محاذ آرائی کی بھیانک قیمت
پی ٹی آئی کی حامی مذہبی جماعتیں گزشتہ 66 برس سے ملک میں برسراقتدار آنے کے خواب دیکھ رہی ہیں
KARACHI:
اطلاعات ہیں کہ 20 نومبرکے بعد خیبرپختونخوا حکومت افغانستان سے آنے اور وہاں جانے والی نیٹو سپلائی روک دے گی۔ یہ اعلان اس جماعت کی جانب سے آیا ہے جو اس صوبے میں برسر اقتدار ہے اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے بعد ملک کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پارلیمنٹ میں نمایندگی کے حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی دوسری بڑی قوت ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے خورشید احمد شاہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے اعلیٰ منصب پر فائز ہیں۔ نیٹو سپلائی روکنے کی حامی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تعداد کم ہے۔ مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی اس مطالبے کی نہ صرف پرزور حامی ہے بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات کررہی ہے کہ جس کے بعد تحریک انصاف اگر چاہے بھی تو اس کے لیے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ سکے۔
پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی اس طرح کے انتہاپسندانہ اقدام کی مخالف ہیں جب کہ ایم کیو ایم، اے این پی، بلوچستان سے نمایندگی رکھنے والی قوم پرست جماعتیں اور بعض اہم مذہبی تنظیمیں ان کی ہم نوا ہیں۔ یہ تقسیم ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر سیاسی قوتیں جو عوامی مقبولیت اور پارلیمنٹ میں نمایندگی، دونوں حوالوں سے فیصلہ کن بالادستی رکھتی ہیں، وہ عالمی برادری سے ٹکرانے کی حامی نہیں۔ دوسری جانب وہ سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں جو عوام میں نسبتاً کم مقبول ہیں اور پارلیمنٹ میں محدود نمایندگی رکھتی ہیں، امریکا سمیت دنیا کے تمام ملکوں سے ٹکرانے پر مصر ہیں اور ان عناصر کے بارے میں انتہائی نرم گوشہ رکھتی ہیں جن کے ہاتھوں ہزاروں بے گناہ پاکستان اور فوجی قتل کیے جاچکے ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسی صورتحال جس کے نتائج سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں، ان سے وہ سیاسی جماعتیں اور قائدین بے خبر ہوں جو نیٹو سپلائی کے خاتمے، ڈرون طیاروں کو مار گرانے اور اس کے نتیجے میں نہ صرف امریکا بلکہ اقوام متحدہ، نیٹو ممالک اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر شامل درجنوں ملکوں سے تعلقات کشیدہ کرنے کا خطرہ مول لینے کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حامی مذہبی جماعتیں گزشتہ 66 برس سے ملک میں برسراقتدار آنے کے خواب دیکھ رہی ہیں اور ہر عام انتخاب میں ان کے خواب پہلے سے زیادہ چکنا چور ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگر وہ اس نوع کے اقدامات کا اعلان کرتی ہیں تو ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ امریکا اور دنیا کے اہم بشمول پڑوسی ملکوں سے کشیدہ تعلقات اور اس کے نتیجے میں ملکی معیشت پر اس کے بھیانک اثرات سے بھی ان کی لاتعلقی قابل فہم ہے کیونکہ اس کی سزا ان پاکستانیوں کو ملے گی جو عام انتخابات میں انھیں کامیاب نہیں کراتے۔ اس کے برعکس جہاں تک پی ٹی آئی کا معاملہ ہے تو وہ یہ دعویٰ رکھتی ہے کہ حالیہ انتخابات میں اسے دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا اور اگلے انتخابات میں اس کی کامیابی یقینی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ جماعت مستقبل میں پاکستان پر حکمرانی کے عزائم رکھتی ہے۔ اس تناظر میں دہشت گردی، ڈرون مار گرانے اور امریکاکے ساتھ تعلقات سمیت دوسرے اہم مسائل پر اس کی پالیسیاں ناقابل فہم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ اقتدار میں ہوتے تو کیا ایسے اقدامات کرتے جس کا مطالبہ آج آپ کی طرف سے کیا جارہا ہے؟
