قوم کی سماجی و شہری تربیت
پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکومت کی رٹ صرف کمزوروں پر چلتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے لیے سعودی عرب ، امریکا اور ایران کے درمیان اختلافات ختم کرانے سے کہیں زیادہ اہم کام اس وقت 22 کروڑ پاکستانیوں کو سماجی اور شہری تربیت دینا ہے۔
کوئی پچھلی نصف صدی سے یعنی1970ء کی دہائی سے جیسے جیسے پاکستانی معاشرہ سماجی اور شہری تربیت سے بتدریج محروم ہوتا چلاگیا ویسے ویسے ہی پاکستان سماجی و معاشی ترقی میں دنیا سے پیچھے رہتا گیا ہے۔ چناں چہ جناب وزیراعظم اگر آپ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط ایک ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے سماجی اور شہری آداب سے تقریباً مکمل محروم اس قوم کو یہ تربیت دینی ہوگی۔
گوکہ لگتا یہ کافی مشکل کام ہے مگر یہ عربوں اور ایرانیوں میں کوئی ڈیڑھ ہزار سال پرانی عداوت ختم کرنے سے بہرحال کہیں زیادہ قابل عمل ہے، بس آزمائش شرط ہے۔ ہمارا اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ پورے ملک میں نہ گھروں میں، نہ اسکولوں، کالجوں میں، نہ دفتروں اور اسمبلیوں میں اور نہ ہی مسجدوں اور مدرسوں میں کہیں بھی اس قوم کو سماجی اور شہری تربیت نہیں دی جا رہی اور دے بھی تو کون ؟ والدین ، اساتذہ ، مذہبی رہنما ، عوامی نمایندے، دفتروں کے باسز، نوکر شاہی، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تقریباً سب ہی لوگ خود بھی کسی سماجی اور شہری تربیت کے بغیر پروان چڑھے نظر آتے ہیں۔
آپ مطلب یہ سمجھئے کہ یہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جیسا کہ پاکستان کے میڈیا میں اردو کا حلیہ بگاڑنے کا۔ اب بھلا بتائیے کہ مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر، واحد کی جگہ جمع اور جمع کی جگہ واحد لکھنے اور اردو کا ہر لفظ زیر اور پیش کے بغیر صرف زبر کی آواز کے ساتھ بولنے والے نیوز کاسٹر ، ٹی وی اینکروں، ایکٹروں اور کالم نگاروں کی ابلاغی اصلاح کون کرے کہ جب بڑے بڑے پروڈیوسر، رائٹر، ڈائریکٹر، ایڈیٹر خود ہی بیچارے صحیح اردو لکھنے اور بولنے کی صلاحیت سے قطعاً محروم ہیں اور اسی ''اردو'' کو معیاری یعنی اسٹینڈرڈ اردو بناکر لوگوں پہ تھوپتے جاتے ہیں۔
تو جناب اگر چہار سو ٹھاٹھیں مارتی جہالت کے اپنے ماحول میں وزیر اعظم صاحب جو یہ بیڑہ اٹھالیں تو یہ ایک تاریخی کارنامہ ہوگا۔ جناب وزیر اعظم اس قوم کو سماجی اور شہری تربیت دینے کے کام کا آپ بڑی آسانی اور کامیابی سے آغاز کرسکتے ہیں۔ آئیڈیا ہمارا یہ ہے کہ جناب وزیراعظم ہفتے میں ایک بار قوم سے انفارمل یعنی غیر رسمی بات چیت کا ایک سیشن کیا کریں جو کہ ظاہر ہے کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ نشرکیا جائے۔ ہر ہفتے کے سیشن میں جناب وزیراعظم سماجی اور شہری تربیت کے ایک موضوع پہ قوم سے بات کریں اور مختلف سیشنز میں وزیراعظم کے ساتھ متعلقہ مختلف شعبوں کے ماہرین، مذہبی اسکالرز، سماجی سائنسدان اور دوسرے کارآمد لوگ بھی موجود ہوسکتے ہیں۔
ان سیشنز میں جناب وزیراعظم موقعے اور موضوع کی مناسبت سے معلوماتی اور آگہی ویڈیوز بھی دکھا سکتے ہیں۔ ان ہفتہ واری سیشنز میں جناب وزیراعظم کو ان سماجی اور شہری معاملات پہ تربیت دیں جو کہ بظاہر اتنے اہم نظر نہیں آتے مگر درحقیقت ملک و قوم کے لیے وسیع پیمانے پہ بہتری لاسکتے ہیں۔ ہم یہاں کچھ مثالوں سے ان قومی تربیتی سیشنزکا آئیڈیا واضح کرتے ہیں۔ مثلاً وزیراعظم ایک سیشن میں پلاسٹک شاپنگ بیگزکے بارے میں بات کریں۔
ان پلاسٹک کی تھیلیوں کے ہمارے قدرتی ماحول ، انسانی صحت اور شہری سہولتوں مثلاً پانی اور سیوریج کے نظام پہ انتہائی نقصان دہ اثرات کے بارے میں چھوٹے چھوٹے ویڈیوکلپس کی مدد سے لوگوں کو بتائیں۔ اس سیشن میں ان پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال ختم کرنے کے آسان طریقے بھی بتائیں جن میں سب سے آسان اور پریکٹیکل طریقہ یہ ہے کہ لوگ گھروں میں کپڑے کے ایک دو تھیلے یا بان کی ٹوکری یا باسکٹ رکھ لیں اور روزمرہ کا سودا سلف بجائے کئی کئی پلاسٹک کی تھیلیوں میں لٹکا کر لانے کے کپڑے کے تھیلے یا ٹوکری میں رکھ کر لائیں۔ کپڑے کے عام تھیلے اور بان کی ٹوکریاں ہر کچھ دن کے بعد دھوکر صاف بھی کیے جاسکتے ہیں اور یہ سالہا سال چلتے ہیں جب کہ ان کی قیمت بھی بہت کم ہے۔
آپ پلاسٹک کی تھیلیوں کے مسئلے کو معمولی نہ جانیے۔ پاکستان بھر کے گاؤں، دیہات ، قصبوں ، شہروں میں جہاں بھی آپ کو کوڑے کے ڈھیر نظر آئیں گے ان میں سب سے زیادہ اور سب سے نمایاں یہ پلاسٹک کی تھیلیاں ہوں گی جو قدرتی طور پہ ختم نہیں ہوتیں اور جلائی جائیں تو کینسر جیسی بیماریوں کا سبب بننے والی گیس خارج کرتی ہیں۔ اب ذرا سوچئے کہ وزیراعظم کے سیشن کے نتیجے میں پورے ملک میں اگر صرف دس لاکھ گھروں میں ہی روزانہ کے سودا سلف کے لیے کپڑے کے تھیلے یا بان کی ٹوکریاں استعمال کی جانے لگیں تو فی گھر کم از کم دس پلاسٹک کی تھیلیوں کی اوسط کے حساب سے روزانہ کوئی ایک کروڑ، ماہانہ 30کروڑ اور سالانہ 3 ارب 65کروڑ پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال ہونے اور پھر کوڑے کے پہاڑوں میں نئی چوٹیوں کا اضافہ کرنے سے بچ جائیں گی۔ یہ پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک اچھا آغاز ہوگا کہ جہاں ہر سال کوئی 55 ارب پلاسٹک کی تھیلیاں بنتیں اور کوڑے میں پھینکی جاتی ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکومت کی رٹ صرف کمزوروں پر چلتی ہے اور وکیلوں، تاجروں، ٹرانسپورٹروں سمیت ہرگروہ قانون سے بالاتر مافیا کا درجہ رکھتا ہے۔ وہاں پلاسٹک کی تھیلیوں پہ حکومتی پابندی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہوگا، الٹا ٹی وی چینل والے پلاسٹک کی تھیلیوں والوں کی مظلومیت پہ خبریں اور پروگرام چلائیں گے جب کہ لوگوں کو کپڑے کے تھیلے یا بان کی ٹوکری میں سودا لانے کی تربیت دے کر جناب وزیراعظم اس مسئلے کے عملی حل کا آغاز کرسکیں گے۔
اس طرح وزیراعظم ایک سیشن قوم کو پانی کی بچت کی ترغیب و تربیت دینے پہ کرسکتے ہیں۔ اس سیشن میں جناب وزیراعظم گھروں میں خواتین کو ان کے باروچی خانوں میں پانی کو بچانے اور ری سائیکل کرنے کا آسان طریقہ بتاسکتے ہیں کہ وہ کچن کے نل کے نیچے ایک تسلا یا کوئی دوسرا بڑا برتن رکھ لیا کریں اور نل کا جو پانی صابن اور برتن دھونے کے کیمیکل کے بغیر استعمال ہوتا ہے اسے اس تسلے میں جمع کرتی جائیں مثلاً نل کے پانی سے سبزیاں دھوئیں یا پلیٹیں بغیر صابن کے دھوئیں تو یہ تسلہ نل کے نیچے رکھ دیا اور جب جب تسلہ بھر جائے تو اسے کسی بالٹی میں خالی کرتی جائیں۔ اس طرح بالٹی میں جمع ہونے والا یہ پانی پودوں کو پانی دینے سے لے کر گھر اور باتھ رومز کی صفائی تک کئی طرح کے کاموں میں استعمال ہوسکتا ہے۔ اگر صرف ایک ملین گھروں میں خواتین اس طرح کرنے لگیں تو دس لیٹر کی روزانہ اوسط سے ہر روز ایک کروڑ لیٹر پانی کی بچت ہوگی۔
پانی کی بچت کے ایک اور سیشن میں زرعی ماہرین کی مدد سے کسانوں کو آب پاشی میں پانی بچانے کے طریقے بتائے جا سکتے ہیں اور ساتھ ہی مذہبی اسکالرز کی مدد سے اسلام میں پانی ضایع نہ کرنے کی تعلیم بھی قوم تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ یہ قوم کی سماجی اور شہری تربیت کے موضوع کی صرف دو مثالیں ہیں۔ اس طرح کے بے شمار موضوعات ہیں جن پہ جناب وزیراعظم یہ مجوزہ بیس پچیس منٹ کے غیر رسمی ہفتہ واری سیشنز کرسکتے ہیں۔ ان سیشنز سے قوم کی سماجی اور شہری تربیت کے ساتھ ساتھ جناب وزیراعظم کا امیج اور عوامی پوزیشن بھی بلند ہوگی۔
کوئی پچھلی نصف صدی سے یعنی1970ء کی دہائی سے جیسے جیسے پاکستانی معاشرہ سماجی اور شہری تربیت سے بتدریج محروم ہوتا چلاگیا ویسے ویسے ہی پاکستان سماجی و معاشی ترقی میں دنیا سے پیچھے رہتا گیا ہے۔ چناں چہ جناب وزیراعظم اگر آپ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط ایک ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے سماجی اور شہری آداب سے تقریباً مکمل محروم اس قوم کو یہ تربیت دینی ہوگی۔
گوکہ لگتا یہ کافی مشکل کام ہے مگر یہ عربوں اور ایرانیوں میں کوئی ڈیڑھ ہزار سال پرانی عداوت ختم کرنے سے بہرحال کہیں زیادہ قابل عمل ہے، بس آزمائش شرط ہے۔ ہمارا اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ پورے ملک میں نہ گھروں میں، نہ اسکولوں، کالجوں میں، نہ دفتروں اور اسمبلیوں میں اور نہ ہی مسجدوں اور مدرسوں میں کہیں بھی اس قوم کو سماجی اور شہری تربیت نہیں دی جا رہی اور دے بھی تو کون ؟ والدین ، اساتذہ ، مذہبی رہنما ، عوامی نمایندے، دفتروں کے باسز، نوکر شاہی، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تقریباً سب ہی لوگ خود بھی کسی سماجی اور شہری تربیت کے بغیر پروان چڑھے نظر آتے ہیں۔
آپ مطلب یہ سمجھئے کہ یہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جیسا کہ پاکستان کے میڈیا میں اردو کا حلیہ بگاڑنے کا۔ اب بھلا بتائیے کہ مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر، واحد کی جگہ جمع اور جمع کی جگہ واحد لکھنے اور اردو کا ہر لفظ زیر اور پیش کے بغیر صرف زبر کی آواز کے ساتھ بولنے والے نیوز کاسٹر ، ٹی وی اینکروں، ایکٹروں اور کالم نگاروں کی ابلاغی اصلاح کون کرے کہ جب بڑے بڑے پروڈیوسر، رائٹر، ڈائریکٹر، ایڈیٹر خود ہی بیچارے صحیح اردو لکھنے اور بولنے کی صلاحیت سے قطعاً محروم ہیں اور اسی ''اردو'' کو معیاری یعنی اسٹینڈرڈ اردو بناکر لوگوں پہ تھوپتے جاتے ہیں۔
تو جناب اگر چہار سو ٹھاٹھیں مارتی جہالت کے اپنے ماحول میں وزیر اعظم صاحب جو یہ بیڑہ اٹھالیں تو یہ ایک تاریخی کارنامہ ہوگا۔ جناب وزیر اعظم اس قوم کو سماجی اور شہری تربیت دینے کے کام کا آپ بڑی آسانی اور کامیابی سے آغاز کرسکتے ہیں۔ آئیڈیا ہمارا یہ ہے کہ جناب وزیراعظم ہفتے میں ایک بار قوم سے انفارمل یعنی غیر رسمی بات چیت کا ایک سیشن کیا کریں جو کہ ظاہر ہے کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ نشرکیا جائے۔ ہر ہفتے کے سیشن میں جناب وزیراعظم سماجی اور شہری تربیت کے ایک موضوع پہ قوم سے بات کریں اور مختلف سیشنز میں وزیراعظم کے ساتھ متعلقہ مختلف شعبوں کے ماہرین، مذہبی اسکالرز، سماجی سائنسدان اور دوسرے کارآمد لوگ بھی موجود ہوسکتے ہیں۔
ان سیشنز میں جناب وزیراعظم موقعے اور موضوع کی مناسبت سے معلوماتی اور آگہی ویڈیوز بھی دکھا سکتے ہیں۔ ان ہفتہ واری سیشنز میں جناب وزیراعظم کو ان سماجی اور شہری معاملات پہ تربیت دیں جو کہ بظاہر اتنے اہم نظر نہیں آتے مگر درحقیقت ملک و قوم کے لیے وسیع پیمانے پہ بہتری لاسکتے ہیں۔ ہم یہاں کچھ مثالوں سے ان قومی تربیتی سیشنزکا آئیڈیا واضح کرتے ہیں۔ مثلاً وزیراعظم ایک سیشن میں پلاسٹک شاپنگ بیگزکے بارے میں بات کریں۔
ان پلاسٹک کی تھیلیوں کے ہمارے قدرتی ماحول ، انسانی صحت اور شہری سہولتوں مثلاً پانی اور سیوریج کے نظام پہ انتہائی نقصان دہ اثرات کے بارے میں چھوٹے چھوٹے ویڈیوکلپس کی مدد سے لوگوں کو بتائیں۔ اس سیشن میں ان پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال ختم کرنے کے آسان طریقے بھی بتائیں جن میں سب سے آسان اور پریکٹیکل طریقہ یہ ہے کہ لوگ گھروں میں کپڑے کے ایک دو تھیلے یا بان کی ٹوکری یا باسکٹ رکھ لیں اور روزمرہ کا سودا سلف بجائے کئی کئی پلاسٹک کی تھیلیوں میں لٹکا کر لانے کے کپڑے کے تھیلے یا ٹوکری میں رکھ کر لائیں۔ کپڑے کے عام تھیلے اور بان کی ٹوکریاں ہر کچھ دن کے بعد دھوکر صاف بھی کیے جاسکتے ہیں اور یہ سالہا سال چلتے ہیں جب کہ ان کی قیمت بھی بہت کم ہے۔
آپ پلاسٹک کی تھیلیوں کے مسئلے کو معمولی نہ جانیے۔ پاکستان بھر کے گاؤں، دیہات ، قصبوں ، شہروں میں جہاں بھی آپ کو کوڑے کے ڈھیر نظر آئیں گے ان میں سب سے زیادہ اور سب سے نمایاں یہ پلاسٹک کی تھیلیاں ہوں گی جو قدرتی طور پہ ختم نہیں ہوتیں اور جلائی جائیں تو کینسر جیسی بیماریوں کا سبب بننے والی گیس خارج کرتی ہیں۔ اب ذرا سوچئے کہ وزیراعظم کے سیشن کے نتیجے میں پورے ملک میں اگر صرف دس لاکھ گھروں میں ہی روزانہ کے سودا سلف کے لیے کپڑے کے تھیلے یا بان کی ٹوکریاں استعمال کی جانے لگیں تو فی گھر کم از کم دس پلاسٹک کی تھیلیوں کی اوسط کے حساب سے روزانہ کوئی ایک کروڑ، ماہانہ 30کروڑ اور سالانہ 3 ارب 65کروڑ پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال ہونے اور پھر کوڑے کے پہاڑوں میں نئی چوٹیوں کا اضافہ کرنے سے بچ جائیں گی۔ یہ پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک اچھا آغاز ہوگا کہ جہاں ہر سال کوئی 55 ارب پلاسٹک کی تھیلیاں بنتیں اور کوڑے میں پھینکی جاتی ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکومت کی رٹ صرف کمزوروں پر چلتی ہے اور وکیلوں، تاجروں، ٹرانسپورٹروں سمیت ہرگروہ قانون سے بالاتر مافیا کا درجہ رکھتا ہے۔ وہاں پلاسٹک کی تھیلیوں پہ حکومتی پابندی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہوگا، الٹا ٹی وی چینل والے پلاسٹک کی تھیلیوں والوں کی مظلومیت پہ خبریں اور پروگرام چلائیں گے جب کہ لوگوں کو کپڑے کے تھیلے یا بان کی ٹوکری میں سودا لانے کی تربیت دے کر جناب وزیراعظم اس مسئلے کے عملی حل کا آغاز کرسکیں گے۔
اس طرح وزیراعظم ایک سیشن قوم کو پانی کی بچت کی ترغیب و تربیت دینے پہ کرسکتے ہیں۔ اس سیشن میں جناب وزیراعظم گھروں میں خواتین کو ان کے باروچی خانوں میں پانی کو بچانے اور ری سائیکل کرنے کا آسان طریقہ بتاسکتے ہیں کہ وہ کچن کے نل کے نیچے ایک تسلا یا کوئی دوسرا بڑا برتن رکھ لیا کریں اور نل کا جو پانی صابن اور برتن دھونے کے کیمیکل کے بغیر استعمال ہوتا ہے اسے اس تسلے میں جمع کرتی جائیں مثلاً نل کے پانی سے سبزیاں دھوئیں یا پلیٹیں بغیر صابن کے دھوئیں تو یہ تسلہ نل کے نیچے رکھ دیا اور جب جب تسلہ بھر جائے تو اسے کسی بالٹی میں خالی کرتی جائیں۔ اس طرح بالٹی میں جمع ہونے والا یہ پانی پودوں کو پانی دینے سے لے کر گھر اور باتھ رومز کی صفائی تک کئی طرح کے کاموں میں استعمال ہوسکتا ہے۔ اگر صرف ایک ملین گھروں میں خواتین اس طرح کرنے لگیں تو دس لیٹر کی روزانہ اوسط سے ہر روز ایک کروڑ لیٹر پانی کی بچت ہوگی۔
پانی کی بچت کے ایک اور سیشن میں زرعی ماہرین کی مدد سے کسانوں کو آب پاشی میں پانی بچانے کے طریقے بتائے جا سکتے ہیں اور ساتھ ہی مذہبی اسکالرز کی مدد سے اسلام میں پانی ضایع نہ کرنے کی تعلیم بھی قوم تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ یہ قوم کی سماجی اور شہری تربیت کے موضوع کی صرف دو مثالیں ہیں۔ اس طرح کے بے شمار موضوعات ہیں جن پہ جناب وزیراعظم یہ مجوزہ بیس پچیس منٹ کے غیر رسمی ہفتہ واری سیشنز کرسکتے ہیں۔ ان سیشنز سے قوم کی سماجی اور شہری تربیت کے ساتھ ساتھ جناب وزیراعظم کا امیج اور عوامی پوزیشن بھی بلند ہوگی۔