ویٹی کن کا سبق
آج کا یورپ اور جرمنی ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کی گم گشتہ شان و شوکت واپس لے آئے۔
آج باریش راہب عجیب ڈھب میں نظر آتا تھا۔ اس نے انوکھا کام شروع کر دیا تھا۔ ایسا انوکھا کہ قصبے والوں کے دل بیدِ مجنوں کی طرح کانپنے لگے تھے۔ اس نے کلہاڑا اٹھایا تھا اور مقدس درخت پر پِل پڑا تھا۔ جب سے وہ قصبے میں آیا تھا عجیب باتیں کرتا تھا۔ ویسے نظر تو بھلا مانس آتا تھا لیکن باتیں کسی اور ہی دنیا کی کیا کرتا تھا۔ نجات کی، آخرت کی، گناہوں کے کفارے کی، خدمت اور محبت کی۔ لیکن لوگ اپنے پرکھوں کے خیالات سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔ وہ جس طرز زندگی کے عادی بنا دیے گئے تھے، باوجود مشکلات کے اسے ترک کر دینا ان کے بس سے باہر تھا۔ آسمانی برق، ہتھوڑے اور شاہ بلوط کی نشانیوں کے حامل دیوتا ''تھور'' کا مقدس شاہ بلوط، جسے آج تک کسی نے سوائے تقدیس اور احترام کے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا، یہ راہب اسے گرا دینے پر تلا ہوا تھا۔ کلہاڑا چل رہا تھا اور قصبے والے ''تھور'' کے قہر کے منتظر تھے۔
اچانک موسم بدلنے لگا اور تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ مارے دہشت کے دیکھنے والوں کا دم اٹکنے لگا۔ ادھر ہوائوں کی تندی نے گویا راہب کے لیے بھی مہمیز کا کام کیا۔ اس کے ہاتھ اور تیزی سے چلنے لگے۔ اب کی بار وہ اسی وقت رکا جب درخت زمیں بوس ہوا۔ آندھی تھم چکی تھی۔ تقدس کا جھوٹا حصار ختم ہو چکا تھا۔ یہ اٹھارویں عیسوی صدی تھی اور جرمنی میں ابتدا تھی ایک نئے مذہب، ایک نئے عقیدے، کیتھولک عیسائیت کی۔ ''تھور'' کا مقدس شاہ بلوط گرا کر جرمنی والوں کی کایا کلپ کرنے والے یہ باریش راہب عیسائی تاریخ میں ''سینٹ بونی فیس'' (672-5/6/754) کے نام سے امر ہوئے۔ ان کی مساعی سے جرمنی میں کیتھولک ازم اتنا پروان چڑھا کہ کسی دور میں وہ وہاں کا اکثریتی مذہب ہوا کرتا تھا۔ لیکن افسوس کہ اب حال یہ ہو گیا ہے کہ کیتھولکس ساری دنیا کی طرح یورپ اور امریکا سے بھی سمٹ رہے ہیں، کم ہو رہے ہیں۔ آج کے جرمنی میں کیتھولکس کی تعداد گھٹ کر 30.7 فیصد رہ گئی ہے، قریباً 25 لاکھ سے کچھ زائد۔ یہ تعداد گزشتہ دہائی کی نسبت 2 فیصد کم ہے اور جو کیتھولک ہیں بھی ان کی ایک بڑی تعداد خود کو ''نومینل کیتھولک'' قرار دینے لگی ہے۔ گویا یہ نسلاً تو کیتھولک ہیں لیکن چرچ اور اس کی اقدار سے انھیں کوئی خاص علاقہ نہیں رہا۔ معلوم ہوتا ہے آج کے جرمنی کو پہلے سے کہیں زیادہ پھر ایک ''سینٹ بونی فیس'' کی ضرورت ہے، جو پوپ بینی ڈکٹ کے مطابق لوگوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلائے اور انھیں پھر سے کیتھولک حلقے میں لے آئے۔ ایک ایسا چرواہا جو ''گم شدہ بھیڑوں'' کو کھوج لائے۔
