آخر دور خلافت قائم ہوگا
حضور ﷺ کی خوش خبری یہ ہے کہ پھر ایک دور آئے گا خلافت کا۔
آج کے اس دور میں جہاں ہم اور آپ سانس لے رہے ہیں، یہ انتہائی پرآشوب دور ہے۔ آج اسلام کو بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے، اسلام دشمن طاقتوں کی دشمنی کی ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر مسلمان رسمی طور پر اسلام کو نہیں چھوڑتے تو نہ چھوڑیں مگر وہ مسلمان بھی نہ رہے۔
اسی نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک عرصے سے مغربی مشنریاں اور سیاسی طاقتیں اس میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی کہ کتنے مسلمان اپنا دین چھوڑ چکے ہیں بلکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی کلچرکو اپنانے ہی میں اپنا نجات سمجھیں اسی سوچ کے تحت سیاست دان ، سرمایہ ، اسکالر ، مفکر ، بشپ اور پادری دوسرے بہت سارے ناموں کے ساتھ اسلام کے ،خلاف قرآن کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور دن رات اسلام کے متعلق غلط فہمیاں اور شکوک و شبہات پھیلانے میں مشغول و مصروف ہیں۔
کبھی سائنسی تحقیقات کی آڑ میں قرآن اور اسلام پہ حملہ کیا جاتا ہے توکبھی سماجی واخلاقی،اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے مگر جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ ترجمہ : یہ وہ دین (اسلام) ہے جو تمام ادیان پر، تمام مذاہب پر غالب ہوکر رہے گا ۔
کسی شاعر نے کہا ہے کہ اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے اور فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے ، وہ شمع کیا بھجے جسے روشن خدا کرے ۔ اور اس کا منظر بارہا ہمارے اور آپ کے سامنے آتا ہے ، ہم اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ 9/11 کے بعد جن لوگوں نے اسلام کو بد نام کرنے کی خاطر یہ منصوبہ رچایا اور یہ پلاننگ کی ان کو منہ کی کھانی پڑی۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ اسلام کو بد نام کرنے کے لیے انھوں نے یہ پروگرام طے کیا اور لوگ اسلام کے قریب ہوتے گئے اور اسلام کو گلے لگاتے گئے اس لیے آج اسلام دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے۔
جب بھی قرآن اور اسلام کے خلاف کوئی سازش وجود میں آتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں سے اس کی حفاظت کا انتظام کر دیتے ہیں ۔ اس تسلسل میں اگر موجودہ دور میں نظر ڈالی جائے تو ہمیں ایک ایسی شخصیت نظر آتی ہے جس نے اسلام کے خلاف چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور وہ ہیں ڈاکٹر ذاکر نائیک جن کی پیدائش 18اکتوبر 1965ء کو بھارت کے شہر ممبئی میں عبدالکریم نائیک کے گھر میں ہوئی ،مذہب اسلام ہے ،کشن چند چیلا رام کالج ، ٹوپی والا نیشنل کالج میڈیکل کالج اینڈ نائر ہاسٹل ، ممبئی یونیورسٹی ان کے مادر علمی رہے ہیں۔
پیشہ کے لحاظ سے طبیب ، مصنف ، دانشور واعظ ،جراح، خطیب ہیں، ان کی پیشہ ورانہ زبان انگریزی ہے، ان کا شعبہ عمل دعوہ ، تقابل ادیان ہے۔ ان کی زوجہ کا نام فرحت نائیک ہے، ان کا ایک بیٹا ہے، جس کا نام فاروق نائیک ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک بھارتی مقرر ہیں، جو تقابل ادیان اور مناظروں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، تاہم 1991ء سے اسلام کی تبلیغ کی جانب اپنی مکمل توجہ دینی شروع کردی۔ آپ مسیحیت اور ہندو مت کے مذہبی رہنماؤں سے مناظروں کے لیے مشہور ہیں۔
