آٹا بحران کے پس پردہ حقائق سے حکومت پریشان ہو گئی

حکومت کو ملنے والی رپورٹ چشم کشا اور ایک بڑا سیاسی تنازعہ ہے۔


رضوان آصف January 22, 2020
حکومت کو ملنے والی رپورٹ چشم کشا اور ایک بڑا سیاسی تنازعہ ہے۔

ملک بھر میں آٹا بحران کے معاملے پر گزشتہ چند روز میں میڈیا اور اپوزیشن نے بھرپور ''ریٹنگ'' انجوائے کی ہے اور دانستہ طور پر حقیقی اعدادوشمار اور حقائق کو نظر انداز یا غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ٹی وی چینلز پر بہت سے ''جید اصحاب رائے''بوگس اعدادوشمار کے ساتھ بحران پیدا ہونے کے ایسے ایسے جواز پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں جنہیں سن کر ہنسنے کی بجائے ان اصحاب کی عقل پر رونے کو جی چاہتا ہے۔

سندھ میں بحران سندھ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے گندم خریداری نہ کرنے اور پاسکو کی گندم کی سست لفٹنگ کی وجہ سے آیا جبکہ خیبر پختونخوا ہمیشہ سے پنجاب کا آٹا زیادہ استعمال کرتا ہے لہذا وہاں پنجاب سے سپلائی کم ہونے کی وجہ سے بحران پیدا ہوا لیکن پنجاب میں آٹے کا بحران پیدا کروانے میں چند بیوروکریٹس کی کمزور قوت فیصلہ، کارکردگی دکھانے کے ایڈونچر میں اہم اقدامات میں دانستہ تاخیر کے ساتھ ساتھ حکومت کی اتحادی ایک جماعت کی محکمہ خوراک پنجاب کے معاملات بالخصوص لاہور، راولپنڈی کی فلورملز کو گندم کوٹہ کے تعین میں سیاسی مداخلت اور محکمہ خوراک کے افسروں پر دباو نے اہم کردار نبھایا ہے ورنہ پنجاب میں گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔ محکمہ خوراک کے سینئر افسر اتحادی جماعت کا دباو برداشت کرنے کی بجائے بوکھلاہٹ میں ان کی مرضی کے فیصلے کرتے رہے جس کی وجہ سے پنجاب کی اوپن مارکیٹ میں آٹے کی قلت پیدا ہوئی۔

یاد رہے کہ حکومت کی اتحادی اہم شخصیات کا بھی برسوں پرانا فلورملنگ بزنس موجود ہے۔ اس حوالے سے حقائق اور سیاسی مداخلت کے متعلق اہم رپورٹ وزیرا عظم عمران خان، جہانگیر خان ترین، چیف سیکرٹری پنجاب میجر(ر) اعظم سلیمان سمیت حساس اداروں کے پاس پہنچ چکی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق نومبر2019 ئکے وسط تک لاہور کی اوپن مارکیٹ میں گندم 1550 روپے فی من قیمت تک دستیاب تھی اور فلور ملز سرکاری کوٹے کے علاوہ نجی گندم کی پسائی کر کے مارکیٹ میں آٹا فروخت کر رہی تھیں جس کی وجہ سے پشاور جانے والے آٹے کا کوئی منفی اثر مقامی مارکیٹ پر نہیں آرہا تھا۔

نومبر کے آخری ہفتے میں اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو فلورملز ایسوسی ایشن نے محکمہ خوراک کو آگاہ کیا کہ اب یومیہ گندم کوٹہ بڑھا دینا چاہئے، اس وقت لاہور کی فلورملز کو50 بوری فی رولر باڈی یومیہ کوٹہ مل رہا تھا جبکہ راولپنڈی کی ملز سمیت ڈویژنل ہیڈ کوارٹر اضلاع کو 25 بوری اور باقی اضلاع کی فلورملز کو 20 بوری فی باڈی یومیہ گندم کوٹہ دیا جا رہا تھا، اسی عرصہ میں مبینہ طور پر حکومت کی اتحادی جماعت کی اہم شخصیت نے اس وقت کے سیکرٹری فوڈ کو فون کر کے کہا کہ لاہور کی فلورملز کا کوٹہ کم اور راولپنڈی کی فلورملز کا کوٹہ بڑھایا جائے لیکن ڈائریکٹر فوڈ پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ راولپنڈی کا کوٹہ بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ پنڈی کی فلورملز بہت زیادہ آٹا پشاور بھیجتی ہیں اور حکومت کی اربوں روپے کی سبسڈی بیکار جاتی ہے اس موقع پر فلورملز ایسوسی ایشن کو محکمہ کی جانب سے کہا گیا کہ ہم تو لاہور کا کوٹہ بڑھانا چاہتے ہیں لیکن پنڈی کی وجہ سے ہم پر دباو ہے۔

چند روز بعد اتحادی جماعت کے ایک صوبائی وزیر نے محکمہ خوراک کے ایک افسر کو فون کیا اور پنڈی کی فلور ملز کا کوٹہ نہ بڑھانے پر سخت رویہ اپناتے ہوئے اصرار کیا کہ لاہور کی ملز کا یومیہ کوٹہ 10 بوری کم کیا جائے اور پنڈی کی ملز کا 10 بوری بڑھایا جائے جس کے بعد محکمہ خوراک کے حکام نے اپنی جان چھڑوانے کیلئے درمیانی راستہ اپناتے ہوئے لاہور کی فلورملز کا یومیہ کوٹہ 50 سے کم کرکے 45 بوری فی رولر باڈی کردیا جبکہ راولپنڈی کی فلورملز کا کوٹہ 25 بوری سے بڑھا کر 30 بوری فی رولر باڈی کردیا گیا۔

29 نومبر کو سیکرٹری فوڈ پنجاب ظفر نصر اللہ تبدیل ہو گئے اور وقاص علی محمود نئے سیکرٹری فوڈ تعینات ہوئے۔دسمبر کے پہلے ہفتے میں اوپن مارکیٹ میں گندم کے سٹاکس شدید کم ہونے سے نجی گندم کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی اور 1625 روپے سے بڑھ گئی اس موقع پر فلورملز نے دوبارہ مطالبہ کیا کہ قلت بڑھنے کا خدشہ ہے لہذا کوٹہ بڑھایا جائے اسی دوران پھر ایک حکومتی شخصیت نے سیکرٹری فوڈ کو دوبارہ فون کر کے کہا کہ لاہور کا کوٹہ نہیں بڑھانا، راولپنڈی کا بڑھائیں، فلورملز ایسوسی ایشن کو حکومتی شخصیت کے مطالبے بارے محکمہ کی جانب سے آگاہ کیا گیا تو ایسوسی ایشن نے کہا کہ لاہور کو چھوڑ کر باقی اضلاع کا کوٹہ بڑھا دیں کیونکہ مارکیٹ میں قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اسی دوران گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے فلور ملر اور مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی نے سیکرٹری فوڈ سے کہا کہ گوجرانوالہ کی ملیں کم قیمت پر لاہور کیلئے آٹا فراہم کرنے کو تیار ہیں۔

چند روز قبل تعینات ہونے والے سیکرٹری فوڈ نے اپنی کارکردگی بہتر دکھانے کی خاطر یہ آئیڈیا اپناتے ہوئے فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ آٹے کی قیمت کم کروانے کیلئے مذاکرات شروع کر دیئے اور ایسوسی ایشن پر دباو بڑھانے کیلئے گندم کوٹہ میں اضافہ میں تاخیر کو بطور پریشر ٹول استعمال کیا۔ 15 دن تک جاری اس معاملے کے دوران اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت1700 سے 1950 روپے فی من تک پہنچ گئی، لاہور کی 10 سے15 ایسی فلورملز جو نجی گندم کی پسائی کر کے مارکیٹ میں زیادہ آٹا فراہم کرتی تھیں انہوں نے نجی گندم پسائی بند کردی، پشاور کوآٹا جاتا رہااور لاہور کی مارکیٹ میں آٹا ختم ہو گیا۔کوٹہ بڑھانے کے موقع پر ایک مرتبہ پھر اتحادی جماعت کی ایک حکومتی شخصیت نے ایک اہم فوڈ افسر کو فون کیا اور کہا کہ ان کی فلورمل کا منیجر انہیں فون کر رہا ہے جو وہ کہتا ہے اس کے مطابق کوٹہ بڑھائیں۔

مل منیجر نے سیکرٹری فوڈ سے مطالبہ کیا کہ راولپنڈی کی فلور ملز کو35 بوری گندم کوٹہ پنڈی میں محکمہ خوراک کے گوداموں سے دیا جائے لیکن ڈائریکٹر فوڈ نے انکار کر دیا اور کہا کہ گندم کی ٹرانسپورٹیشن پر آنے والے اخراجات کے سبب ایسا ممکن نہیں ہے اور ملز کو 25 بوری پنڈی کے گوداموں سے اور 10 بوری سرگودھا کے گوداموں سے اٹھانا ہو گی جس پر مل منیجر نے کہا کہ آپ راولپنڈی کی ملز کا کوٹہ 30 ہی رہنے دیں لیکن پنڈی سے ہی گندم دیں چنانچہ پورے پنجاب کا کوٹہ 5 بوری بڑھا لیکن پنڈی میں نہیں بڑھایا گیا جس کی وجہ سے پنڈی میں آٹا بحران سنگین ہوگیا۔ اب دو روز قبل محکمہ خوراک نے پنڈی کی ملز کا کوٹہ 30 سے بڑھا کر35 بوری کردیا ہے اور اضافی 5 بوریاں سرگودھا سے اٹھانے کو کہا گیا ہے حالانکہ کابینہ کی منظور کردہ ریلیز پالیسی کے مطابق پنڈی کی ملز کو 10 اضافی بوریوں کا کوٹہ سرگودھا سے اٹھانا چاہئے۔

چکی مالکان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ آڑھتیوں سے جو گندم خریدتے ہیں وہ اوپن مارکیٹ کی عام قیمت سے200 روپے تک زیادہ ہوتی ہے کیونکہ چکی مالکان صفائی شدہ گندم خریدتے ہیں ۔ اوپن مارکیٹ میں جب گندم کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی تو چکی مالکان کو بھی مالی دباو کا سامنا کرنا پڑا۔ چکی مالکان ایسوسی ایشن کے احتجاج پر ڈپٹی کمشنر لاہور نے ان کے ساتھ میٹنگ کے بعد چکی آٹا کی قیمت میں 4 روپے اضافہ کرتے ہوئے قیمت 60 روپے سے بڑھا کر 64 روپے فی کلو کردی تھی۔ جب اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 1950 روپے فی من تک پہنچ گئی تو چکی مالکان کو صاف شدہ گندم 2100 روپے من میں خریدنا پڑی اور انہوں نے از خود فیصلہ کرتے ہوئے چکی آٹا کی قیمت میں 6 روپے اضافہ کرتے ہوئے قیمت 64 روپے سے بڑھا کر 70 روپے فی کلو کردی جس نے میڈیا میں بحران اور آٹا مہنگا ہونے کا تاثر پیدا کردیا اور پھر اپوزیشن جماعتیں بھی اس میں شامل ہوگئیں اور انہوں نے سفید آٹا اور چکی آٹا میں فرق کو دانستہ طور پر نظر انداز کرتے ہوئے آٹا مہنگا ہونے بارے بیانات دینا شروع کردیئے۔

حکومت کو ملنے والی رپورٹ چشم کشا اور ایک بڑا سیاسی تنازعہ ہے،آٹا بحران پر قابو پانے کے حوالے سے وزیرا عظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین، چیف سیکرٹری پنجاب، وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی ہاشم پوپلزئی نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ 17 ماہ سے عمران خان حکومت کے ستائے میڈیا کا ایک حصہ اور اپوزیشن انگلش والےCUP کوسپ (سانپ) ہی کہنے پر مصر ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں