نابغہ روزگار قتیل شفائی پہلا حصہ
ان کا شمار بیسویں صدی کے بین الاقوامی سطح کے نابغہ روزگار شہرہ آفاق سخنوروں میں ہوتا ہے۔
ابھی گزشتہ 7 جنوری بروز منگل شایع ہونے والے ہمارے کالم بعنوان ''یاد رفتگاں''کی روشنائی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ گزشتہ 5 جنوری کو اس موقر روزنامہ میں شاید ہونے والے حمید احمد سیٹھی کے کالم ''قتیل شفائی کی یاد میں'' نے ہمارے ممدوحِ مکرم اور شاعرِ بے بدل محترم قتیل شفائی کی یاد تازہ کردی۔ بزبان شاعر:
آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
قتیل صاحب سے ہمارا اولین غائبانہ تعارف جب ہوا تو اس وقت ہم واقعی طفل مکتب تھے۔ غالباً اس وقت ہم ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اس زمانے میں بچوں کا سب سے پسندیدہ رسالہ ماہنامہ '' کھلونا '' ہمارے گھر میں ہر ماہ نہایت پابندی اور باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ ''کھلونا'' کا سالنامہ بڑے خاصے کی چیز ہوتا تھا جس میں پاک و ہند کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی بچوں سے متعلق تخلیقات بڑی دھوم سے شایع ہوتی تھیں جن میں کرشن چندر اور میرزا ادیب جیسے نامور ادیب اور ساحر لدھیانوی، راجہ مہدی علی خاں، حامد اللہ افسر، تلوک چند محروم جیسے ممتاز شعرا کرام کی نظمیں شایع ہوا کرتی تھیں۔
''کھلونا'' ہی کے سالنامے میں ''گراموفون'' کے عنوان سے شایع ہونے والی بچوں کے لیے خاص طور پر لکھی گئی ایک انتہائی دلچسپ نظم کے ذریعے سے ہمیں قتیل شفائی سے پہلی مرتبہ غائبانہ تعارف کا شرف حاصل ہوا۔ نظم کا موضوع ایک پرانا کھٹارا گراموفون تھا جو بجتا کم تھا اور شور زیادہ کرتا تھا۔ سن 1952-53 میں پڑھی ہوئی اس دلکش نظم کی دو تین لائنیں کچھ یوں تھیں:
ٹوٹے پہیوں کی گڑگڑاہٹ ہے
زخمی کوّوں کی پھڑپھڑاہٹ ہے
دیکھنا تو یہ کس کی آہٹ ہے
بج رہا ہے گراموفون اپنا
اس وقت ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ قتیل صاحب سے کبھی بالمشافہ ملاقات کا ہی نہیں بلکہ ان کی میزبانی اور ان کے ساتھ مشاعرے میں شرکت کا شرف بھی حاصل ہوگا۔ یہ بھی عجب حسن اتفاق ہے کہ جس ''کھلونا'' دہلی میں قتیل کی خوبصورت نظم شایع ہوئی تھی اسی رسالے میں ہماری تحریر کی ہوئی سب سے پہلی نظم بعنوان ''کھلنڈرے لڑکے کا گیت'' بھی شایع ہوئی اور جس مشہور رسالے ''شمع دہلی'' میں قتیل صاحب کی غزلیات شایع ہوا کرتی تھیں اسی رسالے میں احقر کی پہلی غزل بھی شایع ہوئی۔
وقت نے یک بہ یک ایک نئی کروٹ لی اور پھر وہ شبھ گھڑی آئی جب بزم شنکر وشا کے زیر اہتمام دہلی میں ہر سال پابندی سے منعقد ہونے والے عظیم الشان انڈوپاک مشاعرے میں قتیل صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقعہ میسر آیا۔ اس مشاعرے کے مہمان خصوصی ہندوستان کے وزیر بحالیات شری مہاویر تیاگی تھے جو انتہائی ادب دوست اور شاعر پرور قسم کے بے حد باذوق انسان تھے۔ پاکستان سے دیگر شعرائے کرام کے علاوہ قتیل شفائی صاحب خصوصی اہمیت کے حامل تھے جنھوں نے اپنے کلام سے مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ ان کی غزل کا مطلع تھا:
زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رو رہے ہم تنہا
پھر جب اپنے مخصوص انداز میں غزل سناتے سناتے وہ درج ذیل معنی خیز شعر پر پہنچے تو ان پر ہر طرف سے داد پر داد کے ڈونگرے برسنے لگے اور مکرر ارشاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں:
اس طرف ترستی ہیں مسجدیں اذانوں کو
اُس طرف شِو ... میں رہ گئے صنم تنہا
