وزیر اعظم کی مداخلت خیبر پختونخوا کو پنجاب سے آٹے کی ترسیل جاری

دوسری مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایک ہی پارٹی کے برسراقتدار ہونے کے باوجودیہ مسلہ پیدا ہوا۔

تاریخ میں دوسری مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایک ہی پارٹی کے برسراقتدار ہونے کے باوجود یہ مسلہ پیدا ہوا۔

خیبرپختونخوا میں آٹے کی قلت، مہنگا ہونے اور نانبائیوں کی جانب سے ہڑتال نے حکومت کے لیے بے پناہ مسائل پیدا کیے ہیں اور حکومت کواس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ خصوصی اقدامات کرتے ہوئے معاملات کو کنٹرول میں لے جس کی اصل ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے ماضی کا وطیرہ اپناتے ہوئے ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا کے لیے فائن اور سپر فائن آٹے کی ترسیل پر پابندی عائد کردی جس کی وجہ سے کے پی میں عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

پنجاب کی جانب سے ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ آٹے کی ترسیل پر پابندی عائد کی گئی ہو بلکہ پنجاب ہر چند سالوں کے بعد ایسا ہی کرتا ہے اور خیبرپختونخوا کے لیے فائن اور سپر فائن آٹے کی ترسیل پر پابندی عائد کردیتا ہے جس کی وجہ سے کے پی میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، اس کے لیے مشکلات ضرور پیدا ہوتی ہیں اور حکومت کو غیر معمولی اقدامات کرتے ہوئے صورت حال کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے تاہم تاریخ میں دوسری مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایک ہی پارٹی کے برسراقتدار ہونے کے باوجود یہ مسلہ پیدا ہوا۔ نوے کی دہائی کے اواخر میں جب میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم اور شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔

اس وقت پنجاب نے خیبرپختونخوا کے لیے آٹے کی ترسیل بند کردی تھی جس کی وجہ سے ماہ رمضان ہونے کے باعث کے پی میں لوگ گھنٹوں قطاروں میں لگے آٹا لینے پر مجبور تھے،خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن ہی کے سردار مہتاب وزیراعلیٰ تھے تاہم خوراک کا محکمہ اے این پی کے پاس تھا اس لیے صرف مسلم لیگ ن کو نہیں بلکہ اے این پی کو بھی مخالفین کی جانب سے خوب،خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھاجبکہ اب ایک مرتبہ پھر بیس، بائیس سالوں کے بعد مرکز، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ایک ہی پارٹی یعنی پاکستان تحریک انصاف برسراقتدار ہے اور پنجاب نے خیبرپختونخوا کے لیے آٹے کی ترسیل پر پابندی عائد کی جو اگرچہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور وزیراعظم کی مداخلت کے باعث ختم ہوگئی ہے تاہم اس صورت حال سے یقینی طور پر پی ٹی آئی کی بدنامی ہوئی ہے کیونکہ تینوں جگہوں پر ایک ہی پارٹی برسراقتدار ہو اور اس کے باوجود ایسی صورت حال پیدا ہو تو بھلے اس بارے میں لاکھ صفائیاں دی جائیں بات بنتی نہیں ۔

خیبرپختونخوا حکومت ایک جانب توآٹے، گندم اور نانبائیوں کے حوالے سے الجھی ہوئی ہے تو دوسری جانب سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر کو60 سے بڑھاکر63 سال کرنے اوردیوانی مقدمات کے طریقہ کار میں تبدیلی کے معاملات بھی حکومت کے گلے میں چبھن پیدا کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ان دونوں ایشوز کے حوالے سے الگ موقف اپناتے ہوئے سانس لینے کے لیے گنجائش پیدا کی ہے ، دیوانی مقدمات کے طریقہ کار میں تبدیلی کے خلاف چونکہ وکلاء برادری مسلسل سراپا احتجاج اور ہڑتال پر ہے اس لیے صوبائی حکومت نے درمیانی راہ نکالتے ہوئے تین ماہ کے لیے قانون میں کی گئی ترامیم پر عمل درآمد روکنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے تاکہ ان تین مہینوں میں وکلاء سے مشاورت کرتے ہوئے قانون میں ضروری ترامیم کی جا سکیں۔


مذکورہ مشاورت قانون میں ترمیم سے قبل ہونی چاہیے تھی تاہم شاید صوبائی حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ وکلاء کا ردعمل اس قدر شدید ہو سکتا ہے اس لیے انہوں نے اسمبلی سے بل منظور کرایا اور گورنر نے دستخط کردیئے تاہم اب اس حوالے سے مشاورت شروع ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں اس قانون میں مزید ترامیم کی جائیں گی ۔ دوسری جانب سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میںاضافہ کا معاملہ بھی تنازعہ کی شکل میں موجود تھا تاہم صوبائی حکومت اس معاملے میں ڈٹ گئی ہے اور سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کو تین سال تک بڑھانے کے حوالے سے جو ترمیمی قانون منظور کرایا گیا ہے۔

اس پر عمل درآمد کرایا جائے گا، اگر صوبائی حکومت اس معاملے میں پس وپیش کا شکار ہوتی یا اپنے فیصلے سے واپس ہوتی تو اس سے مزید مسائل پیدا ہوتے اسی لیے حکومت نے اپنے فیصلے پرقائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ مذکورہ فیصلے سے تین سالوں میں54 ارب کی بچت متوقع ہے جبکہ اس کے بعد کے سالوں میں بھی صوبائی حکومت کو سالانہ بارہ سے تیرہ ارب کی بچت متوقع ہے اور یہ سارا پیسہ ترقیاتی کاموں کی طرف منتقل کیا جائے گا اسی لیے حکومت نے اس معاملے میں سٹینڈ لیتے ہوئے اسے نافذ کرنے کافیصلہ کیا ہے جس سے یہ تنازعہ ختم ہو جاتا ہے اور تمام اداروں اور محکموں کو اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا تاہم یہ ضروری نہیں کہ جو قانون خیبرپختونخوا میں منظور ہوا ہے وہی قانون مرکز، پنجاب یا دیگر صوبوں میں بھی منظور کیا جائے کیونکہ مرکز اور ہر صوبہ قانون سازی کے معاملے میں خودمختار اور آزاد ہے اور ہر کوئی اپنی ترجیحات کے مطابق ہی قانون سازی کرے گا۔

قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا میںانضمام کے باوجود وہاں مسائل موجود ہیں اور ان مسائل کا حل تلاش نہ کرنے کی وجہ سے وہاں کے اراکین اسمبلی، صوبائی اسمبلی میں احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جس کی بڑی اور بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن ارکان کو نظر انداز کرنا ہے، اسمبلی کے فلور پر دو مرتبہ اعلان کیا گیا کہ صوبائی وزیر قانون قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ساتھ نشست کرتے ہوئے ان کی بات بھی سنیں گے اور ان کے مسائل بھی حل کیے جائیں گے اور ان کے مطالبات پر غور بھی کیا جائے گا تاہم اس کے باوجود نہ تو وزیرقانون، قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان کے ساتھ نشست کر سکے اور نہ ہی ان ارکان کے مطالبات کو سنا جا سکا جس کی وجہ سے امکان تو یہی ہے کہ 27 جنوری سے جب خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوگا تو قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان ایک مرتبہ پھر احتجاج کریں گے حکومت کو اپنے ارکان کے ساتھ اپوزیشن کے ارکان کے ساتھ بھی نشست کرتے ہوئے ان کی بات سننی چاہیے کیونکہ ان کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے ۔

تاہم حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اب تک بلوچستان عوامی پارٹی کے بارے میں بھی فیصلہ نہیں کر سکی کہ اسے اپوزیشن میں رکھنا ہے یا حکومت میں اپنے ساتھ شامل کرنا ہے،کابینہ میں توسیع کے موقع پر بھی باپ کو نظرانداز کیا گیا تاہم باپ کے ارکان امید سے ہیں کہ انھیں جلد حکومت کا حصہ بنا لیا جائے گا تاہم اگر باپ کے ارکان حکومت کا حصہ بنے بھی تو اب ان کے لیے وزارت کوئی نہیں بچی اس لیے انھیں مشیر، معاونین خصوصی اور پارلیمانی سیکرٹریز کے عہدوں پر ہی اکتفاء کرنا پڑے گا، دوسری جانب اے این پی جو پارلیمان میں حالیہ قانون سازی کی حمایت کی وجہ سے قدرے بیک فٹ پر آئی تھی اس کے ہاتھ خدائی خدمت گار باچاخان اور ولی خان کی برسیوں کے سلسلے میں جلسوں اور تقریبات کے ذریعے خوب موقع ہاتھ آیا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے ورکروں تک بھی اپنی بات پہنچائیںبلکہ ساتھ ہی حکومت کو بھی لتاڑ سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان جو شدید علیل ہیں ، وہ اپنی علالت کے پرواہ نہ کرتے ہوئے امان گڑھ نوشہرہ میں منعقد ہونے والے جلسے میں شریک ہوئے اور امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ دیگر تینوں بڑے جلسوں میں بھی شریک ہونگے جو بنوں ، بٹ خیلہ اور ایبٹ آباد میں منعقد ہونگے کیونکہ اے این پی اس نقصان کی ہر صورت ریکوری کرنا چاہتی ہے جو اسے گزشتہ دوعام انتخابات میں ہوا جبکہ اس طریقے سے اے این پی آنے والے بلدیاتی انتخابات کے لیے بھی میدان ہموار کر لے گی اور اس کے ورکر بلدیاتی انتخابات کے لیے متحرک ہونگے تاہم اس کے ساتھ اے این پی کو پارٹی کے اندر موجود اختلافات کا بھی بہرکیف خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ ان کی صف بندی مناسب انداز سے ہو سکے ۔
Load Next Story