تنقید سے پہلے امریکا سوچے کہ اس نے پاکستان کو کیا دیا چین
امریکا دنیا بھر میں پابندیوں کی چھڑی سے مختلف ممالک کو بلیک لسٹ کرتا ہے، چینی سفارت خانہ
KARACHI:
پاکستان میں چینی سفارت خانے نے کہا ہے کہ امریکا کو پاک چین تعلقات پر الزامات لگانے سے قبل آپ کو غور کرنا چاہیے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہے۔
پاکستان میں چینی سفارتخانے نے امریکی نائب سیکرٹری برائے جنوبی و وسطی ایشیاء ایلس ویلز کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایلس ویلز نے ایک مرتبہ پھر سی پیک کے حوالے سے منفی ردعمل دیا، ان کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں جسے پاکستان اور چین دونوں مسترد کر چکے ہیں، امریکا اب تک سی پیک پر اپنی بنائی ہوئی کہانی پر قائم ہے۔
سفارت خانے کی جانب سے کہا گیا ہے ہمیں امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر خوشی ہے لیکن پاک چین تعلقات اور پاک چین اقتصادی راہداری میں امریکی مداخلت کی سختی سے بھرہور مخالفت کرتے ہیں۔ پاکستان اور چین سی پیک منصوبوں میں باہمی مشاورت اور مشترکہ مفاد کے لیے باہمی تعاون کے لیے پرعزم ہیں، ہم پاکستانی عوام کے مفادات کو سب سے پہلے رکھتے ہیں، سی پیک پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ 5 برس میں 32 منصوبوں کی قبل از وقت تکمیل سے کئی ثمرات حاصل ہوئے، ان منصوبوں کی تکمیل سے مقامی ذرائع آمد و رفت میں بہتری آئی اور روزگار کے 75 ہزار مواقع پیدا ہوئے اور پاکستان کی جی ڈی پی میں 2 فیصد اضافہ ہوا۔ سی پیک کام کر رہا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب پاکستانی عوام کو دینا ہے نہ کہ امریکا کو۔
چینی کمپنیوں کے کام کرنے کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے سی پیک میں شامل تمام کمپنیاں بین الاقوامی تشخص رکھتی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر قابل قبول بزنس ماڈل کے تحت کام کرتی ہیں، یہ کمپنیاں اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں کی سختی سے پابندی کرتی ہیں،یہ تمام طریقہ کار کھلا، شفاف اور بین الاقوامی قوائد و ضوابط کے تحت ہوتا ہے۔
پاکستان کو دیئے گئے چینی قرض کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ امریکا قرضہ جات سے متعلق مسلسل مبالغہ آرائی کررہا ہے، پاکستانی اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 110 ارب امریکی ڈالرز ہے، پاکستان کو قرض دینے والوں میں عالمی مالیاتی فنڈ اور پیرس کلب سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے سر فہرست ہیں، سی پیک کے لیے کل قرضہ 5.8 ارب امریکی ڈالرز ہے جو کہ پاکستان کے کل بیرونی قرضہ جات کا 5.3 فیصد ہے۔ یہ چینی قرضہ 20 سے 25 برس کے دورانیہ 2 فیصد شرح سود پر دوبارہ ادائیگیوں کے آپشن رکھتا ہے، چینی قرضہ جات کی ری پیمنٹس 2021 میں شروع ہو گی، 300 ملین ڈالرز کی سالانہ کی ادائیگی پاکستان کے لئے بوجھ نہیں ہوگی۔
چینی سفارت خانے نے بیان میں مزید کہا ہے امریکا دنیا بھر میں پابندیوں کی چھڑی لے کر گھومتا ہے، وہ مختلف ممالک کو بلیک لسٹ کرتا رہتا ہے اور یہ سب وہ اپنے معاشی مفادات کے لیے کرتا ہے۔ چین نے کسی ملک کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے جبری طور پر مجبور نہیں کیا، چین ہاکستان سے بھی غیر معقول مطالبات نہیں کرے گا۔ امریکا کو الزامات لگانے سے قبل اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا؟ اور پاکستان کو کیا دیا؟ اگر امریکا کو واقعی پاکستان کا خیال ہے تو اسے باہمی تعلق استوار کرنے کے لیے پاکستان کو فنڈز دینے چاہئیں۔
