محرم آ گیا امت کے شہزادے نہیں آئے
عبدالحمید عدم اپنے ایک مخصوص رنگ اور آہنگ کے شاعر تھے لیکن کبھی کبھی ان کے یہاں کچھ ایسے اشعار بھی نظر آتے...
عبدالحمید عدم اپنے ایک مخصوص رنگ اور آہنگ کے شاعر تھے لیکن کبھی کبھی ان کے یہاں کچھ ایسے اشعار بھی نظر آتے ہیں جو نہ صرف پہلی نظر میں ان کے سے نہیں لگتے بلکہ موضوع اور بُنت کے حوالے سے انھیں منفرد اور بے مثال بھی قرار دیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر خالق کائنات کی ہستی اور اس کے جواز پر ان کا یہ شعر کہ
آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے' خدا موجود ہے
''کلاسیک'' والے آغا امیر حسین کئی برسوں سے ''سپوتنک'' نامی ایک ماہنامہ شایع کرتے چلے آ رہے ہیں گزشتہ کچھ برسوں سے اس کے اکثر شمارے کسی کتاب کی اشاعت نو یا کسی موضوع پر لکھی گئی مختلف تحریروں کے مجموعے کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ نومبر 2013 کا شمارہ ''شاہ لطیف بھٹائی اور ان کے پیغام کا تعارف'' کے ذیلی عنوان سے مرتب کیا گیا ہے جس میں شاہ صاحب کے سندھی کلام کے منظوم اردو تراجم کا ایک انتخاب شامل ہے یہ تراجم شیخ ایاز' آغا سلیم اور رئیس امروہوی نے کیے ہیں اور ان کو ڈاکٹر محمد حسن رضوی نے مرتب اور یکجا کیا ہے جس کے باب چہارم کا ذیلی عنوان ''ذکر حسین... نوحے اور کبوتر نامہ'' رکھا گیا ہے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہمارے اکثر و بیشتر صوفیا کرام بزبان شعر بھی اپنے جذبات خیالات نظریات اور محسوسات کا اظہار کرتے رہے ہیں جب کہ ان کے علاوہ ایسے شعرا کی تعداد بھی کم نہیں جو شائد عملی طور پر تو باقاعدہ صوفی نہیں تھے لیکن ان کے کلام میں صوفیانہ رویے موضوعات اور طرز فکر کا گہرا اثر پایا جاتا ہے۔
اس وقت تفصیل میں جانے کا موقع نہیں سو میں اپنی بات کو سندھی زبان کے عظیم ترین صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے اس منتخب کلام کے اردو تراجم تک محدود رکھتا ہوں جن کا مرکزی موضوع ''ذکر حسینؓ'' ہے۔ سندھی زبان اور شاہ صاحب کے کلام کے اصل متن سے ناواقفیت کے باعث (جو یقیناً اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ہم دنیا بھر کی زبانوں میں صوفیانہ مسائل پر شاعری کرنے والوں کے نام اور کام سے تو واقف ہیں لیکن اپنے وطن میں بولی جانے والی زبانوں کے عظیم ترین شعرا سے بھی ہماری آشنائی واجبی سے بھی کہیں کم ہے) میں اس ترجمے کی صحت اور خوبیوں پر کوئی رائے دینے سے تو قاصر ہوں لیکن جہاں تک نفس مضمون کا تعلق ہے اس پر یقیناً بات ہو سکتی ہے اور روحانی سطح پر اس سے اکتساب فیض بھی کیا جا سکتا ہے سب سے پہلے رئیس امروہوی مرحوم کے کیے ہوئے کلام شاہ کے ایک حصے کا ترجمہ دیکھئے اگر اس ترجمے میں کہیں کہیں میر انیس کی جھلک دکھائی دے جائے تو اس کے لیے رئیس امروہوی کو ذمے دار ٹھہرانا شاید درست نہ ہو کہ یہ معاملہ اس گنگا جمنی تہذیب اور کلچر کا ہے جس نے ہماری تاریخ اور جغرافیے کو باہم آمیز کرکے ایک بالکل نئی شکل و صورت دے دی ہے۔
محرم آ گیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
یہی تقدیر یزدان تھی یہی سر مشئیت تھا
مدینے اور مکے میں بپا شور قیامت تھا
یہی فدیہ برائے بخشش افراد ملت تھا
شہادت کربلا والوں کی کیا تھی' رمز قدرت تھا
محرم آ گیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
مدینے سے گئے وہ کربلا کی قتل گاہوں میں
وہ خونیں قتل گاہیں آج تک فریاد کرتی ہیں
حسینی قافلہ صحرا کی جن راہوں سے گزرا تھا
وہ راہیں آج بھی اس قافلے کو یاد کرتی ہیں
وہ منظر پھرکہاں اہل مدینہ کو نظر آیا
مدینے کا مسافر کب مدینے لوٹ کر آیا!
محرم آگیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
مجھے اے رنگریز اٹھ اور لباس ماتمی پہنا
کہ جلوس سیہ آئینہ ہے جذبہ غم کا
سیہ ملبوس پہنا دے کہ ماتم دار مولا ہوں
نشاں ہے یہ شہیدان وفا کے رنج و ماتم کا
محرم آ گیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
ہوئی جب رفعت اہل حرم' شہر مدینہ سے
فلک پر تیرگی ماحول پر حسرت برستی تھی
رسول اللہؐ کے روضے میں تھا ماتم کا ہنگامہ
سکوں کے واسطے خود فطرت عالم ترستی تھی
محرم آ گیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
نوحہ
شہید مقتل صبر و رضا کا ماتم ہے
قتیل معرکہ کربلا کا ماتم ہے
جیسے ملا نہ تہ تیغ بوند بھر پانی
فغاں کہ آج اسی بے نوا کا ماتم ہے
خدا کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا جس نے
خدا گواہ' اسی باخدا کا ماتم ہے
نوحہ
اٹھو غم رسیدوں کا ماتم کرو
خدارا شہیدوں کا ماتم کرو
اٹھو فخر امت کا ماتم کرو
قتیل صداقت کا ماتم کرو
بہاتے نہیں کس لیے اشک غم
نہیں آنکھ کیوں ماتم شہ میں نم!
اٹھو تشنہ کاموں کا ماتم کرو
تم اپنے اماموں کا ماتم کرو
کبوتر نامہ
وہ دشت بلا وہ غضب کا سماں
وہ مظلوم کا لاشہ خونچکاں
نہ ہمدم نہ حامی نہ یاور کوئی
مگر اڑ کے آیا کبوتر کوئی
وہ سید کے لاشے سے رو کر اڑا
پر و بال خوں میں بھگو کر اڑا
چلا جانب روضہ مصطفے
وہی قاصد کشتہ کربلا
پر و بال تھے خون میں تربتر
کبوتر! شہیدوں کا پیغام بر
آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے' خدا موجود ہے
''کلاسیک'' والے آغا امیر حسین کئی برسوں سے ''سپوتنک'' نامی ایک ماہنامہ شایع کرتے چلے آ رہے ہیں گزشتہ کچھ برسوں سے اس کے اکثر شمارے کسی کتاب کی اشاعت نو یا کسی موضوع پر لکھی گئی مختلف تحریروں کے مجموعے کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ نومبر 2013 کا شمارہ ''شاہ لطیف بھٹائی اور ان کے پیغام کا تعارف'' کے ذیلی عنوان سے مرتب کیا گیا ہے جس میں شاہ صاحب کے سندھی کلام کے منظوم اردو تراجم کا ایک انتخاب شامل ہے یہ تراجم شیخ ایاز' آغا سلیم اور رئیس امروہوی نے کیے ہیں اور ان کو ڈاکٹر محمد حسن رضوی نے مرتب اور یکجا کیا ہے جس کے باب چہارم کا ذیلی عنوان ''ذکر حسین... نوحے اور کبوتر نامہ'' رکھا گیا ہے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہمارے اکثر و بیشتر صوفیا کرام بزبان شعر بھی اپنے جذبات خیالات نظریات اور محسوسات کا اظہار کرتے رہے ہیں جب کہ ان کے علاوہ ایسے شعرا کی تعداد بھی کم نہیں جو شائد عملی طور پر تو باقاعدہ صوفی نہیں تھے لیکن ان کے کلام میں صوفیانہ رویے موضوعات اور طرز فکر کا گہرا اثر پایا جاتا ہے۔
