شفاف بلدیاتی انتخابات

قومی اسمبلی،سینیٹ اورصوبائی اسمبلیوں کابنیادی کام قانون سازی،مستقبل کےلیےپالیسیاں بنانا اورحکومتی اداروں کااحتساب ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan November 12, 2013
[email protected]

قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد منظور کرلی۔ الیکشن کمیشن اور حکومت سندھ نے سپریم کورٹ میں انتخابات کے انعقاد میں مہلت اوراس کے التواء کی درخواستیں دائر کردی۔ الیکشن کمیشن ابھی تک انتخابات کے انعقاد کے لیے انتظامات کو آخری شکل نہیں دے سکا، صوبوں میں انتظامی افسران حلقہ بندیوں کا معاملہ حل نہیں کرسکے، شفاف انتخابات اور منتخب بلدیاتی اداروں کا قیام پھر ایک سوال بن کر ابھرا۔ یہ حقیقت ہے کہ منتخب حکومتیں کبھی بلدیاتی نظام کے حق میں نہیں رہی۔ قومی، صوبائی اسمبلیوں کے اراکین براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا بنیادی کام قانون سازی، مستقبل کے لیے پالیسیاں بنانا اور حکومتی اداروں کا احتساب ہے۔ پھر منتخب اراکین کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ قانون سازی اور پالیسیاں تو بیوروکریسی تیار کرتی ہے، اراکین کو محض انھیں منظور کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کا احتساب تو معمول کی بات ہے، اس بناء پر منتخب اراکین کا حقیقی فریضہ گلیاں، گٹر، پل بنوانا، سڑکیں تعمیر کرانا، اپنے حلقوں میں پانی اور بجلی کی سہولتیں مہیا کرنا ہے۔

بلدیاتی ادروں میں اپنے حامیوں کو ملازمتیں اور ٹھیکے دلوانا ہے تاکہ ان لوگوں کے مفادات منتخب اراکین سے وابستہ رہے، اس بناء پر منتخب بلدیاتی اداروں کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، بلدیاتی اداروں کا پھیلائو بہت زیادہ ہے اور نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے فلسفے کے نتیجے میں نچلی سطح سے قیادت ابھرتی ہے جو مستقبل میں ان کے سیاسی عزائم کو ٹھیس پہنچا سکتی ہے اور قیادت کے دعویداروں کی تعداد میں اضافے سے ان کے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت ماند پڑتی ہے، اس بناء پر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کی فوری ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی حکومتوں نے منتخب بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو نظر انداز کیا مگر جب سابق صدر پرویز مشرف نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ کیا تو ملک کے بڑے شہروں میں ترقی کا عمل تیز ہوا۔ فرسودہ سیاسی کلچر، غیر شفاف نظام کی بناء پر ملک بھر میں اس نظام کے حقیقی نتائج سامنے نہیں آئے مگر اس تصور کو تقویت ملی کہ صوبائی اسمبلیوں ، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی توجہ آئینی اور قانونی معاملات اور پالیسی ساز اداروں تک نگرانی پر مرکوز ہونی چاہیے، مگر 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی جماعتوںنے اس جدید تصور کو عملی شکل دینے کے بجائے اس نظام کو برباد کرنا شروع کیا۔

یہ کیسی حقیقت ہے کہ متضاد منشور کی حامل جماعتیں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام اور قوم پرست جماعتیں اس نکتے پر متفق ہوئیں کہ منتخب بلدیاتی اداروں کی ضرورت نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے انتہائی مایوس کن کردار ادا کیا۔ پیپلزپارٹی نے جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کی حمایت کی تھی، یہ نظام پی پی پی کے منشور سے قریب تھا، سندھ میں اس نظام کے اچھے نتائج سامنے آئے تھے، پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم اس کی پرزور حامی تھی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم 5 سال تک اتحادی ہونے کے باوجود اختیارات کے جدید تصور پر متفق نہیں ہوسکے اور پیپلزپارٹی نے آخر کار سندھ میں جو بلدیاتی قانون نافذ کیا وہ جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ قانون کا چربہ ہے، اس نظام کے تحت بھی انتخابات کرانے کا کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا، زرداری صاحب کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے جدید منتخب بلدیاتی نظام قائم کرکے دوسرے صوبوں کو مشکل میں ڈالنے کا موقع کھودیا۔

سپریم کورٹ نے آئین کے تحت بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا نوٹس لیا تو تمام حکومتوں نے غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ نواز شریف، عمران خان اور آصف زرداری اس معاملے کو دسمبر تک التواء میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ منتخب بلدیاتی اداروں کا معاملہ بھی داخل دفتر ہوجائے۔ سپریم کورٹ نے کنٹونمنٹ ایریا میں انتخابات نہ کرانے پر سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک پر توہین عدالت کے الزام میں فرد جرم عائد کرکے حکومتوں کو انتخابات کرنے پر مجبور کیا۔ سندھ میں 27 نومبر اور پنجاب میں 7 دسمبر کی تاریخ کا تعین ہوا مگر زمینی حقائق یہ ہے کہ ابھی تک ووٹر لسٹیں مکمل نہیں ہیں، حلقہ بندیوں کے بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مئی 2013 کے انتخابات کے لیے 2 سال پہلے تیاریاں شروع کی گئی تھی، حکومت اور اپوزیشن کی حمایت سے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کا تقرر ہوا تھا، کمپیوٹرائزڈ ووٹر لسٹوں کی تیاری کا عمل مسلسل جاری رہا، جب الیکشن کمیشن نے مقامی پتے کی بنیاد پر لاکھوں ووٹرز کے نام ان کے موجودہ پتوں کے بجائے پرانے پتوں پر منتقل کیے تو معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔

سپریم کورٹ نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں فیصلہ دیا جو 11 مئی تک عمل ہونے کے مراحل سے گزرتا رہا۔ الیکشن کمیشن نے اس دفعہ ''ووٹ کا عالمی دن'' منایا، اس موقعے پر منعقد ہونے والی تقاریب میں ووٹر کی تصدیق پولنگ اسٹیشن کے نام شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے کیمروں کی تنصیب، مقناطیسی سیاہی کی فراہمی، پولنگ کے عملے کے تحفظ کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے متعلق جو بریفنگ دی گئی تھی اس سے محسوس ہوتا تھا کہ 11 مئی کے انتخابات انتہائی منظم اور شفاف ہوں گے، مگر 11 مئی کو ہونے والے انتخابات اس بریفنگ کا متضاد نمونہ تھے۔

اس دن ووٹر لسٹوں میں بڑی بے قاعدگیاں تھیں، شوہر اور بیٹوں کا ووٹ ایک حلقے میں بیوی اور بچوں کے ووٹ دوسرے حلقے میں منتقل کردیے گئے، تمام قوائد و ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے گنجان آباد علاقوں کی چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں پولنگ اسٹیشن قائم ہوئے، ایک عمارت میں 6 سے زیادہ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ریٹرننگ افسران نے کبھی ان علاقوں کا دورہ نہیں کیا۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے افسران نے اسلام آباد میں اپنے دفاتر میں ملک بھر میں پولنگ اسٹیشن بنانے کے فیصلے کیے تھے، ملک کے بیشتر پولنگ اسٹیشنوں میں بیلٹ پیپرز نہ پہنچنے کی بناء پر بروقت پولنگ شروع نہ ہوئی، کراچی کے بعض حلقوں میں تو 3 بجے پولنگ شروع ہوئی، پھر ووٹوں کی گنتی کے وقت فوج، رینجرز اور پولیس کے دستے اپنی اپنی بیرکوں میں چلے گئے، جس کی بناء پر پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے ہوئے۔ یہ وجہ تھی کہ غیر شفاف انتخابات کی بناء پر منتخب قیادت مشکلات کا شکار ہوئیں ۔

الیکشن ٹریبونلز کے سامنے مقناطیسی سیاہی استعمال نہ کرنے اور غیر متعلقہ لوگوں کے ووٹ ڈالنے کے مقدمات کے انبار لگ گئے۔ الیکشن کمیشن نے اس دفعہ سول سروس آف پاکستان اور صوبائی سول سروس کے افسران کو ریٹر ننگ افسر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں انتظامی افسران ہی انتخابات منعقد کراتے ہیں مگر پاکستان میں انتظامیہ سیاسی حکومتوں کا حصہ ہوتی ہے، اس بناء پر ان افسروں کا غیر جانب دارانہ رویہ انتہائی اہم ہوگا، پھر بغیر کسی آئینی تحفظ کے یہ افسران بلا خوف و خطر اپنے فرائض انجام نہیں دے سکے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا کام انتخابات کرانا نہیں ہے یہ کام پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو انجام دینا چاہیے، مگر بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا بھی یہ ایجنڈا نہیں رہا، سپریم کورٹ کی کوششوں سے بلدیاتی انتخابات کی تاریخیں طے ہوئی، سپریم کورٹ کی خصوصی دلچسپی سے انتخابات کا ایجنڈا عام ہوا مگر اب فوری طور پر انتخابات ہوئے تو یہ انتخابات 11 مئی 2013 کے انتخابات سے زیادہ غیر منظم اور غیر شفاف ہوں گے۔ یوں سپریم کورٹ کا منتخب بلدیاتی قیادت کے ذریعے ترقی کے عمل کو بہتر کرنے کا معاملہ التواء کا شکار ہوگا، عوام کا جمہوری عمل پر سے اعتماد ختم ہوگا جس کا فائدہ طالع آزما قوتوں کو ہوگا۔ اب پارلیمنٹ کو انتخابات کی حتمی تاریخ پر اتفاق کرنا چاہیے، سپریم کورٹ کو اس تاریخ کی توثیق کرنی چاہیے، الیکشن کمیشن کو منظم اور شفاف انتخابات کے لیے معقول وقت ملنا چاہیے، سپریم کورٹ کو چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے باوجود اس معاملے کو اہمیت دینی چاہیے۔ شفاف اور منظم انتخابات کے ذریعے نئی قیادت ابھرے گی اور جمہوری عمل کے حقیقی نتائج برآمد ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں