدان واپس لے کر میاں عطاء مانیکا کو سونپ دیا گیا ہے، اب ہارون سلطان کے پاس سماجی بہبود اور بیت المال کے محکمے ہوں گے جبکہ خواجہ سلمان رفیق کو صوبائی وزیر صحت بنا دیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر شیر علی سے غیر تسلی بخش کارکردگی پر توانائی کی وزارت واپس لی گئی ہے، اب یہ وزارت وزیراعلیٰ شہباز شریف کے پاس رہے گی۔
صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو کا استعفیٰ دراصل مسلم لیگ(ن) میں لاہوری گروپ کی وزیرقانون، پارلیمانی امور و بلدیات رانا ثناء اﷲ کے درمیان سرد جنگ کا بھی نتیجہ ہے۔ اس گروپ میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، وزیرتعلیم رانا مشہود احمد اور دیگر کئی لیگی ارکان شامل ہیںجنہوں نے پہلے دن سے ہی خلیل طاہر سندھو کو بطور وزیر صحت تسلیم نہیں کیا تھا کیونکہ خلیل طاہر سندھو کا شمار رانا ثناء اﷲ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ اس گروپ نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے وزیر کے خلاف مہم چلا کر اچھا پیغام نہیں دیا۔ رانا مشہود گروپ نے کابینہ کی تشکیل کے وقت رانا ثناء اﷲ کو بھی آؤٹ کر انے کیلئے بھرپور مہم چلائی تھی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ رانا مشہود وزارت قانون کے امیدوار تھے جس پر رانا ثناء اﷲ کو سپیکر پنجاب اسمبلی بنانے کی تجویز بھی آئی لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔
خلیل طاہر سندھو کا شمار انتہائی سرگرم اور فعال وزراء میں ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی نے گورنرراج کے دوران خلیل طاہر سندھو کو وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے مالی فوائد کی پیشکش کی تھی لیکن وہ پارٹی کے ساتھ وفادار رہے۔ وزیر صحت کی حیثیت سے ڈینگی کے مریضوں کا علاج معالجہ ان کی ذمہ داری تھی جبکہ ڈینگی کی روک تھام کے اقدامات کرنا صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کا کام تھا ۔ محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2011ء میں ڈینگی سے 352 ، خسرہ سے 192 اور پی آئی سی کی جعلی ادویات سے بھی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ اس وقت محکمہ صحت کا چارج بھی وزیراعلیٰ کے پاس تھا۔
اس سال ڈینگی سے صرف 10ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ دراصل مسلم لیگ(ن) شعبہ خواتین لاہور کی صدر شائستہ پرویز ملک نے انسداد ڈینگی کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسروں واہلکاروں کو اسناد کی تقریب میں شکایت کی تھی کہ انہیں ڈینگی کے حوالے سے کابینہ کمیٹی کی میٹنگ میں نہیں بلایا گیا تھا۔ اس پر وزیر اعلی نے خلیل طاہر سندھو سے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ وزیر اعلی کے ان الفاظ سے وہ سخت مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے اور انھوں نے اپنے قریبی دوستوں سے یہ بھی کہا کہ انہیں پہلی بار یہ احساس ہوا ہے کہ ان کا تعلق ایک کمزور اقلیت سے ہے۔ ان کی مخالف لابی انہیں صوبائی کابینہ سے تو نہ نکلوا سکی تاہم وزارت صحت سے مستعفی کرانے میں ضرور کامیاب ہو گئی ہے۔
خلیل طاہر سندھو نے جو اقدام کیا، وہ پنجاب کے سیاستدانوں کی روایت نہیں رہا۔ اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے پاس دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر وزراء کے استعفوں کی نوبت کیوں پیدا ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ کی ساری توجہ کا محور توانائی کا بحران ہے۔ وزیراعلیٰ کو اپنے وزراء اور ارکان اسمبلی کی شکایات کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ وزراء کے پاس اختیارات نہیں ہیں اور سیکرٹری اپنے وزراء سے تعاون نہیں کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے صوبائی وزیر میاں عطاء مانیکا بھی ناراض تھے اور استعفیٰ دینے کا اعلان کرچکے تھے، وہ کافی عرصے سے اپنے سرکاری آفس میں بھی نہیں جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنے سیکرٹری کو ہٹانے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ وہ اپنی وزارت سے بھی خوش نہیں تھے اور کوئی دوسری وزارت چاہتے تھے۔ اب صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو کے استعفیٰ سے میاں عطاء مانیکا کے مسائل بھی حل ہوگئے ہیں اور انہیں اوقاف و مذہبی امور کی وزارت دے دی گئی ہے۔
وزیر قانون، پارلیمانی امور و بلدیات رانا ثناء اللہ خان اور وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ کامران مائیکل نے خلیل طاہر سندھو کے وزیراعلیٰ سے معاملات طے کروانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو منگل کی صبح وزیراعلی شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں ماڈل ٹاؤن گئے اور استعفٰی دے کر واپس گھر آ گئے اور انہوں نے اپنا سامان مال روڈ پر سرکاری گھر سے نجی رہائش گاہ پر منتقل کرنے کیلئے ٹرک بھی منگوا لیا۔ اس دوران وفاقی وزیر کامران مائیکل نے وزیراعظم نوازشریف سے رابطہ کیا اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا اوربتایاکہ خلیل طاہر سندھو مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ رہے ہیں اور وہ پارٹی کیلئے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کر چکے ہیں۔
صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے بھی اس معاملہ پر وزیراعلی شہباز شریف سے بات کی اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ خلیل طاہر سندھو کا انسانی حقوق اور اقلیتی امور کے محکموں کے حوالے سے استعفیٰ منظور نہ کریں ۔ جس پر خلیل طاہر سندھو کو ماڈل ٹاؤن وزیراعلٰی کیمپ آفس دوبارہ بلایاگیا اور ان کی وزیراعلیٰ شہباز شریف سے ون آن ون ملاقات ہوئی جس میںکھل کر گلے شکوے ہوئے اور خلیل طاہر سندھو نے صحت کا اضافی چارج چھوڑنے کی درخواست کی جس سے وزیراعلیٰ نے اتفاق کیا اور طے کیا گیا کہ وہ انسانی حقوق اور اقلیتی امور کے محکموں کے وزیر رہیں گے۔ صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو نے کہاکہ میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر استعفیٰ دیا، وزیراعلیٰ کو ڈینگی کی ہلاکتوں پر تشویش تھی جس پر میں نے اپنا استعفیٰ پیش کیا، میں وزیراعلی شہباز شریف کے فیصلے پر ان کا شکر گزار ہوں۔
خلیل طاہر سندھو نے میاں صاحب کے احترام میں دل کے داغ دل میں ہی چھپا لئے لیکن انہوں نے پنجاب میں پہلی بار یہ روایت قائم کی کہ وزیر مستعفی بھی ہو جایا کرتے ہیں۔ لاہوری لابی اپنے مشن میں کامیاب رہی لیکن وہ وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک وفادار کارکن سے محروم نہیں کرسکی۔ اب نئے صوبائی وزیر صحت کا امتحان شروع ہے، وہ دن دور نہیں جب میاں صاحب اسے بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ آپ کو اپنی کوتاہی کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