کچے دھاگے سے بندھی تلوار
آج پاکستانی صحافت پر جوکڑا وقت پڑا ہے، اس کے پس منظر میں احمد ندیم قاسمی کا ایک انٹرویو یاد آتا ہے۔
صحافت کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں رہی، لیکن ہمارے یہاں 1947 کے بعد سے صحافت آہستہ آہستہ کانٹوں کا بستر بن گئی۔ وہ لوگ جنھوں نے صحافت کو اختیار کیا، وہ ابتدا سے حکومت کی نگاہوں میں کھٹکتے رہے۔ ان دنوں ایک بار پھر صحافت اور صحافی نشانے پر ہیں۔
سی پی این ای (کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز) نے ایک رپورٹ شایع کی ہے جسے پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ 2019 کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 2019ء میں کم سے کم 7 صحافی قتل کیے گئے اور 60 پر اینٹی ٹیرر ازم اور دوسرے اسی نوعیت کے مقدمات بنائے گئے۔ پاکستانی آئین کی شق 19 اور اقوام متحدہ کے جاری کردہ انسانی حقوق کے میثاق پر دستخط کرنے کے باوجود صحافیوں کے گرد ریاستی دباؤکا پھندا تنگ ہوتا رہا اور میڈیا کی آزادی کا دعویٰ کرنے والی حکومت کی مضحکہ خیز تصویر لوگوں کو نظر آتی رہی۔
آج پاکستانی صحافت پر جوکڑا وقت پڑا ہے، اس کے پس منظر میں احمد ندیم قاسمی کا ایک انٹرویو یاد آتا ہے۔ وہ ایک معروف شاعر اور افسانہ نگار تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ صحافت سے بھی جڑے رہے۔ ان کے کالم بہت شوق سے پڑھے جاتے اور لوگ ان کی صحافیانہ تحریروں کا انتظار کرتے۔ اپنی زندگی کے ایک آخری انٹرویو میں انھوں نے آزادی صحافت کے حوالے سے کچھ باتیں کی تھیں اور آزادی صحافت کا دعویٰ کرنے والے اکابرین کو آئینہ دکھایا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ '' ہمارے دور میں امروز آزاد اخبار تھا اور ہمیں لکھنے کی مکمل آزادی تھی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اداریہ لکھا ہو اور میاں افتخار الدین نے اسے غلط کہا ہو۔
58ء میں مارشل لاء کی آمد کے ساتھ ہی '' امروز'' پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔ میں نے انتظامی افسر سرفراز احمد کی خواہش کے برعکس استعفیٰ دے دیا۔ قدرت اللہ شہاب نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی، میں راضی نہ ہوا۔ اس کے بعد نیشنل پریس ٹرسٹ نے لٹیا ہی ڈبو دی۔'' ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آزادیٔ اظہار کے اعتبار سے مثالی دور حکومت کونسا رہا تو انھوںنے کہا کہ اگست 47ء سے لے کر اکتوبر 58ء تک مثالی آزادی رہی۔ میں اس زمانے کے اپنے لکھے ہوئے کالم پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ حکومت وقت نے اسے کیسے برداشت کر لیا۔ آج اگر دو سطریں بھی لکھیں تو ارباب اقتدار پکڑ کر اندر کردیں۔ اس وقت آزادی اظہار ، اس لیے بھی تھی کہ تازہ تازہ جمہوریت ملی تھی۔ آزادی اظہار کے حوالے سے بھٹو اور ضیاء الحق کے دور کا موازنہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا بھٹو صاحب کے دور میں ہمیں بڑی آزادی حاصل تھی۔ بھٹو پر جو اعتراضات ہیں ان کی نوعیت سیاسی ہے۔
پاکستانی صحافت نے گزشتہ 72 برسوں میں جوکڑے کوس طے کیے ، ان کی وقایع نگاری ضمیر نیازی صاحب نے کی اور خوب کی۔ انگریزی اور اردو میں انھوں نے جوکتابیں لکھی ہیں وہ صحافیوں اور اس عام پاکستانی کے لیے چشم کشا ہیں جو میڈیا کی آزادی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ یہ حق اسے جمہوریت نے دیا ہے۔ اسی طرح احفاظ الرحمان نے بھی صحافیوں کی مزاحمت کی وقایع نگاری کی۔
