بڑا آدمی کتنا چھوٹا ہو گیا
کیا بڑے ملک اگر چاہیں تو جنگوں کا خاتمہ اور مستقبل میں جنگوں سے نجات نہیں دلا سکتے؟
انتہائی ظالم، بے انصاف ، دنیا کے ظالمانہ نظام کو برسوں کی تحقیق کے بعد جن اکابرین نے بدلنے کی کوشش کی اس عوام دوست کوشش کو سرمایہ دارانہ نظام کے کارندوں اور ناسمجھ لوگوں نے آخر کار ناکام بنا دیا۔ دنیا کے عوام کو طبقاتی مظالم سے باہر آنے نہ دیا ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں کو اس حد تک بے حس بنا دیا ہے کہ خود دنیا ان کی بے حسی پر شرمسار ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسا عوامی کام کر جائیں کہ دنیا میں ان کا نام ہو اور دنیا انھیں اچھے نام سے یاد کرے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دولت کے ذریعے حکمران کوئی یادگار کام کرنا چاہتے ہیں اس دولت کے مالک خود عوام ہوتے ہیں۔ عوام کی دولت کو استعمال کرتے ہوئے جو عوامی مفاد کے کام کیے جاتے ہیں ، ان کاموں میں استعمال ہونے والی دولت عوام کی ہوتی ہے یہ کارنامے کسی فرد اورکسی فرد واحد حکمران کے نہیں بلکہ عموماً ہر حکمران ایسے کارنامے انجام دیتا ہے۔
بے نظیر بھٹو نے بھی غریب اور نادار لوگوں کی مدد کے لیے بی آئی ایس پی یعنی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے غریب ترین عوام کی مدد کا ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ اس حوالے سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکمران پارٹیوں کے کار گزار اس قسم کے پروگراموں کو پارٹی کارکنوں میں زیادہ اور مستحقین میں کم بانٹتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مستحقین محروم رہ جاتے ہیں اور غیر مستحق لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ کسی ایک حکمران کے دورکی بات نہیں ، بلکہ عموماً ہر حکمران کے دور میں ایسا ہی ہوتا ہے مقصد عوام کو فائدہ پہنچانا کم ، اپنی ذات کی اپنے خاندان کی پبلسٹی کرنا زیادہ ہوتا ہے۔
اخبارات میں ایک تین کالمی خبر چھپی ہے جس کی سرخی کچھ یوں ہے۔ '' بی آئی ایس پی سے فائدہ بلکہ ناجائز فائدہ اٹھانے والے چودہ ہزار افسران کو برطرفی کے لیے شوکاز نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں جن میں گریڈ 17 سے گریڈ 21 تک کے ملازمین بھی شامل ہیں'' اس حوالے سے تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ گریڈ 17 سے 21 تک میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین نے بی آئی ایس پی فنڈ حاصل کرنے کے لیے اپنی بیویوں کے نام استعمال کیے ، واضح رہے کہ اس فنڈ کی مالیت پندرہ سو سے تین ہزار تک ہوتی ہے جو تین ماہ میں ایک بار ملتا ہے۔
تین ماہ میں پندرہ سو سے غالباً تین ہزار کی رقم کس قدر حقیر ہوتی ہے اور اسے گریڈ 17 سے 21گریڈ کے افسران انتہائی بے ایمانی وصول کرتے آ رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ گریڈ 17سے 21 کے ملازمین مجرم ہیں بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ نظام (سرمایہ دارانہ) اس کا ذمے دار ہے جو پیسے کے حصول میں اعلیٰ افسران تک کو اس قدر بے حس بنا دیتا ہے کہ وہ ایک انتہائی معمولی رقم کے لیے اپنی بیویوں کے نام کو ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ بیویوں کو بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس نظام کے استحصال کو دیکھ کر ہی مارکس اور اس کے دوست اینجلز نے برسوں محنت کر کے رات دن تحقیق کر کے ایک بہتر متبادل نظام متعارف کرایا جسے مارکسزم یا سوشل ازم کہا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خامی لامحدود حق ملکیت تھا اور ہے جسے مارکس اور اینجلز نے ختم کر دیا تھا۔
مارکس اور اینجلزکے سوشل ازم کے خلاف اس قدر شدید پروپیگنڈا کیا گیا اور آخرکار اسے ناکام قرار دے کر مسترد کر دیا گیا اور اس کی جگہ اسی انسان دشمن نظام سرمایہ دارانہ کو اور مضبوط کیا گیا جس نے اس ہستی بستی دنیا کو ذلیل و رسوا کیا، اس کی بائی پروڈکٹ طبقاتی نظام نے دنیا کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے اس غلیظ اور استحصالی نظام کو دنیا کا واحد کارآمد نظام بنا کر پیش کیا گیا۔ اس کا خمیازہ دنیا کے 7ارب غریب عوام بھگت رہے ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سرمایہ داروں ہی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے اس نظام میں 90 فیصد غریب طبقات محنت کرنے بھوکے رہنے یا آدھا پیٹ کھا کر زندہ رہنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں، اس کی معیشت کا انحصار جنگوں، ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت پر ہے۔