بٹ

ہماری انگریزی اتنی ہی کمزور ہے جتنی کسی انگریز کی اردو ہو سکتی ہے۔


توقیر چغتائی January 23, 2020

الفاظ کا چناؤ بہت مشکل کام ہے، جس کا اندازہ ٹی وی کے اُن رپورٹر حضرات کی آؤٹ ڈور رپورٹنگ سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے جو ہر جملے میں 'جو ہے، جی بالکل اور 'بات کی جائے' وغیرہ کا بے جا استعمال کرتے ہوئے اپنے مقصد سے بہت دور نکل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اپنی عادات پر قابو پانا مشکل کام ہے لہذا کچھ عرصے میں وہی مستند ہو گا، جو وہ کہہ رہیں ہیں۔

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا

مستند ہے میرا فرمایا ہوا

پرانے رپورٹر اور صحافی تو ویسے بھی بہت کم رہ گئے ہیں اور جو ہیں انھیں ''نوکری کے لالے'' پڑے رہتے ہیں کہ اُنکا کہا اور لکھا اُس تیز رفتار زمانے کا ساتھ نہیں دے رہا جو جھوٹ کو مزید جھوٹ تو بناتا ہے مگر اُس میں چھپے سچ کو سامنے لانے کی کوشش نہیں کرتا۔ بہت ساروں کو نوکری سے الگ ہونا پڑا یا کر دیا گیا اور جو بچ گئے وہ بھی حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو

جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں

ملک کی ایک مایہ ناز اداکارہ پر محض اس لیے تنقید کی جاتی ہے کہ وہ درست انگریزی نہیں بول پاتیں یا گفتگو کے دوران ایک آدھ لفظ انگریزی کا استعمال کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ انھیں انگریزی پر مکمل عبور ہے۔ صرف وہ ہی نہیں بہت سارے پڑھے لکھے اپنی تقریر کے دوران انگریزی کا کوئی اور لفظ بولیں نہ بولیں ''بٹ'' ضرور بولتے ہیں جس سے 'لیکن' کا خون بھی ہوتا ہے اور اُن کی علمیت بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے، مگر بھلا ہو اُن کا کہ ہمیں اِس بہانے اپنے وہ سارے دوست یاد آتے ہیں جن کے نام کے ساتھ 'بٹ' لگا ہوا ہے۔ یہ بٹ زیادہ تر کشمیری ہیں جو اپنی زندہ دلی اور نرم خوئی کی وجہ سے اپنے دوستوں کے حلقے میں الگ پہچان رکھتے ہیں۔

بہت سارے بٹ شاعر اور ادیب بھی ہیں، کاروبار سے بھی تعلق رکھتے ہیں، پہلوان بھی ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ رشید بٹ نے فن خطاطی میں کمال حاصل کیا اور نستعلیق میں ایسی مو شگافیاں دکھائیں کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ اُن کے ہم نام رشید بٹ پچھلے چالیس سال سے علم و ادب اور نشر و اشاعت کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں اور طویل مدت تک چین میں بھی صحافتی اور ادبی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ محمد یونس بٹ سے تو ملک کا بچہ بچہ واقف ہے جو تیس سے زیادہ کتابیں تصنیف کرنے کے بعد بھی تازہ دم ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں مگر اپنی شگفتہ بیانی سے ڈراموں کے ذریعے لوگوں کے دلوں کا علاج کرتے ہیں۔ اچھے مزاح نگار ہیں تو یقینا ڈاکٹر بھی اچھے ہوں گے مگر ان سے علاج کروانے کا موقع نہیں ملا، ہاں اس بات کی امید ہے کہ قیمتی وقت کا درست استعمال کرتے ہوئے کتابوں میں مزید اضافہ ضرور کریں گے۔

اسد اقبال بٹ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اہم کارکن ہیں جو لاچار و پریشان لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرتے ہوئے ہمیشہ مصیبتوں کا شکار رہتے ہیں مگر اُف تک نہیں کرتے۔ اچھی کتابیں، ناقابل فراموش گیت ، موسیقی اور بہترین شاعری سے دوستی اپنے حلقے میں انھیں ممتاز بناتی ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والی بہادر قوم 'بٹ' کے گھرانوں میں پیدا ہونے والے مختلف مزاج کے دوستوں اور اہم ناموں کا ذکر تفصیل سے کیا جائے تو ہزاروں صفحات درکار ہوں گے اور کئی انقلابی نام بھی سامنے آئیں گے، مگر ہمیں تو بٹ قوم کے بجائے انگریزی کے اُس لفظ کا ذکر مقصود ہے جو دنیا بھر میں روزانہ کروڑوں بار بولا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں بولتے ہوئے اردو زبان کے لفظ 'لیکن' کے ساتھ انگریزی کی گردن پر بھی چھری پھیر دی جاتی ہے۔

دو چار دن قبل ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک نوجوان ڈراما نگار گفتگو کے دوران' بٹ بٹ' کرتے ہوئے 'لیکن' کا خون کرتے پائے گئے تو بہت ہی پرانی فلم کا وہ گانا یاد آیا جس میں ایک نوجوان طالب علم اپنے استاد سے تنگ آ کر ناچتے گاتے گلی میں آ جاتا ہے اور کہتا ہے۔

سکندر نے پورس سے کی تھی لڑائی

جو کی تھی لڑائی تو میں کیا کروں

جو پی یو ٹی پُٹ ہے، تو بی یو ٹی بَٹ ہے

یہ دستور دنیا کا کتنا اُلٹ ہے

پڑھاتے ہیں سب مجھ کو اُلٹی پڑھائی

جو اُلٹی پڑھائی تو میں کیا کروں

'لیکن' کو بچانے اور 'بٹ' کے خلاف محاذ بنانے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہماری انگریزی اتنی ہی کمزور ہے جتنی کسی انگریز کی اردو ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے پیلے اسکولوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والے آکسفورڈ سے فارغ التحصیل طالب علموں سے حسد اور جلن تو ضرور رہے گی۔ آکسفورڈ سے فارغ التحصیل نہ سہی ہم اُس کے آس پاس ضرور گھومتے رہے اور ایک آدھ دفعہ اپنے دوست پروفیسر ڈاکٹر بدر سومرو کے ساتھ یونیورسٹی کے اندر جانے کا بھی اتفاق ہوا جس بنا پر صرف 'بٹ' ہی نہیں انگریزی کے کچھ دیگر الفاظ کے معانی بھی ازبر ہیں، مگر ڈرکے مارے بولنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں اپنے ملک کے پڑھے لکھے دوستوں کے سامنے کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں۔

یونی ورسٹی کی بات چلی تو لندن کی برونل یونی ورسٹی یاد آ گئی جہاں کے لیے مشہور ہے کہ وہاں کے ایک پروفیسر یہاں سے پڑھنے کے لیے جانے والے ہو نہار طالب علموںسے جب اسائنمنٹ مانگتے تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بیچ میں لفظ 'بٹ' لگا دیتے جس پر وہ اپنے ایسے طالب علموں کو 'مسٹر بٹ ' کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔

ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک بار ایک خاتون نے ہمیں کچھ لکھنے کا کہا۔ جب اپنی تحریر پیش کی تو کہنے لگیں۔

'' یہ کیا ہے؟''

'' ہم نے کہا آپ نے جو تحریر مانگی تھی وہی ہے۔'' کہنے لگیں ''میں تو اردو پڑھ ہی نہیں سکتی، رومن میں لکھیں تو پڑھ لوتگی'' اگر وہ انگریزی میں لکھنے کا کہتیں تو ''اُستاد گوگل'' کے سہارے کاپی پیسٹ کے ذریعے کوئی بھی کرتب دکھانا آسان ہوتا ، مگر رومن سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے۔ انکار کیا تو بات نوکری سے فراغت تک پہنچ گئی، مگر ہم اڑے رہے۔ مشکل یہ تھی کہ ہماری اور خاتون کی نوکری کا سلسلہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا تھا۔ مجبوراً دوبارہ ہمارے پاس آئیں اور کہنے لگیں ''مجھے آپ کی مدد درکار ہے نہیں تو ہم دونوں میں سے کسی کی نوکری بھی جا سکتی ہے۔'' ہم نے کہا ''ہماری نوکری کو تو چھوڑیے یہ بتائیے کہ جب آپ کو اردو نہیں آتی تو اِس زبان کے چینل پر کام کرنے کے بجائے آپ کے لیے کوئی انگریزی چینل یا اخبار زیادہ بہتر نہیں رہے گا؟''

کہنے لگیں ''انگریزی چینل پر بھی نوکری کے لیے گئی تھی'بٹ' وہ کہنے لگے آپ کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں