اقبال کی شاعری ایک نیا پہلو
اقبال نےسیکڑوں برس کی غلام قوم میں ایک نئی روح پھونکنےاور اسے الفت کی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے اس کے ضمیر کو جھنجھوڑا
FORT DRUM, NEW YORK:
شاعر مشرق، شاعر پاکستان، عظیم مفکر، دور اندیش سیاست دان، تاریخ و قانون کے ماہر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اس دن کو سرکاری طور پر یوم اقبال کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے شمس العلماء مولوی سید میر حسن سے ابتدائی تعلیم اور مشرقی علوم کا درس لیا۔ پھر غیر معمولی شخصیت کے حامل پروفیسر آرنلڈ کے علم سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس کے بعد کیمبرج اور جرمنی میں بھی تعلیم و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ یورپ میں بھی قیام کیا، دنیا کی سیر و سیاحت اور تاریخ کی ورق گردانی، مطالعہ اور تحقیق کی وجہ سے ان کی شخصیت میں مشاہدات کے سمندر اور خیالات کی فراوانی ملتی ہے۔ ان کی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے جرمنی نے ڈاکٹریٹ اور انگریز نے سر کے خطاب سے نوازا۔ اقبال نے سیکڑوں برس کی غلام قوم میں ایک نئی روح پھونکنے اور اسے الفت کی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے اس کے ضمیر کو جھنجھوڑا، اسے خودی کا درس دیا اور اس کی بددلی و بے بسی کو امنگ جدوجہد سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی۔
اقبال کا کلام کسی خاص قوم، مذہب یا خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں عالمگیر آفاقیت و افادیت پائی جاتی ہے جس کو دیگر اقوام نے بھی تسلیم کیا ہے اور اسے اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرا کے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اقبال سے ناشناس رہے۔ جو تھوڑی بہت آشنائی تھی اس سے بھی نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی بے خبری ہمیں انگریز کی محکمومی سے بڑھ کر عالمی محکومیات میں جکڑتی جا رہی ہے، ترجمان حقیقت علامہ اقبال کی بعض نظموں کا ایک ایک شعر اور مصرعہ ایسا ہی کہ اس پر ضخیم تحریر لکھی جا سکتی ہے۔ یوم اقبال کی تعطیل ہم بیکار گزار دیتے ہیں۔ اگر ہم سے پوچھ لیا جائے کہ یوم اقبال کیا ہے یا ہم کشمیر ڈے کیوں مناتے ہیں تو عوام تو دور کی بات حکمران، ارکان اسمبلی اور سیاست دان تک بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے ایام محض مذاکروں، سیمیناروں اور اخباری ایڈیشن تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس دن عوام و خواص آرام کرتے ہیں یا سیر و تفریح، البتہ زور خطابت اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے علامہ کے ا شعار ضرور چن لیے جاتے ہیں یا چنوائے جاتے ہیں تا کہ داد و تحسین اور واہ واہ کروائی جا سکے۔
یوم اقبال پر اخبارات کے جو خصوصی ایڈیشن مضامین یا میڈیا میں جو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں عام طور پر لوگوں کی دلچسپی ان کے برعکس پروگراموں میں ہوتی ہے، جن سے کلی افادہ نہیں کیا جاتا۔ یوم اقبال پر میں سوچ رہا ہوں کہ اقبال کا ہم پر بڑا حق بنتا ہے، لہٰذا اس تعطیل پر اقبال کے لیے کچھ وقت نکالا جائے تو اپنے اوپر ہی احسان ہو گا۔ لہٰذا اقبال کی شخصیت اور کلام پر کچھ لکھنے کی سعی کرنے کے بجائے کیوں نہ اقبال کے ان عام فہم اور زبان زد خاص و عام اشعار کو ضبط تحریر میں لایا جائے، جن کا پہلا یا دوسرا مصرعہ تو ذہنوں میں ہوتا ہے لیکن مکمل یا صحیح اشعار ذہن میں ہونے چاہئیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ: باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو...
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو۔
علامہ اقبال کی نظموں کے بعض پہلے مصرعے جن کا دوسرا مصرعہ اکثر لوگوں کو یاد نہیں آتا۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
...
تری بندہ پروری سے میرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایت زمانہ
...
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
...
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ ِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
...
لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
...
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
...
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
...
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرہ افتاد
...
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
...
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
...
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
...
بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں
روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد
...
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہِ دلگیری
...
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درونِ میخانہ
...
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و حشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے
...
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
...
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
...
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
جو قوم کر نہ سکے اپنی خودی سے انصاف
علامہ اقبال کے وہ اشعار جن کا پہلا مصرعہ عام لوگوں کو یاد نہیں ہوتا۔
عیاں ہے یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
...
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
...
الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
۔۔۔۔۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
شاعر مشرق، شاعر پاکستان، عظیم مفکر، دور اندیش سیاست دان، تاریخ و قانون کے ماہر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اس دن کو سرکاری طور پر یوم اقبال کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے شمس العلماء مولوی سید میر حسن سے ابتدائی تعلیم اور مشرقی علوم کا درس لیا۔ پھر غیر معمولی شخصیت کے حامل پروفیسر آرنلڈ کے علم سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس کے بعد کیمبرج اور جرمنی میں بھی تعلیم و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ یورپ میں بھی قیام کیا، دنیا کی سیر و سیاحت اور تاریخ کی ورق گردانی، مطالعہ اور تحقیق کی وجہ سے ان کی شخصیت میں مشاہدات کے سمندر اور خیالات کی فراوانی ملتی ہے۔ ان کی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے جرمنی نے ڈاکٹریٹ اور انگریز نے سر کے خطاب سے نوازا۔ اقبال نے سیکڑوں برس کی غلام قوم میں ایک نئی روح پھونکنے اور اسے الفت کی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے اس کے ضمیر کو جھنجھوڑا، اسے خودی کا درس دیا اور اس کی بددلی و بے بسی کو امنگ جدوجہد سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی۔
اقبال کا کلام کسی خاص قوم، مذہب یا خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں عالمگیر آفاقیت و افادیت پائی جاتی ہے جس کو دیگر اقوام نے بھی تسلیم کیا ہے اور اسے اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرا کے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اقبال سے ناشناس رہے۔ جو تھوڑی بہت آشنائی تھی اس سے بھی نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی بے خبری ہمیں انگریز کی محکمومی سے بڑھ کر عالمی محکومیات میں جکڑتی جا رہی ہے، ترجمان حقیقت علامہ اقبال کی بعض نظموں کا ایک ایک شعر اور مصرعہ ایسا ہی کہ اس پر ضخیم تحریر لکھی جا سکتی ہے۔ یوم اقبال کی تعطیل ہم بیکار گزار دیتے ہیں۔ اگر ہم سے پوچھ لیا جائے کہ یوم اقبال کیا ہے یا ہم کشمیر ڈے کیوں مناتے ہیں تو عوام تو دور کی بات حکمران، ارکان اسمبلی اور سیاست دان تک بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے ایام محض مذاکروں، سیمیناروں اور اخباری ایڈیشن تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس دن عوام و خواص آرام کرتے ہیں یا سیر و تفریح، البتہ زور خطابت اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے علامہ کے ا شعار ضرور چن لیے جاتے ہیں یا چنوائے جاتے ہیں تا کہ داد و تحسین اور واہ واہ کروائی جا سکے۔
یوم اقبال پر اخبارات کے جو خصوصی ایڈیشن مضامین یا میڈیا میں جو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں عام طور پر لوگوں کی دلچسپی ان کے برعکس پروگراموں میں ہوتی ہے، جن سے کلی افادہ نہیں کیا جاتا۔ یوم اقبال پر میں سوچ رہا ہوں کہ اقبال کا ہم پر بڑا حق بنتا ہے، لہٰذا اس تعطیل پر اقبال کے لیے کچھ وقت نکالا جائے تو اپنے اوپر ہی احسان ہو گا۔ لہٰذا اقبال کی شخصیت اور کلام پر کچھ لکھنے کی سعی کرنے کے بجائے کیوں نہ اقبال کے ان عام فہم اور زبان زد خاص و عام اشعار کو ضبط تحریر میں لایا جائے، جن کا پہلا یا دوسرا مصرعہ تو ذہنوں میں ہوتا ہے لیکن مکمل یا صحیح اشعار ذہن میں ہونے چاہئیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ: باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو...
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو۔
علامہ اقبال کی نظموں کے بعض پہلے مصرعے جن کا دوسرا مصرعہ اکثر لوگوں کو یاد نہیں آتا۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
...
تری بندہ پروری سے میرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایت زمانہ
...
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
...
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ ِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
...
لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
...
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
...
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
...
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرہ افتاد
...
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
...
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
...
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
...
بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں
روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد
...
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہِ دلگیری
...
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درونِ میخانہ
...
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و حشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے
...
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
...
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
...
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
جو قوم کر نہ سکے اپنی خودی سے انصاف
علامہ اقبال کے وہ اشعار جن کا پہلا مصرعہ عام لوگوں کو یاد نہیں ہوتا۔
عیاں ہے یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
...
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
...
الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
۔۔۔۔۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور