معاشی شراکت داروں کے انتخاب کا حق ہے پاکستان نے امریکی بیان رد کر دیا
سی پیک کے قرضے 4 ارب 90 کروڑ ڈالر ہیں جوملکی مجموعی قرضوں کا 10 فیصد بھی نہیں،چین سدا بہار شراکت دار ہے،دفترخارجہ
LONDON:
پاکستان نے اقتصادی راہداری منصوبہ کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ سی پیک کے مجموعی قرضے 4 ارب 90 کروڑ ڈالر ہیں جوملکی مجموعی قرضوں کا 10 فیصد بھی نہیں، چین سدا بہار شراکت دار ہے، سی پیک پاکستان کے لیے مثبت تبدیلیوں کا منصوبہ ہے، اس کی تیزی سے تکمیل اولین ترجیح ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے جمعرات کو ہفتہ واربریفنگ میں امریکی سفیر ایلس ویلز کابیان مسترد کردیا،جس میں دعویٰ کیا گیاکہ سی پیک قرضوں یا ریاستی ضمانت کے ساتھ غیر رعایتی مالی معاونت پر مبنی ہے، یہ طویل المدتی منصوبہ ہے جو توانائی، ڈھانچہ سازی،صنعتکاری اور روزگارپیدا کرنے میں مدد گار رہا ہے، اس منصوبہ کے پاکستانی عوام اور سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے بے پناہ اقتصادی فوائد ہوں گے، یہ علاقائی روابط و خوشحالی کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔
سی پیک کے تحت 12 بجلی منصوبے مکمل ہو چکے یا زیرتکمیل ہیں، ان سے 7240 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی، ان منصوبوں میں 12.4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، دیگر 9 منصوبے بھی تکمیل کے مرحلہ میں ہیں،جن سے 6390میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ اس بجلی کا پاکستان میں پیدامجموعی توانائی میں 14 فیصد سے زائدحصہ ہوگا۔ ان منصوبوں نے 250 ملین ڈالر ٹیکسوں کی مد میں اداجبکہ 10 ہزار سے زائد روزگار کے مواقع پیدا کئے۔
پاکستان خصوصی اقتصای زونز میں تمام ملکوں کی جانب سے سرمایہ کاروں کا خیرمقدم کر رہا ہے۔ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے مختلف اقدامات کئے ،امریکہ سمیت ایف اے ٹی ایف ارکان سے رابطے میں ہیں۔پاکستان تنازع کشمیر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کرتا ہے، توقع ہے اس پر عملدرآمد بھی ہو گا ۔
بھارت کی جانب سے ایس 400 دفاعی نظام میں شمولیت سے متعلق ترجمان نے کہا پاکستان نے خطہ میں بیلسٹک میزائل دفاعی نظام کی شمولیت پرہمیشہ تحفظات کا اظہار کیا ، ایسے اقدامات سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو گااور غیر ضروری اسلحہ کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
پاکستان اپنی ڈیٹرنس یقینی بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ترجمان نے مزیدکہا وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مسئلہ کشمیر سمیت ایف اے ٹی ایف کے معاملے پربات ہوئی،ٹرمپ کے دورہ پاکستان کی تاریخ طے نہیں ہوئی،ان کی خواہش ہے جب دورہ ہو تو صرف پاکستان کے دورے پرآئیں ۔شنگھائی تعاون تنظیم سربراہان اجلاس کا دعوت نامہ نہیں ملا۔
بھارتی وزیر دفاع کا بیان ان کی حکومت کی مشتعل سوچ کا عکاس ہے، بھارتی ناظم الامور کو سیز فائر معاہدے خلاف ورزی پر طلب کیا گیا،مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی سلوک جاری ہے،بھارت سے ذرائع مواصلات بحال اور اسیر کشمیری رہاکرنے کامطالبہ کیا،ایلس ویلزکے دورے کے دوران افغان مفاہمتی عمل پربات چیت کی گئی۔
دریں اثناء وزارت منصوبہ بندی کے ترجمان ظفر الحسن نے کہا بی آر آئی کے تحت سی پیک پاکستان کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے لئے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو شامل کرنے کی جانب اہم قدم ہے،پہلے مرحلے میں مکمل ہونے والے منصوبوں کی بدولت عوام کوسہولت ملی ،ان سے منافع اور ٹھوس سماجی و اقتصادی فوائدملناشروع ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان خودمختار ریاست ہونے کے ناطے باہمی بنیادوں پر دنیا بھر سے معاشی شراکت داروں کے انتخاب کا حق رکھتا ہے، تمام منصوبوں کو پاکستان کے قوانین اور ضوابط کے مطابق اور ادارہ جاتی میکانزم کے ذریعہ مکمل کیا جاتا ہے،ان میں شفافیت کو ترجیح دی جاتی ہے،کسی بھی منصوبے کو حتمی شکل دینے سے پہلے تمام مالی مضمرات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے،پاکستان کی قرض مستحکم حکمت عملی کی عالمی مالیاتی اداروں نے بھی توثیق کی ہے۔