بہت سے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ آپ بمبئی میں اسلامی تحقیق سینٹرکے صدر ہیں اور اسلامی چینل پیس ٹی وی کے نام سے چلارہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک حاضرجوابی اور مناظرہ میں دسترس رکھتے ہیں ، ان کو عالمگیر شہرت مسیحی مناظر ولیم کیمپبل کے ساتھ مناظرہ سے حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک احمد دیدات کے شاگرد بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے تصانیف میں ، اسلام پر چالیس اعتراضات کے عقلی ونقلی جواب، مذاہب عالم میں تصور خدا اور اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کے بیس سوال ، بائبل اور قرآن جدید سائنس کی روشنی میں، اسلام اور ہندو مت (ایک تقابلی مطالعہ) اور اسلام میں خواتین کے حقوق جدید یا فرسودہ شامل ہیں ۔
ان کے ادارہ اسلامک ریسرچ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کوگزشتہ چھ سالوں میں برطانیہ ، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ سے تقریبا پندرہ کروڑ روپے حاصل ہوئے۔اس لیے 2016ء میں بھارت کی حکومت نے ان کی تحقیقات کا حکم دیا تاکہ پتہ چلے کہ ان عطیات کوکن مصارف میں خرچ کیا گیا تھا۔ ایک گروپ نے فیس بک کے ذریعے ڈاکٹر نائیک کے سر پر پندرہ لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے۔
بنگلہ دیش میں 2016ء ڈھاکہ حملہ کے ردعمل کے طور پر ذاکر نائیک کے پیس ٹی وی پر امتناع عائد کر دیا گیا ہے۔ 2016ء میں یہ کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تبلیغی کوششوں سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں کیرلا کے21شہری بھی ہیں جن کے حالات ہنوز نامعلوم ہیں۔ کیرلا کی حکومت کو یہ اندیشہ ہے کہ یہ لوگ عراق اور شام میں داعش میں شمولیت اختیارکرتے ہوئے عالمی دہشت گردی کا حصہ بن گئے ہیں۔
یہی رائے کیرلا کی انڈین نیشنل کانگریس شاخ کی بھی رہی ہے۔ تاہم انڈین مسلم لیگ نے اس بات کے امکانات سے انکارکیا ہے اور ڈاکٹر نائیک کی حمایت کی ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے مئی2017ء میں سعودی عرب کی شہرت اپنائی، گزشتہ برس بھارت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ملک بدرکیا اور انھوں نے ملائیشیا میں پناہ حاصل کرلی ہے ۔گزشتہ ہفتہ کو بھارت کی مودی حکومت نے ڈاکٹر نائیک کو واپس بھارت آنے کی مشروط پیشکش کی کہ وہ کشمیر پر مودی حکومت کی تائید کرے اس پیشکش کو انھوں نے ٹھکرا دیا ۔
کل کی طرح آج بھی عالم اسلام کی حالت قابل رحم ہے کشمیر ، عراق ، فلسطین ، شام ، یمن، چین ، افغانستان میں خون مسلم ارزاں ہے۔ ایران نشانے پر ہے قبل ازیں متعدد مسلم ممالک کو اینٹ سے اینٹ بجھا دیا گیا ہے یہ ایک طویل داستان ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم ) نے کافی سال پہلے اس وقت کے عالم اسلام کی قابل رحم حالات کے پیش نظر جو باتیں کی تھیں وہ آج بھی تازہ معلوم ہوتی ہیں ، انھوں نے کہا تھا کہ زمینی حالات دیکھتے ہوئے آنکھوں میں اندھیارا چھا جاتا ہے ، دل بیٹھ جاتا ہے ،کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ، حقیقت کا سامنا تو کرنا پڑے گا ، امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، مسلمان تو ہیں لیکن کہاں ہے وہ اسلام ؟ ایک ارب سے زائد مسلمان تو ہیں لیکن ایک انچ زمین تو دکھاؤ جہاں تم نے اسلام نافذ کیا ہو ؟ تو وہاں ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے، امید کا دامن تھامنے کے لیے کوئی چیز ہمیں چاہیے اور وہ ہے محمدﷺ کی دی گئی خوش خبریاں۔
حضور ﷺ کی خوش خبری یہ ہے کہ پھر ایک دور آئے گا خلافت کا۔ موجودہ دور میں عالم اسلام کا درد رکھنے والوں میں پاکستان ، ایران ، ملائیشیا، ترکی سرفہرست نظر آتے ہیں۔ امیدکامل ہے کہ ان مسلم ممالک کی کوششوں سے عالم اسلام کے مظلوم عوام کو عالمی انصاف مل کر رہے گا۔
اسی نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک عرصے سے مغربی مشنریاں اور سیاسی طاقتیں اس میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی کہ کتنے مسلمان اپنا دین چھوڑ چکے ہیں بلکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی کلچرکو اپنانے ہی میں اپنا نجات سمجھیں اسی سوچ کے تحت سیاست دان ، سرمایہ ، اسکالر ، مفکر ، بشپ اور پادری دوسرے بہت سارے ناموں کے ساتھ اسلام کے ،خلاف قرآن کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور دن رات اسلام کے متعلق غلط فہمیاں اور شکوک و شبہات پھیلانے میں مشغول و مصروف ہیں۔
کبھی سائنسی تحقیقات کی آڑ میں قرآن اور اسلام پہ حملہ کیا جاتا ہے توکبھی سماجی واخلاقی،اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے مگر جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ ترجمہ : یہ وہ دین (اسلام) ہے جو تمام ادیان پر، تمام مذاہب پر غالب ہوکر رہے گا ۔
کسی شاعر نے کہا ہے کہ اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے اور فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے ، وہ شمع کیا بھجے جسے روشن خدا کرے ۔ اور اس کا منظر بارہا ہمارے اور آپ کے سامنے آتا ہے ، ہم اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ 9/11 کے بعد جن لوگوں نے اسلام کو بد نام کرنے کی خاطر یہ منصوبہ رچایا اور یہ پلاننگ کی ان کو منہ کی کھانی پڑی۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ اسلام کو بد نام کرنے کے لیے انھوں نے یہ پروگرام طے کیا اور لوگ اسلام کے قریب ہوتے گئے اور اسلام کو گلے لگاتے گئے اس لیے آج اسلام دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے۔
جب بھی قرآن اور اسلام کے خلاف کوئی سازش وجود میں آتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں سے اس کی حفاظت کا انتظام کر دیتے ہیں ۔ اس تسلسل میں اگر موجودہ دور میں نظر ڈالی جائے تو ہمیں ایک ایسی شخصیت نظر آتی ہے جس نے اسلام کے خلاف چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور وہ ہیں ڈاکٹر ذاکر نائیک جن کی پیدائش 18اکتوبر 1965ء کو بھارت کے شہر ممبئی میں عبدالکریم نائیک کے گھر میں ہوئی ،مذہب اسلام ہے ،کشن چند چیلا رام کالج ، ٹوپی والا نیشنل کالج میڈیکل کالج اینڈ نائر ہاسٹل ، ممبئی یونیورسٹی ان کے مادر علمی رہے ہیں۔
پیشہ کے لحاظ سے طبیب ، مصنف ، دانشور واعظ ،جراح، خطیب ہیں، ان کی پیشہ ورانہ زبان انگریزی ہے، ان کا شعبہ عمل دعوہ ، تقابل ادیان ہے۔ ان کی زوجہ کا نام فرحت نائیک ہے، ان کا ایک بیٹا ہے، جس کا نام فاروق نائیک ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک بھارتی مقرر ہیں، جو تقابل ادیان اور مناظروں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، تاہم 1991ء سے اسلام کی تبلیغ کی جانب اپنی مکمل توجہ دینی شروع کردی۔ آپ مسیحیت اور ہندو مت کے مذہبی رہنماؤں سے مناظروں کے لیے مشہور ہیں۔
بہت سے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ آپ بمبئی میں اسلامی تحقیق سینٹرکے صدر ہیں اور اسلامی چینل پیس ٹی وی کے نام سے چلارہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک حاضرجوابی اور مناظرہ میں دسترس رکھتے ہیں ، ان کو عالمگیر شہرت مسیحی مناظر ولیم کیمپبل کے ساتھ مناظرہ سے حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک احمد دیدات کے شاگرد بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے تصانیف میں ، اسلام پر چالیس اعتراضات کے عقلی ونقلی جواب، مذاہب عالم میں تصور خدا اور اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کے بیس سوال ، بائبل اور قرآن جدید سائنس کی روشنی میں، اسلام اور ہندو مت (ایک تقابلی مطالعہ) اور اسلام میں خواتین کے حقوق جدید یا فرسودہ شامل ہیں ۔
ان کے ادارہ اسلامک ریسرچ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کوگزشتہ چھ سالوں میں برطانیہ ، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ سے تقریبا پندرہ کروڑ روپے حاصل ہوئے۔اس لیے 2016ء میں بھارت کی حکومت نے ان کی تحقیقات کا حکم دیا تاکہ پتہ چلے کہ ان عطیات کوکن مصارف میں خرچ کیا گیا تھا۔ ایک گروپ نے فیس بک کے ذریعے ڈاکٹر نائیک کے سر پر پندرہ لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے۔
بنگلہ دیش میں 2016ء ڈھاکہ حملہ کے ردعمل کے طور پر ذاکر نائیک کے پیس ٹی وی پر امتناع عائد کر دیا گیا ہے۔ 2016ء میں یہ کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تبلیغی کوششوں سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں کیرلا کے21شہری بھی ہیں جن کے حالات ہنوز نامعلوم ہیں۔ کیرلا کی حکومت کو یہ اندیشہ ہے کہ یہ لوگ عراق اور شام میں داعش میں شمولیت اختیارکرتے ہوئے عالمی دہشت گردی کا حصہ بن گئے ہیں۔
یہی رائے کیرلا کی انڈین نیشنل کانگریس شاخ کی بھی رہی ہے۔ تاہم انڈین مسلم لیگ نے اس بات کے امکانات سے انکارکیا ہے اور ڈاکٹر نائیک کی حمایت کی ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے مئی2017ء میں سعودی عرب کی شہرت اپنائی، گزشتہ برس بھارت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ملک بدرکیا اور انھوں نے ملائیشیا میں پناہ حاصل کرلی ہے ۔گزشتہ ہفتہ کو بھارت کی مودی حکومت نے ڈاکٹر نائیک کو واپس بھارت آنے کی مشروط پیشکش کی کہ وہ کشمیر پر مودی حکومت کی تائید کرے اس پیشکش کو انھوں نے ٹھکرا دیا ۔
کل کی طرح آج بھی عالم اسلام کی حالت قابل رحم ہے کشمیر ، عراق ، فلسطین ، شام ، یمن، چین ، افغانستان میں خون مسلم ارزاں ہے۔ ایران نشانے پر ہے قبل ازیں متعدد مسلم ممالک کو اینٹ سے اینٹ بجھا دیا گیا ہے یہ ایک طویل داستان ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم ) نے کافی سال پہلے اس وقت کے عالم اسلام کی قابل رحم حالات کے پیش نظر جو باتیں کی تھیں وہ آج بھی تازہ معلوم ہوتی ہیں ، انھوں نے کہا تھا کہ زمینی حالات دیکھتے ہوئے آنکھوں میں اندھیارا چھا جاتا ہے ، دل بیٹھ جاتا ہے ،کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ، حقیقت کا سامنا تو کرنا پڑے گا ، امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، مسلمان تو ہیں لیکن کہاں ہے وہ اسلام ؟ ایک ارب سے زائد مسلمان تو ہیں لیکن ایک انچ زمین تو دکھاؤ جہاں تم نے اسلام نافذ کیا ہو ؟ تو وہاں ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے، امید کا دامن تھامنے کے لیے کوئی چیز ہمیں چاہیے اور وہ ہے محمدﷺ کی دی گئی خوش خبریاں۔
حضور ﷺ کی خوش خبری یہ ہے کہ پھر ایک دور آئے گا خلافت کا۔ موجودہ دور میں عالم اسلام کا درد رکھنے والوں میں پاکستان ، ایران ، ملائیشیا، ترکی سرفہرست نظر آتے ہیں۔ امیدکامل ہے کہ ان مسلم ممالک کی کوششوں سے عالم اسلام کے مظلوم عوام کو عالمی انصاف مل کر رہے گا۔