حضرت ابوالفضل عباسؓ

حضرت ابوالفضل العباس ؓ کی شخصیت شجاعت، وفا اور علم داری کی پیکر تھی۔

حضرت ابوالفضل العباس ؓ شجاعت میں اپنے والد حضرت علی ؓ کے وارث تھے۔ فوٹو: فائل

کسی بھی شخصیت کے بارے میں جاننے کے لیے دو باتوں کا معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک اس کا نسب اور دوسرا اس کا حسب، لیکن شخصیت کی بزرگی اور بلندی نسب کے ساتھ اس وقت بہت ارفع اور اعلیٰ ہوجاتی ہے جب نسب کے ساتھ حسب بھی بہتر ہو۔

شیر خدا، حضرت علی ؓ کا ارشاد گرامی ہے:''جسے اس کا حسب پیچھے کردے، اسے اس کا نسب بھی آگے نہیں بڑھا سکتا۔''

حضرت ابوالفضل العباس ؓ کی ذات والا صفات نسب کے اعتبار سے ایسی بلند مرتبہ ہے کہ والد گرامی کا نام حضرت علی ابن ابی طالب ؓ ہے اور ماں کا نام فاطمہ بنت حزام ہے جو قبائل عرب کے شریف ترین قبائل سے تعلق رکھتی تھیں ۔ تاریخ میں بہت سی ایسی شخصیات آپ کو مل جائیں گی جنھوں نے اپنی زندگی میں ایسے نیک اعمال انجام دیے کہ وہ نیکی کی صفت بن کر ان کی پہچان بن گئے، مثلاً نوشیروان نے اتنا عدل کیا کہ عدل اس کی صفت بن گئی اور وہ نوشیروان عادل کہلایا۔ اسی طرح حاتم طائی نے اتنی سخاوت کی کہ لوگ اسے سخی حاتم کہنے لگے اور آج اگر کوئی سخاوت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسے ''سخی حاتم'' کہا جاتا ہے۔ لیکن صفت سخاوت اور صفت عدل ان کے نام کے ساتھ تو ذہن میں آتی ہے، لیکن اگر صرف عدل و سخا کا تذکرہ ہو تو ذہن نوشیروان اور حاتم طائی کی جانب نہیں پلٹتا۔

حسب کے اعتبار سے حضرت ابوالفضل العباس ؓ کی شخصیت اس مرتبے کی حامل ہے کہ ان کی زندگی کے کارناموں میں شجاعت، وفا اور علم داری ایسی خصوصیات ہیں کہ چاہے صفت کا تذکرہ کرو یا موصوف کا نام لو، ہر دو طرح سے ذہن حضرت ابو الفضل العباس ؓ کی طرف پلٹتا ہے۔
شجاعت ایک ایسا ملکہ ہے جو محبت کے نتیجے میں پاکیزہ افراد کو ملتا ہے۔ فلسفۂ شجاعت لڑنے اور جنگ جو ہونے کا نام نہیں ہے، بلکہ شجاعت گیارہ صفات کا کسی ایک شخصیت میں جمع ہونے کا نام ہے۔ یہ صفات
درج ذیل ہیں:
کبر، نجدت، علوہمت ، ثبات، حلم، سکون، شہامت، تحمل، تواضع، حمیت، رقت۔
کس موقع پر کون سی صفت کو بروئے کار لایا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے، اسی کا نام شجاعت ہے۔

٭کبر: یہ ہے کہ نفس مشکل اور آسان کام پر یکساں حاوی ہو اور اس کے حصول میں عزت و ذلت کی کمی بیشی کی پروا تک نہ کرے۔
٭ نجدت : نفس میں ثبات و استقلال ایسا پیدا ہوجائے کہ اس پر خوف طاری نہ ہو اور وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے میں ذرا نہ گھبرائے۔
٭ علوہمت : انسان اپنے ذکر جمیل کی طلب میں دنیاوی سعادت و شقاوت کی پروا نہ کرے، حتیٰ کہ موت سے بھی نہ ڈرے۔

٭ ثبات: نفس میں آلام و شدائد کے برداشت کی قوت اس طرح پیدا ہوجائے کہ آلام و مصائب کے آجانے پر اس کا عزم ٹوٹ نہ سکے۔
٭ حلم: انسان کو اپنے نفس پر ایسا قابو حاصل ہوجائے کہ غصہ اسے مغلوب نہ کرسکے اور اگر کوئی ناگوار بات اس کے سامنے آجائے تو برانگیختہ نہ ہو۔
٭ سکون: جنگ وعدوات، جب کہ وہ اپنے دین و مذہب اور عزت کے لیے ہو تو ایسی حالت میں نفس سبکی و خفت محسوس نہ کرے۔

٭ شہامت: ذکر جمیل کامل کرنے کی خاطر نفس انسانی بڑے بڑے کاموں میں پڑجانے سے بھی نہ گھبرائے۔
٭ تحمل: یہ ہے کہ انسان پسندیدہ افعال کے بجا لانے کے لیے اپنے جسم کو ہر تکلیف میں ڈالے اور ہر طرح کی جسمانی مشقت برداشت کرے۔
٭ تواضع: اپنے سے کم تر انسانوں پر اپنے آپ کو اعلیٰ و برتر نہ جانے۔

٭ حمیت: اپنے مذہب و ملت و عزت کی حفاظت میں ایسی چیزوں سے جن سے حفاظت ضروری ہے، ان کے بجالانے میں سستی نہ کرے۔

رقت: نفس میں یہ استعداد پیدا ہوجائے کہ غم و الم اور مصیبت پر متاثر تو ہو، مگر ان کے بجا لانے میں سستی نہ کرے۔
یہ شجاعت کے وہ ارکان ہیں جن کا لحاظ صرف اعلیٰ ظرف اور پاکیزہ نفس والا انسان ہی رکھ سکتا ہے۔ حضرت ابوالفضل العباس ؓ شجاعت میں اپنے بابا حضرت علی ؓ کے وارث تھے۔
تحلیل اور تجزیہ کے اعتبار سے شجاعت و صبر میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں نفس کی قوت کے آثار ہیں۔ دونوں میں قوت ارادی کی کارفرمائی ہوتی ہے اور دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواہشات پر قابو حاصل کیا جائے۔ قوت نفس کا مظاہرہ میدان میں ہوتا ہے تو اس کا نام صبر ہوتا ہے، صبر تو ام شجاعت ہے اور شجاعت لازمۂ صبر۔ یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں شخص صبر کا حامل ہے اور فلاں شخص شجاعت کا۔ صبر، شجاعت سے کسی منزل پر جدا نہیں ہوسکتا۔ جس شخص میں صبر کی قوت نہیں ہوگی، وہ شجاعت کے میدان میں قدم نہیں جماسکتا۔



یہ اور بات ہے کہ منزل اظہار میں دونوں کے میدان الگ الگ ہوتے ہیں۔ شجاعت کا میدان معرکۂ کار زار ہوتا ہے اور صبر کا میدان ''جبر اختیار''
اسی طرح حضرت عباس ؓ کی ذات میں وفا بھی ایسی ہے کہ لفظ وفا کا ترجمہ بھی عباس ہونے لگا۔ قمر بنی ہاشم کو یہ وصف بھی بزرگوں سے وراثت میں ملا تھا اور اس کا سلسلہ بھی تاریخ میں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ حضرت عباسؓ میں رب کریم نے تمام اخلاق حسنہ کو اس طرح رکھا کہ کمال علم و فقہ، عبادات و ریاضات میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، اور کیوں نہ ہو، یہ علی ؓ کے لخت جگر اور فاطمہ بنت حزام کے نور نظر ہیں۔حضرت عباس ؓہر موقع پر حضرت علیؓ کے ساتھ رہے، پھر میدان کربلا میں شجاعت و استقامت اور صبر و رضا کے وہ جوہر دکھائے کہ بازو کٹوا کر بھی ہمت نہ ہاری، یہاں تک کہ لب دریا جام شہادت نوش کیا اور حق وفا ادا کر دیا۔
کربلا میں حضرت زینبؓ کا استقلال
سانحہ کربلا، اسلامی تاریخ، بلکہ پوری انسانی تاریخ کا وہ لرزہ خیز واقعہ ہے جس میں رہتی دنیا تک کے لیے اسرار و رموز پنہاں ہیں۔ نواسۂ رسول، حضرت امام حسینؓ نے 10 محرم 16ہجری یومِ عاشور کربلا میں اپنے احباب و انصار و اہل حرم کے ساتھ دین حق کی خاطر ریگ زارِ کربلا پر عظیم قربانیوں کے نقوش ثبت کیے۔ یومِ عاشور جہاں نواسۂ رسولؐ کے ساتھ کربلا میں ہر عمر اور ہر صنف کے افراد خوابِ ابراہیمؑ کو تعبیر دینے کے لیے تیار دکھائی دیتے تھے، وہیں خواتین کربلا نے بھی عزم و ہمت اور جرأت و شجاعت کے باب رقم کیے۔ انہی سرکردہ خواتین میں ایک نام حضرت زینبؓ کا بھی آتا ہے جنھوں نے دینِ حق کی سربلندی کی خاطر کربلا میں نہ صرف اپنے دو بچوں عون و محمد کی قربانی پیش کی، بلکہ اول تا آخر جہاد کربلا میں ایک فعال قائد کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں نبھائیں۔