اس وقت تفصیل میں جانے کا موقع نہیں سو میں اپنی بات کو سندھی زبان کے عظیم ترین صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے اس منتخب کلام کے اردو تراجم تک محدود رکھتا ہوں جن کا مرکزی موضوع ''ذکر حسینؓ'' ہے۔ سندھی زبان اور شاہ صاحب کے کلام کے اصل متن سے ناواقفیت کے باعث (جو یقیناً اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ہم دنیا بھر کی زبانوں میں صوفیانہ مسائل پر شاعری کرنے والوں کے نام اور کام سے تو واقف ہیں لیکن اپنے وطن میں بولی جانے والی زبانوں کے عظیم ترین شعرا سے بھی ہماری آشنائی واجبی سے بھی کہیں کم ہے) میں اس ترجمے کی صحت اور خوبیوں پر کوئی رائے دینے سے تو قاصر ہوں لیکن جہاں تک نفس مضمون کا تعلق ہے اس پر یقیناً بات ہو سکتی ہے اور روحانی سطح پر اس سے اکتساب فیض بھی کیا جا سکتا ہے سب سے پہلے رئیس امروہوی مرحوم کے کیے ہوئے کلام شاہ کے ایک حصے کا ترجمہ دیکھئے اگر اس ترجمے میں کہیں کہیں میر انیس کی جھلک دکھائی دے جائے تو اس کے لیے رئیس امروہوی کو ذمے دار ٹھہرانا شاید درست نہ ہو کہ یہ معاملہ اس گنگا جمنی تہذیب اور کلچر کا ہے جس نے ہماری تاریخ اور جغرافیے کو باہم آمیز کرکے ایک بالکل نئی شکل و صورت دے دی ہے۔
محرم آ گیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
یہی تقدیر یزدان تھی یہی سر مشئیت تھا
مدینے اور مکے میں بپا شور قیامت تھا
یہی فدیہ برائے بخشش افراد ملت تھا
شہادت کربلا والوں کی کیا تھی' رمز قدرت تھا
محرم آ گیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
مدینے سے گئے وہ کربلا کی قتل گاہوں میں
وہ خونیں قتل گاہیں آج تک فریاد کرتی ہیں
حسینی قافلہ صحرا کی جن راہوں سے گزرا تھا
وہ راہیں آج بھی اس قافلے کو یاد کرتی ہیں
وہ منظر پھرکہاں اہل مدینہ کو نظر آیا
مدینے کا مسافر کب مدینے لوٹ کر آیا!
محرم آگیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
مجھے اے رنگریز اٹھ اور لباس ماتمی پہنا
کہ جلوس سیہ آئینہ ہے جذبہ غم کا
سیہ ملبوس پہنا دے کہ ماتم دار مولا ہوں
نشاں ہے یہ شہیدان وفا کے رنج و ماتم کا
محرم آ گیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
ہوئی جب رفعت اہل حرم' شہر مدینہ سے
فلک پر تیرگی ماحول پر حسرت برستی تھی
رسول اللہؐ کے روضے میں تھا ماتم کا ہنگامہ
سکوں کے واسطے خود فطرت عالم ترستی تھی
محرم آ گیا امت کے شہزادے نہیں آئے!
نوحہ
شہید مقتل صبر و رضا کا ماتم ہے
قتیل معرکہ کربلا کا ماتم ہے
جیسے ملا نہ تہ تیغ بوند بھر پانی
فغاں کہ آج اسی بے نوا کا ماتم ہے
خدا کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا جس نے
خدا گواہ' اسی باخدا کا ماتم ہے
نوحہ
اٹھو غم رسیدوں کا ماتم کرو
خدارا شہیدوں کا ماتم کرو
اٹھو فخر امت کا ماتم کرو
قتیل صداقت کا ماتم کرو
بہاتے نہیں کس لیے اشک غم
نہیں آنکھ کیوں ماتم شہ میں نم!
اٹھو تشنہ کاموں کا ماتم کرو
تم اپنے اماموں کا ماتم کرو
کبوتر نامہ
وہ دشت بلا وہ غضب کا سماں
وہ مظلوم کا لاشہ خونچکاں
نہ ہمدم نہ حامی نہ یاور کوئی
مگر اڑ کے آیا کبوتر کوئی
وہ سید کے لاشے سے رو کر اڑا
پر و بال خوں میں بھگو کر اڑا
چلا جانب روضہ مصطفے
وہی قاصد کشتہ کربلا
پر و بال تھے خون میں تربتر
کبوتر! شہیدوں کا پیغام بر