آج کا یورپ اور جرمنی ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کی گم گشتہ شان و شوکت واپس لے آئے۔ انھیں رنج و الم، بھوک، فاقوں، بیماری اور بے روزگاری کے عفریتوں سے نجات دلا سکے۔ اگرچہ جرمنی کو دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک قرار دیا جاتا ہے لیکن ''ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات'' مزدور تو وہاں فاقوں سے اور بے گھری سے مر رہے ہیں۔ جب سے جرمنی میں کان کنی اور اسٹیل انڈسٹری انحطاط کا شکار ہوئی ہے، غربت اور بے روزگا ری تیزی سے بڑھی ہے۔ جرمنی کی باقی ماندہ کوئلے کی کانیں بھی 2018 تک بند ہونے جا رہی ہیں۔ گویا بے روزگاری کی جو شرح آج ہے آیندہ اس میں مزید اضافہ ہی متوقع ہے۔ ''ڈارمنڈس'' کے علاقے میں تو شرح غربت 24 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ جرمنی کی مجموعی غربت کی شرح 15.1 فیصد ہے۔
یہاں اس غلط خیال کی اصلاح کی ضرورت بھی ہے کہ ملکی ترقی کی رفتار بڑھنے سے غربت میں کمی ہوتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2005 میں جرمنی کا جی ڈی پی 2224.4 تھا اور غربت کی شرح 14.7 فیصد تھی۔ 2011 میں جب جرمنی کا جی ڈی پی بڑھتے بڑھتے 2592.6 ہو گیا تو غربت کی شرح کم ہوجانی چاہیے تھی؟ کم از کم 2006 کی سطح 14 فیصد ہی پر آ جانی چاہیے تھی لیکن 2011 میں جرمنی کی غربت کی شرح بڑھ کر 15.1 فیصد تک پہنچ گئی۔
مانا آج جرمنی دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک ہے۔ یہاں بہت ترقی ہوئی ہے لیکن یہ تمام تر ترقی کس کے لیے؟ کس کام کی؟ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ آج جرمنی میں جتنے بھوکے، بیمار اور بے گھر افراد ہیں جرمنی کی تاریخ میں آپ کو اتنے بے گھر اور فاقہ زدہ نہیں ملیں گے۔ تو یہ تمام تر دولت اور ترقی کس کام کی؟ حکومتی سطح پر ایسے افراد کی داد رسی تو دور کی بات ہے، اعداد و شمار جمع کرنے کا بھی مناسب انتظام نہیں۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج کے ترقی یافتہ جرمنی میں بے گھر افراد کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے، جن کے سر چھپانے کا کہیں کوئی ٹھکانہ نہیں، نہ گھر نہ غذا، نہ علاج۔ان شدید حالات کے درمیان گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں جرمنی سے ایک خبر کو خاص توجہ حاصل ہوئی۔ ہوا یوں کہ ''ویٹی کن'' نے جرمنی کے ایک بشپ کو معطل کر دیا۔ معطلی کا معلوم سبب ان کا شاہانہ طرز زندگی بتایا جاتا ہے۔ خبروں کے مطابق بشپ صاحب کے باتھ ٹب کی مالیت 20 ہزار ڈالر ہے، ساتھ میں جڑے کلازیٹ 5 لاکھ ڈالر کے، گفتگو کے لیے کانفرنس ٹیبل 35 ہزار ڈالر کی منگوائی گئی ہے۔ 11 لاکھ ڈالر باغبانی پر صرف کیے گئے ہیں۔
کئی اپارٹمنٹس سے بڑا فٹنس روم تعمیر کروایا گیا ہے۔ ذاتی رہائش، سفری اخراجات غرض ہر ہر معاملے میں شاہانہ طرز اختیار کیا گیا، بالکل ہالی ووڈ اسٹائل۔ یہ ہیں ''بشپ آف بلنگ'' فرانز پیٹرٹیباٹز وینایلیٹ۔ آپ لمبرگ کے حلقے کے رہائشی ہیں۔ یہاں تقریباً 650,000 کیتھولک عیسائی ہیں۔ یورپ کے دیگر علاقوں کی طرح ''سیکولرائزیشن'' کے اثرات جرمنی پر بھی واضح ہیں۔ یہاں بھی کیتھولکس کم ہو رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کیتھولکس کے سربراہ پوپ صاحب برگشتہ افراد کو دوبارہ حلقہ بگوش کرنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ فاقہ زدہ، بے گھر ، کساد بازاری اور بے روزگاری کے مارے جرمن ایک ایسے ''بشپ'' سے متاثر ہوں جو عیسائی روایات کے برخلاف سادگی، خدمت اور محبت کے بجائے ہالی ووڈ اسٹائل نظر آتا ہو۔ اس کا طرز ِزندگی عوامی نہیں شاہزادوں کا سا ہو؟ جرمن میڈیا اس طرز زندگی پر شدید برہم نظر آتا تھا۔ ''بشپ آف بلنگ'' پر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔
جرمنی ایک غیر مذہبی ریاست ہے لیکن یہاں مذہب کے نام پر ٹیکس لیا جاتا ہے۔ جو جرمن خود کو کیتھولک، پروٹسٹنٹ یا یہودی لکھواتے ہیں ان کے ادا کردہ ٹیکس میں سے ایک خاص رقم ان کے متعلقہ مذہبی حلقے کو پہنچائی جاتی ہے۔ یہ تمام انتظام حکومتی سطح پر ہے۔ لہٰذا مذہبی افراد کے پاس جرمنی میں بھی بہت پیسہ ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ تمام تر رقم خود پر خرچ کرنے کے بجائے خداوند سے ڈرتے ہوئے لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔ ''بشپ'' کیتھولک چرچ کا ایسا نمایندہ ہوتا ہے جو عطائے ربانی کا حامل اور الوہی تعلیمات کا پہنچانے والا ہوا کرتا ہے۔ 2009 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 5100 کیتھولک بشپ ہیں۔
کسی مذہبی فرد اور بشپ کو یہ زیب نہیں دیتا کے اس کے آس پاس لاکھوں افراد بے گھر، بے در اور بھوکے ہوں اور وہ ہزاروں ڈالر صرف باتھ ٹب پر ضایع کر دے۔ پوپ نے کچھ عرصہ قبل ہی کہا تھا کہ چرچ کو غریب کا چرچ ہونا چاہیے۔
ویٹی کن نے بشپ کو معطل کر کے جہاں مذہبی روایات کی پاس داری کو محکم کیا وہیں دنیا بھر کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ تعیش کو حلال اور مباح سمجھنے والے ویٹی کن ہی سے کچھ سبق لے لیں۔
اچانک موسم بدلنے لگا اور تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ مارے دہشت کے دیکھنے والوں کا دم اٹکنے لگا۔ ادھر ہوائوں کی تندی نے گویا راہب کے لیے بھی مہمیز کا کام کیا۔ اس کے ہاتھ اور تیزی سے چلنے لگے۔ اب کی بار وہ اسی وقت رکا جب درخت زمیں بوس ہوا۔ آندھی تھم چکی تھی۔ تقدس کا جھوٹا حصار ختم ہو چکا تھا۔ یہ اٹھارویں عیسوی صدی تھی اور جرمنی میں ابتدا تھی ایک نئے مذہب، ایک نئے عقیدے، کیتھولک عیسائیت کی۔ ''تھور'' کا مقدس شاہ بلوط گرا کر جرمنی والوں کی کایا کلپ کرنے والے یہ باریش راہب عیسائی تاریخ میں ''سینٹ بونی فیس'' (672-5/6/754) کے نام سے امر ہوئے۔ ان کی مساعی سے جرمنی میں کیتھولک ازم اتنا پروان چڑھا کہ کسی دور میں وہ وہاں کا اکثریتی مذہب ہوا کرتا تھا۔ لیکن افسوس کہ اب حال یہ ہو گیا ہے کہ کیتھولکس ساری دنیا کی طرح یورپ اور امریکا سے بھی سمٹ رہے ہیں، کم ہو رہے ہیں۔ آج کے جرمنی میں کیتھولکس کی تعداد گھٹ کر 30.7 فیصد رہ گئی ہے، قریباً 25 لاکھ سے کچھ زائد۔ یہ تعداد گزشتہ دہائی کی نسبت 2 فیصد کم ہے اور جو کیتھولک ہیں بھی ان کی ایک بڑی تعداد خود کو ''نومینل کیتھولک'' قرار دینے لگی ہے۔ گویا یہ نسلاً تو کیتھولک ہیں لیکن چرچ اور اس کی اقدار سے انھیں کوئی خاص علاقہ نہیں رہا۔ معلوم ہوتا ہے آج کے جرمنی کو پہلے سے کہیں زیادہ پھر ایک ''سینٹ بونی فیس'' کی ضرورت ہے، جو پوپ بینی ڈکٹ کے مطابق لوگوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلائے اور انھیں پھر سے کیتھولک حلقے میں لے آئے۔ ایک ایسا چرواہا جو ''گم شدہ بھیڑوں'' کو کھوج لائے۔
آج کا یورپ اور جرمنی ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کی گم گشتہ شان و شوکت واپس لے آئے۔ انھیں رنج و الم، بھوک، فاقوں، بیماری اور بے روزگاری کے عفریتوں سے نجات دلا سکے۔ اگرچہ جرمنی کو دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک قرار دیا جاتا ہے لیکن ''ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات'' مزدور تو وہاں فاقوں سے اور بے گھری سے مر رہے ہیں۔ جب سے جرمنی میں کان کنی اور اسٹیل انڈسٹری انحطاط کا شکار ہوئی ہے، غربت اور بے روزگا ری تیزی سے بڑھی ہے۔ جرمنی کی باقی ماندہ کوئلے کی کانیں بھی 2018 تک بند ہونے جا رہی ہیں۔ گویا بے روزگاری کی جو شرح آج ہے آیندہ اس میں مزید اضافہ ہی متوقع ہے۔ ''ڈارمنڈس'' کے علاقے میں تو شرح غربت 24 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ جرمنی کی مجموعی غربت کی شرح 15.1 فیصد ہے۔
یہاں اس غلط خیال کی اصلاح کی ضرورت بھی ہے کہ ملکی ترقی کی رفتار بڑھنے سے غربت میں کمی ہوتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2005 میں جرمنی کا جی ڈی پی 2224.4 تھا اور غربت کی شرح 14.7 فیصد تھی۔ 2011 میں جب جرمنی کا جی ڈی پی بڑھتے بڑھتے 2592.6 ہو گیا تو غربت کی شرح کم ہوجانی چاہیے تھی؟ کم از کم 2006 کی سطح 14 فیصد ہی پر آ جانی چاہیے تھی لیکن 2011 میں جرمنی کی غربت کی شرح بڑھ کر 15.1 فیصد تک پہنچ گئی۔
مانا آج جرمنی دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک ہے۔ یہاں بہت ترقی ہوئی ہے لیکن یہ تمام تر ترقی کس کے لیے؟ کس کام کی؟ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ آج جرمنی میں جتنے بھوکے، بیمار اور بے گھر افراد ہیں جرمنی کی تاریخ میں آپ کو اتنے بے گھر اور فاقہ زدہ نہیں ملیں گے۔ تو یہ تمام تر دولت اور ترقی کس کام کی؟ حکومتی سطح پر ایسے افراد کی داد رسی تو دور کی بات ہے، اعداد و شمار جمع کرنے کا بھی مناسب انتظام نہیں۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج کے ترقی یافتہ جرمنی میں بے گھر افراد کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے، جن کے سر چھپانے کا کہیں کوئی ٹھکانہ نہیں، نہ گھر نہ غذا، نہ علاج۔