حضرت امام حسین ؓ جرأت و بہادری کے پیامبر
حضرت امام حسین کے والد حضرت علیؓ شیر خدا جبکہ والدہ خاتون جنت کے نام سے مشہور ہیں۔
حضرت امام حسین ؓ04ھ میں مدینے میں پیدا ہوئے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ 08ھ میں دنیا میں تشریف لائے تھے۔
آپ کے والد محترم حضرت علیؓ تھے جنہیں اﷲ کا شیر کہہ کر بھی پکارا جاتا تھا۔ علی المرتضیٰ، حضور رسول کریم ﷺکے چچازاد بھائی بھی تھے اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفۂ راشد بھی۔ امام حسینؓ کی والدہ بی بی فاطمہ ؓ رسول مکرمﷺ کی سب سے چھوٹی صاحب زادی تھیں اور حضرت علی ؓ کی شریک حیات تھیں۔ آپ کو خاتون جنت کا خطاب ملا تھا۔
امام حسین ؓ کی دایہ کا نام سیدہ اُم الفضل تھا۔ انہی نے ایک بار رسالت مآب، نبی آخرالزماں ﷺ کی خدمت میں آکر اپنا ایک خواب اس طرح بیان کیا:
''میں نے رات کو ایک بہت بُرا خواب دیکھا ہے۔ وہ یہ کہ آپﷺ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں ڈال دیا گیا ہے۔''
رسول عربیﷺ نے ام الفضل کا خواب سن کر اس کی یہ تعبیر بتائی:''تمہارا خواب بہت اچھا ہے، فاطمہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو وہ تمہاری گود میں پرورش پائے گا۔''
اُم الفضل کہتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ ؓ کے ہاں حضرت امام حسینؓ کی ولادت باسعادت ہوئی تو امام الانبیاءﷺ کی تعبیر کے مطابق وہ میری گود میں ڈالے گئے اور اس طرح میرے اس خواب کی وہ تعبیر پوری ہوئی جو مجھ سے سرور کائناتﷺ نے ارشاد فرمائی تھی۔
ولادت کے پانچ یا سات سال تک حسینؓ، اپنے نانا نبی پاکﷺ کی آغوش شفقت میں رہے اور پھر جب محبت کرنے والے نانا اس دنیا سے پردہ فرماگئے تو صرف چھ ماہ بعد تک وہ اپنی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی سرپرستی میں رہے۔
سیدہ فاطمہ ؓ اپنے والد محترم حضور ﷺ کی چہیتی صاحب زادی تھیں۔
فاطمۃ الزہرا ؓ کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے:''جس نے اسے (فاطمہ کو) اذیت دی، اس نے گویا مجھے اذیت دی۔''
ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے حضور نبی کریمﷺ سے یہ دریافت کیا کہ ہم دونوں میں سے آپؐ کسے زیادہ محبوب رکھتے ہیں تو اﷲ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:''فاطمہ مجھے زیادہ عزیز ہیں۔''
حضرت فاطمہؓ کے بھائی اور تین بڑی بہنیں عین عالم شباب میں اس جہاں سے کوچ کرگئے تھے، اب صرف آپ ؓ ہی تنہا رہ گئی تھیں، اس لیے بھی آپؓ اپنے عظیم والد محترم ﷺ کو زیادہ محبوب تھیں۔ اﷲ تعالیٰ نے طبقۂ نسواں میں حضرت فاطمہ ؓ کی ذات مبارکہ کے ساتھ جو مناقب مخصوص کردیے، ان کی روئے زمین پر کوئی مثال نہیں ملتی۔
بی بی فاطمۃ الزہرا ؓنہایت متقی، پرہیز گار اور دین دار خاتون تھیں۔ آپ کی زندگی کا تمام حصہ زہد و قناعت میں گزرا۔ آپ شرم وحیا کا مکمل پیکر تھیں۔ آپ تھیں حضرت امام حسین ؓ کی والدہ ماجدہ۔ اور اب بات آپؓ کے والد گرامی حضرت علیؓ کی۔ بلاشبہہ علی المرتضیٰ علم و عرفان کا عظیم سمندر تھے۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حسنؓ بن علیؓ سے زیادہ رسول پاکؐ سے مشابہ کوئی نہیں تھا اور حسین ؓ کی نسبت بھی یہ کہا کہ وہ بھی رسول کریمﷺ سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔
حضرت اسامہ ؓ بن زید کہتے ہیں کہ جب رسول مکرمﷺمجھے (اسامہ) اور حسین کو اپنی گود میں لیتے تو ارشاد فرماتے:''اے اﷲ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر۔''
ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:
''حضور ﷺ مجھے یعنی اسامہ کو اپنی ایک ٹانگ پر بٹھاتے اور پھر دوسری ٹانگ پر حسنؓ کو بٹھاتے اور کہتے:'اے اﷲ! ان دونوں پر رحم کر، اس لیے کہ میں ان پر مہربانی کرتا ہوں۔'' (صحیح بخاری ۔ مشکوۃ)
حضرت ابو سعدؓ خدری فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کا ارشاد پاک ہے:''حسن ؓ اور حسینؓ نوجوان جنتیوں کے سردار ہیں ۔'' (ترمذی)
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ اﷲ کے آخری رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:''حسن ؓ اور حسینؓ میری دنیا کے دو پھول ہیں۔'' (ترمذی)
حضرت یعلیٰ بن مرہ کہتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:''حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ جو حسین سے محبت کرے، اﷲ اس سے محبت کرے۔''(ترمذی)
حضرت بریدؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ ہمارے سامنے خطبہ فرما رہے تھے کہ اچانک حسن ؓ اور حسینؓ آگئے جو اس وقت سرخ کرتے پہنے ہوئے تھے۔ وہ دونوں اتنے چھوٹے تھے کہ جب چلنے کی کوشش کرتے تھے تو بار بارگر پڑتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول مکرم ﷺ منبر سے اُترے، آپؐ نے کمال شفقت سے ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھالیا۔
سیدہ ام فضل کے حوالے سے ایک جگہ ان کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے۔ کہتی ہیں کہ ایک دن میں نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی، حسین ؓ کو آپؐ کی گود میں دیا، پھر دوسری جانب دیکھنے لگی۔ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ہیں۔ میں نے عرض کیا:اے اﷲ کے رسولؐ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، کیا بات ہے؟
خاتم الانبیاءﷺ نے ارشاد فرمایا:''ابھی ابھی جبرائیل ؑ میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ عنقریب تمہاری امت تمہارے اس بیٹے (حسینؓ) کو قتل کردے گی۔ وہ میرے پاس اس جگہ کی مٹی بھی لائے تھے جہاں اس بچے کو قتل کیا جائے گا اور اس مٹی کا رنگ سرخ تھا۔'' (بیہقی، مشکوٰۃ)
اور پھر ایسا ہی ہوا، دنیا نے دیکھا کہ رسول پاک ﷺ کے چہیتے نواسے حضرت امام حسینؓ کو کربلا کے میدان میں بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ حسینؓ بظاہر تو دنیا سے چلے گئے، مگر ساری دنیا کو جرأت و بہادری کا یہ درس دے گئے کہ ظالم کے سامنے حق بات کہنے سے کبھی نہ ڈرنا اور جسے غلط دیکھو یا جانو، اسے غلط کہنا۔
دُختران اہل ِ بیت کی حوصلہ مندی
واقعۂ کربلا حق و باطل، نیکی و بدی، نور وظلمت، غلامی اور حریت کی قوتوں میں جنگ کا وہی قدیم باب ہے جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے، لیکن یہ جنگ عجیب حالات میں ہوئی جن کے سبب دنیا کے دوسرے معرکے واقعۂ کربلا کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی شجاعت و جرأت کا اظہار نہیں ہوا جس طرح امام حسینؓ اور ان کے رفقاء نے کیا۔ اس واقعے سے پہلے تاریخ میں قربانیوں کی جو بھی داستانیں ہیں، وہ زیادہ تر انفرادی ہیں، مگر معرکۂ کربلا انفرادی نہیں، بلکہ اجتماعی حیثیت کا حامل ہے۔