قتیل صاحب نے مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ یہ تھی قتیل شفائی صاحب سے ہماری دور کی ملاقات۔ اس وقت بھی یہ ہمارے کسی گوشہ گمان میں نہ تھا کہ ہماری قسمت کبھی اس قدر مہربان ہوگی کہ ہم قتیل صاحب کے روبرو محو گفتگو ہوں گے۔
ہوا یوں کہ ایک روز ہمیں اپنے آفس میں قتیل صاحب کی اسلام آباد آمد کی خوش خبری ملی۔ ان دنوں ہم ریڈیو پاکستان کے بیرونی نشریات کے شعبے المعروف بہ ایکسٹرنل سروسز کی ''ہندی سروس'' میں پروگرام منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے جس کا ہدف ہندوستان کے ہندی بولنے والے سامعین تھے جو ہماری یہ نشریات بڑے ذوق و شوق سے سنا کرتے۔ ان نشریات کا مقصد ہندوستانی سامعین کو پاکستان سے روشناس کرانا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا ہندی زبان میں منہ توڑ جواب دے کر انھیں اصل حقائق سے باخبر رکھنا اور آگاہ کرنا تھا۔ چنانچہ ہم نے فوراً قتیل صاحب سے رابطہ کیا اور انھیں ہندی سروس کے پروگرام ''ان سے ملیے '' کے لیے انٹرویو کی دعوت دی جسے انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ قبول کرلیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس ہفتہ وار پروگرام کے ذریعے ہم زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والی کسی بھی اہم اور نمایندہ پاکستانی شخصیت کو متعارف کرایا کرتے تھے۔
قتیل صاحب چونکہ شاعری اور خصوصاً فلمی شاعری کے حوالے ہندوستان میں خوب جانے پہچانے بلکہ مانے جاتے تھے اس لیے اس انٹرویو کی خصوصی اہمیت تھی۔ قتیل شفائی صاحب نے وقت مقررہ پر تشریف لا کر نہایت ذوق و شوق سے ریکارڈ کروایا جو سامعین نے بڑے چاؤ سے سنا اور بہت پسند کیا۔ انٹرویو سے قبل اور اسے ریکارڈ کرنے کے بعد قتیل صاحب سے ہماری خوب گپ شپ بھی ہوئی اور ان کی زندگی کے بہت سے پہلو بھی سامنے آئے۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ وہ خاندان مغلیہ کی سب سے بڑی سلطنت کے تاج دار اورنگزیب کے ہمنام تھے۔ قتیل ان کا تخلص اور شفائی لاحقہ تھا جسے انھوں نے اپنے استاد گرامی حکیم محمد یحییٰ شِفا خان پوری سے نسبت اور عقیدت کی بنا پر اپنے نام کا جزو لاینفک بنایا۔ اس کے بعد انھوں نے شاعری کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کی شاگردی بھی اختیار کی جو اتفاق سے ان کے دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی۔
قتیل شفائی برٹش انڈیا کے دور میں 1919 میں ہری پور میں پیدا ہوئے اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنا، اپنے خاندان اور وطن عزیز پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کرکے 11 جولائی 2001 میں لاہور کے تاریخی شہر میں آخری سانس لے کر سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
احمد ندیم قاسمی کا یہ کہنا حرف بہ حرف بجا ہے کہ ''لاہور لاہور ہے''۔ برصغیر پاک و ہند میں دلی کے بعد بے مثل تاریخی، روحانی، ادبی اور ثقافتی اہمیت کا حامل اگر کوئی اور شہر ہے تو وہ لاہور ہی ہے۔ قومی زبان اردو کی پنجاب اور خصوصاً لاہور شہر نے جو خدمت کی ہے اور کر رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ قتیل شفائی کی سب سے پہلی غزل بھی قمر اجنالوی کے زیر ادارت شایع ہونے والے لاہور ہی کے ہفت روزہ میں چھپ کر منظر عام پر آئی اور مقبول خواص و عوام ہوکر ان کی شہرت کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔
قتیل شفائی نے فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز بھی لاہور ہی کے ایک فلم پروڈیوسر دیوان سرداری لال کی ایک فلم سے کیا تھا جس کا سن 1947 جو تقسیم برصغیر کا سال ہے۔ پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' (1948) کے نغمے تحریر کرنے کا اعزاز بھی قتیل شفائی ہی کو حاصل ہوا۔ پھر ان کی شہرت سرحد پار بولی ووڈ تک جا پہنچی جہاں ان کے فلم ساز مہیش بھٹ جیسے پرستاروں نے ان کی شاعرانہ صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بھارت میں قتیل صاحب کا ڈنکا بجایا اور ان کے نام کو خوب خوب چمکایا۔ فلمی گیت کارکی حیثیت سے بھارت اور پاکستان میں قتیل صاحب نے ایوارڈ پر ایوارڈ جیت کر اپنی خداداد صلاحیت کا بڑا زبردست لوہا منوایا۔ مجموعی طور پر انھوں نے 201 پاکستانی اور بھارتی فلموں کے گیت لکھے جوکہ ایک بہت بڑی تعداد اور ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ ان کے شعری مجموعوں کی تعداد 20 اور فلمی نغموں کی تعداد 2500 سے بھی زیادہ ہے۔
ان کی شاعری کے تراجم بہت سی دیگر زبانوں بشمول ہندی، گجراتی، انگریزی، روسی اور چینی زبان میں شایع ہوکر ان کی عظمت اور مقبولیت پر مہر ثبوت ثبت کر چکے ہیں۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے بین الاقوامی سطح کے نابغہ روزگار شہرہ آفاق سخنوروں میں ہوتا ہے۔ ان کی ادبی اور شعری عظمت وخدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 1994 میں انھیں ''تمغہ حسن کارکردگی'' سے نوازا جب کہ انھیں وطن عزیز میں ''آدم جی ادبی ایوارڈ'' نقوش ایوارڈ اور بھارت میں ''امیر خسرو'' ایوارڈ جیسے عظیم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1970 میں قتیل شفائی نے اپنی مادری زبان ''ہندکو'' کی پہلی فلم ''قصہ خوانی'' پروڈیوس کی جو 1980 میں ریلیز ہوئی۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی ناقابل فراموش خدمات انجام دینے کے اعتراف میں قتیل شفائی کو 1999 میں ''صدی کے خصوصی نگار ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا۔ لاہور میں ان کی رہائش گاہ والی گلی کا نام ''قتیل شفائی اسٹریٹ'' جب کہ ہری پور میں ان کے محلے کا نام ان کے نام پر ''محلہ قتیل شفائی'' رکھ دیا گیا ہے۔ (جاری ہے۔)
آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
قتیل صاحب سے ہمارا اولین غائبانہ تعارف جب ہوا تو اس وقت ہم واقعی طفل مکتب تھے۔ غالباً اس وقت ہم ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اس زمانے میں بچوں کا سب سے پسندیدہ رسالہ ماہنامہ '' کھلونا '' ہمارے گھر میں ہر ماہ نہایت پابندی اور باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ ''کھلونا'' کا سالنامہ بڑے خاصے کی چیز ہوتا تھا جس میں پاک و ہند کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی بچوں سے متعلق تخلیقات بڑی دھوم سے شایع ہوتی تھیں جن میں کرشن چندر اور میرزا ادیب جیسے نامور ادیب اور ساحر لدھیانوی، راجہ مہدی علی خاں، حامد اللہ افسر، تلوک چند محروم جیسے ممتاز شعرا کرام کی نظمیں شایع ہوا کرتی تھیں۔
''کھلونا'' ہی کے سالنامے میں ''گراموفون'' کے عنوان سے شایع ہونے والی بچوں کے لیے خاص طور پر لکھی گئی ایک انتہائی دلچسپ نظم کے ذریعے سے ہمیں قتیل شفائی سے پہلی مرتبہ غائبانہ تعارف کا شرف حاصل ہوا۔ نظم کا موضوع ایک پرانا کھٹارا گراموفون تھا جو بجتا کم تھا اور شور زیادہ کرتا تھا۔ سن 1952-53 میں پڑھی ہوئی اس دلکش نظم کی دو تین لائنیں کچھ یوں تھیں:
ٹوٹے پہیوں کی گڑگڑاہٹ ہے
زخمی کوّوں کی پھڑپھڑاہٹ ہے
دیکھنا تو یہ کس کی آہٹ ہے
بج رہا ہے گراموفون اپنا
اس وقت ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ قتیل صاحب سے کبھی بالمشافہ ملاقات کا ہی نہیں بلکہ ان کی میزبانی اور ان کے ساتھ مشاعرے میں شرکت کا شرف بھی حاصل ہوگا۔ یہ بھی عجب حسن اتفاق ہے کہ جس ''کھلونا'' دہلی میں قتیل کی خوبصورت نظم شایع ہوئی تھی اسی رسالے میں ہماری تحریر کی ہوئی سب سے پہلی نظم بعنوان ''کھلنڈرے لڑکے کا گیت'' بھی شایع ہوئی اور جس مشہور رسالے ''شمع دہلی'' میں قتیل صاحب کی غزلیات شایع ہوا کرتی تھیں اسی رسالے میں احقر کی پہلی غزل بھی شایع ہوئی۔
وقت نے یک بہ یک ایک نئی کروٹ لی اور پھر وہ شبھ گھڑی آئی جب بزم شنکر وشا کے زیر اہتمام دہلی میں ہر سال پابندی سے منعقد ہونے والے عظیم الشان انڈوپاک مشاعرے میں قتیل صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقعہ میسر آیا۔ اس مشاعرے کے مہمان خصوصی ہندوستان کے وزیر بحالیات شری مہاویر تیاگی تھے جو انتہائی ادب دوست اور شاعر پرور قسم کے بے حد باذوق انسان تھے۔ پاکستان سے دیگر شعرائے کرام کے علاوہ قتیل شفائی صاحب خصوصی اہمیت کے حامل تھے جنھوں نے اپنے کلام سے مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ ان کی غزل کا مطلع تھا:
زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رو رہے ہم تنہا
پھر جب اپنے مخصوص انداز میں غزل سناتے سناتے وہ درج ذیل معنی خیز شعر پر پہنچے تو ان پر ہر طرف سے داد پر داد کے ڈونگرے برسنے لگے اور مکرر ارشاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں:
اس طرف ترستی ہیں مسجدیں اذانوں کو
اُس طرف شِو ... میں رہ گئے صنم تنہا
قتیل صاحب نے مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ یہ تھی قتیل شفائی صاحب سے ہماری دور کی ملاقات۔ اس وقت بھی یہ ہمارے کسی گوشہ گمان میں نہ تھا کہ ہماری قسمت کبھی اس قدر مہربان ہوگی کہ ہم قتیل صاحب کے روبرو محو گفتگو ہوں گے۔
ہوا یوں کہ ایک روز ہمیں اپنے آفس میں قتیل صاحب کی اسلام آباد آمد کی خوش خبری ملی۔ ان دنوں ہم ریڈیو پاکستان کے بیرونی نشریات کے شعبے المعروف بہ ایکسٹرنل سروسز کی ''ہندی سروس'' میں پروگرام منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے جس کا ہدف ہندوستان کے ہندی بولنے والے سامعین تھے جو ہماری یہ نشریات بڑے ذوق و شوق سے سنا کرتے۔ ان نشریات کا مقصد ہندوستانی سامعین کو پاکستان سے روشناس کرانا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا ہندی زبان میں منہ توڑ جواب دے کر انھیں اصل حقائق سے باخبر رکھنا اور آگاہ کرنا تھا۔ چنانچہ ہم نے فوراً قتیل صاحب سے رابطہ کیا اور انھیں ہندی سروس کے پروگرام ''ان سے ملیے '' کے لیے انٹرویو کی دعوت دی جسے انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ قبول کرلیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس ہفتہ وار پروگرام کے ذریعے ہم زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والی کسی بھی اہم اور نمایندہ پاکستانی شخصیت کو متعارف کرایا کرتے تھے۔
قتیل صاحب چونکہ شاعری اور خصوصاً فلمی شاعری کے حوالے ہندوستان میں خوب جانے پہچانے بلکہ مانے جاتے تھے اس لیے اس انٹرویو کی خصوصی اہمیت تھی۔ قتیل شفائی صاحب نے وقت مقررہ پر تشریف لا کر نہایت ذوق و شوق سے ریکارڈ کروایا جو سامعین نے بڑے چاؤ سے سنا اور بہت پسند کیا۔ انٹرویو سے قبل اور اسے ریکارڈ کرنے کے بعد قتیل صاحب سے ہماری خوب گپ شپ بھی ہوئی اور ان کی زندگی کے بہت سے پہلو بھی سامنے آئے۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ وہ خاندان مغلیہ کی سب سے بڑی سلطنت کے تاج دار اورنگزیب کے ہمنام تھے۔ قتیل ان کا تخلص اور شفائی لاحقہ تھا جسے انھوں نے اپنے استاد گرامی حکیم محمد یحییٰ شِفا خان پوری سے نسبت اور عقیدت کی بنا پر اپنے نام کا جزو لاینفک بنایا۔ اس کے بعد انھوں نے شاعری کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کی شاگردی بھی اختیار کی جو اتفاق سے ان کے دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی۔
