سانپ سیڑھی کا کھیل
ہم سانپ سیڑھی کےکھیل میں مصروف ہیں، کہیں اوپر چڑھتے ہیں تو سانپ ڈنک مار کر گھسیٹ لیتا ہے تو کہیں سیڑھی ہی سرک جاتی ہے۔
اس بار امریکا کا ڈرون حملہ دن تاریخ دیکھ کر ہوا یعنی جس دن پاکستانی حکومت کو کالعدم پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرنے تھے اسی دن صبح سے گویا شکار کے پیچھے عقاب تھا اور بالآخر اس نے اسے جا لیا اور حکیم اﷲ محسود اپنے چھ ساتھیوں سمیت دار فانی سے کوچ کر گئے، اس طرح طالبان اور پاکستانی حکومت کے درمیان ایک رشتہ مضبوط ہوتے ہوتے پھر سے ڈھیلا پڑ گیا اور یوں پاکستانی حکومت اور عوام کے سامنے امریکا نے ایک ویمپائر کا روپ دھار لیا جو کہنے کو تو دنیا میں امن قائم کرنا چاہتی ہے لیکن فی الحال امن کا خون ہی چوس گئی۔
عمران خان امریکا کی اس حرکت پر خاصے ناراض ہیں اور ان کا ناراض ہونا بجا ہے، وہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے عادی ہیں اور میڈیا کے سامنے چوہدری نثار جو اپنے جذباتی ہونے کے حوالے سے خاصے مشہور ہیں ان سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے۔ نا صرف یہ بلکہ انھوں نے تو لگے ہاتھ نیٹو سپلائی کی بندش کی بھی دھمکی دے ڈالی، ساتھ ساتھ پشاور کے چرچ میں بم کارروائی جس کے نتیجے میں خاصی جانیں گئیں، اس سلسلے میں بھی انھوں نے کھل کر کہہ ڈالا کہ طالبان نے تو کہہ دیا کہ یہ کارروائی ہماری نہیں تھی تو پھر یہ کارروائی کس کی تھی؟ اب یہ کارروائی کسی کی بھی ہو لیکن سب کچھ ہو چکا ہے، بہت کچھ پوشیدہ رکھنے کے باوجود بھی سب کچھ کھل چکا ہے، لیکن ہاتھی سے ٹکرائے کون؟ گو ہاتھی کی موت تو چیونٹی سے بھی ہو سکتی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کی کارروائیاں ملک بھر میں جاری تھیں لیکن کہا یہی جا رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے بعض اداروں کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں مختلف سطح پر پہلے سے ہی سرگرم تھے جس میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، جس میں ان کی جانب سے ان کے کچھ ساتھیوں کی رہائی سے متعلق ایشو سب سے اہم تھا، دونوں ہی جانب سے اعتماد کا فقدان تھا جب کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سنجیدہ سیاسی قیادت کو مذاکرات میں حصہ بنانے اور سنجیدگی سے اس عمل کو تکمیل کے مراحل میں پہنچانے کا عزم تو ظاہر ہوا تھا تو حکومتی اداروں نے بھی تقریباً نو دس مہینے گزر جانے کے بعد اپنی سرگوشیوں کو ایک موثر آواز میں تبدیل کیا تھا لیکن اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا تھا اور اسے ہدف تک پہنچانے کے لیے کسی دل جلے نے یا جدید ٹیکنالوجی کے سیاپے نے مقررہ وقت پر کام کر دکھایا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مذاکرات کی ریں ریں ماضی کی حکومت کی گاڑی سے گھسٹتی گھسٹتی موجودہ حکومت تک پلیٹ فارم پر آ کر رک گئی لیکن کہیں بھی کچھ تبدیل نہ ہوا، نہ ڈرون حملے اور نہ ہی طالبان کا جوش۔۔۔۔ جو اب حکیم اﷲ محسود کے بعد ایک نئی شکل اختیار کر گیا ہے، جسے انتقام کا نام دیا جا سکتا ہے۔
پہاڑوں اور وسیع کھلے میدانوں کے باسی آسمان سے گرنے والی اس مشینی تباہی کے نتیجے میں اب کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اس کا ادراک بہت پہلے سے روبوٹ تخلیق کرنے والوں کو تھا۔ ہم جیسے لوگوں کا ابھی تک یہ ہی خیال ہے کہ امریکا اب ڈرون حملوں کے تماشے کو وائنڈ اپ کرنا چاہتا ہے کیونکہ اب امریکی عوام بھی اپنی حکومت کی اس احمقانہ جنگ سے چڑ گئے ہیں یہاں تک کہ امریکی فوج میں بھی اب یہ خیالات جنم لینے لگے ہیں کہ ڈرون حملوں سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی، اسی طرح امریکا کا نام دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے لیکن حکیم اﷲ محسود کو نشانہ بنا کر ایک پھلجھڑی تو سلگا دی گئی جو کچھ ٹی ٹی پی کی جانب سے کہا جا رہا ہے وہ خاصا متوقع تھا۔ اب چاہے حکومتی اختیار کاروں کی جانب سے کتنی بھی صفائی دی جائے ایسا تو انھیں کرنا ہی تھا۔ گو اس سے پہلے اس سال کے اوائل میں ٹی ٹی پی والے اس پروپیگنڈے کی تردید کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف کسی منصوبے کا حصہ ہیں، لیکن پھر خودبخود کراچی اور کامرہ ائربیس کی کارروائیاں سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں جن کا تعلق پاکستان کی سلامتی کے اداروں سے تھا۔
ایمل کانسی کا نام اب بھی پاکستان اور امریکا کے لیے کچھ زیادہ پرانا نہیں، جنھیں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ورجینیا میں قائم ہیڈ کوارٹر کے سامنے سی آئی اے کے افسروں کو قتل کرنے کے جرم میں امریکی عدالت نے باقاعدہ مقدمہ چلانے کے بعد سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ 1997میں فاروق احمد لغاری (سابق صدر) کے آبائی ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل سے ایمل کانسی کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور یہ کارروائی امریکی کمانڈوز نے انجام دی جس کی پاکستانی انتظامیہ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ گرفتاری سے امریکا پہنچانے کا کارنامہ سر انجام دینے کے بعد گرفتاری کا اعلان کیا گیا تھا۔ ایمل کانسی کی گرفتاری کے لیے امریکا نے بیس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ اخباری اطلاع کے مطابق اسامہ بن لادن نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایمل کانسی کو پھانسی دی گئی تو اس کے بدلے ایک سو امریکیوں کو پھانسی دی جائے گی۔ ایمل کانسی کی گرفتاری اور پھانسی کے حوالے سے پاکستان کی بہت سی مذہبی جماعتوں نے احتجاج کیا تھا۔
امریکا کی سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز کی وہ محفوظ عمارت جس کے سامنے ایمل کانسی نے اپنے ہدف کو مکمل کیا تھا یقیناً ایک حیران کن کارروائی تھی جو غالباً 1992 میں کی گئی اس کارروائی کو امریکی سلامتی کے حکومتی اداروں نے اپنے لیے چیلنج سمجھ لیا تھا۔ ظاہر ہے شیر کی کچھار میں جو ہاتھ ڈالا گیا تھا، اس کی گرفتاری، پھانسی اور احتجاج کے سلسلے کے بعد ڈرون حملوں کی کارروائی کو محفوظ سمجھا جا رہا تھا تو وہیں دو شاخی کمان تیار کر لی گئی تھی۔ تحریک طالبان پاکستان کی ملک میں کی جانے والی کارروائیوں کی وجہ سے عوام میں ان کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات پیدا ہو چکے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک عام شہری متاثر ہو رہا ہے اور اس کے جانی و مالی نقصان کو پورا کرتے رہنا حکومت کے لیے ممکن نہ تھا۔ ان کارروائیوں میں کتنے مسلمان نشانہ بن چکے ہیں، کتنی مائیں اپنے لخت جگر کھو چکی ہیں، کتنے جوان اپنے گھر کے کفیل معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ تعداد خاصی افسوسناک حد تک طویل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج ہم ایک مجبور قوم بن چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیائے عالم میں پاکستانی عوام کی طاقت سے نگاہیں چرانا ناگزیر ہے، یہ ایک ایسی قوم ہے جو بڑی سے بڑی طاقت کو جنھجھوڑ سکتی ہے لیکن زنجیر در زنجیر ہمارے گلے میں ڈالی جا رہی ہے، ہم کو الجھایا جا رہا ہے کہ ہم غلطی پر غلطی کریں، ٹی ٹی پی کو اگر جنوری 2013 کے فریم میں دیکھا جائے تو وہ مذاکرات کرنا چاہتی تھی اور اس کے لیے اسے گارنٹی چاہیے تھی کہ کل اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی جائے تو عوامی سطح پر ان کی حمایت بھی موجود ہو اور موثر سیاسی جماعتیں بھی ان کی حمایت کریں۔ بات پھر عوام کی آ جاتی ہے تو دوسری جانب امریکا پاکستان میں اپنے منصوبوں کی تشہیر عوامی سطح پر کر کے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ امریکا پاکستانی عوام کا دوست ہے خیر خواہ ہے۔
ہم سانپ سیڑھی کے کھیل میں مصروف ہیں، کہیں اوپر چڑھتے ہیں تو سانپ ڈنک مار کر گھسیٹ لیتا ہے تو کہیں سیڑھی ہی سرک جاتی ہے۔ لیکن اس کھیل میں الجھتے رہنے کی عادت ہمیں تو ترقی کی سیڑھی چڑھنے سے روک رہی ہے لیکن کہیں اور بھی سیڑھیاں سرک رہی ہیں اور اگر زیادہ دیر کی گئی تو پھر اوپر چڑھنے کے راستے ہی معدوم ہو جائیں گے اور ہم مکمل طور پر غربت، دہشت گردی کے غبار میں کھو جائیں گے۔ کسی کو مطعون کرنے اور ٹانگ کھینچ لینے سے کوئی بلند مقام پر فائز نہیں ہو جاتا لیکن ماضی کے جھروکوں میں جھانک لینا بھی کبھی کبھی اچھا رہتا ہے۔ کیچڑ زدہ سڑک پر اگر ایک بار آرام سے گزر لیا جائے تو ضروری نہیں کہ قسمت دوبارہ آرام سے گزرنے دے، پھسلنے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ اس لیے اہم اور ضروری فیصلوں کو جلد انجام دینا ہی بہتر ہے تا کہ کسی کے سیڑھی گھسیٹ لینے کی نوبت ہی نہ آئے، گو سب جانتے ہیں کہ کھیل تو پھر کھیل ہے ایسے تو چلتا ہی رہتا ہے۔
عمران خان امریکا کی اس حرکت پر خاصے ناراض ہیں اور ان کا ناراض ہونا بجا ہے، وہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے عادی ہیں اور میڈیا کے سامنے چوہدری نثار جو اپنے جذباتی ہونے کے حوالے سے خاصے مشہور ہیں ان سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے۔ نا صرف یہ بلکہ انھوں نے تو لگے ہاتھ نیٹو سپلائی کی بندش کی بھی دھمکی دے ڈالی، ساتھ ساتھ پشاور کے چرچ میں بم کارروائی جس کے نتیجے میں خاصی جانیں گئیں، اس سلسلے میں بھی انھوں نے کھل کر کہہ ڈالا کہ طالبان نے تو کہہ دیا کہ یہ کارروائی ہماری نہیں تھی تو پھر یہ کارروائی کس کی تھی؟ اب یہ کارروائی کسی کی بھی ہو لیکن سب کچھ ہو چکا ہے، بہت کچھ پوشیدہ رکھنے کے باوجود بھی سب کچھ کھل چکا ہے، لیکن ہاتھی سے ٹکرائے کون؟ گو ہاتھی کی موت تو چیونٹی سے بھی ہو سکتی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کی کارروائیاں ملک بھر میں جاری تھیں لیکن کہا یہی جا رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے بعض اداروں کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں مختلف سطح پر پہلے سے ہی سرگرم تھے جس میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، جس میں ان کی جانب سے ان کے کچھ ساتھیوں کی رہائی سے متعلق ایشو سب سے اہم تھا، دونوں ہی جانب سے اعتماد کا فقدان تھا جب کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سنجیدہ سیاسی قیادت کو مذاکرات میں حصہ بنانے اور سنجیدگی سے اس عمل کو تکمیل کے مراحل میں پہنچانے کا عزم تو ظاہر ہوا تھا تو حکومتی اداروں نے بھی تقریباً نو دس مہینے گزر جانے کے بعد اپنی سرگوشیوں کو ایک موثر آواز میں تبدیل کیا تھا لیکن اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا تھا اور اسے ہدف تک پہنچانے کے لیے کسی دل جلے نے یا جدید ٹیکنالوجی کے سیاپے نے مقررہ وقت پر کام کر دکھایا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مذاکرات کی ریں ریں ماضی کی حکومت کی گاڑی سے گھسٹتی گھسٹتی موجودہ حکومت تک پلیٹ فارم پر آ کر رک گئی لیکن کہیں بھی کچھ تبدیل نہ ہوا، نہ ڈرون حملے اور نہ ہی طالبان کا جوش۔۔۔۔ جو اب حکیم اﷲ محسود کے بعد ایک نئی شکل اختیار کر گیا ہے، جسے انتقام کا نام دیا جا سکتا ہے۔
پہاڑوں اور وسیع کھلے میدانوں کے باسی آسمان سے گرنے والی اس مشینی تباہی کے نتیجے میں اب کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اس کا ادراک بہت پہلے سے روبوٹ تخلیق کرنے والوں کو تھا۔ ہم جیسے لوگوں کا ابھی تک یہ ہی خیال ہے کہ امریکا اب ڈرون حملوں کے تماشے کو وائنڈ اپ کرنا چاہتا ہے کیونکہ اب امریکی عوام بھی اپنی حکومت کی اس احمقانہ جنگ سے چڑ گئے ہیں یہاں تک کہ امریکی فوج میں بھی اب یہ خیالات جنم لینے لگے ہیں کہ ڈرون حملوں سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی، اسی طرح امریکا کا نام دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے لیکن حکیم اﷲ محسود کو نشانہ بنا کر ایک پھلجھڑی تو سلگا دی گئی جو کچھ ٹی ٹی پی کی جانب سے کہا جا رہا ہے وہ خاصا متوقع تھا۔ اب چاہے حکومتی اختیار کاروں کی جانب سے کتنی بھی صفائی دی جائے ایسا تو انھیں کرنا ہی تھا۔ گو اس سے پہلے اس سال کے اوائل میں ٹی ٹی پی والے اس پروپیگنڈے کی تردید کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف کسی منصوبے کا حصہ ہیں، لیکن پھر خودبخود کراچی اور کامرہ ائربیس کی کارروائیاں سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں جن کا تعلق پاکستان کی سلامتی کے اداروں سے تھا۔
ایمل کانسی کا نام اب بھی پاکستان اور امریکا کے لیے کچھ زیادہ پرانا نہیں، جنھیں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ورجینیا میں قائم ہیڈ کوارٹر کے سامنے سی آئی اے کے افسروں کو قتل کرنے کے جرم میں امریکی عدالت نے باقاعدہ مقدمہ چلانے کے بعد سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ 1997میں فاروق احمد لغاری (سابق صدر) کے آبائی ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل سے ایمل کانسی کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور یہ کارروائی امریکی کمانڈوز نے انجام دی جس کی پاکستانی انتظامیہ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ گرفتاری سے امریکا پہنچانے کا کارنامہ سر انجام دینے کے بعد گرفتاری کا اعلان کیا گیا تھا۔ ایمل کانسی کی گرفتاری کے لیے امریکا نے بیس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ اخباری اطلاع کے مطابق اسامہ بن لادن نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایمل کانسی کو پھانسی دی گئی تو اس کے بدلے ایک سو امریکیوں کو پھانسی دی جائے گی۔ ایمل کانسی کی گرفتاری اور پھانسی کے حوالے سے پاکستان کی بہت سی مذہبی جماعتوں نے احتجاج کیا تھا۔
