سیکڑوں پاکستانی ہندوؤں کی استھیاں گنگا میں بہائے جانے کی منتظر
پاکستانی ہندو کمیونٹی کا بھارتی ہائی کمیشن سے ویزوں کے اجرا کا مطالبہ
پاکستان میں بسنے والی ہندو کمیونٹی نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں اپنے عزیزوں کے استھیاں گنگا ندی میں بہانے اور ہری دوار میں آخری رسومات ادا کرنے کے لئے ویزے جاری کئے جائیں۔
پاک بھارت کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بھارت کی سخت ویزا پالیسی کے باعث پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کو اپنے مردوں کی استیاں گنگاندی میں بہانے اور ہری دوار میں آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ویزوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کی اکثریت اپنے پیاروں کو اگنی سنسکار کی بجائے دفن کرتی ہے تاہم بڑی ذات کے ہندو اپنے عزیزوں کی چتا جلاتے اور پھر اس کی راکھ کو گنگا ندی میں بہاتے ہیں، حالیہ پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے بھارت نے ناصرف عام پاکستانیوں کے لئے ویزا پالیسی سخت کررکھی ہے بلکہ ہندو خاندانوں کو ان کے پیاروں کی باقیات گنگا ندی میں بہانے کے لئے ہری دوار میں آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے ویزا بھی جاری نہیں کیا جاتا ہے، کئی خاندان ایسے ہیں جن کی ویزا درخواستیں متعدد بار مختلف اعتراضات لگا کرمسترد کی جاچکی ہیں۔
ہندو رہنما اور سابق پارلیمنٹیرین دیوان چند چاؤلہ نے ایکسپریس کوبتایا کہ ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق جب تک مرنے والے کی استھیاں ہری دوار جاکر گنگا میں نہیں بہائی جاتیں، اس وقت تک مرنے والے کو ابدی سکون نہیں ملتا، جس طرح مسلمانوں کے لئے مکہ اور مدینہ انتہائی محترم اور مقدس ہیں اسی طرح ہندوؤں کے ہری دوار سب سے مقدس مقام ہے۔
دیوان چند چاؤلہ نے بتایا کہ اس وقت کراچی سمیت سندھ کے مختلف مندروں میں سیکڑوں مرنے والے ہندوؤں کی استھیاں امانتاً رکھی گئی ہیں۔ کراچی کے ایک مندر میں 200 کے قریب استھیاں پڑی ہوئی ہیں۔ بھارتی حکومت ایک طرف دنیا کی بڑی جمہوریت کی دعویدار ہے جبکہ دوسری طرف مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے ہندو خاندانوں کوویزے نہیں دیئے جاتے تاکہ اس دنیا سے رخصت ہونے والے اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرسکیں۔ انہوں نے بھارتی سفارت خانے کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے خاندانوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فی الفور ویزے ملنے چاہئیں۔
پنجاب کے ضلع رحیم یارخان سے تعلق رکھنے والے سابق ہندو پارلیمنٹیرین کانجی رام نے ایکسپریس کوبتایا کہ پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کی بڑی تعداد اس دنیاسے رخصت ہونے والے اپنے پیاروں کو دفن کرتی ہے۔ تاہم سندھ ، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے چند ایک شہروں میں ہندوؤں کے ایسے خادان آباد ہیں جو اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ انتم سنسکار کے لئے بھارتی حکومت کی طرف سے ویزوں میں تاخیریا ویزاجاری نہ کرنا افسوس ناک ہے۔ پاکستان ،بھارت کشیدگی کے باوجود انسانی ہمدری کی بنیادوں پر ویزے جاری ہونے چاہئیں۔