ان شدید حالات کے درمیان گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں جرمنی سے ایک خبر کو خاص توجہ حاصل ہوئی۔ ہوا یوں کہ ''ویٹی کن'' نے جرمنی کے ایک بشپ کو معطل کر دیا۔ معطلی کا معلوم سبب ان کا شاہانہ طرز زندگی بتایا جاتا ہے۔ خبروں کے مطابق بشپ صاحب کے باتھ ٹب کی مالیت 20 ہزار ڈالر ہے، ساتھ میں جڑے کلازیٹ 5 لاکھ ڈالر کے، گفتگو کے لیے کانفرنس ٹیبل 35 ہزار ڈالر کی منگوائی گئی ہے۔ 11 لاکھ ڈالر باغبانی پر صرف کیے گئے ہیں۔
کئی اپارٹمنٹس سے بڑا فٹنس روم تعمیر کروایا گیا ہے۔ ذاتی رہائش، سفری اخراجات غرض ہر ہر معاملے میں شاہانہ طرز اختیار کیا گیا، بالکل ہالی ووڈ اسٹائل۔ یہ ہیں ''بشپ آف بلنگ'' فرانز پیٹرٹیباٹز وینایلیٹ۔ آپ لمبرگ کے حلقے کے رہائشی ہیں۔ یہاں تقریباً 650,000 کیتھولک عیسائی ہیں۔ یورپ کے دیگر علاقوں کی طرح ''سیکولرائزیشن'' کے اثرات جرمنی پر بھی واضح ہیں۔ یہاں بھی کیتھولکس کم ہو رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کیتھولکس کے سربراہ پوپ صاحب برگشتہ افراد کو دوبارہ حلقہ بگوش کرنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ فاقہ زدہ، بے گھر ، کساد بازاری اور بے روزگاری کے مارے جرمن ایک ایسے ''بشپ'' سے متاثر ہوں جو عیسائی روایات کے برخلاف سادگی، خدمت اور محبت کے بجائے ہالی ووڈ اسٹائل نظر آتا ہو۔ اس کا طرز ِزندگی عوامی نہیں شاہزادوں کا سا ہو؟ جرمن میڈیا اس طرز زندگی پر شدید برہم نظر آتا تھا۔ ''بشپ آف بلنگ'' پر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔
جرمنی ایک غیر مذہبی ریاست ہے لیکن یہاں مذہب کے نام پر ٹیکس لیا جاتا ہے۔ جو جرمن خود کو کیتھولک، پروٹسٹنٹ یا یہودی لکھواتے ہیں ان کے ادا کردہ ٹیکس میں سے ایک خاص رقم ان کے متعلقہ مذہبی حلقے کو پہنچائی جاتی ہے۔ یہ تمام انتظام حکومتی سطح پر ہے۔ لہٰذا مذہبی افراد کے پاس جرمنی میں بھی بہت پیسہ ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ تمام تر رقم خود پر خرچ کرنے کے بجائے خداوند سے ڈرتے ہوئے لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔ ''بشپ'' کیتھولک چرچ کا ایسا نمایندہ ہوتا ہے جو عطائے ربانی کا حامل اور الوہی تعلیمات کا پہنچانے والا ہوا کرتا ہے۔ 2009 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 5100 کیتھولک بشپ ہیں۔
کسی مذہبی فرد اور بشپ کو یہ زیب نہیں دیتا کے اس کے آس پاس لاکھوں افراد بے گھر، بے در اور بھوکے ہوں اور وہ ہزاروں ڈالر صرف باتھ ٹب پر ضایع کر دے۔ پوپ نے کچھ عرصہ قبل ہی کہا تھا کہ چرچ کو غریب کا چرچ ہونا چاہیے۔
ویٹی کن نے بشپ کو معطل کر کے جہاں مذہبی روایات کی پاس داری کو محکم کیا وہیں دنیا بھر کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ تعیش کو حلال اور مباح سمجھنے والے ویٹی کن ہی سے کچھ سبق لے لیں۔