حضرت زینبؓ، نبی پاک حضور ختمی مرتبتﷺ کی نواسی اور حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ اور حضرت علیؓ ابن ابی طالب کی بڑی صاحب زادی تھیں۔ حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کی بہن تھیں۔ حضرت جعفرِ طیار کی بہو اور حضرت عبداﷲ ابن جعفرِ طیار کی زوجہ تھیں۔

حضرت زینبؓ بنت علیؓ کی ولادت 5 ہجری میں مدینۂ منورہ میں ہوئی۔ جب آپ دنیا میں تشریف لائیں تو آپ کے نانا حضور پاک ﷺ کسی سفر پر گئے ہوئے تھے۔ حضرت علی نے اپنی نومولود صاحب زادی کا نام اس وقت تک تجویز نہیں کیا جب تک حضورؐ اپنے سفر سے واپس تشریف نہ لے آئے۔ جب اﷲ کے رسول ؐ واپس تشریف لائے تو پارۂ عصمت حضرت زینب کو اپنی آغوش میں لے کر حکمِ خداوندی کے مطابق زینب نام تجویز فرمایا۔ روایت ہے کہ اس منزل پر حضورؐ کی آنکھوں سے اس قدر آنسو جاری ہوئے کہ ریشِ مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔

کسی کے دریافت کرنے پر رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا:''جبرائیل امین نے مجھے بتایا ہے کہ میری یہ بیٹی کربلا کے روح فرسا مصائب میں میرے حسین کے ساتھ برابر کی شریک ہوگی۔'' اس کے بعد آپؐ نے وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا:''یہ میری بچی خدیجۃ الکبریٰ کی من و عن تصویر ہے۔''

حضرت زینبؓ کی ابتدائی تربیت حضور ختمی مرتبتؐ، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمۃالزہراؓ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔ ثانیٔ زہرا کو بچپن ہی سے اپنے بے مثال بھائی حضرت امام حسینؓ سے خصوصی محبت و الفت تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ بچپن میں بھی اگر آپ کو تھوڑی دیر کے لیے امام حسینؓ کے چہرے کی زیارت نصیب نہ ہوتی تو آپؓ پر گریہ طاری ہوجاتا تھا۔ یہ محبت و الفت بچپن سے کربلا تک اس درجۂ کمال کو پہنچ چکی تھی جہاں یک جان دو قالب کی صورت پیدا ہوگئی اور حضرت امام حسینؓ جیسی شخصیت نے واقعۂ کربلا کے دوران حضرت زینبؓ سے مشاورت فرمائی۔ یہی سبب ہے کہ واقعۂ کربلا میں آپ نے امام حسینؓ کے اتباع میں نہ صرف بہ تمام و کمال پیش آنے والے تمام مصائب کو برداشت کیا، بلکہ اپنے دو بیٹوں حضرت عون و محمد کو بھی راہِ خدا میں فدیہ کیا۔ اور اس کے بعد کربلا سے کوفہ و شام تک بے پردگی کے عالم میں بھائی کے پیغام کو عام کرتی چلی گئیں، اسی لیے آپؓ کو شریکۃ الحسینؓ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بی بی زینب ؓ کو ام المصائب بھی کہا جاتا ہے، وہ اس لیے کیوں کہ آپ نے مسلسل غم و آلام نہایت قریب سے دیکھے۔ اول اول پانچ برس کی عمر میں حضور ختمی مرتبتﷺ کی رحلت پر گھر میں صفِ ماتم دیکھی۔ پھر اپنی والدہ ماجدہ بی بی فاطمۃ الزہراؓ کی وفات پر غم و الم کا شکار ہوئیں۔ پھر اپنے والد محترم حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی شہادت کا غم سہا، اس کے بعد بڑے بھائی امام حسنؓ کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا اور آخر میں اپنے چہیتے برادر حضرت امام حسینؓ کی شہادت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ حضرت امام حسین سے پہلے کے تمام واقعات و حادثات کا مشاہدہ کربلا کے لیے آپؓ کا تربیتی اثاثہ قرار پایا اور یومِ عاشور آپؓ نے اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور بیٹوں کو خون میں غلطاں دیکھا، مگر اﷲ کے شکر کے سوا آپ کی زبان مبارک سے کوئی اور لفظ نہ نکلا۔

حضرت زینبؓ کی طبیعت میں عبادت و پرہیزگاری کا عنصر نہایت غالب دکھائی دیتا ہے۔ تمام غم و آلام پوری خندہ پیشانی سے سہتی رہیں، مگر عباداتِ خداوندی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حضرت زین العابدینؓ فرماتے ہیں:''میری پھوپھی نے تمام سفر و اسیری کے دوران کبھی نماز قضا نہ کی اور وقت رخصت آخر امام حسین ؓنے بھی اپنی بہن زینب سے فرمایا تھا،'' اے بہن! مجھے اپنی نمازِ شب میں فراموش نہ کرنا۔''

یہ سند ہے کہ حضرت زینبؓ نہایت عبادت گزار اور پرہیزگار شخصیت تھیں۔ آپ کو ثانیٔ زہرا کہنے کی وجہ غالباً یہی ہے کہ آپ حسبی و نسبی اعتبار سے کئی منازل میں حضرت فاطمۃالزہرا ؓ سے مماثلت رکھتی ہیں۔ حضرت فاطمۃالزہرا نے آغوشِ رسالت ﷺ میں پرورش پائی تو حضرت زینبؓ کو آغوشِ رسالتؐ و ولایت میسر آئی۔ حضرت فاطمۃالزہرا کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ہیں تو حضرت زینب کی والدہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃالزہرا ہیں۔ حضرت خدیجہؓ کے دو فرزند راہِ خدا میں شہید ہوئے تو حضرت زینبؓ نے بھی اپنے دو بیٹے راہِ خدا میں فدیہ کیے۔11محرم الحرام کو ''یومِ زینب'' کا مقام حاصل ہوا اور آپ پر مصائب کی انتہا ہوگئی۔ راہِ کوفہ و شام کا سر برہنہ سفر آپ کے مصائب کی ہمت و جرأت کا امتحان ثابت ہوا۔ اﷲ اکبر! زینبؓ اس مقام سے بھی سرخرو گزریں اور کوفہ و شام میں آپ کے بھرپور خطبات ثابت کرتے ہیں کہ آپ نے بغیر کسی گھبراہٹ و خوف کے کبھی راہِ کوفہ میں تو کبھی دربارِ یزید میں نہایت جرأت و شجاعت کے ساتھ ظالم کے ظلم اور مظلوم کے حق کی وضاحت فرمائی۔ ان خطبوں کی علمیت، ان کی اہمیت اور اندازِ خطابت حضرت علیؓ کے خطبات کی یاد دلاتا ہے اور ان سے حضرت زینب کی علمیت و تدبر کی عکاسی ہوتی ہے۔

واقعۂ کربلا میں حضرت زینبؓ کی ذاتِ اقدس محض ایک بہن کی نہیں ہے، صرف ایک ماں کی نہیں ہے، صرف ایک مجاہدہ اور خطیبہ کی نہیں ہے، بلکہ زینب نام ہے اس شخصیت کا جس نے کربلا میں لاتعداد کرداروں کو ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے دین حق کی سربلندی میں عورت کے عظیم کردار کی وضاحت کی ہے۔ کربلا میں آپ کی شخصیت سے قریب قریب ہر شعبۂ ہائے زندگی سے متعلق ہدایت آفریں کردار کی نشان دہی ہوتی ہے۔
Load Next Story