سرکاری اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں اس وقت رجسٹرڈ ہندوؤں کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے تاہم مختلف ہندو تنظیموں کا ماننا ہے کہ اصل تعداد 90 لاکھ سے زیادہ ہے۔ 90 لاکھ ہندوؤں میں سے 80 فیصد کا تعلق دلت اورنچی ذات سے ہیں جنہیں شیڈولڈ کاسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ ان نچلی ذات کے ہندوؤں کی فہرست میں شامل تقریبا تمام ذاتیں اپنے مُردوں کو جلانے کے بجائے دفناتی ہیں۔ جنوبی یا زیریں سندھ کے حیدرآباد، بھنبھور اور میرپور خاص ڈویژنز میں ہندوؤں کی اکثریت آباد ہے، اسی طرح پنجاب کے علاقہ رحیم یارخان ، بہاولپور، لیاقت پوراوراحمدپورشرقیہ میں ہندو آباد ہیں، ان علاقوں سب ہندوؤں کا مشترکہ بڑا قبرستان ہے یا ہر ذات کا الگ الگ چھوٹا قبرستان موجود ہے۔
لاہورمیں مقیم ہندوخاندانوں میں کچھ خاندان بالمیک فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ لاہورکے نیلاگنبد کے قریب بالمیک مندر بھی ہے۔ بالمیک مندرکے پجاری بھگت لال نے ایکسپریس کوبتایا کہ ان کے خاندان کے لوگ اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں تاہم لاہور میں ہندوؤں کا کوئی الگ سے قبرستان موجود نہیں ہے۔ البتہ یہاں سکھوں اور ہندوؤں کے الگ الگ شمشان گھاٹ موجود ہیں۔ بھگت لال نے بتایا کہ اصل میں ان کی برادری کے ہندؤں کی بڑی تعداد اپنامذہب چھوڑ کر مسیحی ہوچکی ہے جو چند خاندان موجود ہیں ان کی مسیحی خاندانوں سے رشتہ داریاں قائم ہیں۔ اس وجہ سے اب اگر دلت ہندو کی وفات ہوتی ہے تو اسے مسیحی قبرستان میں ہی دفن کردیا جاتا ہے۔
بھگت لال کے مطابق ان کے یہاں شروع سے ہی مردوں کو جلانے کی بجائے دفنانے کا رواج ہے تاہم مردے کو دفناتے ہوئے اس کے جسم کے کچھ حصے کو جلا کراگنی سنسکار کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوؤں کی تمام ذاتوں میں مرنے والے بچوں کو جلانے کی بجائے دفنایا جاتا ہے۔
سابق پارلیمنٹیرین کانجی رام کااس حوالے سے کہناتھا کہ مردوں کو جلانے یا دفنانے کی درست تاریخ کا تو انہیں معلوم نہیں ہے تاہم انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ1899 میں صحرائے تھر میں بدترین قحط آیا تھا جسے چھپنو قحط کہا جاتا ہے۔ اس خشک سالی اور قحط کے دوران روزانہ بڑی تعدادمیں لوگوں کی اموات ہوجاتی تھیں، اس وقت مرنے والوں کو جلانے کی بجائے ان کی اجتماعی قبریں بنا کر تدفین کردی گئی تھی۔ تب سے پھرہندوؤں کی مختلف ذاتوں نے اپنے مردوں کودفنانے کا سلسلہ شروع کردیا جو آج بھی جاری ہے۔
پاکستان میں بسنے والے نچلی ذات کے ہندوؤں کی بڑی تعداد غریب ہے۔مردوں کو جلانے کی بجائے دفنانے کی ایک وجہ غربت بھی ہے۔ کانجی رام کہتے ہیں اگنی سنسکار والی رسم کے لیے اَوسطاً 20 سے 25 ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے کیوں کہ اس رسم کے لیے دس سے 12 من لکڑی درکار ہوتی ہے، اس کے علاوہ گھی، کافور، ناریل، تل اور اگر بتی بھی جلانے کی رسم میں درکار ہوتی ہیں۔ اگنی سنسکار کے بعد استھیاں جل ارپن کرنے کے لئے ہری دوار جانا، ویزے اور سفر کا خرچہ اس کے ساتھ ساتھ ہری دوار میں کریاکرم کے لئے پجاری بھی اچھی خاصی رقم لیتے ہیں۔
کرشنا مندر لاہورکے پجاری کاشی رام نے ایکسپریس کوبتایا کہ مرنے والے کا اگنی سنسکار ضروری ہے اور پھر اس کی راکھ کو جل ارپن بھی کیا جاتا ہے تاہم اگر گنگا ندی تک رسائی ممکن نہ ہوتو اس راکھ کو کسی بھی بہتے ہوئے دریا،نہر اور سمندر میں بہایا جاسکتاہے۔ پنجاب اورخیبرپختونخوا میں جو ہندو فوت ہوتے ہیں ان کی استھیاں دریائے اٹک میں بہادی جاتی ہیں۔ سندھ کے ہندو اپنے پیاروں کی استھیاں سادھو بیلا مندر کے قریب دریائے سندھ میں بہا دیتے ہیں۔
