تصورشہادت کو ازسر نو دریافت کرنے کی لگن

حکیم اللہ محسود کی ڈرون طیارے کے ذریعے ہلاکت کےبعدہماری قوم ’’شہادت‘‘ کےتصور کوسمجھنے میں جیدفقہاکی طرح مصروف ہوگئی ہے


Nusrat Javeed November 12, 2013
[email protected]

وہ جو خود کو آج بھی لیفٹ، لبرل وغیرہ کہلواتے ہیں، ان دنوں بہت شاداں ہیں۔ افواجِ پاکستان کے محکمہ تعلقاتِ عامہ نے ایک بیان کے ذریعے جماعتِ اسلامی کے امیر منور حسن کی اس رائے کی شدید مذمت کی جس کے مطابق ''امریکا کی جنگ'' میں حصہ لینے والوں کی ہلاکتوں کو ''شہادت'' کا رُتبہ نہیں دیا گیا تھا۔ جیسے ہی ISPR کا بیان منظر عام پر آیا ہمارے لیفٹ، لبرل وغیرہ سرشار ہو کر اس بیان کو اپنے اپنے سوشل اکائونٹس کے ذریعے انٹرنیٹ پر پھیلانا شروع ہو گئے۔ بڑی شدت کے ساتھ یہ مطالبہ بھی دہرانا شروع ہو گئے کہ نام نہاد ''جماعتی سوچ'' کا بے رحم جائزہ لیا جائے اور بات صرف سید منور حسن کی مذمت تک محدود نہ رکھی جائے۔ اس جماعت کے بانی کے اصل خیالات کو بھی یاد کیا جائے۔ ہم کیوں بھول چکے ہیں کہ جب علی گڑھ اور اسلامیہ کالج لاہور کے طلبہ اپنی پڑھائی چھوڑ کر قیامِ پاکستان کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو گھر گھر پہنچانے میں رات دن ایک کر رہے تھے تو مولانا مودودی ''نسلی'' اور ''عقلی'' مسلمانوں میں فرق دریافت کرنے اور اسے دوسروں کو سمجھانے میں مصروف ہو گئے۔ ان کی اس علمی اور فقہی تحقیق کا اصل مقصد کیا تھا؟


اپنی جوانی کے دنوں میں میرا تعلق بہت گہرا اور جذباتی ان لوگوں سے رہا ہے جو آج بھی خود کو لیفٹ لبرل وغیرہ ٹھہراتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے غور و فکر چھوڑ کر صرف رپورٹنگ پر توجہ مرکوز کر دی۔ میں ایک پیشہ ور صحافی ہوں۔ لکھتا، بولتا ہوں تو مناسب پیسے پانے کے لیے۔ تنخواہ جب معقول اور باقاعدہ ہو جائے تو زندگی خوش گوار اور آرام دہ نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اپنی راحت کے نقصان کے خیال سے دل گھبراتا ہے۔ بندہ خواہ مخواہ کی Controversies میں الجھنا نہیں چاہتا۔ لیکن آج پتہ نہیں کیوں دل اس بات پر مچل رہا ہے کہ اصرار کے ساتھ یاد دلا دیا جائے کہ 1970ء کے انتخابات جماعتِ اسلامی نے یقیناً بری طرح ہارے تھے۔ مگر اس کے بعد جو سوچ ہمارے تعلیمی اداروں میں پھیلی اور جس کے ذریعے ہمارے شہری متوسط طبقے نے بالآخر ریاست کے دائمی اداروں میں فیصلہ کن قوت حاصل کر لی وہ ساری کی ساری ''جماعتی سوچ'' ہی تھی۔


آج بھی خود کو لیفٹ لبرل ٹھہرانے والے اس سوچ کے بارے میں کوئی پر اثر Counter Narrative تیار نہیں کر پائے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مزاحمتی ادب کی ایک توانا تحریک ضرور موجود رہی مگر اس تحریک کے پیچھے متحرک تصورات ذرایع ابلاغ کے ذریعے عام لوگوں تک نہ پہنچ پائے۔ اسی وجہ سے جب رضا ربانی، افراسیاب خٹک اور حاصل بزنجو جیسے ''سیکولر اور روشن خیال'' آئین پاکستان کی 2008 کے انتخابات کے بعد ''صفائی ستھرائی'' کرنے بیٹھے تو Consensus کے نام پر 62/63 کی ان شقوں پر غور کرنے کی بھی جرأت نہ کر پائے جو ضیاء الحق نے بندوق کے زور میں ہمارے آئین میں شامل کی تھیں۔ ان شقوں کی وجہ سے 2013 کے انتخابات سے پہلے ریٹرننگ افسروں کے سامنے جو تماشے لگے انھیں دیکھ کر بھی میرے رضا ربانی جیسے ''روشن خیال'' دوست کوئی خاص شرمندہ نہ ہوئے۔ کاش کہ تھوڑی سی اخلاقی جرأت دکھاتے ہوئے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معافی ہی مانگ لیتے۔


حکیم اللہ محسود کی ڈرون طیارے کے ذریعے ہلاکت کے بعد ہماری قوم ''شہادت'' کے تصور کو سمجھنے میں جید فقہا کی طرح مصروف ہو گئی ہے۔ کسی کو یاد ہی نہیں آ رہا کہ ایک شے ریاست ہوتی ہے۔ اس ریاست کے شہری ہوتے ہیں جن کی جان و مال کا تحفظ اس ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔ پولیس اور فوج خواہ کسی ''اسلامی ریاست'' کی ہو یا ''بے دین ریاست'' کی ان کا بنیادی فرض اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ 9/11 کے بعد امریکی ریاست اور معاشرہ ہرگز اس بحث میں نہیں اُلجھا کہ ان کی سرزمین پر حملہ کرنے والے دراصل کون تھے۔ اپنے تئیں ان کی نشان دہی کرنے کے بعد یہ ریاست اپنی پوری قوت کے ساتھ القاعدہ کو پناہ دینے والوں پر چڑھ دوڑی۔ صدر اوباما نے اپنی قوم سے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ کر سزا دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا، یہ وعدہ ان کے بدترین سیاسی مخالف صدر بش نے کیا تھا۔ تاریخی طور پر اپنی قوم کے سامنے 9/11 کا بدلہ لینے کے ذمے دار نہ ہونے کے باوجود اوباما نے اپنے انٹیلی جنس اداروں کو اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں مصروف رکھا۔


بالآخر جب ایبٹ آباد کے ایک مکان کی نشان دہی ہو گئی تو اس پر حملہ کر کے اپنا ہدف حاصل کر لیا۔ ہم روزانہ ڈرون حملوں کے حوالے سے اپنے میڈیا میں ''قومی خود مختاری'' کے بارے میں سیاپا فروشی میں مصروف رہتے ہیں۔ مگر آسانی سے بھول بیٹھے ہیں کہ اسامہ بن لادن شمالی وزیرستان کے کسی غار میں پناہ گزین نہیں تھا۔ اس کو مارنے والے طیارے پاکستان کے ایک باقاعدہ شہر ایبٹ آباد آئے تھے۔ ایبٹ آباد کے واقعہ کے بعد پارلیمان کا ایک اِن کیمرہ اجلاس ہوا۔ اس میں بہت دھواں دھار تقاریر فرمائی گئیں۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ جسٹس جاوید اقبال صاحب کی صدارت میں ایک کمیشن بیٹھے اور اس بات کا بغور جائزہ لے کہ اسامہ ایبٹ آباد کے ایک گھر میں موجود تھا یا نہیں۔ اگر وہ واقعی وہاں موجود تھا تو کن اسباب کی بنا پر اتنے برسوں سے وہاں محفوظ بیٹھا رہا۔ امریکی اس کا سراغ لگانے میں کیوں اور کیسے کامیاب ہوئے اور بالآخر اپنے کمانڈوز کو اس تک پہچانے میں کامیاب بھی۔ بہت تاخیر کے بعد جسٹس جاوید اقبال والے کمیشن نے اپنی رپورٹ تیار کر کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بھیج دی۔ اب تو نواز شریف صاحب کو اس ملک کا تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے چھ ماہ گزر گئے ہیں۔ وہ رپورٹ اب بھی منظر عام پر کیوں نہیں لائی جا رہی ہے؟


اس کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ سے اب بھی ہمارے عوام کی اکثریت پوری شدت کے ساتھ یہ باور کیے بیٹھی ہے کہ اسامہ نام کا بندہ ایبٹ آباد میں موجود نہیں تھا، پتہ نہیں امریکا والے کس کو مارکر اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کے بارے میں یہ تصور صرف سید منور حسن اور ان کی جماعت نے پھیلایا؟ ہر گز نہیں۔ ہمارے سابق سپہ سالار جناب اسلم بیگ صاحب بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔ جنرل حمید گل کو جیمز بانڈ جیسا اساطیری ''جاسوس'' سمجھا جاتا ہے۔ خیالات ان کے بھی اس ضمن میں وہی ہیں جو ہمارے سادہ لوح عوام کی اکثریت اپنائے بیٹھی ہے۔ ٹھوس حقائق کے ساتھ واقعات پوری تفصیل کے ساتھ نہ ہم سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ کوئی ہمیں سمجھانے کی زحمت گوارا کرتا ہے۔ بجائے حقائق پر غور کرنے کے ہم ''اصل اسلام'' کو ڈھونڈ کر اس پر پوری طرح عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے شاید ''شہادت'' کے تصور کو ازسر نو دریافت کرنے کی لگن میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ایسے میں سید منور حسن ہوں یا مولانا فضل الرحمن ان کے بیانات ضرورت سے زیادہ اہمیت ہر صورت حاصل کرکے رہیں گے۔ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی Controversies سب سے زیادہ ہمارے ریاستی اداروں کے کام آرہی ہے جنہوں نے اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی بنیادی ذمے داری کو عرصہ ہوا فراموش کررکھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں