اپوزیشن کا کہنا صحیح ہے کہ آٹا بحران مافیاز نے پیدا کیا تجزیہ کار
گیم تیار ہے، اتنی جلدی گندم انھی سے ملے گی جنھیں پتہ تھاکہ یہاں پر بحران آنا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ایاز خان نے کہا کہ آٹے کا بحران بیڈ گورننس کی وجہ سے پیدا ہواہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''ایکسپرٹس'' میں میزبان حنا عادل سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف تو وزیر صاحب کہتے ہیں کہ آٹے کی قلت نہیں ہے، اگر قلت نہیں ہے تو پھر آپ درآمد کیوں کر رہے ہیں، کیوں اس پر قومی خزانہ ضائع کرنے جا رہے ہیں یہ بات سمجھ سے باہر ہیں۔
فلور مل ملکان کہتے ہیں کہ ہمارا تو اس میں کوئی قصور نہیں ہے یہ آٹاچکی والوں نے مہنگا کیا ہے، اس ملک کے حالات بہت دلچسپ ہیں کبھی آٹا دکانوں سے کھلا مل جایا کرتا تھا، ایک چھ سو روپے دیہاڑی والا مزدور بیس کلوکا تھیلا تو نہیں خرید سکتا اس نے یہی کلو دو کلو آٹا لے کرگھر جانا ہوتا ہے چونکہ وہ ڈیلی ویجرہے اس لیے اس نے ڈیلی کی بنیاد پر ہی چیزیں لینا ہوتی ہیں، اس کیلیے وہ عیاشی ختم کر دی چونکہ اس نے چکی سے آٹا لینا ہوتا ہے کیونکہ وہیں سے آٹا کھلا ملتا ہے اور جوسب سے زیادہ کمزور اور غریب آدمی ہے اسی کو سب سے زیادہ مہنگا آٹا ملتا ہے، فلور مل مالکان کہتے ہیں کہ ہم نے تو قیمتیں نہیں بڑھائیں چکی والوں نے آٹا مہنگا کیا ہے، پہلے چکی والوں کو سبسڈائز ریٹ پر چار پانچ بوریاں روزانہ ملا کرتی تھیں جس طرح فلورمل مالکان کو ملتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے دور میں یہ عیاشی چلتی رہی، اس کے بعد نوازشریف کے د ور میں یہ بند ہوتی رہی، یہ سلسلہ 2018 تک چلتا رہا پھر اس حکومت نے بھی یہ بندکردی کیونکہ پتہ چلاکہ یہ بھی کاروباری لوگوں کی حکومت ہے ، جو شہباز شریف صاحب اورباقی اپوزیشن کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ مافیازکاکام ہے وہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں، مجھے لگتاہے کہ چونکہ کچھ لوگوں کی انویسٹمنٹ بہت زیادہ ہوگئی تھی اب چینی کی قیمت بھی چار روپے بڑھ گئی ہے آٹا بھی مہنگا ہو گیا ہے اس کے بعد باہر سے درآمد بھی کیا جا رہا ہے، پہلے ہم نے برآمدکیا تھا اب ہم درآمدکر رہے ہیں، میراخیال ہے کہ کچھ لوگوں نے طے کیاکہ خرچہ چونکہ بہت زیادہ ہو گیا تھا تو ظاہراب ہم نے کچھ کمانا بھی ہے تو نااہلی نالائقی اور بیڈگورننس سے زیادہ میں اس پر کیا کہ سکتاہوں۔
عامر الیاس رانا نے کہا کہ پتہ نہیں کون سا مافیا ہے اورکون سی حکومت ہے، حالات یہ ہیں کہ پہلے آپ نے گندم کو پاکستان سے باہرجانے کی اجازت دی اوراب جب فصل مارچ میں آنے والی ہے تو 3 ملین ٹن گندم آپ پھر درآمد کرنے لگے ہیں تمام ڈیوٹیاںہٹاکر، کہتے ہیں ناں کہ یاروں کے تو اس سے فائدے ہو ہی جائیں گے۔ گیم تیارہے کیونکہ آپ کو اتنی جلدی گندم انھی سے ملے گی جن کو پہلے سے پتہ تھا کہ یہاں پریہ کرائسز آناہے، نااہلی اس اپوزیشن جماعت پر ڈالنی ہے جوایک صوبے میں حکومت چلارہی ہے اپنی نااہلی تسلیم نہیں کرنی۔
بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہاکہ آٹے کا بحران بہت بڑی لیک آف گورننس ہے، ہماری اگری کلچر بیسڈاکانومی ہے ، یہ کوئی وجہ ہے کہ گندم کی کمی ہو، اس میں ملوث لوگوں کا احتساب ہوناچاہیے، پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہیں مجسٹریٹ ہیں ذمہ داروں کوسزادینے کی ضرورت ہے۔
شکیل انجم نے کہاکہ ملک میں اتنابڑاسنگین بحران ہے اس پربھی حکومت کی طرف سے سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی، خسروبختیار نے خودکہاہے کہ گیارہ لاکھ ٹن گندم موسم کی وجہ سے کم پیداہوئی ہے، اقتصادی رابطہ کمیٹی نے منظوری دی ہے۔ جب اس وقت جب کہ سندھ میں فصل جلد تیار ہونے والی ہے ایک ارب ڈالرکی گندم درآمدہوگی توہمارے کسان کا کیا بنے گا۔
سینئر تجزیہ کار لطیف چوہدری نے کہا کہ عوام کاکام ہی چیخیں مارناہے، بہت مہربان حکومت آئی ہے جگہ جگہ لنگرخانے کھلے ہیں وہاں سے کھاناکھائیں اورہیلتھ کارڈ سے علاج کروائیں اور آرام سے سوجائیں، انہوں نے تو کہا ہے کہ سکون صرف قبر میں ہے اس سے پہلے کہ وہاں بھی مہنگائی ہوجائے ہمیں ایڈوانس وہاں بھی قبروں کی بکنگ کروالینی چاہیے۔
محمد الیاس رانا نے کہا کہ حکومت اپنی نااہلی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، سب کوپتہ ہے کہ چار ماہ سے آٹے کی قیمت بڑھ رہی ہے اسی وقت اسے نوٹس لینا چاہیے تھا لیکن اس وقت ان کے سب محکمے خاموش رہے ۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''ایکسپرٹس'' میں میزبان حنا عادل سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف تو وزیر صاحب کہتے ہیں کہ آٹے کی قلت نہیں ہے، اگر قلت نہیں ہے تو پھر آپ درآمد کیوں کر رہے ہیں، کیوں اس پر قومی خزانہ ضائع کرنے جا رہے ہیں یہ بات سمجھ سے باہر ہیں۔
فلور مل ملکان کہتے ہیں کہ ہمارا تو اس میں کوئی قصور نہیں ہے یہ آٹاچکی والوں نے مہنگا کیا ہے، اس ملک کے حالات بہت دلچسپ ہیں کبھی آٹا دکانوں سے کھلا مل جایا کرتا تھا، ایک چھ سو روپے دیہاڑی والا مزدور بیس کلوکا تھیلا تو نہیں خرید سکتا اس نے یہی کلو دو کلو آٹا لے کرگھر جانا ہوتا ہے چونکہ وہ ڈیلی ویجرہے اس لیے اس نے ڈیلی کی بنیاد پر ہی چیزیں لینا ہوتی ہیں، اس کیلیے وہ عیاشی ختم کر دی چونکہ اس نے چکی سے آٹا لینا ہوتا ہے کیونکہ وہیں سے آٹا کھلا ملتا ہے اور جوسب سے زیادہ کمزور اور غریب آدمی ہے اسی کو سب سے زیادہ مہنگا آٹا ملتا ہے، فلور مل مالکان کہتے ہیں کہ ہم نے تو قیمتیں نہیں بڑھائیں چکی والوں نے آٹا مہنگا کیا ہے، پہلے چکی والوں کو سبسڈائز ریٹ پر چار پانچ بوریاں روزانہ ملا کرتی تھیں جس طرح فلورمل مالکان کو ملتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے دور میں