ہندوعقیدے کے مطابق مرنیوالے کی ابدی نجات کے لئے ضروری ہے کہ انسانی جسم جن پانچ عناصرسے وجود میں آتا ہے انہیں واپس لوٹا دیا جائے ورنہ مرنے والے کی روح بھٹکتی رہتی ہے۔ ہندوعقیدے کے تحت انسانی جسم پانچ عناصر مٹی، پانی، آگ، ہوا اور آسمان سے مل کربنتا ہے جب انسان کی موت ہوتی ہے تب ان چیزوں کو اپنی اصلیت کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہندو عقیدے میں مردے کو جلایا جاتا ہے کیونکہ مرنے کے بعد انسان کی روح آسمان کی طرف لوٹ جاتی ہے اور پھر جب مردے کو جلایا جاتا ہے تو باقی 4 عناصر بھی واپس لوٹ جاتے ہیں، دھواں ہوا میں جبکہ راکھ کا کچھ حصہ مٹی سے مل جاتا ہے اور بعد میں جلی ہوئی ہڈیوں کو پانی میں بہا دیا جاتا ہے اس طرح وہ پانی سے بھی مل جاتا ہے۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ جب بھی کسی انسان کے مرنے کے بعد جلایا جاتا ہے تو بچی ہوئی ہڈیوں کا وزن اتنا ہوتا ہے جتنا جنم کے وقت اس کے جسم کا وزن تھا۔
پاکستانی ہندو رہنماؤں کو امید ہے کہ بھارت اس حوالے سے معاملات کو سنجیدگی سے لے گا اور ویزا درخواستوں پر بلاوجہ اعتراضات لگانے کی بجائے مرنے والے کے خاندانوں کو ویزے جاری کرے گا تاکہ وہ ہری دوار جاکر آخری رسومات ادا کرسکیں اور ان کے پیاروں کو ابدی سکون مل سکے۔
دوسری طرف اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہائی کمیشن کی طرف سے تمام پاکستانی شہریوں بشمول ہندو کمیونٹی کو ویزے جاری کئے جارہے ہیں۔ خاص طور ایسے ہندو خاندانوں کو ویزے جاری کیے گئے ہیں جو اپنے پیاروں کی باقیات کی آخری رسومات ادا کرنے ہری دوار جانا چاہتے ہیں۔ ترجمان کے مطابق ایسے خاندانوں کو ویزا درخواست کے ساتھ مرنے والے کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ، درخواست گزارکے قومی شناختی کارڈ کی کاپی ،گھرکے ایڈریس اوربجلی ،گیس کے بل کی کاپی جمع کروانا ہوتی ہے۔
پاک بھارت کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بھارت کی سخت ویزا پالیسی کے باعث پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کو اپنے مردوں کی استیاں گنگاندی میں بہانے اور ہری دوار میں آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ویزوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کی اکثریت اپنے پیاروں کو اگنی سنسکار کی بجائے دفن کرتی ہے تاہم بڑی ذات کے ہندو اپنے عزیزوں کی چتا جلاتے اور پھر اس کی راکھ کو گنگا ندی میں بہاتے ہیں، حالیہ پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے بھارت نے ناصرف عام پاکستانیوں کے لئے ویزا پالیسی سخت کررکھی ہے بلکہ ہندو خاندانوں کو ان کے پیاروں کی باقیات گنگا ندی میں بہانے کے لئے ہری دوار میں آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے ویزا بھی جاری نہیں کیا جاتا ہے، کئی خاندان ایسے ہیں جن کی ویزا درخواستیں متعدد بار مختلف اعتراضات لگا کرمسترد کی جاچکی ہیں۔
ہندو رہنما اور سابق پارلیمنٹیرین دیوان چند چاؤلہ نے ایکسپریس کوبتایا کہ ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق جب تک مرنے والے کی استھیاں ہری دوار جاکر گنگا میں نہیں بہائی جاتیں، اس وقت تک مرنے والے کو ابدی سکون نہیں ملتا، جس طرح مسلمانوں کے لئے مکہ اور مدینہ انتہائی محترم اور مقدس ہیں اسی طرح ہندوؤں کے ہری دوار سب سے مقدس مقام ہے۔
