سانچ کو کچھ آنچ نہیں
کسی بھی بڑے فورم پر کشمیر کی بات کرنا گناہِ عظیم بن گیا تھا لیکن اب کشمیر پر ہر چھوٹے بڑے فورم پر بات ہو رہی ہے۔
آپ کو کوئی بھی مہم درپیش ہو، آپ کسی بھی مشن پر نکلیں، کوئی بھی امتحان دیں،کسی بھی دورے پر جائیں، عام طور پر دو نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ یا تو اپنے کام میں کامیابی سمیٹیں گے یا پھر کامیابی نہیں ہو گی۔ کامیابی نہ ہونا اُس وقت تک ناکامی نہیں بنتی جب تک کوشش جاری رکھنے کا عزم جوان رہتا ہے اور آپ اپنے تجربے کو کام میں لاتے ہوئے نئی پلاننگ سے پلٹ کر اپنا ہدف حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں لیکن کامیابی اسی وقت آپ کے قدم چومتی ہے جب آپ نیک نیت ہوں۔
سچ اور معروضی حالات کا غیر جذباتی تجزیہ کرنے کی ہمت ہو اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے سچ ہی بولیں۔ پچھلی چھ سات دہائیوں سے ہمیں کبھی نہیں بتایا گیا کہ ہمارا کوئی دورہ کامیاب نہیں رہا، ہماری فلاں مہم ناکام ہوئی، ہماری فلاں پلاننگ نے خاطر خواہ نتائج نہیں دیے یا یہ کہ ہم نے فلاں جنگ میں کامیابی کا منہ نہیں دیکھا۔ ہمیں ہمیشہ مثالی کامیابی کا راگ سنایا گیا۔
اگر یہ سب ٹھیک ہے، اگر ہم اپنی ہر مہم میں کامیاب رہے ہیں، اگر ہم نے ہر معاملے میں کامیابیوں کو ہی سمیٹا ہے تو پھر ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کا شکار کیوں ہو رہے ہیں، تعلیمی میدان میں پیچھے کیوں رہ گئے ہیں، معاشی طور پر ایسے ناکام کیوں رہے ہیں کہ ایک بھیک منگی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہیں نہ کہیں خرابی ہے جو گھُن کی طرح کھا رہی ہے۔ کہتے ہیں سچ کو آنچ نہیں تو یہ آنچ جس نے ہمارے خرمن کو جلا کر خاکستر کرنے کی ٹھان رکھی ہے کہاں سے آ گئی ہے۔ لگتا ہے ہم اپنے آپ سے اور قومی سطح پر پاکستان کے اصلی مالک عوام سے سچ نہیں بول رہے۔
بھارت نے5اگست 2019 کو آئین میں کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ترمیم کی اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ریاست کو ایک Union Territory بنا دیا، گویا کہ بھارت نے مقبوضہ ریاستِ جموں و کشمیر کو اپنے اندر ضم کر لیا۔ تب پاکستان کی درخواست پر اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا ایک غیر رسمی اجلاس ہوا۔ ہمارے ہاں اس اجلاس کا بہت چرچا ہوا اور ہم نے اپنے آپ کو باور کرایا کہ ہم نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے جس پر کافی ہا ہا کار ہوئی۔ ہم نے پاکستان کے اصلی اسٹیک ہولڈرز کو یہ نہیں بتایا کہ وہ میٹنگ سیکیورٹی کونسل کے ہاس شو کمرے میں نہیں ہوئی۔ وہ ریگولر اجلاس نہیں تھا، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا اس کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر بات ہوئی۔ پچھلی چند دہائیوں میں کشمیر کے مسئلے پر بات نہیں ہو پا رہی تھی۔
کسی بھی بڑے فورم پر کشمیر کی بات کرنا گناہِ عظیم بن گیا تھا لیکن اب کشمیر پر ہر چھوٹے بڑے فورم پر بات ہو رہی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس ،چین جاپان اور عرب ممالک کے تمام بڑے جرائد نے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر لکھا ہے۔ الجزیرہ، بی بی سی، سی این این، آرٹی، ڈی ڈبلیو اور دوسرے تمام بڑے چینلز نے اس اہم موضوع کو ایک سے زیادہ بار اپنے پروگراموں میں زیرِ بحث لایا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اگست 2019 سے پہلے کوئی کشمیر کا ذکر نہیں کرتا تھا اب ہر جگہ بات ہو رہی ہے لیکن اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ ہماری کوششوں سے ہوا یا پھر بھار تیوں کی مس مینجمنٹ سے ایسا ہوا۔ ظاہر ہے ہم پاکستانیوں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے چار دہائیوں کے بعد کشمیر کا مسئلہ سینٹرا سٹیج پر آیا۔ یہ صرف مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اب کیا ہم اس موقع سے بخوبی فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