اس معرکے کے واحد رہنما نواسۂ رسول امام حسینؓ ہیں۔ ان کے گرد ایک جماعت تھی جس میں ایک ہی قوم و نسل کے افراد شامل نہیں تھے، بلکہ اس جماعت کی حیثیت بین الاقوامی تھی۔ ان میں آزاد، غلام، عربی، قریشی، غیر قریشی، غرض ہر نسل اور ہر قبیلے کے سرفروش شامل تھے۔ ان سب کا مقصد ایک تھا جس میں وہ متحد تھے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس واقعے میں طبقۂ نسواں نے جس شان سے حصہ لیا، اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ ان کا تذکرہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
٭حضرت فاطمۃ الکبریٰؓ
آپ، حضرت امام حسین ؓکی صاحب زادی تھیں۔ آپ نے ان کی شادی مدینے میں اپنے بھتیجے حضرت امام قاسم سے کر دی تھی۔ جب کربلا میں آپ کو شوہر کی شہادت کی خبر ملی تو آپ گریہ و زاری کرنے لگیں۔ آپ حضرت امام حسین ؓکی وہ بیٹی ہیں جو کربلا میں بیوہ ہوئیں اور اسیران کربلا کے ساتھ مدینہ پہنچیں۔
حضرت سیدہ سکینہ بنت الحسینؓ
آپ حضرت امام حسین ؓکی چہیتی بیٹی اور عباسؓ علم دار کی محبوب ترین بھتیجی تھیں۔ آپ جناب رباب کے بطن سے تھیں اور شہزادہ علی اصغرؓ کی بہن تھیں۔ واقعۂ کربلا میں نہایت کم سن تھیں۔ جب امام عالی مقام جہاد کے لیے کربلا جارہے تھے تو آپ ذوالجناح کے سموں سے لپٹ گئیں۔ امام حسینؓ نے سبب پوچھا تو عرض کیا:''میں آپ کے روئے مبارک پر ایک نظر ڈال کر اپنے سفر الم ناک کے لیے اس چہرے کے تصور کو زاد راہ بنانا چاہتی ہوں، تاکہ اس صابر چہرے کا تصور میرے لیے مصیبت انگیز سفر میں سرمایۂ تسکین بن سکے۔''
رباب بنت امراء القیس الکندیؓ
علی اصغر اور سکینہ کی والدہ اور حضرت امام حسینؓ کی رفیقۂ حیات تھیں۔ واقعہ کربلا میں موجود اور اسیری میں بھی اہل حرم کے ساتھ شریک رہیں۔ صبر و ضبط کا یہ عالم تھا کہ واقعۂ کربلا میں ان کی زبان اقدس پر مہر لگی رہی۔ اپنے شیر خوار لخت جگر کی شہادت پر بھی صبر کیا۔
حضرت لیلیٰ ثقفیہؓ
علی اکبرؓ کی والدہ اور امام حسینؓ کی شریک زندگی تھیں۔ ابی ہریرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ کربلا میں موجود تھیں اور اسیری میں جناب زینبؓ اور حضرت ام کلثومؓ کے ساتھ رہیں، مگر اس کے بعد کے ان کے حالات زندگی کہیں نہیں ملتے۔
بی بی رقیہ بنت حضرت علیؓ
ان کا عقد حضرت مسلم بن عقیل ؓ سے ہوا۔ مدینے سے اپنے شوہر کے ساتھ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ چلی تھیں۔ کربلا پہنچنے سے قبل اپنے شوہر کی شہادت کی خبر سنی۔ آپ نے اپنی تمام اولاد کربلا میں امام حسین ؓ پر قربان کردی۔ آپ اسیری میں اپنی دونوں بہنوں حضرت زینبؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ کے ساتھ رہیں اور زنداں کے مصائب برداشت کیے۔
حضرت ام کلثوم بنت علیؓ
