وفاقی انشورنس محتسب بیمہ صارفین کی شکایات کا بروقت ازالہ کر رہے ہیں صدر ڈاکٹر عارف علوی
’’انشورنس انڈسٹری کی ترقی اور وفاقی انشورنس محتسب کے کردار ‘‘ کے موضوع کی رپورٹ
ایکسپریس میڈیا گروپ اور جوبلی لائف انشورنس کے اشتراک سے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ''انشورنس انڈسٹری کی ترقی اور وفاقی انشورنس محتسب کا کردار '' کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کی جبکہ مہمانان گرامی میں وفاقی انشورنس محتسب ڈاکٹر خاور جمیل ،گروپ ہیڈجوبلی لائف انشورنس محمد زاہد برکی ،چیئرمین انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان محمد حسین ہرجی اور سی ای او ایکسپریس پبلی کیشنز اعجاز الحق شامل تھے۔
سیمینار میں وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسگی خواتین کشمالہ طارق، ڈی جی ادارہ وفاقی انشورنس محتسب مبشر نعیم سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے خصوصی شرکت کی۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی (صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان)
انشورنس کے حوالے سے جب گفتگو ہو تو انسان سب سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اس کا تجربہ کیسا رہا۔ میں نے جب گاڑی خریدی تو معلوم ہوا کہ انشورنس لازمی ہے لہٰذا کبھی تھرڈ پارٹی انشورنس کروائی تو کبھی جامع انشورنس اور ہمیشہ تنازعہ کی کیفیت ہی رہی کہ گاڑی چوری ہونے یا ایکسیڈنٹ کی صورت میں معاوضہ کیسا ملے گا؟ جس زمانے میں گاڑیاں بہت چھینی جاتی تھی تو ان دنوں میں اتوار کے روز پارٹی دفتر میں کام کر رہا تھا، فوٹو کاپی کیلئے مارکیٹ گیا، کاپی کرواکر گاڑی میں آیا تو کسی نے دروازے سے اندر بندوق کردی۔ میں نے مزاحمت کی تو اس کے دوسرے ساتھی نے میرے سر میں پستول کا بٹ مارا اور گاڑی لے کر چلے گئے۔
پولیس آئی مگر خوف کا عالم یہ تھا کہ کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس واقعے کے بعد انشورنس کی رقم حاصل کرنا خوشگوار تجربہ نہیں تھا۔ انشورنس کے حوالے سے 3 باتیں انتہائی اہم ہیں۔ ایک یہ کہ انشورنس کے حوالے سے لوگوں کاعمومی تجربہ اچھا نہیں ہے، اس میں پیچیدگیاں بہت ہیں، یہی وجہ ہے کہ انشورنس کروانے والوں کی تعداد کم ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ابھی پوری مارکیٹ انشورنس انڈسٹری کے پاس نہیں ہے۔
انشورنس لوگوں کی زندگی میں ایک اچھی پراڈکٹ تو ہے مگر انہیں اس کی اہمیت کا درست علم نہیں ہے لہٰذا انشورنس کمپنیوں کو اپنی مارکیٹنگ پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان میں انشورنس کی بہت بڑی مارکیٹ ہے لہٰذا لوگوں کو آگاہی دیں اور انہیں انشورنس کی اہمیت، عزت اور ضرورت کا احساس دلوائیں۔ حکومت نے صحت سہولت کارڈ کا جو منصوبہ دیا ہے، یہ بنیادی طور پر ہیلتھ انشورنس ہے۔دنیا بھر میں ہیلتھ انشورنس صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر بھی کرواتا ہے۔ پاکستان میں ہیلتھ انشورنس اب شروع ہوئی ہے جو بہترین ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں کوئی پراڈکٹ لائیں، اس میں کرپشن کا امکان ہوتا ہے چاہے وہ انگلینڈ یا امریکا کی ہیلتھ انشورنس ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان میں حکومت کو اس پر بہت محتاط رہنا ہوگا اور سخت چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہوگا کہ ڈاکٹر اور مریض کی ملی بھگت سے علاج کے اخراجات نہ بڑھائے جائیں۔
مجھے یقین ہے کہ اس حوالے سے طریقہ کار ضرور اختیار کیا گیا ہوگا۔ صادقین کے عزیزوں نے مجھے کہا کہ ہمارے پاس صادقین کا بہت سارا آرٹ موجود ہے، میں نے کہا کہ اگر ایسا ہے اور عوام نے نہیں دیکھا تو ایوان صدر اس کی نمائش کی بہترین جگہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی انشورنس کروانی پڑے گے جس کا ایک ماہ کا انشورنس پیکیج ڈھائی سے 3 کروڑ روپے تھا۔ زیادہ خرچ کی وجہ سے ہم نے نمائش نہیں کی مگر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے بہت سارے ایریاز ہیں جن میں انسان رسک کو مینج کرنے کیلئے انشورنس کرواتا ہے۔ میں وفاقی انشورنس محتسب سے بارہا کہہ چکا ہوں کہ لوگوں کو ان کے ادارے کا معلوم نہیں ہے۔ ہم نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ پالیسی بیچتے وقت صارف کو بتایا جائے کہ شکایت کی صورت میں وفاقی انشورنس محتسب سے رجوع کیا جاسکتا ہے اور وہاں جلد فیصلے ہوتے ہیں۔ وفاقی انشورنس محتسب کے پاس بغیر وکیل کے کیس دائر ہوتا ہے اور 60 دن کے اندرا ندر فیصلہ کردیا جاتا ہے۔
اس کے بعد محدود مدت میں ہی وفاقی محتسب کے پاس اپیل ہوتی ہے اور اگر اس کے بعد بھی کسی کو اعتراض ہو تو وہ صدر کو اپیل کرسکتا ہے۔ میری ٹیبل پر جو بھی فائل آتی ہے،اسی دن ہی اس کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے چاہے جتنا بھی وقت لگے مگر 24 گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگایا جاتا۔ عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ وفاقی محتسب کے ادارے موجود ہیںجو مختلف شکایات کے ازالہ کیلئے کام کرتے ہیں۔ وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ نجی سیکٹر کی انشورنس کمپنیوں کے تمام فیصلے دیکھتا ہے۔ اسی طرح بینکنگ محتسب ، بینکنگ ، ٹیکس محتسب ، ٹیکسیشن جبکہ خاتون محتسب خواتین کے مسائل دیکھتی ہیں۔ ہر حکومتی ادارے کے حوالے سے وفاقی محتسب موجود ہے جو اپنی ڈومین میں معاملات دیکھتے ہیں۔ لاکھوں کیس ان تمام وفاقی محتسب کے پاس آتے ہیں اور انتہائی کم وقت میں ان کے فیصلے کردیے جاتے ہیں جو قابل تعریف ہے۔ تین چیزیں جن کی میں بات کر رہا تھا ان میں پہلی مارکیٹنگ ہے۔ دوسری یہ کہ انڈسٹری خود کو بہتر کرے اور موثرپالیسیاں لاتی رہے۔ یہاں انشورنس پالیسی کو بغور پڑھنے کی بات ہوئی،4سے 5 صفحات باریک پوائنٹ میں لکھے ہوئے دے دیے جاتے ہیں، جو میں نے بھی کبھی نہیں پڑھے۔ میرے نزدیک 99 فیصد لوگ یہ نہیں پڑھتے اور جب کوئی نقصان ہوتا ہے تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