یہ عیاشی چلتی رہی، اس کے بعد نوازشریف کے د ور میں یہ بند ہوتی رہی، یہ سلسلہ 2018 تک چلتا رہا پھر اس حکومت نے بھی یہ بندکردی کیونکہ پتہ چلاکہ یہ بھی کاروباری لوگوں کی حکومت ہے ، جو شہباز شریف صاحب اورباقی اپوزیشن کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ مافیازکاکام ہے وہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں، مجھے لگتاہے کہ چونکہ کچھ لوگوں کی انویسٹمنٹ بہت زیادہ ہوگئی تھی اب چینی کی قیمت بھی چار روپے بڑھ گئی ہے آٹا بھی مہنگا ہو گیا ہے اس کے بعد باہر سے درآمد بھی کیا جا رہا ہے، پہلے ہم نے برآمدکیا تھا اب ہم درآمدکر رہے ہیں، میراخیال ہے کہ کچھ لوگوں نے طے کیاکہ خرچہ چونکہ بہت زیادہ ہو گیا تھا تو ظاہراب ہم نے کچھ کمانا بھی ہے تو نااہلی نالائقی اور بیڈگورننس سے زیادہ میں اس پر کیا کہ سکتاہوں۔
عامر الیاس رانا نے کہا کہ پتہ نہیں کون سا مافیا ہے اورکون سی حکومت ہے، حالات یہ ہیں کہ پہلے آپ نے گندم کو پاکستان سے باہرجانے کی اجازت دی اوراب جب فصل مارچ میں آنے والی ہے تو 3 ملین ٹن گندم آپ پھر درآمد کرنے لگے ہیں تمام ڈیوٹیاںہٹاکر، کہتے ہیں ناں کہ یاروں کے تو اس سے فائدے ہو ہی جائیں گے۔ گیم تیارہے کیونکہ آپ کو اتنی جلدی گندم انھی سے ملے گی جن کو پہلے سے پتہ تھا کہ یہاں پریہ کرائسز آناہے، نااہلی اس اپوزیشن جماعت پر ڈالنی ہے جوایک صوبے میں حکومت چلارہی ہے اپنی نااہلی تسلیم نہیں کرنی۔
بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہاکہ آٹے کا بحران بہت بڑی لیک آف گورننس ہے، ہماری اگری کلچر بیسڈاکانومی ہے ، یہ کوئی وجہ ہے کہ گندم کی کمی ہو، اس میں ملوث لوگوں کا احتساب ہوناچاہیے، پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہیں مجسٹریٹ ہیں ذمہ داروں کوسزادینے کی ضرورت ہے۔
شکیل انجم نے کہاکہ ملک میں اتنابڑاسنگین بحران ہے اس پربھی حکومت کی طرف سے سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی، خسروبختیار نے خودکہاہے کہ گیارہ لاکھ ٹن گندم موسم کی وجہ سے کم پیداہوئی ہے، اقتصادی رابطہ کمیٹی نے منظوری دی ہے۔ جب اس وقت جب کہ سندھ میں فصل جلد تیار ہونے والی ہے ایک ارب ڈالرکی گندم درآمدہوگی توہمارے کسان کا کیا بنے گا۔
سینئر تجزیہ کار لطیف چوہدری نے کہا کہ عوام کاکام ہی چیخیں مارناہے، بہت مہربان حکومت آئی ہے جگہ جگہ لنگرخانے کھلے ہیں وہاں سے کھاناکھائیں اورہیلتھ کارڈ سے علاج کروائیں اور آرام سے سوجائیں، انہوں نے تو کہا ہے کہ سکون صرف قبر میں ہے اس سے پہلے کہ وہاں بھی مہنگائی ہوجائے ہمیں ایڈوانس وہاں بھی قبروں کی بکنگ کروالینی چاہیے۔
محمد الیاس رانا نے کہا کہ حکومت اپنی نااہلی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، سب کوپتہ ہے کہ چار ماہ سے آٹے کی قیمت بڑھ رہی ہے اسی وقت اسے نوٹس لینا چاہیے تھا لیکن اس وقت ان کے سب محکمے خاموش رہے ۔