آپ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی چھوٹی بیٹی تھیں۔ ان کی ولادت نبی پاکﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں ہوئی۔ تقریباً دو سال کی ہی عمر میں نانا اور اور اس کے چھے ماہ بعد والد ہ گرامی سے جدا ہوگئیں۔ پھر حضرت علیؓ اور بھائیوں کی تربیت میں رہیں۔ حضرت علیؓ نے اپنے بھتیجے محمد بن جعفر سے ان کا عقد کیا، مگر آپ جلد بیوہ ہو گئیں۔ اس کے بعد حضرت امام حسین ؓکے ساتھ رہیں اور آپ کے ساتھ ہی کربلا تشریف لائیں۔ انہوں نے یزید سے دربار شام جانے کی خواہش کی اور کہا کہ مجھے اتنی اجازت دو کہ میں اپنے بھائی کا سر اٹھا لوں اور اسے بوسہ دوں۔ یہ سن کر اہل دربار میں موجود درد مند رونے لگے۔ اور جب اسیر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینے کی دیواریں نظر آئیں تو حضرت ام کلثوم ؓ رونے لگیں اور مدینہ کو مخاطب کر کے اشعار بھی کہے۔
حضرت زینبؓ
آپ حضرت علیؓ اور خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی صاحب زادی ہیں۔ آپ وہ خاتون تھیں جنہیں ارض کرب و بلا کی تیز و تند ہوائیں، کوفے کے سیاہ بادل، شام کی سیاہ بجلیاں اور ان سب کی مجموعی قوت بھی نہ ہلاسکی اور نہ کوئی نقص پیدا کرسکی۔
کتاب عشق کے دو باب ہیں: ایک کربلا اور دوسرا کوفہ و دمشق۔ کربلا کا باب حضرت امام حسین ؓ نے لکھا اور کوفہ و دمشق کا باب المصائب سیدہ زینبؓ نے رقم کیا۔
آپ نے واقعۂ کربلا میں کبھی علیؓ کا رنگ بھرا اور کبھی حسین بن کر تسلیم و رضا کے نقوش کو ابھارا۔ آپ کے عزم و استقلال میں امام حسین ؓ کے عزم و استقلال کی جھلک تھی۔ آپ نے کوفہ و شام کے دربار میں جابر اور دشمن حکمرانوں کا سامنا کیا۔ جہاں اسلامی شریعت کی توہین ہورہی تھی، وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیا اور کلمۂ حق بلند کیا۔ اپنی حق گوئی اور جدوجہد سے سیدہ زینب ؓنے اسلام کی تعلیمات کو بقا کی معراج پر پہنچایا۔ سیدہ زینبؓ نازک سے نازک موقع پر بھی حضرت علیؓ کے جاہ و جلال کے ساتھ حسین بن کو بولیں تو باطل کا سر کچل دیا اور حق کا بول بالا کر دیا۔
آپ کے والد محترم حضرت علیؓ تھے جنہیں اﷲ کا شیر کہہ کر بھی پکارا جاتا تھا۔ علی المرتضیٰ، حضور رسول کریم ﷺکے چچازاد بھائی بھی تھے اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفۂ راشد بھی۔ امام حسینؓ کی والدہ بی بی فاطمہ ؓ رسول مکرمﷺ کی سب سے چھوٹی صاحب زادی تھیں اور حضرت علی ؓ کی شریک حیات تھیں۔ آپ کو خاتون جنت کا خطاب ملا تھا۔
امام حسین ؓ کی دایہ کا نام سیدہ اُم الفضل تھا۔ انہی نے ایک بار رسالت مآب، نبی آخرالزماں ﷺ کی خدمت میں آکر اپنا ایک خواب اس طرح بیان کیا:
''میں نے رات کو ایک بہت بُرا خواب دیکھا ہے۔ وہ یہ کہ آپﷺ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں ڈال دیا گیا ہے۔''
رسول عربیﷺ نے ام الفضل کا خواب سن کر اس کی یہ تعبیر بتائی:''تمہارا خواب بہت اچھا ہے، فاطمہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو وہ تمہاری گود میں پرورش پائے گا۔''
اُم الفضل کہتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ ؓ کے ہاں حضرت امام حسینؓ کی ولادت باسعادت ہوئی تو امام الانبیاءﷺ کی تعبیر کے مطابق وہ میری گود میں ڈالے گئے اور اس طرح میرے اس خواب کی وہ تعبیر پوری ہوئی جو مجھ سے سرور کائناتﷺ نے ارشاد فرمائی تھی۔
ولادت کے پانچ یا سات سال تک حسینؓ، اپنے نانا نبی پاکﷺ کی آغوش شفقت میں رہے اور پھر جب محبت کرنے والے نانا اس دنیا سے پردہ فرماگئے تو صرف چھ ماہ بعد تک وہ اپنی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی سرپرستی میں رہے۔