دیوان چند چاؤلہ نے بتایا کہ اس وقت کراچی سمیت سندھ کے مختلف مندروں میں سیکڑوں مرنے والے ہندوؤں کی استھیاں امانتاً رکھی گئی ہیں۔ کراچی کے ایک مندر میں 200 کے قریب استھیاں پڑی ہوئی ہیں۔ بھارتی حکومت ایک طرف دنیا کی بڑی جمہوریت کی دعویدار ہے جبکہ دوسری طرف مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے ہندو خاندانوں کوویزے نہیں دیئے جاتے تاکہ اس دنیا سے رخصت ہونے والے اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرسکیں۔ انہوں نے بھارتی سفارت خانے کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے خاندانوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فی الفور ویزے ملنے چاہئیں۔
پنجاب کے ضلع رحیم یارخان سے تعلق رکھنے والے سابق ہندو پارلیمنٹیرین کانجی رام نے ایکسپریس کوبتایا کہ پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کی بڑی تعداد اس دنیاسے رخصت ہونے والے اپنے پیاروں کو دفن کرتی ہے۔ تاہم سندھ ، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے چند ایک شہروں میں ہندوؤں کے ایسے خادان آباد ہیں جو اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ انتم سنسکار کے لئے بھارتی حکومت کی طرف سے ویزوں میں تاخیریا ویزاجاری نہ کرنا افسوس ناک ہے۔ پاکستان ،بھارت کشیدگی کے باوجود انسانی ہمدری کی بنیادوں پر ویزے جاری ہونے چاہئیں۔
سرکاری اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں اس وقت رجسٹرڈ ہندوؤں کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے تاہم مختلف ہندو تنظیموں کا ماننا ہے کہ اصل تعداد 90 لاکھ سے زیادہ ہے۔ 90 لاکھ ہندوؤں میں سے 80 فیصد کا تعلق دلت اورنچی ذات سے ہیں جنہیں شیڈولڈ کاسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ ان نچلی ذات کے ہندوؤں کی فہرست میں شامل تقریبا تمام ذاتیں اپنے مُردوں کو جلانے کے بجائے دفناتی ہیں۔ جنوبی یا زیریں سندھ کے حیدرآباد، بھنبھور اور میرپور خاص ڈویژنز میں ہندوؤں کی اکثریت آباد ہے، اسی طرح پنجاب کے علاقہ رحیم یارخان ، بہاولپور، لیاقت پوراوراحمدپورشرقیہ میں ہندو آباد ہیں، ان علاقوں سب ہندوؤں کا مشترکہ بڑا قبرستان ہے یا ہر ذات کا الگ الگ چھوٹا قبرستان موجود ہے۔
لاہورمیں مقیم ہندوخاندانوں میں کچھ خاندان بالمیک فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ لاہورکے نیلاگنبد کے قریب بالمیک مندر بھی ہے۔ بالمیک مندرکے پجاری بھگت لال نے ایکسپریس کوبتایا کہ ان کے خاندان کے لوگ اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں تاہم لاہور میں ہندوؤں کا کوئی الگ سے قبرستان موجود نہیں ہے۔ البتہ یہاں سکھوں اور ہندوؤں کے الگ الگ شمشان گھاٹ موجود ہیں۔ بھگت لال نے بتایا کہ اصل میں ان کی برادری کے ہندؤں کی بڑی تعداد اپنامذہب چھوڑ کر مسیحی ہوچکی ہے جو چند خاندان موجود ہیں ان کی مسیحی خاندانوں سے رشتہ داریاں قائم ہیں۔ اس وجہ سے اب اگر دلت ہندو کی وفات ہوتی ہے تو اسے مسیحی قبرستان میں ہی دفن کردیا جاتا ہے۔
بھگت لال کے مطابق ان کے یہاں شروع سے ہی مردوں کو جلانے کی بجائے دفنانے کا رواج ہے تاہم مردے کو دفناتے ہوئے اس کے جسم کے کچھ حصے کو جلا کراگنی سنسکار کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوؤں کی تمام ذاتوں میں مرنے والے بچوں کو جلانے کی بجائے دفنایا جاتا ہے۔
سابق پارلیمنٹیرین کانجی رام کااس حوالے سے کہناتھا کہ مردوں کو جلانے یا دفنانے کی درست تاریخ کا تو انہیں معلوم نہیں ہے تاہم انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ1899 میں صحرائے تھر میں بدترین قحط آیا تھا جسے چھپنو قحط کہا جاتا ہے۔ اس خشک سالی اور قحط کے دوران روزانہ بڑی تعدادمیں لوگوں کی اموات ہوجاتی تھیں، اس وقت مرنے والوں کو جلانے کی بجائے ان کی اجتماعی قبریں بنا کر تدفین کردی گئی تھی۔ تب سے پھرہندوؤں کی مختلف ذاتوں نے اپنے مردوں کودفنانے کا سلسلہ شروع کردیا جو آج بھی جاری ہے۔
پاکستان میں بسنے والے نچلی ذات کے ہندوؤں کی بڑی تعداد غریب ہے۔مردوں کو جلانے کی بجائے دفنانے کی ایک وجہ غربت بھی ہے۔ کانجی رام کہتے ہیں اگنی سنسکار والی رسم کے لیے اَوسطاً 20 سے 25 ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے کیوں کہ اس رسم کے لیے دس سے 12 من لکڑی درکار ہوتی ہے، اس کے علاوہ گھی، کافور، ناریل، تل اور اگر بتی بھی جلانے کی رسم میں درکار ہوتی ہیں۔ اگنی سنسکار کے بعد استھیاں جل ارپن کرنے کے لئے ہری دوار جانا، ویزے اور سفر کا خرچہ اس کے ساتھ ساتھ ہری دوار میں کریاکرم کے لئے پجاری بھی اچھی خاصی رقم لیتے ہیں۔
کرشنا مندر لاہورکے پجاری کاشی رام نے ایکسپریس کوبتایا کہ مرنے والے کا اگنی سنسکار ضروری ہے اور پھر اس کی راکھ کو جل ارپن بھی کیا جاتا ہے تاہم اگر گنگا ندی تک رسائی ممکن نہ ہوتو اس راکھ کو کسی بھی بہتے ہوئے دریا،نہر اور سمندر میں بہایا جاسکتاہے۔ پنجاب اورخیبرپختونخوا میں جو ہندو فوت ہوتے ہیں ان کی استھیاں دریائے اٹک میں بہادی جاتی ہیں۔ سندھ کے ہندو اپنے پیاروں کی استھیاں سادھو بیلا مندر کے قریب دریائے سندھ میں بہا دیتے ہیں۔
ہندوعقیدے کے مطابق مرنیوالے کی ابدی نجات کے لئے ضروری ہے کہ انسانی جسم جن پانچ عناصرسے وجود میں آتا ہے انہیں واپس لوٹا دیا جائے ورنہ مرنے والے کی روح بھٹکتی رہتی ہے۔ ہندوعقیدے کے تحت انسانی جسم پانچ عناصر مٹی، پانی، آگ، ہوا اور آسمان سے مل کربنتا ہے جب انسان کی موت ہوتی ہے تب ان چیزوں کو اپنی اصلیت کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہندو عقیدے میں مردے کو جلایا جاتا ہے کیونکہ مرنے کے بعد انسان کی روح آسمان کی طرف لوٹ جاتی ہے اور پھر جب مردے کو جلایا جاتا ہے تو باقی 4 عناصر بھی واپس لوٹ جاتے ہیں، دھواں ہوا میں جبکہ راکھ کا کچھ حصہ مٹی سے مل جاتا ہے اور بعد میں جلی ہوئی ہڈیوں کو پانی میں بہا دیا جاتا ہے اس طرح وہ پانی سے بھی مل جاتا ہے۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ جب بھی کسی انسان کے مرنے کے بعد جلایا جاتا ہے تو بچی ہوئی ہڈیوں کا وزن اتنا ہوتا ہے جتنا جنم کے وقت اس کے جسم کا وزن تھا۔
پاکستانی ہندو رہنماؤں کو امید ہے کہ بھارت اس حوالے سے معاملات کو سنجیدگی سے لے گا اور ویزا درخواستوں پر بلاوجہ اعتراضات لگانے کی بجائے مرنے والے کے خاندانوں کو ویزے جاری کرے گا تاکہ وہ ہری دوار جاکر آخری رسومات ادا کرسکیں اور ان کے پیاروں کو ابدی سکون مل سکے۔
دوسری طرف اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہائی کمیشن کی طرف سے تمام پاکستانی شہریوں بشمول ہندو کمیونٹی کو ویزے جاری کئے جارہے ہیں۔ خاص طور ایسے ہندو خاندانوں کو ویزے جاری کیے گئے ہیں جو اپنے پیاروں کی باقیات کی آخری رسومات ادا کرنے ہری دوار جانا چاہتے ہیں۔ ترجمان کے مطابق ایسے خاندانوں کو ویزا درخواست کے ساتھ مرنے والے کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ، درخواست گزارکے قومی شناختی کارڈ کی کاپی ،گھرکے ایڈریس اوربجلی ،گیس کے بل کی کاپی جمع کروانا ہوتی ہے۔