اس نظام میں سرمایہ داروں کی سیاست یہ ہے کہ دنیا ہر وقت علاقائی جنگوں میں الجھی رہے یا جنگوں کا خوف اس کے سر پر سوار رہے تا کہ ہتھیاروں کی فروخت کا سلسلہ جاری رہے، ہتھیاروں کی تجارت سے اسلحے کے کارخانے اربوں روپے کما رہے ہیں جو ان کے اکاؤنٹس میں تو بھاری اضافہ کرتے ہیں ، غریب کی غربت میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ یہ ایک کھلی لوٹ مار ہے جس سے ہر باشعور شخص واقف ہے لیکن کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ دنیا کی جمہوری حکومتیں ہتھیاروں کی خرید پر اس لیے منہ بند کیے بیٹھی ہیں کہ انھیں ہتھیاروں کی خرید پرکروڑوں ڈالر کا کمیشن ملتا ہے۔
آج دنیا کے مختلف ملک یا تو جنگ زدہ ہیں یا جنگوں کی طرف بڑھ رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بڑے ملک اگر چاہیں تو جنگوں کا خاتمہ اور مستقبل میں جنگوں سے نجات نہیں دلا سکتے؟ بالکل ایسا کر سکتے ہیں لیکن یہ ملک ایسا کریں گے نہیں، کیونکہ ان سے سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت ملتی ہے اور لوٹ مار کے مواقعے حاصل رہتے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خود ساختہ گورکھ دھندوں میں عوام کو اس بری طرح الجھا دیا گیا ہے کہ اس کی ساری توجہ دال روٹی کے حصول پر مرکوز رہتی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کے پھیلائے ہوئے جال کو سمجھ ہی نہیں پاتا۔ ہمارے مڈل کلاس کے اکابرین پر یہ ذمے داری آتی ہے کہ وہ عوام میں طبقاتی شعور پیدا کریں۔ لیکن تماشا ملاحظہ ہو کہ مڈل کلاس حکمران طبقے کی سب سے بڑی حامی بنی ہوئی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ وہ خود اس پورے نظام کو چلا رہی ہے۔
یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں ، اگرچہ یہ تحریکیں ابھی ابتدائی اسٹیج پر ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے تضادات اور اس کے نتیجے میں تیزی سے غربت میں اضافہ آخرکار غریب طبقات کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سڑکوں پر لائے گا۔ بدقسمتی سے جو طاقتیں ان تضادات کو بڑھا کر عوام کو سڑکوں پر آنے کے لیے تیار کرتی ہیں وہ یا تو چپ سادھ کر بیٹھ گئی ہیں یا پھر ذہنی خلفشار کا شکار ہیں ، اگرچہ یہ حالات مایوس کن ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات آخرکار عوام کو سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کر دیں گے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسا عوامی کام کر جائیں کہ دنیا میں ان کا نام ہو اور دنیا انھیں اچھے نام سے یاد کرے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دولت کے ذریعے حکمران کوئی یادگار کام کرنا چاہتے ہیں اس دولت کے مالک خود عوام ہوتے ہیں۔ عوام کی دولت کو استعمال کرتے ہوئے جو عوامی مفاد کے کام کیے جاتے ہیں ، ان کاموں میں استعمال ہونے والی دولت عوام کی ہوتی ہے یہ کارنامے کسی فرد اورکسی فرد واحد حکمران کے نہیں بلکہ عموماً ہر حکمران ایسے کارنامے انجام دیتا ہے۔
بے نظیر بھٹو نے بھی غریب اور نادار لوگوں کی مدد کے لیے بی آئی ایس پی یعنی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے غریب ترین عوام کی مدد کا ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ اس حوالے سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکمران پارٹیوں کے کار گزار اس قسم کے پروگراموں کو پارٹی کارکنوں میں زیادہ اور مستحقین میں کم بانٹتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مستحقین محروم رہ جاتے ہیں اور غیر مستحق لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ کسی ایک حکمران کے دورکی بات نہیں ، بلکہ عموماً ہر حکمران کے دور میں ایسا ہی ہوتا ہے مقصد عوام کو فائدہ پہنچانا کم ، اپنی ذات کی اپنے خاندان کی پبلسٹی کرنا زیادہ ہوتا ہے۔
اخبارات میں ایک تین کالمی خبر چھپی ہے جس کی سرخی کچھ یوں ہے۔ '' بی آئی ایس پی سے فائدہ بلکہ ناجائز فائدہ اٹھانے والے چودہ ہزار افسران کو برطرفی کے لیے شوکاز نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں جن میں گریڈ 17 سے گریڈ 21 تک کے ملازمین بھی شامل ہیں'' اس حوالے سے تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ گریڈ 17 سے 21 تک میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین نے بی آئی ایس پی فنڈ حاصل کرنے کے لیے اپنی بیویوں کے نام استعمال کیے ، واضح رہے کہ اس فنڈ کی مالیت پندرہ سو سے تین ہزار تک ہوتی ہے جو تین ماہ میں ایک بار ملتا ہے۔