پاکستان نے اقتصادی راہداری منصوبہ کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ سی پیک کے مجموعی قرضے 4 ارب 90 کروڑ ڈالر ہیں جوملکی مجموعی قرضوں کا 10 فیصد بھی نہیں، چین سدا بہار شراکت دار ہے، سی پیک پاکستان کے لیے مثبت تبدیلیوں کا منصوبہ ہے، اس کی تیزی سے تکمیل اولین ترجیح ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے جمعرات کو ہفتہ واربریفنگ میں امریکی سفیر ایلس ویلز کابیان مسترد کردیا،جس میں دعویٰ کیا گیاکہ سی پیک قرضوں یا ریاستی ضمانت کے ساتھ غیر رعایتی مالی معاونت پر مبنی ہے، یہ طویل المدتی منصوبہ ہے جو توانائی، ڈھانچہ سازی،صنعتکاری اور روزگارپیدا کرنے میں مدد گار رہا ہے، اس منصوبہ کے پاکستانی عوام اور سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے بے پناہ اقتصادی فوائد ہوں گے، یہ علاقائی روابط و خوشحالی کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔
سی پیک کے تحت 12 بجلی منصوبے مکمل ہو چکے یا زیرتکمیل ہیں، ان سے 7240 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی، ان منصوبوں میں 12.4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، دیگر 9 منصوبے بھی تکمیل کے مرحلہ میں ہیں،جن سے 6390میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ اس بجلی کا پاکستان میں پیدامجموعی توانائی میں 14 فیصد سے زائدحصہ ہوگا۔ ان منصوبوں نے 250 ملین ڈالر ٹیکسوں کی مد میں اداجبکہ 10 ہزار سے زائد روزگار کے مواقع پیدا کئے۔
پاکستان خصوصی اقتصای زونز میں تمام ملکوں کی جانب سے سرمایہ کاروں کا خیرمقدم کر رہا ہے۔ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے مختلف اقدامات کئے ،امریکہ سمیت ایف اے ٹی ایف ارکان سے رابطے میں ہیں۔پاکستان تنازع کشمیر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کرتا ہے، توقع ہے اس پر عملدرآمد بھی ہو گا ۔
بھارت کی جانب سے ایس 400 دفاعی نظام میں شمولیت سے متعلق ترجمان نے کہا پاکستان نے خطہ میں بیلسٹک میزائل دفاعی نظام کی شمولیت پرہمیشہ تحفظات کا اظہار کیا ، ایسے اقدامات سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو گااور غیر ضروری اسلحہ کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
پاکستان اپنی ڈیٹرنس یقینی بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ترجمان نے مزیدکہا وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مسئلہ کشمیر سمیت ایف اے ٹی ایف کے معاملے پربات ہوئی،ٹرمپ کے دورہ پاکستان کی تاریخ طے نہیں ہوئی،ان کی خواہش ہے جب دورہ ہو تو صرف پاکستان کے دورے پرآئیں ۔شنگھائی تعاون تنظیم سربراہان اجلاس کا دعوت نامہ نہیں ملا۔
بھارتی وزیر دفاع کا بیان ان کی حکومت کی مشتعل سوچ کا عکاس ہے، بھارتی ناظم الامور کو سیز فائر معاہدے خلاف ورزی پر طلب کیا گیا،مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی سلوک جاری ہے،بھارت سے ذرائع مواصلات بحال اور اسیر کشمیری رہاکرنے کامطالبہ کیا،ایلس ویلزکے دورے کے دوران افغان مفاہمتی عمل پربات چیت کی گئی۔
دریں اثناء وزارت منصوبہ بندی کے ترجمان ظفر الحسن نے کہا بی آر آئی کے تحت سی پیک پاکستان کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے لئے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو شامل کرنے کی جانب اہم قدم ہے،پہلے مرحلے میں مکمل ہونے والے منصوبوں کی بدولت عوام کوسہولت ملی ،ان سے منافع اور ٹھوس سماجی و اقتصادی فوائدملناشروع ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان خودمختار ریاست ہونے کے ناطے باہمی بنیادوں پر دنیا بھر سے معاشی شراکت داروں کے انتخاب کا حق رکھتا ہے، تمام منصوبوں کو پاکستان کے قوانین اور ضوابط کے مطابق اور ادارہ جاتی میکانزم کے ذریعہ مکمل کیا جاتا ہے،ان میں شفافیت کو ترجیح دی جاتی ہے،کسی بھی منصوبے کو حتمی شکل دینے سے پہلے تمام مالی مضمرات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے،پاکستان کی قرض مستحکم حکمت عملی کی عالمی مالیاتی اداروں نے بھی توثیق کی ہے۔