ضمیر نیازی صحافت کی تاریخ لکھنے بیٹھے تو اپنی بات انھوں نے اٹھارہویں صدی سے شروع کی اور یہ لکھا کہ ابتدا سے برصغیر کی صحافت آزاد منش'بے باک اور بے دھڑک رہی ۔ جدید صحافت کے آغاز کا خیال ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ملازم ولیم بولٹ کو آیا تھا۔ جس نے 1767ء میں کلکتے سے ایک اخبار نکالنے کی کوشش کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ اس کے پاس ایسٹ انڈیا کمپنی کے اعلیٰ حکام کی سیاہ کاریوں کے بارے میں ثبوت وشواہد موجود ہیں۔ اس خیال کا صرف اظہار اس قدر ہنگامہ خیز ثابت ہوا کہ کمپنی کی افواج کے کمانڈر انچیف اور سیکرٹ کمیٹی کے ایک جنرل نے سیکرٹ کمیٹی کے نام اپنے خط میں لکھا کہ
'' ایک شخص ایسا ہے جس نے ہمارے صدر کو اس قدر توہین سے دوچار کردیا ہے کہ اگرمیں بورڈ کا رکن ہوتا تو آبادی کو اتنے خطرناک باشندے سے پاک کرنے کے لیے کمپنی کے تمام تر اقتدار کو استعمال میں لانے کی تحریک پیش کرتا۔''
اس نوعیت کے ''ریفرنس'' کے بعد ولیم بولٹ گرفتار ہوا۔ پہلے اسے بنگال بدرکیا گیا اور جب وہ مدراس چلا گیا تو وہاں بھی کمپنی بہادر نے اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیا اور اسے ہندوستان بدری کے احکامات ملے جس کے بعد وہ انگلستان جانے پر مجبور ہوگیا۔ ولیم بولٹ کی ملک بدری سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب سے 253 برس پہلے بھی سچی صحافت بد عنوان، سیاہ کار اور نااہل حکام کے لیے کتنا بڑا خطرہ تھی کہ ایک شخص نے رسالہ نکالنے کا صرف ارادہ ظاہرکیا تو اس ارادے کی تجسیم وتکمیل سے پہلے ہی اس شخص کو ملک بدر ہونا پڑا۔
آج ہم میں سے کتنوں کو یاد ہے کہ پاکستان بننے کے سات برس کے اندر صرف پنجاب میں 1947ء سے 1953ء کے درمیان 31 اخبار بند کیے گئے۔ پندرہ اخبارات ایک سال کے لیے بند کیے گئے۔ جب کہ ''نقوش'' ''سویرا'' اور ''ادب لطیف'' جیسے مستند اور مؤقر ادبی رسائل کی اشاعت پر 6 ماہ کے لیے پابندی عائد کی گئی۔ اس کے علاوہ پنجاب کے پندرہ اخبارات سے پانچ سو روپے سے لے کر دس ہزار روپے تک کی ضمانت طلب کی گئی۔
آج کراچی والوں کو کب یاد ہے کہ ان کے شہر سے 1956ء میں طلبہ نے ایک ادبی رسالہ '' لوح وقلم'' نکالا تھا جس کے مدیر مرحوم انور احسن صدیقی تھے جو اس زمانے میں ایس ایم کالج میں پڑھتے تھے۔ اس رسالے نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی اور اس کا شمار ملک کے اہم ادبی رسائل میں ہونے لگا۔ تین برس بعد دسمبر 1959ء میں امریکی صدر آئزن ہاور نے پاکستان میں قدم رنجہ فرمایا تو جس طرح آج باؤچر یا آرمٹیج صاحبان کی آمد کے موقعے پر '' خطرناک دہشت گرد''یا مار دیے جاتے ہیں یا گرفتار کرکے تحفے کے طور پر پیش کر دیے جاتے ہیں۔