سب سے پہلے ڈرون حملوں کا معاملہ لیجیے۔ مطالبہ یہ ہے کہ امریکا سے ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے کہا جائے بصورت دیگر انھیںمار گرایا جائے ۔ ایسے نعروں کے ذریعے عوام کے اندر جوش پیدا کرکے ان کی عارضی طور پر سیاسی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اس کے جو خوفناک نتائج برآمد ہوں گے، مطالبہ کرنے والے بھی اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ امریکا کے سامنے حکومت کا موقف واضح ہے۔ نواز شریف صدر اوباما سے اس مسئلے پر براہ راست بات کرچکے ہیں۔ امریکا کا موقف بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اس کا کہنا ہے پاکستان اپنے بعض علاقوں میں اگر کارروائی نہیںکرسکتا تو امریکا یہ کام خودکرے گا اور ایسا کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ امریکی موقف کے بعد اگر پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کی بات مان لی جائے تو وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ پاک فضائیہ کو حکم دیں کہ آنے والے ڈرون طیاروں کو مار گرایا جائے۔
فرض کیجیے کہ یہ کام کرلیا جاتا ہے تو صورتحال یہ ہوگی کہ امریکا کی جانب سے پہلے ایک سخت انتباہ جاری کیا جائے گا، ممکن ہے اقوام متحدہ بھی امریکا کی حمایت میں سامنے آجائے۔ چین، روس، سعودی عرب سمیت پاکستان کے کئی دوست ممالک بھی پاکستان کو آیندہ اس اقدام سے باز رہنے کا مشورہ دیں گے۔ اس صورتحال کے بعد حکومت پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کی جانب دیکھے گی اور وہ یہ کہیں گے کہ کسی بھی انتباہ، مشورے یا نصیحت کو خاطرمیں نہ لایا جائے اور ڈرون طیارو ں کو مار گرانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ وہ یہ بھی کہیں گے کہ قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ حکومت جوش میں آکر دوسرا ڈرون گرانے کی دھمکی دے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگلی مرتبہ ڈرون کی حفاظت کے لیے امریکا کے ایف 25 جیٹ طیارے بھی ساتھ آئیں گے اور پاکستان کی فضائیہ کے پاس امریکا سے فضائی جنگ لڑنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچے گا۔
اس کے بعد یہ منظرنامہ سامنے آئے گا کہ امریکا، نیٹو اور اقوام متحدہ کے خلاف جنگ میں پاکستان براہِ راست ملوث ہوجائے گا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف مذہبی جماعتوں کی حمایت سے پاکستان کو دو امریکی جنگوں میں پھنسا کر رخصت ہوچکے ہیں۔ اب بعض سیاسی اور مذہبی عناصر امریکا کی مخالفت میں، پاکستان کو تیسری بدترین جنگ میں ملوث کرنے کے درپے ہیں۔ یہ وہی قوتیں ہیں جنہوں نے 1980 میں پاکستان کو افغان جنگ میں ملوث کیا تھا۔ اس وقت وہ امریکا کے ہم نوا تھے اور عوام میں یہ نعرے لگا کر جوش پیدا کرتے تھے کہ افغانستان ہمارا مسلم ہمسایہ ملک ہے، جس پر کمیونسٹ اور لادین طاقت قابض ہوگئی ہے۔ اس لیے مسلمان بھائیوں کو کفر کے غلبے سے نجات دلانے کے لیے امریکا سے تعاون کیا جائے اورافغان جہاد میں شریک ہوکر ثواب دارین حاصل کیا جائے۔ اس وقت ان جماعتوں کے نزدیک امریکا عزیز از جان اور مسلمانوں کا نجات دہندہ تھا اور آج اس کے خلاف جنگ 'جہاد' کا رنگ اختیار کرچکی ہے۔ ہم کسی بھی وجہ سے اگر اس جنگ میں ملوث کردیے گئے تو اس کے تباہ کن نتائج سے قوم کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔
ڈرون گرانے کے جذباتی عمل کے ذریعے امریکا سے فوجی تصادم کے نتیجے میں پاکستان کو جو ناقابل تصور نقصان پہنچے گا، کیا اس کا اندازہ لگایا گیا ہے اور سوچا گیا ہے کہ جو غیر معمولی فوجی نقصان ہوگا کیا اس کی تلافی ممکن ہوگی؟ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے آج ہماری معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ عالمی طاقتوں سے محاذ آئی رہی سہی کسر پوری کردے گی۔ اربوں ڈالر کے قرض کی ادائیگی کون اور کہاں سے کرے گا؟ غیر ملکی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اورمہارت کے بغیر معاشی نمو کیسے ہوگی؟ ایران کا تومان، پٹرول ہونے کے باوجود ڈالر کے مقابلے میں 40 ہزار کا فروخت ہورہا ہے۔ بغیر پٹرول کے ملک کیسے چلے گا اور ڈالر، یورو، پائونڈ کے مقابلے میں کیا پاکستانی روپے کی قدر ایک لاکھ کے مساوی نہیں ہوجائے گی؟ پاکستان اندرونی طور پر مضبوط نہیں ہے، معاشی بحران ہولناک، سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرے گا۔ زبان، نسل، مذہب اور مسلک کے موجودہ تضادات کتنی شدت اختیار کرلیں گے کیا اس کا اندازہ محاذ آرائی کے حامی سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں نے لگایا ہے؟ محاذ آرائی کے یہ تو محض چند نتائج ہیں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
ڈرون گرانے کے نتائج سامنے ہیں اور نیٹو سپلائی روکنے کی حقیقت بھی سامنے آرہی ہے۔ لوگوں کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ نیٹو سپلائی روکنے کا امریکا پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ سانحہ سلالہ کے بعد جب یہ سپلائی منقطع کی گئی تو امریکا نے شمالی افغانستان کے ناردن ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو زیادہ بہتر بنالیا تھا اور اب تقریباً 80 فیصد نیٹو سپلائی اسی نیٹ ورک کے ذریعے کی جاتی ہے۔ 20 فیصد نیٹو سپلائی پاکستان سے گزرتی ہے جس کا غالباً صرف 15 سے 20 فیصد حصہ خیبرپختونخوا سے جاتا ہے، بقیہ سپلائی چمن کے ذریعے ہوتی ہے۔ بھاری اور جدید ہتھیار نہ پہلے زمینی راستوں سے جایا کرتے تھے اور نہ اب جاتے ہیں۔ اس قدر معمولی سپلائی کو روک کر یہ گمان کرنا کہ امریکا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جائے گا سیاسی بلوغت کے فقدان اور موقع پرستی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
غلط مفروضوں پر عوام کو گمراہ کرکے سیاسی مقبولیت حاصل کرنے کا دوسرا مرحلہ 20 نومبر کے بعد شروع ہونے والا ہے۔ امریکا عرصہ دراز سے آمریت نواز اور عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے تیسری دنیا میں بہت غیر مقبول رہ چکا ہے اور آج بھی ہے۔ تاہم، 2013 میں یہ ممکن نہیں ہے کہ سیاستدان محض امریکا مخالف گھوڑے پر سوار ہوکر عوام میں پائیدار مقبولیت حاصل کرسکیں۔ میڈیا اور اطلاعات کے جدید دور میں سب جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں لوگ صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ بدعنوانی اور کرپشن کا یہ عالم ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنے ایک نہیں گیارہ وزراء کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ امریکا مخالف بیانات، ڈرون گرانے کے مطالبوں اور نیٹو سپلائی روکنے جیسے اقدامات کے ذریعے اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے اور عوام میں مقبولیت حاصل کرکے مجوزہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے لیے پاکستان کو اتنے بڑے خطرے میں ڈالنا کسی بھی طرح حب الوطنی نہیں۔