قتیل شفائی برٹش انڈیا کے دور میں 1919 میں ہری پور میں پیدا ہوئے اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنا، اپنے خاندان اور وطن عزیز پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کرکے 11 جولائی 2001 میں لاہور کے تاریخی شہر میں آخری سانس لے کر سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
احمد ندیم قاسمی کا یہ کہنا حرف بہ حرف بجا ہے کہ ''لاہور لاہور ہے''۔ برصغیر پاک و ہند میں دلی کے بعد بے مثل تاریخی، روحانی، ادبی اور ثقافتی اہمیت کا حامل اگر کوئی اور شہر ہے تو وہ لاہور ہی ہے۔ قومی زبان اردو کی پنجاب اور خصوصاً لاہور شہر نے جو خدمت کی ہے اور کر رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ قتیل شفائی کی سب سے پہلی غزل بھی قمر اجنالوی کے زیر ادارت شایع ہونے والے لاہور ہی کے ہفت روزہ میں چھپ کر منظر عام پر آئی اور مقبول خواص و عوام ہوکر ان کی شہرت کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔
قتیل شفائی نے فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز بھی لاہور ہی کے ایک فلم پروڈیوسر دیوان سرداری لال کی ایک فلم سے کیا تھا جس کا سن 1947 جو تقسیم برصغیر کا سال ہے۔ پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' (1948) کے نغمے تحریر کرنے کا اعزاز بھی قتیل شفائی ہی کو حاصل ہوا۔ پھر ان کی شہرت سرحد پار بولی ووڈ تک جا پہنچی جہاں ان کے فلم ساز مہیش بھٹ جیسے پرستاروں نے ان کی شاعرانہ صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بھارت میں قتیل صاحب کا ڈنکا بجایا اور ان کے نام کو خوب خوب چمکایا۔ فلمی گیت کارکی حیثیت سے بھارت اور پاکستان میں قتیل صاحب نے ایوارڈ پر ایوارڈ جیت کر اپنی خداداد صلاحیت کا بڑا زبردست لوہا منوایا۔ مجموعی طور پر انھوں نے 201 پاکستانی اور بھارتی فلموں کے گیت لکھے جوکہ ایک بہت بڑی تعداد اور ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ ان کے شعری مجموعوں کی تعداد 20 اور فلمی نغموں کی تعداد 2500 سے بھی زیادہ ہے۔
ان کی شاعری کے تراجم بہت سی دیگر زبانوں بشمول ہندی، گجراتی، انگریزی، روسی اور چینی زبان میں شایع ہوکر ان کی عظمت اور مقبولیت پر مہر ثبوت ثبت کر چکے ہیں۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے بین الاقوامی سطح کے نابغہ روزگار شہرہ آفاق سخنوروں میں ہوتا ہے۔ ان کی ادبی اور شعری عظمت وخدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 1994 میں انھیں ''تمغہ حسن کارکردگی'' سے نوازا جب کہ انھیں وطن عزیز میں ''آدم جی ادبی ایوارڈ'' نقوش ایوارڈ اور بھارت میں ''امیر خسرو'' ایوارڈ جیسے عظیم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1970 میں قتیل شفائی نے اپنی مادری زبان ''ہندکو'' کی پہلی فلم ''قصہ خوانی'' پروڈیوس کی جو 1980 میں ریلیز ہوئی۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی ناقابل فراموش خدمات انجام دینے کے اعتراف میں قتیل شفائی کو 1999 میں ''صدی کے خصوصی نگار ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا۔ لاہور میں ان کی رہائش گاہ والی گلی کا نام ''قتیل شفائی اسٹریٹ'' جب کہ ہری پور میں ان کے محلے کا نام ان کے نام پر ''محلہ قتیل شفائی'' رکھ دیا گیا ہے۔ (جاری ہے۔)