امریکا ایران کشیدگی میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو ذرا سا آگے بڑھایا ہے جس کی وجہ سے یورپی ممالک میںخاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکا بھی جوہری معاہدے سے نکل تو گیا ہے لیکن اس کی پوری کوشش ہے کہ ایران دوبارہ بات چیت پر راضی ہو جائے۔ ایران نے صاف کہہ دیا ہے کہ جب تک پابندیاں عائد رہیں گی بات چیت نہیں ہو گی۔ یورپی ممالک کی تشویش کی وجہ سے ایران کو دباؤ میں لانے کے لیے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طے پایا تھا۔ اسی دوران پاکستان چین کی درخواست پر کشمیر کو بھی اجلاس میں زیرِ بحث لانے کے لیے ایجنڈا پوائنٹس کے Others میں شامل کر لیا گیا۔ بدھ 15 جنوری کو صبح سوا نو بجے سیکیورٹی کونسل کا اجلاس شروع ہوا۔ ایجنڈا پوائنٹس نبٹانے کے بعد بند کمرے میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر غیر رسمی بحث ہوئی۔
اس اجلاس میں کشمیر پر تفصیلی بحث کے راستے میں سب سے زیادہ روڑے فرانس نے اٹکائے۔ فرانس کا موقف تھا کہ کشمیر انٹر نیشنل ایشو نہیں۔ یہ پاک بھارت دوطرفہ معاملہ ہے اس لیے دونوں ممالک کو آپسی مذاکرات کے ذریعے یہ معاملہ طے کرنا چاہیے۔ اسٹونیا جو موجودہ ٹرم کے لیے غیر مستقل ممبر ہے، اس نے بھی اسی بات پر زور دیا کہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ روس امریکا اور برطانیہ نے بھی دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں لیکن سب نے کشمیر کی مخدوش صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
بدھ کو ہونے والے اس اجلاس کی بہت اہمیت ہے۔ بھارت نے اپنے تئیں کشمیر کو ہڑپ کر کے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر ضم کر لیا لیکن اس اجلاس میں کشمیر پر بریفنگ اور غور و خوض اس بات کا ثبوت ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارتی موقف کے بر خلاف بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ بھارت نے بہت کوشش کی کہ سلامتی کونسل میں کشمیر زیرِ بحث نہ آئے لیکن کامیابی نہ ملی۔ پاکستان کی خواہش تھی کہ سیکیورٹی کونسل ایمرجنسی اجلاس بلا کر مقبوضہ کشمیر میں لگی آگ پر تفصیلی بحث کرے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
چین نے بھی بڑھ چڑھ کر پاکستانی موقف کی حمایت کی لیکن پانچ مستقل ارکان جنھیں پی 5 کہا جاتا ہے، ان کی اکثریت نے بگڑتی صورتحال کو تو مانا لیکن پاکستانی کوششوںکا ساتھ نہیں دیا۔ چین کے علاوہ باقی پی فائیو ممالک کی سرد مہری بہت مایوس کن ہے لیکن یہ کسی طرح بھی غیرمتوقع نہیں ہے۔21 ویںصدی میں تجارت اور معیشت کی بنیاد پر قومیں آپسی تعلقات استوار کر رہی ہیں۔ فرانس نے کشمیر پر پہلے کبھی اتنا بھارت نواز کردار ادا نہیں کیا تھا جتنا اس اجلاس میں کیا۔ فرانس کا بھارت نواز یہ کردار بالکل حیرت انگیز نہیں، ابھی پچھلے کچھ عرصے میں بھارت نے نقد کیش دینے کی بنیاد پر رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا سودا کیا ہے۔ اسی طرح استونیا کے وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں نئی دہلی کا دورہ کیا جس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کئی تجارتی معاھدے ہوئے۔