تین ماہ میں پندرہ سو سے غالباً تین ہزار کی رقم کس قدر حقیر ہوتی ہے اور اسے گریڈ 17 سے 21گریڈ کے افسران انتہائی بے ایمانی وصول کرتے آ رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ گریڈ 17سے 21 کے ملازمین مجرم ہیں بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ نظام (سرمایہ دارانہ) اس کا ذمے دار ہے جو پیسے کے حصول میں اعلیٰ افسران تک کو اس قدر بے حس بنا دیتا ہے کہ وہ ایک انتہائی معمولی رقم کے لیے اپنی بیویوں کے نام کو ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ بیویوں کو بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس نظام کے استحصال کو دیکھ کر ہی مارکس اور اس کے دوست اینجلز نے برسوں محنت کر کے رات دن تحقیق کر کے ایک بہتر متبادل نظام متعارف کرایا جسے مارکسزم یا سوشل ازم کہا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خامی لامحدود حق ملکیت تھا اور ہے جسے مارکس اور اینجلز نے ختم کر دیا تھا۔
مارکس اور اینجلزکے سوشل ازم کے خلاف اس قدر شدید پروپیگنڈا کیا گیا اور آخرکار اسے ناکام قرار دے کر مسترد کر دیا گیا اور اس کی جگہ اسی انسان دشمن نظام سرمایہ دارانہ کو اور مضبوط کیا گیا جس نے اس ہستی بستی دنیا کو ذلیل و رسوا کیا، اس کی بائی پروڈکٹ طبقاتی نظام نے دنیا کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے اس غلیظ اور استحصالی نظام کو دنیا کا واحد کارآمد نظام بنا کر پیش کیا گیا۔ اس کا خمیازہ دنیا کے 7ارب غریب عوام بھگت رہے ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سرمایہ داروں ہی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے اس نظام میں 90 فیصد غریب طبقات محنت کرنے بھوکے رہنے یا آدھا پیٹ کھا کر زندہ رہنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں، اس کی معیشت کا انحصار جنگوں، ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت پر ہے۔اس نظام میں سرمایہ داروں کی سیاست یہ ہے کہ دنیا ہر وقت علاقائی جنگوں میں الجھی رہے یا جنگوں کا خوف اس کے سر پر سوار رہے تا کہ ہتھیاروں کی فروخت کا سلسلہ جاری رہے، ہتھیاروں کی تجارت سے اسلحے کے کارخانے اربوں روپے کما رہے ہیں جو ان کے اکاؤنٹس میں تو بھاری اضافہ کرتے ہیں ، غریب کی غربت میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ یہ ایک کھلی لوٹ مار ہے جس سے ہر باشعور شخص واقف ہے لیکن کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ دنیا کی جمہوری حکومتیں ہتھیاروں کی خرید پر اس لیے منہ بند کیے بیٹھی ہیں کہ انھیں ہتھیاروں کی خرید پرکروڑوں ڈالر کا کمیشن ملتا ہے۔
آج دنیا کے مختلف ملک یا تو جنگ زدہ ہیں یا جنگوں کی طرف بڑھ رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بڑے ملک اگر چاہیں تو جنگوں کا خاتمہ اور مستقبل میں جنگوں سے نجات نہیں دلا سکتے؟ بالکل ایسا کر سکتے ہیں لیکن یہ ملک ایسا کریں گے نہیں، کیونکہ ان سے سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت ملتی ہے اور لوٹ مار کے مواقعے حاصل رہتے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خود ساختہ گورکھ دھندوں میں عوام کو اس بری طرح الجھا دیا گیا ہے کہ اس کی ساری توجہ دال روٹی کے حصول پر مرکوز رہتی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کے پھیلائے ہوئے جال کو سمجھ ہی نہیں پاتا۔ ہمارے مڈل کلاس کے اکابرین پر یہ ذمے داری آتی ہے کہ وہ عوام میں طبقاتی شعور پیدا کریں۔ لیکن تماشا ملاحظہ ہو کہ مڈل کلاس حکمران طبقے کی سب سے بڑی حامی بنی ہوئی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ وہ خود اس پورے نظام کو چلا رہی ہے۔
یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں ، اگرچہ یہ تحریکیں ابھی ابتدائی اسٹیج پر ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے تضادات اور اس کے نتیجے میں تیزی سے غربت میں اضافہ آخرکار غریب طبقات کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سڑکوں پر لائے گا۔ بدقسمتی سے جو طاقتیں ان تضادات کو بڑھا کر عوام کو سڑکوں پر آنے کے لیے تیار کرتی ہیں وہ یا تو چپ سادھ کر بیٹھ گئی ہیں یا پھر ذہنی خلفشار کا شکار ہیں ، اگرچہ یہ حالات مایوس کن ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات آخرکار عوام کو سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کر دیں گے۔