عوامی منصوبے بھاری اخراجات کے باعث نتائج دینے میں ناکام
2016میں نیوٹریشن سپورٹ پروگرام شروع کیاگیا،43کروڑروپے سے زائدرقم عملے کی تنخواہوں ودیگرمراعات کی ادائیگی پرخرچ کی گئی
صوبہ سندھ میں کافی عرصے سے لوگوں کے ذہنوں میں ایک سوال موجود رہا ہے کہ عوامی نوعیت کے اکثر سرکاری منصوبوں پر بھاری رقوم خرچ ہونے کے باوجود عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا یا ان منصوبوں کے اصل مقاصد حاصل کیوں نہیں ہوتے اس سوال کا جواب حال ہی میں جاری کردہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بڑے سرکاری منصوبوں کے مطلوبہ نتائج اس لیے حاصل نہیں ہوتے کہ ان کیلیے فراہم کردہ رقوم کا بڑا حصہ غیر ضروری یا ناجائز طور پر اس پراجیکٹ میں شامل افسران اور دیگر اسٹاف کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر خرچ کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں صوبے میں صحت کے شعبے کی مثال دی گئی ہے کہ پی پی ایچ آئی کے توسط سے حکومت سندھ نے تھرپارکر سمیت صوبے کے 9 اضلاع میں غذائی قلت سے متاثرہ بچوں کی بحالی کیلیے مارچ 2016 میں نیوٹریشن سپورٹ پروگرام شروع کیا، یہ منصوبہ جون 2018 تک جاری رہا، 2 سال کے عرصے کے دوران 43 کروڑ روپے سے زائد رقم صرف افسران و اسٹاف کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کی ادائیگی پر خرچ کردی گئی۔
مذکورہ پروگرام سے ان بچوں کو کس حد تک فائدہ پہنچا اس کا اندازہ تھرپارکر کی صورتحال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو صوبے میں غذائی قلت کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر رہا ہے، مٹھی کے صحافی کھاٹا جانی کے مطابق سال 2014 میں تھر میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 336 تھی جو گزشتہ سال یعنی 2019 میں 832 تک پہنچ گئی۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں کے مطابق اگر نیوٹریشن سپورٹ پروگرام کا پیسہ خالصتاً غذائی قلت کم کرنے پر خرچ کیا جاتا تو تھر میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو موت سے بچایا جاسکتا تھا، رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے اسی طرح صوبے کے 33 بی ایچ یوز (بنیادی صحت مراکز ) کو اپ گریڈ کرنے کا منصوبہ شروع کیا جس کے تحت ان مراکز میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانا تھا لیکن مذکورہ منصوبے کے مقاصد بھی حاصل نہ ہوسکے۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ منصوبے پر عملدرآمد کے دوران 18 کروڑ روپے سے زائد رقم صرف منصوبے میں شامل ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کی تنخواہوں اور اضافی الاؤنسز پر خرچ کی گئی۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے معروف معاشی ماہر اور حکومت سندھ اور بلوچستان کے سابق سربراہ برائے ترقی و منصوبہ بندی قیصر بنگالی نے کہا کہ عوامی نوعیت کے سرکاری منصوبوں پر ہونے والے بھاری انتظامی اخراجات کو کم کیا جاسکتا ہے، حکومت سندھ کو چاہیے کہ ایسے منصوبوں پر انتظامی اخراجات کی کوئی حد مقرر مقرر کرے۔
رپورٹ کے مطابق بڑے سرکاری منصوبوں کے مطلوبہ نتائج اس لیے حاصل نہیں ہوتے کہ ان کیلیے فراہم کردہ رقوم کا بڑا حصہ غیر ضروری یا ناجائز طور پر اس پراجیکٹ میں شامل افسران اور دیگر اسٹاف کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر خرچ کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں صوبے میں صحت کے شعبے کی مثال دی گئی ہے کہ پی پی ایچ آئی کے توسط سے حکومت سندھ نے تھرپارکر سمیت صوبے کے 9 اضلاع میں غذائی قلت سے متاثرہ بچوں کی بحالی کیلیے مارچ 2016 میں نیوٹریشن سپورٹ پروگرام شروع کیا، یہ منصوبہ جون 2018 تک جاری رہا، 2 سال کے عرصے کے دوران 43 کروڑ روپے سے زائد رقم صرف افسران و اسٹاف کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کی ادائیگی پر خرچ کردی گئی۔
مذکورہ پروگرام سے ان بچوں کو کس حد تک فائدہ پہنچا اس کا اندازہ تھرپارکر کی صورتحال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو صوبے میں غذائی قلت کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر رہا ہے، مٹھی کے صحافی کھاٹا جانی کے مطابق سال 2014 میں تھر میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 336 تھی جو گزشتہ سال یعنی 2019 میں 832 تک پہنچ گئی۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں کے مطابق اگر نیوٹریشن سپورٹ پروگرام کا پیسہ خالصتاً غذائی قلت کم کرنے پر خرچ کیا جاتا تو تھر میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو موت سے بچایا جاسکتا تھا، رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے اسی طرح صوبے کے 33 بی ایچ یوز (بنیادی صحت مراکز ) کو اپ گریڈ کرنے کا منصوبہ شروع کیا جس کے تحت ان مراکز میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانا تھا لیکن مذکورہ منصوبے کے مقاصد بھی حاصل نہ ہوسکے۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ منصوبے پر عملدرآمد کے دوران 18 کروڑ روپے سے زائد رقم صرف منصوبے میں شامل ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کی تنخواہوں اور اضافی الاؤنسز پر خرچ کی گئی۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے معروف معاشی ماہر اور حکومت سندھ اور بلوچستان کے سابق سربراہ برائے ترقی و منصوبہ بندی قیصر بنگالی نے کہا کہ عوامی نوعیت کے سرکاری منصوبوں پر ہونے والے بھاری انتظامی اخراجات کو کم کیا جاسکتا ہے، حکومت سندھ کو چاہیے کہ ایسے منصوبوں پر انتظامی اخراجات کی کوئی حد مقرر مقرر کرے۔