امریکا کی سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز کی وہ محفوظ عمارت جس کے سامنے ایمل کانسی نے اپنے ہدف کو مکمل کیا تھا یقیناً ایک حیران کن کارروائی تھی جو غالباً 1992 میں کی گئی اس کارروائی کو امریکی سلامتی کے حکومتی اداروں نے اپنے لیے چیلنج سمجھ لیا تھا۔ ظاہر ہے شیر کی کچھار میں جو ہاتھ ڈالا گیا تھا، اس کی گرفتاری، پھانسی اور احتجاج کے سلسلے کے بعد ڈرون حملوں کی کارروائی کو محفوظ سمجھا جا رہا تھا تو وہیں دو شاخی کمان تیار کر لی گئی تھی۔ تحریک طالبان پاکستان کی ملک میں کی جانے والی کارروائیوں کی وجہ سے عوام میں ان کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات پیدا ہو چکے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک عام شہری متاثر ہو رہا ہے اور اس کے جانی و مالی نقصان کو پورا کرتے رہنا حکومت کے لیے ممکن نہ تھا۔ ان کارروائیوں میں کتنے مسلمان نشانہ بن چکے ہیں، کتنی مائیں اپنے لخت جگر کھو چکی ہیں، کتنے جوان اپنے گھر کے کفیل معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ تعداد خاصی افسوسناک حد تک طویل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج ہم ایک مجبور قوم بن چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیائے عالم میں پاکستانی عوام کی طاقت سے نگاہیں چرانا ناگزیر ہے، یہ ایک ایسی قوم ہے جو بڑی سے بڑی طاقت کو جنھجھوڑ سکتی ہے لیکن زنجیر در زنجیر ہمارے گلے میں ڈالی جا رہی ہے، ہم کو الجھایا جا رہا ہے کہ ہم غلطی پر غلطی کریں، ٹی ٹی پی کو اگر جنوری 2013 کے فریم میں دیکھا جائے تو وہ مذاکرات کرنا چاہتی تھی اور اس کے لیے اسے گارنٹی چاہیے تھی کہ کل اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی جائے تو عوامی سطح پر ان کی حمایت بھی موجود ہو اور موثر سیاسی جماعتیں بھی ان کی حمایت کریں۔ بات پھر عوام کی آ جاتی ہے تو دوسری جانب امریکا پاکستان میں اپنے منصوبوں کی تشہیر عوامی سطح پر کر کے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ امریکا پاکستانی عوام کا دوست ہے خیر خواہ ہے۔
ہم سانپ سیڑھی کے کھیل میں مصروف ہیں، کہیں اوپر چڑھتے ہیں تو سانپ ڈنک مار کر گھسیٹ لیتا ہے تو کہیں سیڑھی ہی سرک جاتی ہے۔ لیکن اس کھیل میں الجھتے رہنے کی عادت ہمیں تو ترقی کی سیڑھی چڑھنے سے روک رہی ہے لیکن کہیں اور بھی سیڑھیاں سرک رہی ہیں اور اگر زیادہ دیر کی گئی تو پھر اوپر چڑھنے کے راستے ہی معدوم ہو جائیں گے اور ہم مکمل طور پر غربت، دہشت گردی کے غبار میں کھو جائیں گے۔ کسی کو مطعون کرنے اور ٹانگ کھینچ لینے سے کوئی بلند مقام پر فائز نہیں ہو جاتا لیکن ماضی کے جھروکوں میں جھانک لینا بھی کبھی کبھی اچھا رہتا ہے۔ کیچڑ زدہ سڑک پر اگر ایک بار آرام سے گزر لیا جائے تو ضروری نہیں کہ قسمت دوبارہ آرام سے گزرنے دے، پھسلنے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ اس لیے اہم اور ضروری فیصلوں کو جلد انجام دینا ہی بہتر ہے تا کہ کسی کے سیڑھی گھسیٹ لینے کی نوبت ہی نہ آئے، گو سب جانتے ہیں کہ کھیل تو پھر کھیل ہے ایسے تو چلتا ہی رہتا ہے۔