سندھ میں نیا کھیل

حکومتی جماعت کے سندھ اسمبلی کے ارکان اور ایم کیو ایم نے تبادلے کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan January 22, 2020
[email protected]

پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت سندھ پولیس کے سربراہ سے مایوس ہوگئی۔ صوبائی کابینہ کے سامنے آئی جی پولیس ڈاکٹرکلیم امام کی ناکامیوں کی فہرست پیش ہوئی۔ صوبائی کابینہ نے ڈاکٹر امام کے تبادلہ کے ساتھ متوقع آئی جی کے عہدے پر تعیناتی کے لیے تین نام تجویزکر دیے، مگر وفاق نے آئی جی کے تبادلے سے انکار کر دیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھاکہ وزیر اعظم کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا ہے، مگر حکومتی جماعت کے سندھ اسمبلی کے ارکان اور ایم کیو ایم نے تبادلے کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت 2008ء میں برسر اقتدار آئی تو سندھ میں کئی آئی جیزکا تقرر ہوا، مگر چند ایک کے سوا صوبائی حکومت اور آئی جی کے تعلقات کشیدہ ہونے سے سندھ پولیس کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان 2006ء میں میثاق جمہوریت ہوا تھا۔ اس میثاق میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا تھا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتی ہیں اور کوئی بھی جماعت دوسری جماعت کے اقتدار میں رخنہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ یہی وجہ تھی کہ 2008ء میں جب وفاق میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن نے حکومت بنائی تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے پنجاب کے انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جن افسروں کی پنجاب میں تعیناتی کی استدعا کی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے فوری طور پر نوٹی فکیشن جاری کیا۔

2010ء میں 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری کو آئینی حیثیت حاصل ہوئی اور یہ اصول تسلیم کرلیا گیا کہ صوبائی حکومت جن افسروں کی تعیناتی کی استدعا کرے گی وفاقی حکومت اس استدعا پر فوری کارروائی کرے گی ۔ یہ اصول مسلم لیگ ن کے وفاق میں اقتدار تک قائم رہا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے پولیس کے بنیادی قانون میں تبدیلی کی تھی اور پولیس ایکٹ 2002ء نافذ کیا گیا تھا۔ اس پولیس ایکٹ میں پہلی دفعہ عوامی نمایندوں کی پولیس کے نظام پر بالا دستی کا طریقہ کار قائم ہوا تھا۔ اس قانون کے تحت ٹاؤن کی سطح سے صوبائی سطح تک سیفٹی کمیشن کے قیام کی شقیں شامل کی گئی تھیں۔

سیفٹی کمیشن میں عوامی نمایندوں کو شامل کیا گیا تھا۔ آئی جی کے عہدے کی مدت تین سال مقررکی گئی ، سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اس قانون پر تھوڑ ا بہت عملدرآمد ہوا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو عوامی راج کے فوائد بیان کرنے والوں کو امید تھی کہ حکومت اس قانون کو مزید بہتر بنائے گی مگر صوبائی حکومت نے اس قانون کو معطل کردیا اور برطانوی ہند حکومت کا 1886ء کا قانون دوبارہ نافذ کردیا گیا۔ سندھ زیادہ عوامی نمایندگی کے بجائے بیوروکریسی کی بالادستی کی طرف کھسک گیا۔