بالکل اسی طرح آئزن ہارور صاحب کو تحفے کے طور پر ترقی پسندوں کی گرفتاریوں کی فہرست پیش کی گئی اور بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کمیونزم پھیلانے کا جرم کرتے ہیں۔ '' لوح و قلم''کا ڈیکلریشن منسوخ ہوا۔ اس کے مدیر انور احسن جیل بھیج دیے گئے اور جب رہا ہوئے تو ان پر یہ پابندی عائد کردی گئی کہ وہ آیندہ کوئی رسالہ نہیں نکال سکیں گے۔ کل امریکا '' کمیونزم ''کا راستہ روکنے کے لیے پاکستانی حکمرانوں کو استعمال کرتا تھا۔ آج ''دہشت گردی''روکنے اور ختم کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کی پشت پر امریکا بہادر کا دست شفقت رکھا ہوا ہے۔ 22مارچ 1982ء کو جنرل ضیاء الحق نے پاکستانی صحافیوںکو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا '' میں چاہوں تو تمام اخباروں کو بند کردوں ، پورے پانچ سال کے لیے بندکر دوں۔ اس کے خلاف کوئی فرد بھی آواز اٹھانے کے قابل نہیں ہوگا اور اگر انھوںنے کوئی جلسہ کرنے یا جلوس نکالنے کی کوشش کی تو میںسب کو جیل میں بند کردوں گا۔''
پاکستانی میڈیا کو جو آزادیٔ موہوم ملی، اس کی کہانی لکھی جائے تو ایک عبرتناک داستان سامنے آجاتی ہے۔ سی پی این ای نے 2019ء کے بارے میں جو رپورٹ شایع کی ہے اس میں ہمیں ان صحافیوں کے نام ملتے ہیں جو سچ بیان کرنے کے جرم میں اپنی زندگیاںہار گئے۔ ان اخباروں کے نام ہیں جنھیں ڈرایا دھمکایا جاتا رہا۔ ان اخباروں یا ٹیلی ویژن چینلز کاجرم صرف اتنا سا تھا کہ انھوں نے ایک عام پاکستانی کو حقائق بتانے چاہے تھے۔ وہ لوگ جنھوں نے یہ جرات کی وہ تہ خاک سوتے ہیں۔ لیکن ان کے قاتل، ان کے مجرم آزاد پھرتے ہیں۔
2019 کی اس رپورٹ میں ان اخباروں اور چینلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنھوں نے اپوزیشن رہنماؤں کی خبریں دیں یا ان کی ویڈیو دکھائی۔ کسی پر 10 لاکھ جرمانہ ہوا اور کسی کو دباؤ میں لانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔60 صحافیوں پر اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، قاتلانہ حملے کرنے اور بلیک میلنگ کے الزامات لگائے گئے۔ جن صحافیوں پر یہ الزامات لگائے گئے ان کا کہنا ہے کہ انھیں یہ سزا اس لیے دی گئی کہ انھوں نے مقتدر اور بااثر افراد کی بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔
ایک طرف پاکستانی میڈیا پر یہ عذاب ہیں، دوسری طرف نوم چومسکی ہے جو ہمارے عہد کا ایک بڑا دانشور ، فلسفی اور ماہرلسانیات ہے، وہ امریکی شہری ہے۔ اپنے دو ٹوک اظہار کی بناء پر اسے ناپسند کیا جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ بات صحافیوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ سچ لکھیں، صحافت کا یہ مطلب ہے کہ حقائق کو تلاش کیا جائے۔ متعلقہ دستاویزات کو کھنگالا جائے اور جب صحافی کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو وہ اس میں کسی نوعیت کی تبدیلی کے بغیر اسے پڑھنے والوں کے سامنے رکھ دے۔
پاکستانی میڈیا سے وابستہ نوجوان صحافی اگر نوم چومسکی اور ان جیسے دوسرے دانشوروں کی بات مانتے ہیں تو سزائیں اور بعض حالات میں موت ان کی منتظر ہے۔ وہ اگر مقتدرین کا ''شامل باجا'' ہوجائیں تولوگوں کی نظر سے گرتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ صحافت تاریخ کا پہلا رف ڈرافٹ ہے لیکن اس رف ڈرافت کو بھی مقتدرین برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ میڈیا سے وابستہ افراد یہ جانتے ہیں کہ صحافت، جمہوریت کو راہ راست پر رکھتی ہے اور رجعت پسند سماج کو تبدیل کرنے کی طاقت اس کے پاس ہے، اسی خوف کے سبب ان کے سر پر یونانی اساطیر کی کہانی ڈیما کلیزکی تلوار لٹکا دی گئی ہے جو کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے اور کسی بھی لمحے ان کے سر پر گرسکتی ہے۔ وہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیا کریں اور کہاں جائیں۔
سی پی این ای (کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز) نے ایک رپورٹ شایع کی ہے جسے پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ 2019 کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 2019ء میں کم سے کم 7 صحافی قتل کیے گئے اور 60 پر اینٹی ٹیرر ازم اور دوسرے اسی نوعیت کے مقدمات بنائے گئے۔ پاکستانی آئین کی شق 19 اور اقوام متحدہ کے جاری کردہ انسانی حقوق کے میثاق پر دستخط کرنے کے باوجود صحافیوں کے گرد ریاستی دباؤکا پھندا تنگ ہوتا رہا اور میڈیا کی آزادی کا دعویٰ کرنے والی حکومت کی مضحکہ خیز تصویر لوگوں کو نظر آتی رہی۔
آج پاکستانی صحافت پر جوکڑا وقت پڑا ہے، اس کے پس منظر میں احمد ندیم قاسمی کا ایک انٹرویو یاد آتا ہے۔ وہ ایک معروف شاعر اور افسانہ نگار تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ صحافت سے بھی جڑے رہے۔ ان کے کالم بہت شوق سے پڑھے جاتے اور لوگ ان کی صحافیانہ تحریروں کا انتظار کرتے۔ اپنی زندگی کے ایک آخری انٹرویو میں انھوں نے آزادی صحافت کے حوالے سے کچھ باتیں کی تھیں اور آزادی صحافت کا دعویٰ کرنے والے اکابرین کو آئینہ دکھایا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ '' ہمارے دور میں امروز آزاد اخبار تھا اور ہمیں لکھنے کی مکمل آزادی تھی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اداریہ لکھا ہو اور میاں افتخار الدین نے اسے غلط کہا ہو۔
58ء میں مارشل لاء کی آمد کے ساتھ ہی '' امروز'' پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔ میں نے انتظامی افسر سرفراز احمد کی خواہش کے برعکس استعفیٰ دے دیا۔ قدرت اللہ شہاب نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی، میں راضی نہ ہوا۔ اس کے بعد نیشنل پریس ٹرسٹ نے لٹیا ہی ڈبو دی۔'' ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آزادیٔ اظہار کے اعتبار سے مثالی دور حکومت کونسا رہا تو انھوںنے کہا کہ اگست 47ء سے لے کر اکتوبر 58ء تک مثالی آزادی رہی۔ میں اس زمانے کے اپنے لکھے ہوئے کالم پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ حکومت وقت نے اسے کیسے برداشت کر لیا۔ آج اگر دو سطریں بھی لکھیں تو ارباب اقتدار پکڑ کر اندر کردیں۔ اس وقت آزادی اظہار ، اس لیے بھی تھی کہ تازہ تازہ جمہوریت ملی تھی۔ آزادی اظہار کے حوالے سے بھٹو اور ضیاء الحق کے دور کا موازنہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا بھٹو صاحب کے دور میں ہمیں بڑی آزادی حاصل تھی۔ بھٹو پر جو اعتراضات ہیں ان کی نوعیت سیاسی ہے۔
پاکستانی صحافت نے گزشتہ 72 برسوں میں جوکڑے کوس طے کیے ، ان کی وقایع نگاری ضمیر نیازی صاحب نے کی اور خوب کی۔ انگریزی اور اردو میں انھوں نے جوکتابیں لکھی ہیں وہ صحافیوں اور اس عام پاکستانی کے لیے چشم کشا ہیں جو میڈیا کی آزادی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ یہ حق اسے جمہوریت نے دیا ہے۔ اسی طرح احفاظ الرحمان نے بھی صحافیوں کی مزاحمت کی وقایع نگاری کی۔
