عوام کے سڑکوں پر آنے سے پہلے
مہنگائی کا یہ سلسلہ مہینوں سے جاری ہے صرف آٹے کی مہنگائی حالیہ دنوں کی بات ہے۔
حکومت 14 ماہ میں کوئی ایک بھی ایسا کام نہیں کر پائی ، جس کے حوالے سے اس حکومت کے لیے مستقبل کے لیے کوئی اچھی امید رکھی جا سکے۔ اس کے باوجود جو لوگ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں ، اس کی صرف دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ عمران خان نے ان سیاسی پارٹیوں کو اقتدار سے نکال باہر کیا جو دس سال سے اس ملک کے 22 کروڑ عوام کے سر پر شکیل عادل زادہ کی ''انکا'' کی طرح سوار تھیں اور ان پر کرپشن کے الزامات موجود ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت اور عمران خان پرکرپشن کے الزامات نہیں ہیں، عمران خان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا۔ یہ دو کارنامے ایسے ہیں جو مجھ جیسے اہل قلم اور پی ٹی آئی کے ووٹرز کو حکومت کی حمایت پر مجبور کرتے ہیں۔ بے شک یہ دو کام ماضی کی حکومتوں کے کھاتے میں نہیں آئے لیکن ان دو اچھے کاموں کے مقابلے میں کارکردگی کے حوالے سے اصل حکومت پر نظر ڈالی جائے تو سوائے بد ترین مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔
72 سالوں میں ملک ایک سے زیادہ بار مہنگائی کا شکار ہوا لیکن الٰہی توبہ عمران دور کی مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دیں۔ خدا کی پناہ 70 روپے کلو آٹا، 250 روپے کلو عام کھانے کا تیل اور تقریباً اسی قیمت پر گھی۔ سبزیوں کی مہنگائی پاکستان کی تاریخ کی بدترین مہنگائی ہے ۔15-10 روپے کلو ملنے والی سبزیاں آج سو روپے سے زیادہ کلو پر فروخت ہو رہی ہیں جن اشیا کا ہم نے ذکر کیا ان میں دو ضروری اشیا کا اضافہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں اشیا زندگی کی ایسی ضروریات میں سے ہیں جن کے بغیر کھانے یا ناشتے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، وہ دو اشیا ہیں چینی اور چائے کی پتی۔ چینی کے دام عموماً 40-50 کلو رہتے ہیں جو اب 70 روپے کلو تک پہنچ گئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اشیا صرف کی آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کا جوازکیا ہے۔ گندم ہماری خوراک کا بنیادی حصہ ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، گندم کا شمار پاکستان کی بڑی زرعی پیداوار میں ہوتا ہے۔ سال کے بارہ مہینے لاکھوں ٹن گندم سرکاری گوداموں میں پڑی رہتی ہے اور ہزاروں ٹن گندم ناقص انتظام اور نامناسب دیکھ بھال کی وجہ سڑ جاتی ہے اور یہ سڑی ہوئی گندم صاف گندم میں ملا کر چکیوں میں ڈال دی جاتی ہے اور یہ آٹا عوام کو کھلا دیا جاتا ہے۔ یہ روایت عشروں پرانی ہے جس کا کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔
عوام کی گزر بسر یعنی غذا کا سب سے بڑا حصہ آٹا ہے ،گندم کے آٹے کی روٹی کی عمومی قیمت دس روپے ہوتی ہے اگر کبھی آٹے کی قیمت میں معمولی اضافہ ہوتا ہے تو یا تو روٹی کی قیمت میں اضافہ کردیا جاتا ہے یا روٹی کا وزن کم کردیا جاتا ہے۔ آٹے کی فی کلو قیمت کبھی چالیس پچاس روپے کلو سے آگے نہیں بڑھی اب آٹے کی قیمت 70 روپے کلو کردی گئی ہے، ہمارے ملک میں ہماری ضرورت کی گندم پیدا ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں اب بھی جاگیردارانہ نظام سندھ ، پنجاب کے ایک حصے میں ہے جسے جنوبی پنجاب کہا جاتا ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا تو قبائلی دور میں رہ رہا ہے۔ زرعی فصلوں پر یا تو جاگیردار طبقہ قابض ہے یا بڑا زمیندار۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گندم کی فصل اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ آٹے کی قیمت کو 70 روپے کلو تک پہنچا دیا یا جاگیردار بڑے زمینداروں نے کسی کے اشارے پر آٹے کو70 روپے کلو تک پہنچا دیا؟ گندم امپورٹ بھی کی جاتی ہے، کیا امپورٹڈ گندم اس قدر مہنگی ہوگئی ہے کہ آٹا 70 روپے کلو کر دیا گیا؟ بہرحال یہ طے ہے کہ کہیں نہ کہیں گھپلا ہے اور اس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنے کے علاوہ اورکیا ہوسکتا ہے؟
ہم نے یہاں صرف آٹے کی قیمت میں ناقابل یقین اضافے کا ذکر کیا ہے کیونکہ آٹا غریب آدمی کی غذا کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ ہم یہاں چاول کا ذکر اس لیے نہیں کر رہے کہ چاول غریب کی خوراک کا لازمی حصہ نہیں ہے۔خوردنی تیل اور گھی غریب کی غذا کے اہم حصے میں شامل ہیں۔عام خوردنی تیل ابھی کچھ دن پہلے 170روپے کلو تھا اب 240 روپے کلو ہو گیا ہے، اس شے کی اتنی مہنگائی کی وجہ کیا ہے؟ چینی کے دام بڑھا کر 75-70 روپے کلو کر دیے گئے ہیں جب کہ چینی شوگر ملوں کے گوداموں میں بھری ہوئی ہے اور اس کے دام میں اضافے کا کوئی جواز نہیں۔ سبزیاں نہ امریکا سے آتی ہیں نہ یورپ سے، مقامی وڈیروں کی زمین پر ہی اگتی ہیں یا درمیانے کسان سبزیاں اگاتے ہیں، سبزیوں کے دام میں اس ناقابل یقین اضافے کی وجہ کیا ہے؟
ان سارے سوالوں کا واحد جواب حکومت کی نااہلی، اگر یہ اپوزیشن کی سازش ہے تو حکومت کیا کر رہی ہے۔ عوام حکومت سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ سونے چاندی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے جس کی عوام کو کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ یہ آئٹمز ان کی زندگی سے خارج ہیں۔ رہا مڈل کلاس کا تو وہ نقلی جیولری سے کام چلا رہی ہے لیکن اصل سوال یہی ہے کہ غریب عوام کی ضرورت کی ضروری اشیا میں جو آگ لگی ہے کہیں یہ آگ ایوان وزیر اعظم تک نہ پہنچ جائے، ہماری ایماندار بلکہ تاریخی ایماندار اپوزیشن بوجوہ صبر کیے بیٹھی ہے اس نے حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کی بہت کوشش کی لیکن اپوزیشن سے بدظن عوام سڑکوں پر نہ آئے۔ کیا اب عوام کو خود حکومت سڑکوں پر لانے کی تیاری کر رہی ہے؟
وزیر اعظم نے دیر ہی سے سہی آٹے کی مہنگائی کے خلاف کارروائی کا آغاز تو کیا ہے جس کے مطابق وزیر اعظم نے آٹے کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے۔ اس حوالے سے صوبائی چیف سیکریٹریز کو سخت انتظامی اقدامات کی ہدایت کردی گئی ہے۔ محترم وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ ملک مشکل معاشی صورتحال سے نکل آیا ہے۔ میں کرپشن کے خلاف لڑائی آخری حد تک جاری رکھوں گا۔
مہنگائی کا یہ سلسلہ مہینوں سے جاری ہے صرف آٹے کی مہنگائی حالیہ دنوں کی بات ہے۔ آٹا مہنگا ہونے سے پہلے دیگر اشیا صرف کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوچکا تھا اگر اس جعلی مہنگائی کے خلاف ابتدا ہی میں سخت اقدامات کیے جاتے تو آٹے کی قیمتوں میں اس قدر حیرت انگیز اضافے کا امکان نہ ہوتا۔ آٹے کا کاروبار کرنے والوں نے جب دیکھا کہ گراں فروشوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں تو انھوں نے آٹے کی قیمت میں وہ حیرت انگیز اضافہ کیا جسے ہم پاکستان کی تاریخ کا بدترین اضافہ کہہ سکتے ہیں۔
ہم نے ابتدا میں کہا تھا کہ جو لوگ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں اس کی صرف دو وجوہات ہیں، ایک کرپٹ مافیا کو اقتدار سے محروم کرنا دوسرا حکومت پر کرپشن کے الزامات کا نہ ہونا۔ اس قدر مہنگائی کے باوجود عوام کے سڑکوں پر نہ آنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عوام حکومت سے مکمل طور پر مایوس نہیں ہوئے، عوام کی اس رعایت سے اگر حکومت نے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہنگائی اور اپنی نااہلی کے علاوہ پارٹی کے اندر کی چپقلش پر فوری قابو نہ پایا تو عوام کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ سکتا ہے، جس کا فائدہ سابق کرپٹ مافیا بھرپور طریقے سے اٹھائے گی۔