جب کراچی میں امن وامان کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہوئی تو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس کے تحت مقدمے کی سماعت کی۔ اس وقت کے آئی جی واجد درانی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کے قریب تھے نے حلف نامے سپریم کورٹ میں داخل کیے تھے۔ حلف نامہ میں اقرار کیا کہ انھیں گریڈ 17 تا بالا کے افسران کے تقرر اور تبادلے کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ یہ اختیارات کبھی وزیر داخلہ، کبھی وزیر اعلیٰ اور کبھی اس با اثر قیادت کے پاس تھے جو زبانی حکم جاری کرتے ہیں۔ سندھ حکومت نے وفاق سے استدعا کی کہ ایک ایماندار شہرت کے حامل پولیس افسر اے ڈی خواجہ کو آئی جی مقرر کیا جائے۔ انھوں نے سندھ پولیس میں میرٹ کا اصول نافذ کیا۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پہلی دفعہ پولیس میں میرٹ پر بھرتیاں ہوئیں۔ سندھ حکومت نے اے ڈی خواجہ کے تبادلہ کا فیصلہ کیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے اے ڈی خواجہ کا تبادلہ روک دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے طویل عرصہ سماعت کے بعد فیصلہ کیا کہ قانون کے تحت آئی جی کے عہدے کی معیاد تین سال ہے، اس دوران متعلقہ افسر کا تبادلہ نہیں ہوسکتا۔ یوں 2018ء میں عبوری حکومت کے قیام تک اے ڈی خواجہ آئی جی کے عہدے پر فائز رہے مگر صوبائی حکومت اور اے ڈی خواجہ کے درمیان فاصلہ برقرار رہا۔

2018ء میں جب وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی۔ پنجاب کی حکومت نے نئے آئی جی کا تبادلہ ایک ماہ کی مدت میں کر دیا۔ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں کیا، مگر متعلقہ جج صاحب نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے استفادہ نہیں کیا، یوں خیبر پختون خوا اور پنجاب میں ایک سال میں کئی آئی جی آئے اور چلے گئے۔ سندھ حکومت نے پولیس کا ایک نیا قانون نافذ کیا۔ یہ قانون 2002ء کے قانون کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ مگر اس قانون میں پبلک سیفٹی کمیشن کا تقرر ہے۔ اس کمیشن میں عوامی نمایندوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمایندے شامل ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کی سفارش پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ڈاکٹر امام کو نیا آئی جی مقرر کیا۔ نئے آئی جی نے کچھ بنیادی اصلاحات رائج کرنے کی کوشش کی، مگر یہ کوشش بہت زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی۔ گزشتہ ڈیڑھ برسوں میں سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں جرائم کی شرح بڑھ گئی۔ کراچی شہر میں اسٹریٹ کرائم کی صورتحال خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔ آئی جی کے قریبی عزیز سڑک پر لٹ گئے۔ اس دوران پولیس کئی اہم مقدمات کو حل کرنے میں ناکام رہی۔ آئی جی اور سندھ حکومت کے مابین گزشتہ چھ ماہ کے دوران بعض پولیس افسروں کے تبادلے پر کشیدگی جاری تھی۔ آئی جی کا زیادہ وقت اسلام آباد میں گزرنے لگا۔ انھوں نے سیفٹی کمیشن کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کی۔

وزیر اعلیٰ کی قیادت میں کام کرنے والے سیفٹی کمیشن میں آئی جی کے خلاف قرارداد مذمت منظور ہوئی۔ البتہ اگلے اجلاس میں آئی جی کی وضاحت کے بعد یہ قرارداد واپس لے لی گئی ۔ اس وقت سندھ کے پولیس کے سربراہ اور صوبائی حکومت میں لڑائی کی نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں۔ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے ڈاکٹرکلیم امام کے خلاف مختلف الزامات پر مشتمل چارج شیٹ جاری کی۔

یہ خبر بھی عام ہوئی کہ ڈاکٹر کلیم امام نے 15 کے قریب سینئر پولیس افسروں پر رشوت، بدعنوانی اور نااہلیت کے الزامات کی بناء پر حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کی درخواست کی تھی۔ ان میں سے کچھ افسران پیپلز پارٹی کی حکومت کے منظور نظر سمجھے جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے فیصلے کے بعد آئی جی ایک دفعہ پھر متحرک ہوگئے ہیں ، پولیس اور کرائم رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کلیم امام کی ایمانداری پر کوئی سوال نہیں ہے ، شاید نظر نہ آنے والی قوتیں سندھ میں نیا کھیل ،کھیل رہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں