اصلاحات ناگزیر ہیں پاکستان میں کوئی بھی ٹیکس نہیں دینا چاہتا چیئر مین ایف بی آر
ٹیکس اہداف پرنظرثانی کا فیصلہ فروری میں آئی ایم ایف وفدسے مذاکرات کے بعدہوگا،آٹے بحران سے ایف بی آر کا کوئی تعلق نہیں
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) شبر زیدی نے کہا ہے کہ اصلاحات ناگزیر ہیں کیوں کہ پاکستان میں کوئی بھی ٹیکس نہیں دینا چاہتا۔
شبر زیدی نے تقریب سے خطاب میں کہاکہ ابھی مزید ریونیو اقدامات یا ٹیکس اہداف پر نظر ثانی کا فیصلہ نہیں کیا گیا ،فروری میں آئی ایم ایف وفدسے بات چیت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا ، پورے ٹیکس نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، ٹیکسوں کا بوجھ سب پر برابر تقسیم ہونا چاہئے ،البتہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کی تیاری شروع کردی گئی ہے مگر ابھی ذہنی طور پر اگلے بجٹ سازی سے متعلق مختلف آپشنز زیر غور ہیں ،جلد پیپر ورک تیار کرنا شروع کردیا جائیگا، ملک میں آٹے کے بحران سے ایف بی آر کا کوئی تعلق نہیں مگر جو گندم درآمد کی جائے گی اس پر 60 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام ٹیکسوں سے بھی چھوٹ ہو گی۔
شبر زیدی نے کہا کہ رواں مالی سال پہلی ششماہی کے دوران 2085 ارب روپے کے ٹیکسز جمع کیے گئے جبکہ گزشتہ سال مجموعی ٹیکس وصولیاں 3850 ارب روپے تھیں ، گزشتہ سال 70 سے 80 ارب روپے ایڈوانس ٹیکس کے طور پر لئے گئے تھے، کوشش ہے اب ایڈوانس ٹیکس نہ لیں ، ٹیکس نظام کی آٹومیشن کر رہے ہیں، ٹیکس ریٹرن فائل کرنا پیچیدہ عمل ہے اور وہ ایسے ہی رہے گا، امریکہ میں بھی ٹیکس ریٹرن فائل کرنا آسان نہیں، چار قسم کے ٹیکس وصول کر رہے ہیں، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا جائے گا، فائلر اور نان فائلر کا تصور دے دیا ہے، اب انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنا ضروری ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہاجب تک کاروبار غیردستاویزی ہو گا زیادہ دیر نہیں چل سکتا، ایکسپورٹ سیکٹر کو استثنی دینے سے مقامی مارکیٹ متاثر ہو گی۔ انہوں نے کہا خود کار نظام سے بدانتظامی اور چوری ختم ہوتی ہے، ملک کے مجموعی کاروبار میں 25 فیصد ایف بی آر حصہ دار ہے، لیکن ایف بی آر اپنے حصے کا ٹیکس بھی صحیح طور پر اکٹھا نہیں کر پا رہا۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ میرے دوست ہیں ان سے کوئی اختلاف نہیں۔
شبر زیدی نے تقریب سے خطاب میں کہاکہ ابھی مزید ریونیو اقدامات یا ٹیکس اہداف پر نظر ثانی کا فیصلہ نہیں کیا گیا ،فروری میں آئی ایم ایف وفدسے بات چیت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا ، پورے ٹیکس نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، ٹیکسوں کا بوجھ سب پر برابر تقسیم ہونا چاہئے ،البتہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کی تیاری شروع کردی گئی ہے مگر ابھی ذہنی طور پر اگلے بجٹ سازی سے متعلق مختلف آپشنز زیر غور ہیں ،جلد پیپر ورک تیار کرنا شروع کردیا جائیگا، ملک میں آٹے کے بحران سے ایف بی آر کا کوئی تعلق نہیں مگر جو گندم درآمد کی جائے گی اس پر 60 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام ٹیکسوں سے بھی چھوٹ ہو گی۔
شبر زیدی نے کہا کہ رواں مالی سال پہلی ششماہی کے دوران 2085 ارب روپے کے ٹیکسز جمع کیے گئے جبکہ گزشتہ سال مجموعی ٹیکس وصولیاں 3850 ارب روپے تھیں ، گزشتہ سال 70 سے 80 ارب روپے ایڈوانس ٹیکس کے طور پر لئے گئے تھے، کوشش ہے اب ایڈوانس ٹیکس نہ لیں ، ٹیکس نظام کی آٹومیشن کر رہے ہیں، ٹیکس ریٹرن فائل کرنا پیچیدہ عمل ہے اور وہ ایسے ہی رہے گا، امریکہ میں بھی ٹیکس ریٹرن فائل کرنا آسان نہیں، چار قسم کے ٹیکس وصول کر رہے ہیں، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا جائے گا، فائلر اور نان فائلر کا تصور دے دیا ہے، اب انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنا ضروری ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہاجب تک کاروبار غیردستاویزی ہو گا زیادہ دیر نہیں چل سکتا، ایکسپورٹ سیکٹر کو استثنی دینے سے مقامی مارکیٹ متاثر ہو گی۔ انہوں نے کہا خود کار نظام سے بدانتظامی اور چوری ختم ہوتی ہے، ملک کے مجموعی کاروبار میں 25 فیصد ایف بی آر حصہ دار ہے، لیکن ایف بی آر اپنے حصے کا ٹیکس بھی صحیح طور پر اکٹھا نہیں کر پا رہا۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ میرے دوست ہیں ان سے کوئی اختلاف نہیں۔