قارئینِ کرام میں نے ابتداء میں سچ کا سامنا کرنے، سچ بولنے اور سچ شیئر کرنے پر زور دیا تھا۔ ہمیں اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا بغور جائزہ لے کر اپنی پالیسیاں بنانے اور ترجیحات مرتب کرنے اور عوام سے سچ شیئر کرنیکی اشد ضرورت ہے۔ اگلے چند مہینوں میں پاکستان کو مواقع ملنے کا بہت امکان ہے، یہ سال امریکا میں انتخابات کا سال ہے، بین الاقوامی سیاسی میدان میں ٹرمپ کو ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی۔ پاکستان کی مدد سے افغانستان واحد تھیٹر ہے جہاں ٹرمپ کامیابی دکھا سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی منصوبہ بندی بہت اہم ہو گی۔
سچ اور معروضی حالات کا غیر جذباتی تجزیہ کرنے کی ہمت ہو اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے سچ ہی بولیں۔ پچھلی چھ سات دہائیوں سے ہمیں کبھی نہیں بتایا گیا کہ ہمارا کوئی دورہ کامیاب نہیں رہا، ہماری فلاں مہم ناکام ہوئی، ہماری فلاں پلاننگ نے خاطر خواہ نتائج نہیں دیے یا یہ کہ ہم نے فلاں جنگ میں کامیابی کا منہ نہیں دیکھا۔ ہمیں ہمیشہ مثالی کامیابی کا راگ سنایا گیا۔
اگر یہ سب ٹھیک ہے، اگر ہم اپنی ہر مہم میں کامیاب رہے ہیں، اگر ہم نے ہر معاملے میں کامیابیوں کو ہی سمیٹا ہے تو پھر ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کا شکار کیوں ہو رہے ہیں، تعلیمی میدان میں پیچھے کیوں رہ گئے ہیں، معاشی طور پر ایسے ناکام کیوں رہے ہیں کہ ایک بھیک منگی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہیں نہ کہیں خرابی ہے جو گھُن کی طرح کھا رہی ہے۔ کہتے ہیں سچ کو آنچ نہیں تو یہ آنچ جس نے ہمارے خرمن کو جلا کر خاکستر کرنے کی ٹھان رکھی ہے کہاں سے آ گئی ہے۔ لگتا ہے ہم اپنے آپ سے اور قومی سطح پر پاکستان کے اصلی مالک عوام سے سچ نہیں بول رہے۔
بھارت نے5اگست 2019 کو آئین میں کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ترمیم کی اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ریاست کو ایک Union Territory بنا دیا، گویا کہ بھارت نے مقبوضہ ریاستِ جموں و کشمیر کو اپنے اندر ضم کر لیا۔ تب پاکستان کی درخواست پر اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا ایک غیر رسمی اجلاس ہوا۔ ہمارے ہاں اس اجلاس کا بہت چرچا ہوا اور ہم نے اپنے آپ کو باور کرایا کہ ہم نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے جس پر کافی ہا ہا کار ہوئی۔ ہم نے پاکستان کے اصلی اسٹیک ہولڈرز کو یہ نہیں بتایا کہ وہ میٹنگ سیکیورٹی کونسل کے ہاس شو کمرے میں نہیں ہوئی۔ وہ ریگولر اجلاس نہیں تھا، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا اس کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر بات ہوئی۔ پچھلی چند دہائیوں میں کشمیر کے مسئلے پر بات نہیں ہو پا رہی تھی۔
کسی بھی بڑے فورم پر کشمیر کی بات کرنا گناہِ عظیم بن گیا تھا لیکن اب کشمیر پر ہر چھوٹے بڑے فورم پر بات ہو رہی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس ،چین جاپان اور عرب ممالک کے تمام بڑے جرائد نے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر لکھا ہے۔ الجزیرہ، بی بی سی، سی این این، آرٹی، ڈی ڈبلیو اور دوسرے تمام بڑے چینلز نے اس اہم موضوع کو ایک سے زیادہ بار اپنے پروگراموں میں زیرِ بحث لایا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اگست 2019 سے پہلے کوئی کشمیر کا ذکر نہیں کرتا تھا اب ہر جگہ بات ہو رہی ہے لیکن اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ ہماری کوششوں سے ہوا یا پھر بھار تیوں کی مس مینجمنٹ سے ایسا ہوا۔ ظاہر ہے ہم پاکستانیوں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے چار دہائیوں کے بعد کشمیر کا مسئلہ سینٹرا سٹیج پر آیا۔ یہ صرف مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اب کیا ہم اس موقع سے بخوبی فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