ضمیر نیازی صحافت کی تاریخ لکھنے بیٹھے تو اپنی بات انھوں نے اٹھارہویں صدی سے شروع کی اور یہ لکھا کہ ابتدا سے برصغیر کی صحافت آزاد منش'بے باک اور بے دھڑک رہی ۔ جدید صحافت کے آغاز کا خیال ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ملازم ولیم بولٹ کو آیا تھا۔ جس نے 1767ء میں کلکتے سے ایک اخبار نکالنے کی کوشش کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ اس کے پاس ایسٹ انڈیا کمپنی کے اعلیٰ حکام کی سیاہ کاریوں کے بارے میں ثبوت وشواہد موجود ہیں۔ اس خیال کا صرف اظہار اس قدر ہنگامہ خیز ثابت ہوا کہ کمپنی کی افواج کے کمانڈر انچیف اور سیکرٹ کمیٹی کے ایک جنرل نے سیکرٹ کمیٹی کے نام اپنے خط میں لکھا کہ
'' ایک شخص ایسا ہے جس نے ہمارے صدر کو اس قدر توہین سے دوچار کردیا ہے کہ اگرمیں بورڈ کا رکن ہوتا تو آبادی کو اتنے خطرناک باشندے سے پاک کرنے کے لیے کمپنی کے تمام تر اقتدار کو استعمال میں لانے کی تحریک پیش کرتا۔''
اس نوعیت کے ''ریفرنس'' کے بعد ولیم بولٹ گرفتار ہوا۔ پہلے اسے بنگال بدرکیا گیا اور جب وہ مدراس چلا گیا تو وہاں بھی کمپنی بہادر نے اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیا اور اسے ہندوستان بدری کے احکامات ملے جس کے بعد وہ انگلستان جانے پر مجبور ہوگیا۔ ولیم بولٹ کی ملک بدری سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب سے 253 برس پہلے بھی سچی صحافت بد عنوان، سیاہ کار اور نااہل حکام کے لیے کتنا بڑا خطرہ تھی کہ ایک شخص نے رسالہ نکالنے کا صرف ارادہ ظاہرکیا تو اس ارادے کی تجسیم وتکمیل سے پہلے ہی اس شخص کو ملک بدر ہونا پڑا۔
آج ہم میں سے کتنوں کو یاد ہے کہ پاکستان بننے کے سات برس کے اندر صرف پنجاب میں 1947ء سے 1953ء کے درمیان 31 اخبار بند کیے گئے۔ پندرہ اخبارات ایک سال کے لیے بند کیے گئے۔ جب کہ ''نقوش'' ''سویرا'' اور ''ادب لطیف'' جیسے مستند اور مؤقر ادبی رسائل کی اشاعت پر 6 ماہ کے لیے پابندی عائد کی گئی۔ اس کے علاوہ پنجاب کے پندرہ اخبارات سے پانچ سو روپے سے لے کر دس ہزار روپے تک کی ضمانت طلب کی گئی۔
آج کراچی والوں کو کب یاد ہے کہ ان کے شہر سے 1956ء میں طلبہ نے ایک ادبی رسالہ '' لوح وقلم'' نکالا تھا جس کے مدیر مرحوم انور احسن صدیقی تھے جو اس زمانے میں ایس ایم کالج میں پڑھتے تھے۔ اس رسالے نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی اور اس کا شمار ملک کے اہم ادبی رسائل میں ہونے لگا۔ تین برس بعد دسمبر 1959ء میں امریکی صدر آئزن ہاور نے پاکستان میں قدم رنجہ فرمایا تو جس طرح آج باؤچر یا آرمٹیج صاحبان کی آمد کے موقعے پر '' خطرناک دہشت گرد''یا مار دیے جاتے ہیں یا گرفتار کرکے تحفے کے طور پر پیش کر دیے جاتے ہیں۔
بالکل اسی طرح آئزن ہارور صاحب کو تحفے کے طور پر ترقی پسندوں کی گرفتاریوں کی فہرست پیش کی گئی اور بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کمیونزم پھیلانے کا جرم کرتے ہیں۔ '' لوح و قلم''کا ڈیکلریشن منسوخ ہوا۔ اس کے مدیر انور احسن جیل بھیج دیے گئے اور جب رہا ہوئے تو ان پر یہ پابندی عائد کردی گئی کہ وہ آیندہ کوئی رسالہ نہیں نکال سکیں گے۔ کل امریکا '' کمیونزم ''کا راستہ روکنے کے لیے پاکستانی حکمرانوں کو استعمال کرتا تھا۔ آج ''دہشت گردی''روکنے اور ختم کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کی پشت پر امریکا بہادر کا دست شفقت رکھا ہوا ہے۔ 22مارچ 1982ء کو جنرل ضیاء الحق نے پاکستانی صحافیوںکو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا '' میں چاہوں تو تمام اخباروں کو بند کردوں ، پورے پانچ سال کے لیے بندکر دوں۔ اس کے خلاف کوئی فرد بھی آواز اٹھانے کے قابل نہیں ہوگا اور اگر انھوںنے کوئی جلسہ کرنے یا جلوس نکالنے کی کوشش کی تو میںسب کو جیل میں بند کردوں گا۔''
پاکستانی میڈیا کو جو آزادیٔ موہوم ملی، اس کی کہانی لکھی جائے تو ایک عبرتناک داستان سامنے آجاتی ہے۔ سی پی این ای نے 2019ء کے بارے میں جو رپورٹ شایع کی ہے اس میں ہمیں ان صحافیوں کے نام ملتے ہیں جو سچ بیان کرنے کے جرم میں اپنی زندگیاںہار گئے۔ ان اخباروں کے نام ہیں جنھیں ڈرایا دھمکایا جاتا رہا۔ ان اخباروں یا ٹیلی ویژن چینلز کاجرم صرف اتنا سا تھا کہ انھوں نے ایک عام پاکستانی کو حقائق بتانے چاہے تھے۔ وہ لوگ جنھوں نے یہ جرات کی وہ تہ خاک سوتے ہیں۔ لیکن ان کے قاتل، ان کے مجرم آزاد پھرتے ہیں۔
2019 کی اس رپورٹ میں ان اخباروں اور چینلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنھوں نے اپوزیشن رہنماؤں کی خبریں دیں یا ان کی ویڈیو دکھائی۔ کسی پر 10 لاکھ جرمانہ ہوا اور کسی کو دباؤ میں لانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔60 صحافیوں پر اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، قاتلانہ حملے کرنے اور بلیک میلنگ کے الزامات لگائے گئے۔ جن صحافیوں پر یہ الزامات لگائے گئے ان کا کہنا ہے کہ انھیں یہ سزا اس لیے دی گئی کہ انھوں نے مقتدر اور بااثر افراد کی بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔
ایک طرف پاکستانی میڈیا پر یہ عذاب ہیں، دوسری طرف نوم چومسکی ہے جو ہمارے عہد کا ایک بڑا دانشور ، فلسفی اور ماہرلسانیات ہے، وہ امریکی شہری ہے۔ اپنے دو ٹوک اظہار کی بناء پر اسے ناپسند کیا جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ بات صحافیوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ سچ لکھیں، صحافت کا یہ مطلب ہے کہ حقائق کو تلاش کیا جائے۔ متعلقہ دستاویزات کو کھنگالا جائے اور جب صحافی کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو وہ اس میں کسی نوعیت کی تبدیلی کے بغیر اسے پڑھنے والوں کے سامنے رکھ دے۔
پاکستانی میڈیا سے وابستہ نوجوان صحافی اگر نوم چومسکی اور ان جیسے دوسرے دانشوروں کی بات مانتے ہیں تو سزائیں اور بعض حالات میں موت ان کی منتظر ہے۔ وہ اگر مقتدرین کا ''شامل باجا'' ہوجائیں تولوگوں کی نظر سے گرتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ صحافت تاریخ کا پہلا رف ڈرافٹ ہے لیکن اس رف ڈرافت کو بھی مقتدرین برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ میڈیا سے وابستہ افراد یہ جانتے ہیں کہ صحافت، جمہوریت کو راہ راست پر رکھتی ہے اور رجعت پسند سماج کو تبدیل کرنے کی طاقت اس کے پاس ہے، اسی خوف کے سبب ان کے سر پر یونانی اساطیر کی کہانی ڈیما کلیزکی تلوار لٹکا دی گئی ہے جو کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے اور کسی بھی لمحے ان کے سر پر گرسکتی ہے۔ وہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیا کریں اور کہاں جائیں۔