انشورنس انڈسٹری آرٹیفیشل انٹیلی جنس اوررسک مینجمنٹ پر کام کرے، اس سے انڈسٹری کو بہت فائدہ ہوگا۔ دنیا اس پر کام کر رہی ہے اور اب تو پاکستان میں بھی کافی ڈیٹا موجود ہے۔ صحت کے حوالے سے ہسپتالوں کا ڈیٹا پاکستان میں جمع ہونا شروع ہوا ہے لہٰذا اس حوالے سے بھی انشورنس انڈسٹری رسک ایویلیوایشن کرسکتی ہے۔ انشورنس کے حوالے سے بیشمار کیسز ایسے آئے کہ بینک نے پالیسی بیچی اور سال بعد لوگوں کو خیال آیا کہ ان کے ساتھ غلط ہوا ہے۔ جن لوگوں کو پالیسیاں بیچی جاتی ہیں، ان میں بیشتر معصوم لوگ ہوتے ہیں اور وہ بینکار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ان میں بے شمار ان پڑھ ہوتے ہیں اور وہ پھنستے چلے جاتے ہیں لہٰذا ''ایتھیکل سیلنگ'' کریں۔ انشورنس ایسوسی ایشن کے نمائندے یہاں موجود ہیں، میں ان سے کہہ رہا ہوں کہ اس کو بہتر بنائیں، دیانت داری کے ساتھ پالیسی کی فروخت یقینی بنائیں تاکہ لوگوں کو مشکلات نہ ہوں۔عوام کو انشورنس اور وفاقی انشورنس محتسب کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے لہٰذااب اس سیمینار سے لوگوں کو آگاہی ملے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ نے اس پر موثر کام کیا ہے دیگر میڈیا ہاؤسز کو بھی عوامی آگاہی کیلئے کام کرنا چاہیے۔ لوگوں میں شعور و آگہی پیدا کرنے کیلئے میڈیا انتہائی اہم ہے۔
اس وقت 40 کے قریب ایسے معاشرتی معاملات ہیں جن پر لوگوں کو آگاہی دینا ضروری ہے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان تمام مسائل کی آگاہی کیلئے میڈیا کو اشتہارات دیے جائیں جبکہ دوسرا میڈیا کے فرائض اور ذمہ داریاں بھی ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ڈرامے میں انشورنس کی اہمیت سمیت دیگر مسائل کو ہائی لائٹ کیا جائے۔ اس سے ڈرامہ تبدیل نہیں ہوگا بلکہ صرف کہانی میں چند ڈائیلاگ شامل کرنے کی ضرورت ہے۔اگر قوم بنانے کی ذمہ داری صرف حکومت، علماء اور سول سوسائٹی پر چھوڑ دیا جائے تو قومیں نہیں بنتی لہٰذا سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اور اس میں میڈیا کا کردار اہم ہے۔ الٹرنیٹ ڈسپوٹ ریزلوشن کا قانون میں نے اسمبلی سے پاس کروایا۔ یہ پنچائیت کی طرح کا نظام ہے مگر قانون کے دائرے میں۔ اس حوالے سے عوام کو آگاہی کی ضرورت ہے لہٰذا میڈیا کو تمام اہم قومی مسائل پر عوامی کو آگاہی دینا ہوگی۔ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب ہم قومی تعمیر کے دور سے گزر رہے ہیں۔ امید ہے کہ ہم من حیث القوم جدوجہد سے تمام مسائل پر قابو پالیں گے۔ شکریہ!!
ڈاکٹر خاور جمیل (وفاقی انشورنس محتسب )
ہمارا کام انشورنس صارفین کے حقوق کاخیال رکھنا ہے۔ انشورنس آرڈیننس میں وفاقی انشورنس محتسب کا کردار واضح ہے۔انشورنس انڈسٹری تجارت ومعیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ادارہ وفاقی انشورنس محتسب انڈسٹری کی مزید وسعت کے لئے کام کر رہا ہے اور ہمارامقصد پالیسی ہولڈر و کمپنی میں معاہدے کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ مہذب معاشرے انصاف کی فوری فراہمی کے لیے نت نئے راستے تلاش کر تے ہیں۔موجو دہ عدالتی نظام پر بوجھ کم کرنے کیلئے جہاں خصوصی عدالتیںقائم کی گئی ہیں، وہاں حکومت پاکستان نے محتسب کا نظام بھی قائم کیا ہے ۔ محتسب ادارے عدالتوں سے بوجھ کم کر تے ہیں اور شکایت کنند گان کو بلامعاوضہ اور فوری انصاف بھی مہیا کر تے ہیں۔
ہما رے ملک میں محتسب نظام کے بارے میں آگاہی بہت ہی محدود ہے حالانکہ یہ عام آدمی کے مسائل کے حل کے بہترین ادارے ہیں ۔ ہما رے ملک میں مخصوص معاملات دیکھنے کیلئے انشورنس محتسب ، ٹیکس محتسب ، بینکنگ محتسب اور خاتون محتسب و دیگر ادارے قائم ہیں ، جن کو عام طور پر وفاقی محتسب کہا جا تا ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ اس مشن پر کام کرتا ہے کہ کوئی بھی بیمہ دار اپنے جائز بیمہ انشورنس کلیم سے محروم نہ رہے اور اس کے لیے اسے برسوں انتظار نہ کرنا پڑے۔ پاکستان کے عوام کو بالعموم اور زند گی کے کسی بھی شعبے میں انشورنس پالیسی لینے والے لوگوں کو بالخصوص یہ سہولت دی جائے کہ انشورنس پالیسیوں سے جنم لینے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ حکومت پاکستان وفاقی انشورنس محتسب کی صورت میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس سے یقینا عوام کا اعتماد پاکستان کے طول و عرض میں کام کرنے والی انشورنس کمپنیوں پر بھی ہو گا اور اس طرح انشورنس انڈسٹری کی ترقی بھی ممکن ہو سکے گی۔
پاکستان میں انشورنس بزنس کی افزائش میں اعتماد اہم ستون ہے اور ادارہ انشورنس محتسب تنا زعات کے تصفیوں کے ساتھ ساتھ کمپنیوں اور صارفین کے درمیان اعتماد کی فضا پید اکرکے انشورنس انڈسٹری کی تیز رفتار ترقی کے لیے بنیادی کر دار ادا کرتا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اعتماد کی بحالی سے ہی ملک میں انشورنس کا رجحان بڑھایا جا سکتا ہے۔ بینک انشورنس سے متعلق ادارہ انشورنس محتسب کے پاس شکایات بڑھ رہی ہیں ، وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ بینک انشورنس کے حوالے سے ان تمام جائز شکایات کے ازالے کے لیے کوششیں کررہا ہے۔ پاکستان میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ انشورنس دستاویز ات کو مکمل پڑھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بیشتر پالیسی ہولڈرز کو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی نہیں ہو تی۔ انشورنس محتسب کا یہ بھی امتیا ز ہے کہ شکایت 60دن کے اندر اندر نمٹا دی جا تی ہے ۔ کوئی بھی شکایت کنند ہ اپنی شکایت سادہ کاغذ پر بغیر کسی وکیل اور فیس کے جمع کر وا سکتا ہے ۔ہما ر ے ہاں پیشیاں نہیں ہوتیں اور صرف ایک سماعت پر فیصلہ کر دیا جا تاہے۔
یہ فیصلہ پیش کی گئی دستاویز ات کی بنیاد پر کیا جا تاہے اور ضرورت پیش آنے پر شکایت کنندہ اور انشورنس کمپنی کو دوبارہ بھی سنا جاتا ہے مگر انشورنس محتسب میں 90فیصد فیصلے پہلی ہی سماعت پر کر دیے جاتے ہیں ۔وفاقی انشورنس محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان سے اپیل کی جاسکتی ہے اور پھر ان کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ انشورنس محتسب کے تقریبا 35فیصد فیصلے باہمی رضامند ی سے کیے گئے ہیں جو اس ادارے کی بڑی کامیابی ہے۔ملک کی 5فیصد سے کم آبادی کو انشورنس محتسب کے بارے میں علم ہے۔ 10فیصد سے بھی کم لوگ محتسب ادارے میں عدالت یا کسی دوسرے فورم سے رجو ع کر تے ہیں۔
اس حوالے سے ہم نے لوگوں کو آگاہی دینے کا مشن شروع کیا ہے۔ ہم صارف اور انشورنس کمپنیوں کے مابین صورتحال کو بہتربنانے کیلئے بھی ''ایس ای سی پی'' کو مختلف سفارشات دیتے رہتے ہیںجن پر عملد ر آمد سے نہ صرف پالیسی ہولڈ ر ز بلکہ انشورنس کمپنیوں کو بھی بہت فائدہ ہوتا ہے۔ محتسب ادارے پورے پاکستان میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور حکومت اور عوام کے اعتماد پر پورا اتر رہے ہیں، اس سلسلے میں یہ تجویز ہے کہ اداروں کے دائرہ کا ر کو مزید وسعت دی جائے اور ایسے تمام معاملات جو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیے جا سکتے ہیں انہیں متعلقہ محتسب کے دائرہ کار میں لایا جا ئے اور اس کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔
زاہد برکی (گروپ ہیڈ جوبلی لائف انشورنس )
انشورنس کے شعبہ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا تیس سالہ تجربہ کہتا ہے کہ مالی نقصانات کو پورا کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ،بنیادی اصول یہی ہے کہ چھوٹی چھوٹی شراکت داری بڑے معاشی نقصانات پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ انشورنس اصل میں انفرادی ، صنعتی اور معاشرتی مالی نقصانات کی دیکھ بھال کرتی ہے جس کے بغیر کوئی معیشت خود کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔اگر بیمہ کا طریقہ کار ختم ہوگیا تو تمام معیشتوں پر بہت منفی اثر پڑے گا اورحکومتوں کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اپنے طور پر اتنے بڑے پیمانے پر جمع مانیٹری نقصان میں کمی کا ازالہ کر سکیں ۔
لائف انشورنس انفرادی طور پر درمیانے درجے کے اداروں اور کاروباری اداروں کے لئے بچت پیدا کرنے کا ایک بہت موثر طریقہ کار ہے جس کے بغیر اس کو محفوظ کرنے کی تعداد کم رہے گے۔انشورنس، ڈویلپمنٹ اورترقی کیلئے معیشت کو سرمایہ کاری فنڈز فراہم کرتا ہے ،انشورنس کے ذریعے پیدا کردہ فنڈزاسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے لئے اہم شراکت دار ہیں۔ سرکاری بانڈز اور بینک کے ذخائر کیساتھ انشورنس مالیاتی منڈیوں اور ٹریڈنگ کے لئے ایک بنیادی ستون ہے۔ عوام کو میڈیکل سہولیات کی آسان فراہمی کے لئے انشورنس ایک قابل عمل ذریعہ ہے جس کے بغیر مناسب طریقے سے بڑی بیماریوں کے علاج کے اخراجات عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔ انشورنس کواولڈ ایج بینفٹ اور پینشن کا بھی ایک متبادل ذریعہ کہا جاسکتا ہے۔
بیماریوں کے دوران مختلف قسم کے ٹیسٹ کرانے اور علاج معالجے کے اخراجات پورے کرنے کے لئے انشورنس کی ضرورت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔انشورنس معاشرے میں عوام کے لئے روزگار کا ذریعہ بھی ہے کیونکہ بے روزگاری معاشرے میں جرائم کے اضافے کا سبب بھی بن رہی ہے۔انشورنس کے بے شمار فوائد کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں انشورنس کرانے کی تعداد ابھی کم ہے۔جوبلی لائف انشورنس 1997 سے لے کر اب تک اپنی بہتر سروسز کے ذریعے عوام کو سہولیا ت پہنچارہی ہے۔جوبلی لائف انشورنس قیام عمل کے بعد سے اب تک مختلف شعبہ جات میں تیس ارب روپے سے زائد کے کلیم ادا کرچکی ہے۔ لائف انشورنس اور معذوری کی مد میں 19 ارب، ہیلتھ اور میڈیکل انشورنس کی مد میں 16 ارب ادائیگی کرچکے ہیں، گزشتہ دو سالوں کے دوران جوبلی لائف انشورنس سے ساڑھے تین ارب کے کلیم ادا کیے ہیں۔
پالیسی ہولڈرز کو فوائد دینے کے لیے 150 ارب سے زائد کے اثاثہ جات استعمال کیے جارہے ہیں،کمپنی کی جانب سے پچاس ملین روپے انسانی بنیادوں پر ادا کئے جاچکے ہیں۔ ہم زندگی اور صحت کے حوالے سے لوگوں کو انشورنس کی سہولت دے کر صارف دوست کمپنی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ ہماری کارکردگی کو انشورنس محتسب کی جانب سے وقتا فوقتا تسلیم کیا گیا ۔ وفاقی انشورنس محتسب کاموثر کردارلائف انشورنس میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس شعبے میں ترقی اور انشورنس کے حوالے سے آگاہی پروگرام سے بھی بہتری آئی ہے۔لوگوں کے اعتماد میں اضافے سے انشورنس کرانے کا رجحان میں بھی بڑھے گا۔ بنیادی طور پراس کا مقصدویلفیئر کے شعبے میں بہتری اور زندگی میں غیر متوقع نقصانات سے محفوظ رکھنا ہے۔جوبلی انشورنس بہتر سے بہتر سروس کی فراہمی کے لئے ہمہ وقت تیار اور ثابت قدم ہے۔
محمدحسین ہرجی(چیئرمین انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان )
1948ء میں انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کاقیام عمل میں لایاگیا اور اس وقت ملک میں 37انشورنس کمپنیاں بہترین کام کررہی ہیں۔'ایس ای سی پی' نے انشورنس انڈسٹری کے پھلنے پھولنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ابھی بھی پیش پیش ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب صارفین اور کمپنیوں میں کنٹریکٹ کی پاسداری کے لئے اہم کرداراداکررہے ہیں۔ انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان جوکہ وزارت تجارت کے ماتحت ایک ٹریڈ آرگنائزیشن ہے، امریکا، برطانیہ اور سارک چیمبر آف کامرس کے ساتھ ملکر اہم کردار اداکررہا ہے۔ انشورنس شہریوں کے مستقبل کی ضمانت ہے لہٰذاانہیں انشورنس کے قوانین سے متعلق آگاہی ہونی چاہیے۔ ملک میں قوانین موجو د ہیں مگر عملدر آمد کامسئلہ ہے ۔ شہریوں کو انشورنس کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی انشورنس محتسب سے رجو ع کرنا چاہیے۔ پاکستان میں مختلف نوعیت کے انشورنس بزنس ہیں جنہیں جد ید خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔
انشورنس آرڈیننس کے نفا ذ کے نتیجے میں وفاقی انشورنس محتسب کا قیام عمل میں آیا ، ماضی کے مقابلے میں موجو دہ دور انشورنس محتسب کی فعالیت کے حوالے سے انتہائی بہتر ہے۔ بلا شبہ بیمہ کی صنعت ترقی کر رہی ہے اوراس کے ساتھ متعدد چیلنجزبھی درپیش ہیں مگر ان میں سے گڈ گورننس کو درپیش خطرات کے مقابلے میں کوئی بھی چیلنج اہم نہیں ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب کے ادارے کے قیام سے لوگوں نے انشورنس کی جانب غور کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے مقامی انشورنس کمپنیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ وفاقی انشورنس محتسب کے سستے و آسان طریقہ کا ر اور فوری فیصلوں کی وجہ سے نہ صرف انشورنس کمپنیوں بلکہ انشورنس کنندہ میں بھی اعتماد پید اہوا جو لائق تحسین ہے۔ اس سے ملکی معیشت کو ترقی ملے گی اور انشورنس انڈ سٹری کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔ پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں جی ڈی پی کے تنا سب سے انشورنس کی شرح سب سے کم ہے ، جس کی وجہ عوام کا انشورنس انڈسٹری پر عدم اعتماد ہے ۔ پاکستان میں متعدد نوعیت کے انشورنس بزنس ہیں جنہیں جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انشورنس پراڈکٹ کے ابتدائی درخواست فارم سے لیکر مختلف دستاویز انگریزی زبان میں ہوتے ہیں، عام آدمی ان دستاویزات کو سمجھ نہیں پاتا اور کلیم کے حصول کے وقت اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اگر انشورنس پراڈکٹ کے ابتدائی درخواست فارم سے لے کر تمام دستاویزات اردو زبان میں متعارف کروا دی جائیں تو مسائل میں کافی حد تک کمی آجائے گی۔
پاکستان میں ری انشورنس بزنس کے وسیع مواقع ہیں ،جو انشورنس انڈسٹری کی نمو کی رفتار کو تیز کر سکتی ہے۔ مقامی انشورنس انڈسٹری بیمہ دارو ں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سہولیات پر مشتمل پراڈکٹ متعارف کرائے ۔ وفاقی انشورنس محتسب کے قیام کی صورت میںحکومت پاکستان نے عام اور کا روباری بیمہ دار کی سہولت کے لیے انقلا بی قدم اٹھایا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف بیمہ داروں کے لیے ایک نعمت ہے بلکہ اس سے ماتحت اور اعلی عدلیہ میں انشورنس سے متعلق مقدموں میں بھی کمی واقعہ ہوئی ہے۔ عدالتوں میں وکلا سمیت دیگر اخراجات ہو تے ہیں لیکن وفاقی انشورنس محتسب کے ادارے میں سائل کو بغیر کسی خر چ کے انصاف فراہم کیا جا رہاہے ، جو مثالی بات ہے۔
انشورنس پاکستانیوں کا آئینی حق ہے ، ہر بندے کا حق ہے کہ موت کے بعد اس کی اولاد کے حقوق کو انشور کیا جائے، اس کے لیے انشورنس سسٹم کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔انشورنس آرڈیننس 2000ء بہت زبر دست قانون ہے لیکن اس حوالے سے عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے ۔ انشورنس کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ عوامی شعور کے لیے میڈیا کی مدد لیں ۔ عوامی آگاہی کیلئے وزارت قانون بھی اپنا کر دار ادا کرے گی۔ ہیلتھ انشورنس کارڈ حکومت کی اچھی پالیسی ہے ، عوام کو اس سے متعلق بھی آگاہی دینی چاہیے۔انشورنس انڈسٹری کے مسائل حل کرنے کے لیے ہم سب کو اجتماعی کوشش کرنا ہو گی تاکہ عوام میں مثبت تاثر جائے۔
اعجاز الحق (سی ای او ایکسپریس پبلی کیشنز )
معزز خواتین و حضرات!میں ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں خصوصی طور صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، وفاقی انشورنس محتسب ڈاکٹر خاور جمیل، انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین محمدحسین ہرجی اور زاہد برکی جو اس ایونٹ میں ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ ہمیشہ سے ہی مختلف عوامی مسائل کو اجاگر کرتا ہے، سرکاری و نجی سیکٹر کے مسائل پر بات کرتا ہے اور لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے خصوصی پروگرام منعقد کرتا ہے۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ انشورنس کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے وفاقی انشورنس محتسب کاکردار بہت اہم ہے۔ ان کی حیثیت پالیسی ہولڈرز اور کمپنیوں کے درمیان ایک پل کی ہے جس سے انشورنس انڈسٹری کو فائدہ ہوا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے وقت نکالا اور یہاں تشریف لائے۔
سیمینار میں وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسگی خواتین کشمالہ طارق، ڈی جی ادارہ وفاقی انشورنس محتسب مبشر نعیم سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے خصوصی شرکت کی۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی (صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان)
انشورنس کے حوالے سے جب گفتگو ہو تو انسان سب سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اس کا تجربہ کیسا رہا۔ میں نے جب گاڑی خریدی تو معلوم ہوا کہ انشورنس لازمی ہے لہٰذا کبھی تھرڈ پارٹی انشورنس کروائی تو کبھی جامع انشورنس اور ہمیشہ تنازعہ کی کیفیت ہی رہی کہ گاڑی چوری ہونے یا ایکسیڈنٹ کی صورت میں معاوضہ کیسا ملے گا؟ جس زمانے میں گاڑیاں بہت چھینی جاتی تھی تو ان دنوں میں اتوار کے روز پارٹی دفتر میں کام کر رہا تھا، فوٹو کاپی کیلئے مارکیٹ گیا، کاپی کرواکر گاڑی میں آیا تو کسی نے دروازے سے اندر بندوق کردی۔ میں نے مزاحمت کی تو اس کے دوسرے ساتھی نے میرے سر میں پستول کا بٹ مارا اور گاڑی لے کر چلے گئے۔
پولیس آئی مگر خوف کا عالم یہ تھا کہ کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس واقعے کے بعد انشورنس کی رقم حاصل کرنا خوشگوار تجربہ نہیں تھا۔ انشورنس کے حوالے سے 3 باتیں انتہائی اہم ہیں۔ ایک یہ کہ انشورنس کے حوالے سے لوگوں کاعمومی تجربہ اچھا نہیں ہے، اس میں پیچیدگیاں بہت ہیں، یہی وجہ ہے کہ انشورنس کروانے والوں کی تعداد کم ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ابھی پوری مارکیٹ انشورنس انڈسٹری کے پاس نہیں ہے۔
انشورنس لوگوں کی زندگی میں ایک اچھی پراڈکٹ تو ہے مگر انہیں اس کی اہمیت کا درست علم نہیں ہے لہٰذا انشورنس کمپنیوں کو اپنی مارکیٹنگ پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان میں انشورنس کی بہت بڑی مارکیٹ ہے لہٰذا لوگوں کو آگاہی دیں اور انہیں انشورنس کی اہمیت، عزت اور ضرورت کا احساس دلوائیں۔ حکومت نے صحت سہولت کارڈ کا جو منصوبہ دیا ہے، یہ بنیادی طور پر ہیلتھ انشورنس ہے۔دنیا بھر میں ہیلتھ انشورنس صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر بھی کرواتا ہے۔ پاکستان میں ہیلتھ انشورنس اب شروع ہوئی ہے جو بہترین ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں کوئی پراڈکٹ لائیں، اس میں کرپشن کا امکان ہوتا ہے چاہے وہ انگلینڈ یا امریکا کی ہیلتھ انشورنس ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان میں حکومت کو اس پر بہت محتاط رہنا ہوگا اور سخت چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہوگا کہ ڈاکٹر اور مریض کی ملی بھگت سے علاج کے اخراجات نہ بڑھائے جائیں۔
مجھے یقین ہے کہ اس حوالے سے طریقہ کار ضرور اختیار کیا گیا ہوگا۔ صادقین کے عزیزوں نے مجھے کہا کہ ہمارے پاس صادقین کا بہت سارا آرٹ موجود ہے، میں نے کہا کہ اگر ایسا ہے اور عوام نے نہیں دیکھا تو ایوان صدر اس کی نمائش کی بہترین جگہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی انشورنس کروانی پڑے گے جس کا ایک ماہ کا انشورنس پیکیج ڈھائی سے 3 کروڑ روپے تھا۔ زیادہ خرچ کی وجہ سے ہم نے نمائش نہیں کی مگر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے بہت سارے ایریاز ہیں جن میں انسان رسک کو مینج کرنے کیلئے انشورنس کرواتا ہے۔ میں وفاقی انشورنس محتسب سے بارہا کہہ چکا ہوں کہ لوگوں کو ان کے ادارے کا معلوم نہیں ہے۔ ہم نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ پالیسی بیچتے وقت صارف کو بتایا جائے کہ شکایت کی صورت میں وفاقی انشورنس محتسب سے رجوع کیا جاسکتا ہے اور وہاں جلد فیصلے ہوتے ہیں۔ وفاقی انشورنس محتسب کے پاس بغیر وکیل کے کیس دائر ہوتا ہے اور 60 دن کے اندرا ندر فیصلہ کردیا جاتا ہے۔
اس کے بعد محدود مدت میں ہی وفاقی محتسب کے پاس اپیل ہوتی ہے اور اگر اس کے بعد بھی کسی کو اعتراض ہو تو وہ صدر کو اپیل کرسکتا ہے۔ میری ٹیبل پر جو بھی فائل آتی ہے،اسی دن ہی اس کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے چاہے جتنا بھی وقت لگے مگر 24 گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگایا جاتا۔ عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ وفاقی محتسب کے ادارے موجود ہیںجو مختلف شکایات کے ازالہ کیلئے کام کرتے ہیں۔ وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ نجی سیکٹر کی انشورنس کمپنیوں کے تمام فیصلے دیکھتا ہے۔ اسی طرح بینکنگ محتسب ، بینکنگ ، ٹیکس محتسب ، ٹیکسیشن جبکہ خاتون محتسب خواتین کے مسائل دیکھتی ہیں۔ ہر حکومتی ادارے کے حوالے سے وفاقی محتسب موجود ہے جو اپنی ڈومین میں معاملات دیکھتے ہیں۔ لاکھوں کیس ان تمام وفاقی محتسب کے پاس آتے ہیں اور انتہائی کم وقت میں ان کے فیصلے کردیے جاتے ہیں جو قابل تعریف ہے۔ تین چیزیں جن کی میں بات کر رہا تھا ان میں پہلی مارکیٹنگ ہے۔ دوسری یہ کہ انڈسٹری خود کو بہتر کرے اور موثرپالیسیاں لاتی رہے۔ یہاں انشورنس پالیسی کو بغور پڑھنے کی بات ہوئی،4سے 5 صفحات باریک پوائنٹ میں لکھے ہوئے دے دیے جاتے ہیں، جو میں نے بھی کبھی نہیں پڑھے۔ میرے نزدیک 99 فیصد لوگ یہ نہیں پڑھتے اور جب کوئی نقصان ہوتا ہے تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