امریکا ایران کشیدگی میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو ذرا سا آگے بڑھایا ہے جس کی وجہ سے یورپی ممالک میںخاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکا بھی جوہری معاہدے سے نکل تو گیا ہے لیکن اس کی پوری کوشش ہے کہ ایران دوبارہ بات چیت پر راضی ہو جائے۔ ایران نے صاف کہہ دیا ہے کہ جب تک پابندیاں عائد رہیں گی بات چیت نہیں ہو گی۔ یورپی ممالک کی تشویش کی وجہ سے ایران کو دباؤ میں لانے کے لیے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طے پایا تھا۔ اسی دوران پاکستان چین کی درخواست پر کشمیر کو بھی اجلاس میں زیرِ بحث لانے کے لیے ایجنڈا پوائنٹس کے Others میں شامل کر لیا گیا۔ بدھ 15 جنوری کو صبح سوا نو بجے سیکیورٹی کونسل کا اجلاس شروع ہوا۔ ایجنڈا پوائنٹس نبٹانے کے بعد بند کمرے میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر غیر رسمی بحث ہوئی۔
اس اجلاس میں کشمیر پر تفصیلی بحث کے راستے میں سب سے زیادہ روڑے فرانس نے اٹکائے۔ فرانس کا موقف تھا کہ کشمیر انٹر نیشنل ایشو نہیں۔ یہ پاک بھارت دوطرفہ معاملہ ہے اس لیے دونوں ممالک کو آپسی مذاکرات کے ذریعے یہ معاملہ طے کرنا چاہیے۔ اسٹونیا جو موجودہ ٹرم کے لیے غیر مستقل ممبر ہے، اس نے بھی اسی بات پر زور دیا کہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ روس امریکا اور برطانیہ نے بھی دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں لیکن سب نے کشمیر کی مخدوش صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
بدھ کو ہونے والے اس اجلاس کی بہت اہمیت ہے۔ بھارت نے اپنے تئیں کشمیر کو ہڑپ کر کے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر ضم کر لیا لیکن اس اجلاس میں کشمیر پر بریفنگ اور غور و خوض اس بات کا ثبوت ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارتی موقف کے بر خلاف بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ بھارت نے بہت کوشش کی کہ سلامتی کونسل میں کشمیر زیرِ بحث نہ آئے لیکن کامیابی نہ ملی۔ پاکستان کی خواہش تھی کہ سیکیورٹی کونسل ایمرجنسی اجلاس بلا کر مقبوضہ کشمیر میں لگی آگ پر تفصیلی بحث کرے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
چین نے بھی بڑھ چڑھ کر پاکستانی موقف کی حمایت کی لیکن پانچ مستقل ارکان جنھیں پی 5 کہا جاتا ہے، ان کی اکثریت نے بگڑتی صورتحال کو تو مانا لیکن پاکستانی کوششوںکا ساتھ نہیں دیا۔ چین کے علاوہ باقی پی فائیو ممالک کی سرد مہری بہت مایوس کن ہے لیکن یہ کسی طرح بھی غیرمتوقع نہیں ہے۔21 ویںصدی میں تجارت اور معیشت کی بنیاد پر قومیں آپسی تعلقات استوار کر رہی ہیں۔ فرانس نے کشمیر پر پہلے کبھی اتنا بھارت نواز کردار ادا نہیں کیا تھا جتنا اس اجلاس میں کیا۔ فرانس کا بھارت نواز یہ کردار بالکل حیرت انگیز نہیں، ابھی پچھلے کچھ عرصے میں بھارت نے نقد کیش دینے کی بنیاد پر رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا سودا کیا ہے۔ اسی طرح استونیا کے وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں نئی دہلی کا دورہ کیا جس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کئی تجارتی معاھدے ہوئے۔
قارئینِ کرام میں نے ابتداء میں سچ کا سامنا کرنے، سچ بولنے اور سچ شیئر کرنے پر زور دیا تھا۔ ہمیں اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا بغور جائزہ لے کر اپنی پالیسیاں بنانے اور ترجیحات مرتب کرنے اور عوام سے سچ شیئر کرنیکی اشد ضرورت ہے۔ اگلے چند مہینوں میں پاکستان کو مواقع ملنے کا بہت امکان ہے، یہ سال امریکا میں انتخابات کا سال ہے، بین الاقوامی سیاسی میدان میں ٹرمپ کو ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی۔ پاکستان کی مدد سے افغانستان واحد تھیٹر ہے جہاں ٹرمپ کامیابی دکھا سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی منصوبہ بندی بہت اہم ہو گی۔