واضح رہے کہ ایلس ویلز نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران کہا تھا کہ سی پیک منصوبوں میں شفافیت نہیں، پاکستان کا قرض چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں چینی سفارت خانے نے کہا ہے کہ امریکا کو پاک چین تعلقات پر الزامات لگانے سے قبل آپ کو غور کرنا چاہیے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہے۔
پاکستان میں چینی سفارتخانے نے امریکی نائب سیکرٹری برائے جنوبی و وسطی ایشیاء ایلس ویلز کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایلس ویلز نے ایک مرتبہ پھر سی پیک کے حوالے سے منفی ردعمل دیا، ان کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں جسے پاکستان اور چین دونوں مسترد کر چکے ہیں، امریکا اب تک سی پیک پر اپنی بنائی ہوئی کہانی پر قائم ہے۔
سفارت خانے کی جانب سے کہا گیا ہے ہمیں امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر خوشی ہے لیکن پاک چین تعلقات اور پاک چین اقتصادی راہداری میں امریکی مداخلت کی سختی سے بھرہور مخالفت کرتے ہیں۔ پاکستان اور چین سی پیک منصوبوں میں باہمی مشاورت اور مشترکہ مفاد کے لیے باہمی تعاون کے لیے پرعزم ہیں، ہم پاکستانی عوام کے مفادات کو سب سے پہلے رکھتے ہیں، سی پیک پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ 5 برس میں 32 منصوبوں کی قبل از وقت تکمیل سے کئی ثمرات حاصل ہوئے، ان منصوبوں کی تکمیل سے مقامی ذرائع آمد و رفت میں بہتری آئی اور روزگار کے 75 ہزار مواقع پیدا ہوئے اور پاکستان کی جی ڈی پی میں 2 فیصد اضافہ ہوا۔ سی پیک کام کر رہا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب پاکستانی عوام کو دینا ہے نہ کہ امریکا کو۔
چینی کمپنیوں کے کام کرنے کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے سی پیک میں شامل تمام کمپنیاں بین الاقوامی تشخص رکھتی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر قابل قبول بزنس ماڈل کے تحت کام کرتی ہیں، یہ کمپنیاں اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں کی سختی سے پابندی کرتی ہیں،یہ تمام طریقہ کار کھلا، شفاف اور بین الاقوامی قوائد و ضوابط کے تحت ہوتا ہے۔
پاکستان کو دیئے گئے چینی قرض کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ امریکا قرضہ جات سے متعلق مسلسل مبالغہ آرائی کررہا ہے، پاکستانی اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 110 ارب امریکی ڈالرز ہے، پاکستان کو قرض دینے والوں میں عالمی مالیاتی فنڈ اور پیرس کلب سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے سر فہرست ہیں، سی پیک کے لیے کل قرضہ 5.8 ارب امریکی ڈالرز ہے جو کہ پاکستان کے کل بیرونی قرضہ جات کا 5.3 فیصد ہے۔ یہ چینی قرضہ 20 سے 25 برس کے دورانیہ 2 فیصد شرح سود پر دوبارہ ادائیگیوں کے آپشن رکھتا ہے، چینی قرضہ جات کی ری پیمنٹس 2021 میں شروع ہو گی، 300 ملین ڈالرز کی سالانہ کی ادائیگی پاکستان کے لئے بوجھ نہیں ہوگی۔
چینی سفارت خانے نے بیان میں مزید کہا ہے امریکا دنیا بھر میں پابندیوں کی چھڑی لے کر گھومتا ہے، وہ مختلف ممالک کو بلیک لسٹ کرتا رہتا ہے اور یہ سب وہ اپنے معاشی مفادات کے لیے کرتا ہے۔ چین نے کسی ملک کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے جبری طور پر مجبور نہیں کیا، چین ہاکستان سے بھی غیر معقول مطالبات نہیں کرے گا۔ امریکا کو الزامات لگانے سے قبل اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا؟ اور پاکستان کو کیا دیا؟ اگر امریکا کو واقعی پاکستان کا خیال ہے تو اسے باہمی تعلق استوار کرنے کے لیے پاکستان کو فنڈز دینے چاہئیں۔
واضح رہے کہ ایلس ویلز نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران کہا تھا کہ سی پیک منصوبوں میں شفافیت نہیں، پاکستان کا قرض چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