سیدہ فاطمہ ؓ اپنے والد محترم حضور ﷺ کی چہیتی صاحب زادی تھیں۔
فاطمۃ الزہرا ؓ کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے:''جس نے اسے (فاطمہ کو) اذیت دی، اس نے گویا مجھے اذیت دی۔''
ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے حضور نبی کریمﷺ سے یہ دریافت کیا کہ ہم دونوں میں سے آپؐ کسے زیادہ محبوب رکھتے ہیں تو اﷲ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:''فاطمہ مجھے زیادہ عزیز ہیں۔''
حضرت فاطمہؓ کے بھائی اور تین بڑی بہنیں عین عالم شباب میں اس جہاں سے کوچ کرگئے تھے، اب صرف آپ ؓ ہی تنہا رہ گئی تھیں، اس لیے بھی آپؓ اپنے عظیم والد محترم ﷺ کو زیادہ محبوب تھیں۔ اﷲ تعالیٰ نے طبقۂ نسواں میں حضرت فاطمہ ؓ کی ذات مبارکہ کے ساتھ جو مناقب مخصوص کردیے، ان کی روئے زمین پر کوئی مثال نہیں ملتی۔
بی بی فاطمۃ الزہرا ؓنہایت متقی، پرہیز گار اور دین دار خاتون تھیں۔ آپ کی زندگی کا تمام حصہ زہد و قناعت میں گزرا۔ آپ شرم وحیا کا مکمل پیکر تھیں۔ آپ تھیں حضرت امام حسین ؓ کی والدہ ماجدہ۔ اور اب بات آپؓ کے والد گرامی حضرت علیؓ کی۔ بلاشبہہ علی المرتضیٰ علم و عرفان کا عظیم سمندر تھے۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حسنؓ بن علیؓ سے زیادہ رسول پاکؐ سے مشابہ کوئی نہیں تھا اور حسین ؓ کی نسبت بھی یہ کہا کہ وہ بھی رسول کریمﷺ سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔
حضرت اسامہ ؓ بن زید کہتے ہیں کہ جب رسول مکرمﷺمجھے (اسامہ) اور حسین کو اپنی گود میں لیتے تو ارشاد فرماتے:''اے اﷲ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر۔''
ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:
''حضور ﷺ مجھے یعنی اسامہ کو اپنی ایک ٹانگ پر بٹھاتے اور پھر دوسری ٹانگ پر حسنؓ کو بٹھاتے اور کہتے:'اے اﷲ! ان دونوں پر رحم کر، اس لیے کہ میں ان پر مہربانی کرتا ہوں۔'' (صحیح بخاری ۔ مشکوۃ)
حضرت ابو سعدؓ خدری فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کا ارشاد پاک ہے:''حسن ؓ اور حسینؓ نوجوان جنتیوں کے سردار ہیں ۔'' (ترمذی)
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ اﷲ کے آخری رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:''حسن ؓ اور حسینؓ میری دنیا کے دو پھول ہیں۔'' (ترمذی)
حضرت یعلیٰ بن مرہ کہتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:''حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ جو حسین سے محبت کرے، اﷲ اس سے محبت کرے۔''(ترمذی)
حضرت بریدؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ ہمارے سامنے خطبہ فرما رہے تھے کہ اچانک حسن ؓ اور حسینؓ آگئے جو اس وقت سرخ کرتے پہنے ہوئے تھے۔ وہ دونوں اتنے چھوٹے تھے کہ جب چلنے کی کوشش کرتے تھے تو بار بارگر پڑتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول مکرم ﷺ منبر سے اُترے، آپؐ نے کمال شفقت سے ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھالیا۔