انشورنس انڈسٹری آرٹیفیشل انٹیلی جنس اوررسک مینجمنٹ پر کام کرے، اس سے انڈسٹری کو بہت فائدہ ہوگا۔ دنیا اس پر کام کر رہی ہے اور اب تو پاکستان میں بھی کافی ڈیٹا موجود ہے۔ صحت کے حوالے سے ہسپتالوں کا ڈیٹا پاکستان میں جمع ہونا شروع ہوا ہے لہٰذا اس حوالے سے بھی انشورنس انڈسٹری رسک ایویلیوایشن کرسکتی ہے۔ انشورنس کے حوالے سے بیشمار کیسز ایسے آئے کہ بینک نے پالیسی بیچی اور سال بعد لوگوں کو خیال آیا کہ ان کے ساتھ غلط ہوا ہے۔ جن لوگوں کو پالیسیاں بیچی جاتی ہیں، ان میں بیشتر معصوم لوگ ہوتے ہیں اور وہ بینکار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ان میں بے شمار ان پڑھ ہوتے ہیں اور وہ پھنستے چلے جاتے ہیں لہٰذا ''ایتھیکل سیلنگ'' کریں۔ انشورنس ایسوسی ایشن کے نمائندے یہاں موجود ہیں، میں ان سے کہہ رہا ہوں کہ اس کو بہتر بنائیں، دیانت داری کے ساتھ پالیسی کی فروخت یقینی بنائیں تاکہ لوگوں کو مشکلات نہ ہوں۔عوام کو انشورنس اور وفاقی انشورنس محتسب کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے لہٰذااب اس سیمینار سے لوگوں کو آگاہی ملے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ نے اس پر موثر کام کیا ہے دیگر میڈیا ہاؤسز کو بھی عوامی آگاہی کیلئے کام کرنا چاہیے۔ لوگوں میں شعور و آگہی پیدا کرنے کیلئے میڈیا انتہائی اہم ہے۔
اس وقت 40 کے قریب ایسے معاشرتی معاملات ہیں جن پر لوگوں کو آگاہی دینا ضروری ہے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان تمام مسائل کی آگاہی کیلئے میڈیا کو اشتہارات دیے جائیں جبکہ دوسرا میڈیا کے فرائض اور ذمہ داریاں بھی ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ڈرامے میں انشورنس کی اہمیت سمیت دیگر مسائل کو ہائی لائٹ کیا جائے۔ اس سے ڈرامہ تبدیل نہیں ہوگا بلکہ صرف کہانی میں چند ڈائیلاگ شامل کرنے کی ضرورت ہے۔اگر قوم بنانے کی ذمہ داری صرف حکومت، علماء اور سول سوسائٹی پر چھوڑ دیا جائے تو قومیں نہیں بنتی لہٰذا سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اور اس میں میڈیا کا کردار اہم ہے۔ الٹرنیٹ ڈسپوٹ ریزلوشن کا قانون میں نے اسمبلی سے پاس کروایا۔ یہ پنچائیت کی طرح کا نظام ہے مگر قانون کے دائرے میں۔ اس حوالے سے عوام کو آگاہی کی ضرورت ہے لہٰذا میڈیا کو تمام اہم قومی مسائل پر عوامی کو آگاہی دینا ہوگی۔ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب ہم قومی تعمیر کے دور سے گزر رہے ہیں۔ امید ہے کہ ہم من حیث القوم جدوجہد سے تمام مسائل پر قابو پالیں گے۔ شکریہ!!
ڈاکٹر خاور جمیل (وفاقی انشورنس محتسب )
ہمارا کام انشورنس صارفین کے حقوق کاخیال رکھنا ہے۔ انشورنس آرڈیننس میں وفاقی انشورنس محتسب کا کردار واضح ہے۔انشورنس انڈسٹری تجارت ومعیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ادارہ وفاقی انشورنس محتسب انڈسٹری کی مزید وسعت کے لئے کام کر رہا ہے اور ہمارامقصد پالیسی ہولڈر و کمپنی میں معاہدے کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ مہذب معاشرے انصاف کی فوری فراہمی کے لیے نت نئے راستے تلاش کر تے ہیں۔موجو دہ عدالتی نظام پر بوجھ کم کرنے کیلئے جہاں خصوصی عدالتیںقائم کی گئی ہیں، وہاں حکومت پاکستان نے محتسب کا نظام بھی قائم کیا ہے ۔ محتسب ادارے عدالتوں سے بوجھ کم کر تے ہیں اور شکایت کنند گان کو بلامعاوضہ اور فوری انصاف بھی مہیا کر تے ہیں۔
ہما رے ملک میں محتسب نظام کے بارے میں آگاہی بہت ہی محدود ہے حالانکہ یہ عام آدمی کے مسائل کے حل کے بہترین ادارے ہیں ۔ ہما رے ملک میں مخصوص معاملات دیکھنے کیلئے انشورنس محتسب ، ٹیکس محتسب ، بینکنگ محتسب اور خاتون محتسب و دیگر ادارے قائم ہیں ، جن کو عام طور پر وفاقی محتسب کہا جا تا ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ اس مشن پر کام کرتا ہے کہ کوئی بھی بیمہ دار اپنے جائز بیمہ انشورنس کلیم سے محروم نہ رہے اور اس کے لیے اسے برسوں انتظار نہ کرنا پڑے۔ پاکستان کے عوام کو بالعموم اور زند گی کے کسی بھی شعبے میں انشورنس پالیسی لینے والے لوگوں کو بالخصوص یہ سہولت دی جائے کہ انشورنس پالیسیوں سے جنم لینے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ حکومت پاکستان وفاقی انشورنس محتسب کی صورت میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس سے یقینا عوام کا اعتماد پاکستان کے طول و عرض میں کام کرنے والی انشورنس کمپنیوں پر بھی ہو گا اور اس طرح انشورنس انڈسٹری کی ترقی بھی ممکن ہو سکے گی۔
پاکستان میں انشورنس بزنس کی افزائش میں اعتماد اہم ستون ہے اور ادارہ انشورنس محتسب تنا زعات کے تصفیوں کے ساتھ ساتھ کمپنیوں اور صارفین کے درمیان اعتماد کی فضا پید اکرکے انشورنس انڈسٹری کی تیز رفتار ترقی کے لیے بنیادی کر دار ادا کرتا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اعتماد کی بحالی سے ہی ملک میں انشورنس کا رجحان بڑھایا جا سکتا ہے۔ بینک انشورنس سے متعلق ادارہ انشورنس محتسب کے پاس شکایات بڑھ رہی ہیں ، وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ بینک انشورنس کے حوالے سے ان تمام جائز شکایات کے ازالے کے لیے کوششیں کررہا ہے۔ پاکستان میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ انشورنس دستاویز ات کو مکمل پڑھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بیشتر پالیسی ہولڈرز کو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی نہیں ہو تی۔ انشورنس محتسب کا یہ بھی امتیا ز ہے کہ شکایت 60دن کے اندر اندر نمٹا دی جا تی ہے ۔ کوئی بھی شکایت کنند ہ اپنی شکایت سادہ کاغذ پر بغیر کسی وکیل اور فیس کے جمع کر وا سکتا ہے ۔ہما ر ے ہاں پیشیاں نہیں ہوتیں اور صرف ایک سماعت پر فیصلہ کر دیا جا تاہے۔
یہ فیصلہ پیش کی گئی دستاویز ات کی بنیاد پر کیا جا تاہے اور ضرورت پیش آنے پر شکایت کنندہ اور انشورنس کمپنی کو دوبارہ بھی سنا جاتا ہے مگر انشورنس محتسب میں 90فیصد فیصلے پہلی ہی سماعت پر کر دیے جاتے ہیں ۔وفاقی انشورنس محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان سے اپیل کی جاسکتی ہے اور پھر ان کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ انشورنس محتسب کے تقریبا 35فیصد فیصلے باہمی رضامند ی سے کیے گئے ہیں جو اس ادارے کی بڑی کامیابی ہے۔ملک کی 5فیصد سے کم آبادی کو انشورنس محتسب کے بارے میں علم ہے۔ 10فیصد سے بھی کم لوگ محتسب ادارے میں عدالت یا کسی دوسرے فورم سے رجو ع کر تے ہیں۔
اس حوالے سے ہم نے لوگوں کو آگاہی دینے کا مشن شروع کیا ہے۔ ہم صارف اور انشورنس کمپنیوں کے مابین صورتحال کو بہتربنانے کیلئے بھی ''ایس ای سی پی'' کو مختلف سفارشات دیتے رہتے ہیںجن پر عملد ر آمد سے نہ صرف پالیسی ہولڈ ر ز بلکہ انشورنس کمپنیوں کو بھی بہت فائدہ ہوتا ہے۔ محتسب ادارے پورے پاکستان میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور حکومت اور عوام کے اعتماد پر پورا اتر رہے ہیں، اس سلسلے میں یہ تجویز ہے کہ اداروں کے دائرہ کا ر کو مزید وسعت دی جائے اور ایسے تمام معاملات جو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیے جا سکتے ہیں انہیں متعلقہ محتسب کے دائرہ کار میں لایا جا ئے اور اس کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔
زاہد برکی (گروپ ہیڈ جوبلی لائف انشورنس )
انشورنس کے شعبہ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا تیس سالہ تجربہ کہتا ہے کہ مالی نقصانات کو پورا کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ،بنیادی اصول یہی ہے کہ چھوٹی چھوٹی شراکت داری بڑے معاشی نقصانات پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ انشورنس اصل میں انفرادی ، صنعتی اور معاشرتی مالی نقصانات کی دیکھ بھال کرتی ہے جس کے بغیر کوئی معیشت خود کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔اگر بیمہ کا طریقہ کار ختم ہوگیا تو تمام معیشتوں پر بہت منفی اثر پڑے گا اورحکومتوں کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اپنے طور پر اتنے بڑے پیمانے پر جمع مانیٹری نقصان میں کمی کا ازالہ کر سکیں ۔
لائف انشورنس انفرادی طور پر درمیانے درجے کے اداروں اور کاروباری اداروں کے لئے بچت پیدا کرنے کا ایک بہت موثر طریقہ کار ہے جس کے بغیر اس کو محفوظ کرنے کی تعداد کم رہے گے۔انشورنس، ڈویلپمنٹ اورترقی کیلئے معیشت کو سرمایہ کاری فنڈز فراہم کرتا ہے ،انشورنس کے ذریعے پیدا کردہ فنڈزاسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے لئے اہم شراکت دار ہیں۔ سرکاری بانڈز اور بینک کے ذخائر کیساتھ انشورنس مالیاتی منڈیوں اور ٹریڈنگ کے لئے ایک بنیادی ستون ہے۔ عوام کو میڈیکل سہولیات کی آسان فراہمی کے لئے انشورنس ایک قابل عمل ذریعہ ہے جس کے بغیر مناسب طریقے سے بڑی بیماریوں کے علاج کے اخراجات عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔ انشورنس کواولڈ ایج بینفٹ اور پینشن کا بھی ایک متبادل ذریعہ کہا جاسکتا ہے۔
بیماریوں کے دوران مختلف قسم کے ٹیسٹ کرانے اور علاج معالجے کے اخراجات پورے کرنے کے لئے انشورنس کی ضرورت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔انشورنس معاشرے میں عوام کے لئے روزگار کا ذریعہ بھی ہے کیونکہ بے روزگاری معاشرے میں جرائم کے اضافے کا سبب بھی بن رہی ہے۔انشورنس کے بے شمار فوائد کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں انشورنس کرانے کی تعداد ابھی کم ہے۔جوبلی لائف انشورنس 1997 سے لے کر اب تک اپنی بہتر سروسز کے ذریعے عوام کو سہولیا ت پہنچارہی ہے۔جوبلی لائف انشورنس قیام عمل کے بعد سے اب تک مختلف شعبہ جات میں تیس ارب روپے سے زائد کے کلیم ادا کرچکی ہے۔ لائف انشورنس اور معذوری کی مد میں 19 ارب، ہیلتھ اور میڈیکل انشورنس کی مد میں 16 ارب ادائیگی کرچکے ہیں، گزشتہ دو سالوں کے دوران جوبلی لائف انشورنس سے ساڑھے تین ارب کے کلیم ادا کیے ہیں۔
پالیسی ہولڈرز کو فوائد دینے کے لیے 150 ارب سے زائد کے اثاثہ جات استعمال کیے جارہے ہیں،کمپنی کی جانب سے پچاس ملین روپے انسانی بنیادوں پر ادا کئے جاچکے ہیں۔ ہم زندگی اور صحت کے حوالے سے لوگوں کو انشورنس کی سہولت دے کر صارف دوست کمپنی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ ہماری کارکردگی کو انشورنس محتسب کی جانب سے وقتا فوقتا تسلیم کیا گیا ۔ وفاقی انشورنس محتسب کاموثر کردارلائف انشورنس میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس شعبے میں ترقی اور انشورنس کے حوالے سے آگاہی پروگرام سے بھی بہتری آئی ہے۔لوگوں کے اعتماد میں اضافے سے انشورنس کرانے کا رجحان میں بھی بڑھے گا۔ بنیادی طور پراس کا مقصدویلفیئر کے شعبے میں بہتری اور زندگی میں غیر متوقع نقصانات سے محفوظ رکھنا ہے۔جوبلی انشورنس بہتر سے بہتر سروس کی فراہمی کے لئے ہمہ وقت تیار اور ثابت قدم ہے۔
محمدحسین ہرجی(چیئرمین انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان )
1948ء میں انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کاقیام عمل میں لایاگیا اور اس وقت ملک میں 37انشورنس کمپنیاں بہترین کام کررہی ہیں۔'ایس ای سی پی' نے انشورنس انڈسٹری کے پھلنے پھولنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ابھی بھی پیش پیش ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب صارفین اور کمپنیوں میں کنٹریکٹ کی پاسداری کے لئے اہم کرداراداکررہے ہیں۔ انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان جوکہ وزارت تجارت کے ماتحت ایک ٹریڈ آرگنائزیشن ہے، امریکا، برطانیہ اور سارک چیمبر آف کامرس کے ساتھ ملکر اہم کردار اداکررہا ہے۔ انشورنس شہریوں کے مستقبل کی ضمانت ہے لہٰذاانہیں انشورنس کے قوانین سے متعلق آگاہی ہونی چاہیے۔ ملک میں قوانین موجو د ہیں مگر عملدر آمد کامسئلہ ہے ۔ شہریوں کو انشورنس کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی انشورنس محتسب سے رجو ع کرنا چاہیے۔ پاکستان میں مختلف نوعیت کے انشورنس بزنس ہیں جنہیں جد ید خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔
انشورنس آرڈیننس کے نفا ذ کے نتیجے میں وفاقی انشورنس محتسب کا قیام عمل میں آیا ، ماضی کے مقابلے میں موجو دہ دور انشورنس محتسب کی فعالیت کے حوالے سے انتہائی بہتر ہے۔ بلا شبہ بیمہ کی صنعت ترقی کر رہی ہے اوراس کے ساتھ متعدد چیلنجزبھی درپیش ہیں مگر ان میں سے گڈ گورننس کو درپیش خطرات کے مقابلے میں کوئی بھی چیلنج اہم نہیں ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب کے ادارے کے قیام سے لوگوں نے انشورنس کی جانب غور کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے مقامی انشورنس کمپنیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ وفاقی انشورنس محتسب کے سستے و آسان طریقہ کا ر اور فوری فیصلوں کی وجہ سے نہ صرف انشورنس کمپنیوں بلکہ انشورنس کنندہ میں بھی اعتماد پید اہوا جو لائق تحسین ہے۔ اس سے ملکی معیشت کو ترقی ملے گی اور انشورنس انڈ سٹری کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔ پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں جی ڈی پی کے تنا سب سے انشورنس کی شرح سب سے کم ہے ، جس کی وجہ عوام کا انشورنس انڈسٹری پر عدم اعتماد ہے ۔ پاکستان میں متعدد نوعیت کے انشورنس بزنس ہیں جنہیں جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انشورنس پراڈکٹ کے ابتدائی درخواست فارم سے لیکر مختلف دستاویز انگریزی زبان میں ہوتے ہیں، عام آدمی ان دستاویزات کو سمجھ نہیں پاتا اور کلیم کے حصول کے وقت اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اگر انشورنس پراڈکٹ کے ابتدائی درخواست فارم سے لے کر تمام دستاویزات اردو زبان میں متعارف کروا دی جائیں تو مسائل میں کافی حد تک کمی آجائے گی۔
پاکستان میں ری انشورنس بزنس کے وسیع مواقع ہیں ،جو انشورنس انڈسٹری کی نمو کی رفتار کو تیز کر سکتی ہے۔ مقامی انشورنس انڈسٹری بیمہ دارو ں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سہولیات پر مشتمل پراڈکٹ متعارف کرائے ۔ وفاقی انشورنس محتسب کے قیام کی صورت میںحکومت پاکستان نے عام اور کا روباری بیمہ دار کی سہولت کے لیے انقلا بی قدم اٹھایا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف بیمہ داروں کے لیے ایک نعمت ہے بلکہ اس سے ماتحت اور اعلی عدلیہ میں انشورنس سے متعلق مقدموں میں بھی کمی واقعہ ہوئی ہے۔ عدالتوں میں وکلا سمیت دیگر اخراجات ہو تے ہیں لیکن وفاقی انشورنس محتسب کے ادارے میں سائل کو بغیر کسی خر چ کے انصاف فراہم کیا جا رہاہے ، جو مثالی بات ہے۔
انشورنس پاکستانیوں کا آئینی حق ہے ، ہر بندے کا حق ہے کہ موت کے بعد اس کی اولاد کے حقوق کو انشور کیا جائے، اس کے لیے انشورنس سسٹم کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔انشورنس آرڈیننس 2000ء بہت زبر دست قانون ہے لیکن اس حوالے سے عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے ۔ انشورنس کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ عوامی شعور کے لیے میڈیا کی مدد لیں ۔ عوامی آگاہی کیلئے وزارت قانون بھی اپنا کر دار ادا کرے گی۔ ہیلتھ انشورنس کارڈ حکومت کی اچھی پالیسی ہے ، عوام کو اس سے متعلق بھی آگاہی دینی چاہیے۔انشورنس انڈسٹری کے مسائل حل کرنے کے لیے ہم سب کو اجتماعی کوشش کرنا ہو گی تاکہ عوام میں مثبت تاثر جائے۔
اعجاز الحق (سی ای او ایکسپریس پبلی کیشنز )
معزز خواتین و حضرات!میں ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں خصوصی طور صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، وفاقی انشورنس محتسب ڈاکٹر خاور جمیل، انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین محمدحسین ہرجی اور زاہد برکی جو اس ایونٹ میں ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ ہمیشہ سے ہی مختلف عوامی مسائل کو اجاگر کرتا ہے، سرکاری و نجی سیکٹر کے مسائل پر بات کرتا ہے اور لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے خصوصی پروگرام منعقد کرتا ہے۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ انشورنس کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے وفاقی انشورنس محتسب کاکردار بہت اہم ہے۔ ان کی حیثیت پالیسی ہولڈرز اور کمپنیوں کے درمیان ایک پل کی ہے جس سے انشورنس انڈسٹری کو فائدہ ہوا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے وقت نکالا اور یہاں تشریف لائے۔