سیدہ ام فضل کے حوالے سے ایک جگہ ان کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے۔ کہتی ہیں کہ ایک دن میں نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی، حسین ؓ کو آپؐ کی گود میں دیا، پھر دوسری جانب دیکھنے لگی۔ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ہیں۔ میں نے عرض کیا:اے اﷲ کے رسولؐ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، کیا بات ہے؟
خاتم الانبیاءﷺ نے ارشاد فرمایا:''ابھی ابھی جبرائیل ؑ میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ عنقریب تمہاری امت تمہارے اس بیٹے (حسینؓ) کو قتل کردے گی۔ وہ میرے پاس اس جگہ کی مٹی بھی لائے تھے جہاں اس بچے کو قتل کیا جائے گا اور اس مٹی کا رنگ سرخ تھا۔'' (بیہقی، مشکوٰۃ)
اور پھر ایسا ہی ہوا، دنیا نے دیکھا کہ رسول پاک ﷺ کے چہیتے نواسے حضرت امام حسینؓ کو کربلا کے میدان میں بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ حسینؓ بظاہر تو دنیا سے چلے گئے، مگر ساری دنیا کو جرأت و بہادری کا یہ درس دے گئے کہ ظالم کے سامنے حق بات کہنے سے کبھی نہ ڈرنا اور جسے غلط دیکھو یا جانو، اسے غلط کہنا۔
دُختران اہل ِ بیت کی حوصلہ مندی
واقعۂ کربلا حق و باطل، نیکی و بدی، نور وظلمت، غلامی اور حریت کی قوتوں میں جنگ کا وہی قدیم باب ہے جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے، لیکن یہ جنگ عجیب حالات میں ہوئی جن کے سبب دنیا کے دوسرے معرکے واقعۂ کربلا کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی شجاعت و جرأت کا اظہار نہیں ہوا جس طرح امام حسینؓ اور ان کے رفقاء نے کیا۔ اس واقعے سے پہلے تاریخ میں قربانیوں کی جو بھی داستانیں ہیں، وہ زیادہ تر انفرادی ہیں، مگر معرکۂ کربلا انفرادی نہیں، بلکہ اجتماعی حیثیت کا حامل ہے۔
اس معرکے کے واحد رہنما نواسۂ رسول امام حسینؓ ہیں۔ ان کے گرد ایک جماعت تھی جس میں ایک ہی قوم و نسل کے افراد شامل نہیں تھے، بلکہ اس جماعت کی حیثیت بین الاقوامی تھی۔ ان میں آزاد، غلام، عربی، قریشی، غیر قریشی، غرض ہر نسل اور ہر قبیلے کے سرفروش شامل تھے۔ ان سب کا مقصد ایک تھا جس میں وہ متحد تھے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس واقعے میں طبقۂ نسواں نے جس شان سے حصہ لیا، اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ ان کا تذکرہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
٭حضرت فاطمۃ الکبریٰؓ
آپ، حضرت امام حسین ؓکی صاحب زادی تھیں۔ آپ نے ان کی شادی مدینے میں اپنے بھتیجے حضرت امام قاسم سے کر دی تھی۔ جب کربلا میں آپ کو شوہر کی شہادت کی خبر ملی تو آپ گریہ و زاری کرنے لگیں۔ آپ حضرت امام حسین ؓکی وہ بیٹی ہیں جو کربلا میں بیوہ ہوئیں اور اسیران کربلا کے ساتھ مدینہ پہنچیں۔
حضرت سیدہ سکینہ بنت الحسینؓ
آپ حضرت امام حسین ؓکی چہیتی بیٹی اور عباسؓ علم دار کی محبوب ترین بھتیجی تھیں۔ آپ جناب رباب کے بطن سے تھیں اور شہزادہ علی اصغرؓ کی بہن تھیں۔ واقعۂ کربلا میں نہایت کم سن تھیں۔ جب امام عالی مقام جہاد کے لیے کربلا جارہے تھے تو آپ ذوالجناح کے سموں سے لپٹ گئیں۔ امام حسینؓ نے سبب پوچھا تو عرض کیا:''میں آپ کے روئے مبارک پر ایک نظر ڈال کر اپنے سفر الم ناک کے لیے اس چہرے کے تصور کو زاد راہ بنانا چاہتی ہوں، تاکہ اس صابر چہرے کا تصور میرے لیے مصیبت انگیز سفر میں سرمایۂ تسکین بن سکے۔''
رباب بنت امراء القیس الکندیؓ
علی اصغر اور سکینہ کی والدہ اور حضرت امام حسینؓ کی رفیقۂ حیات تھیں۔ واقعہ کربلا میں موجود اور اسیری میں بھی اہل حرم کے ساتھ شریک رہیں۔ صبر و ضبط کا یہ عالم تھا کہ واقعۂ کربلا میں ان کی زبان اقدس پر مہر لگی رہی۔ اپنے شیر خوار لخت جگر کی شہادت پر بھی صبر کیا۔
حضرت لیلیٰ ثقفیہؓ
علی اکبرؓ کی والدہ اور امام حسینؓ کی شریک زندگی تھیں۔ ابی ہریرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ کربلا میں موجود تھیں اور اسیری میں جناب زینبؓ اور حضرت ام کلثومؓ کے ساتھ رہیں، مگر اس کے بعد کے ان کے حالات زندگی کہیں نہیں ملتے۔
بی بی رقیہ بنت حضرت علیؓ
ان کا عقد حضرت مسلم بن عقیل ؓ سے ہوا۔ مدینے سے اپنے شوہر کے ساتھ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ چلی تھیں۔ کربلا پہنچنے سے قبل اپنے شوہر کی شہادت کی خبر سنی۔ آپ نے اپنی تمام اولاد کربلا میں امام حسین ؓ پر قربان کردی۔ آپ اسیری میں اپنی دونوں بہنوں حضرت زینبؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ کے ساتھ رہیں اور زنداں کے مصائب برداشت کیے۔
حضرت ام کلثوم بنت علیؓ
آپ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی چھوٹی بیٹی تھیں۔ ان کی ولادت نبی پاکﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں ہوئی۔ تقریباً دو سال کی ہی عمر میں نانا اور اور اس کے چھے ماہ بعد والد ہ گرامی سے جدا ہوگئیں۔ پھر حضرت علیؓ اور بھائیوں کی تربیت میں رہیں۔ حضرت علیؓ نے اپنے بھتیجے محمد بن جعفر سے ان کا عقد کیا، مگر آپ جلد بیوہ ہو گئیں۔ اس کے بعد حضرت امام حسین ؓکے ساتھ رہیں اور آپ کے ساتھ ہی کربلا تشریف لائیں۔ انہوں نے یزید سے دربار شام جانے کی خواہش کی اور کہا کہ مجھے اتنی اجازت دو کہ میں اپنے بھائی کا سر اٹھا لوں اور اسے بوسہ دوں۔ یہ سن کر اہل دربار میں موجود درد مند رونے لگے۔ اور جب اسیر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینے کی دیواریں نظر آئیں تو حضرت ام کلثوم ؓ رونے لگیں اور مدینہ کو مخاطب کر کے اشعار بھی کہے۔
حضرت زینبؓ
آپ حضرت علیؓ اور خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی صاحب زادی ہیں۔ آپ وہ خاتون تھیں جنہیں ارض کرب و بلا کی تیز و تند ہوائیں، کوفے کے سیاہ بادل، شام کی سیاہ بجلیاں اور ان سب کی مجموعی قوت بھی نہ ہلاسکی اور نہ کوئی نقص پیدا کرسکی۔
کتاب عشق کے دو باب ہیں: ایک کربلا اور دوسرا کوفہ و دمشق۔ کربلا کا باب حضرت امام حسین ؓ نے لکھا اور کوفہ و دمشق کا باب المصائب سیدہ زینبؓ نے رقم کیا۔
آپ نے واقعۂ کربلا میں کبھی علیؓ کا رنگ بھرا اور کبھی حسین بن کر تسلیم و رضا کے نقوش کو ابھارا۔ آپ کے عزم و استقلال میں امام حسین ؓ کے عزم و استقلال کی جھلک تھی۔ آپ نے کوفہ و شام کے دربار میں جابر اور دشمن حکمرانوں کا سامنا کیا۔ جہاں اسلامی شریعت کی توہین ہورہی تھی، وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیا اور کلمۂ حق بلند کیا۔ اپنی حق گوئی اور جدوجہد سے سیدہ زینب ؓنے اسلام کی تعلیمات کو بقا کی معراج پر پہنچایا۔ سیدہ زینبؓ نازک سے نازک موقع پر بھی حضرت علیؓ کے جاہ و جلال کے ساتھ حسین بن کو بولیں تو باطل کا سر کچل دیا اور حق کا بول بالا کر دیا۔